Sunday 5 November 2017

ایک مسجد میں جمعہ کا تعدد؟

ایک مسجد میں جمعہ کا تعدد؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمةاللہ وبر کاتہ!
امید ہے کہ مزاج بخیر ہوں گے۔
کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں....؟
شہر کی جامع مسجد کی تعمیری کام چل رہا ہے، جگہ کی قلت کی وجہ سے  پانچ چھ ہفتوں سے جمعہ کی دو جماعت ہوتی ہیں تو دریافت طلب مسئلہ  یہ ہے کہ آیا مذکورہ مسئلہ میں نماز جمعہ ہوجائےگی یا نہیں ...؟ اگر درست ہے تو خطبہ جمعہ بھی ضروری ہے ...؟
ازراہ کرم جواب عنایت فرماکر ممنون ومشکور ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
کوشش یہ ہوکہ مذکورہ بالا مجبوری کی صورت میں جمعہ کی دوسری جماعت اسی مسجد میں نہ ہو بلکہ دوسری جگہ کسی بڑے ہال وغیرہ میں باقی ماندہ لوگ نئے امام کی اقتدا میں دوسری جماعت کریں۔
تاہم اگر کہیں دوسری متبادل جگہ کا انتظام بھی نہ ہوسکے اور بہت سے مصلیان بوجہ قلت جگہ نماز نہ پڑھ سکے ہوں تو اب ضرورت کی وجہ سے اسی مسجد میں نئے امام کی اقتداء میں خطبہ جدیدہ کے ساتھ جمعہ کی دوسری جماعت کرلیں۔
ایک مسجد میں جماعت ثانیہ کی ممانعت وکراہت وہاں ہے جہاں تقلیل جماعت کا خطرہ ہو۔ یہاں ایسی بات نہیں ہے۔ اس لئے فقدان علت کی وجہ حکم کراہت بھی ثابت نہ ہوگا۔
ہاں بلا ضرورت مسجد واحد میں تعدد جمعہ بتصریح فقہاء ناجائز ہے۔
ولو قدر بعد الفوات مع الإمام علی إدراکہا مع غیرہ فعل للإتفاق علی جواز تعددہا۔ (طحطاوی أشرفیہ: ۵۳۵)
إن في تکرار الجماعۃ تقلیلہا بأن کل واحد لا یخاف فوت الجماعۃ فیکون مکروہا کذا في القطوف الدانیۃ لشیخنا المحدث الکنکوہي، وإنما اختصت الکراہۃ بمسجد المحلۃ لانعدام علتہا في مسجد الشارع والسوق ونحوہا۔ (إعلاء السنن ۴؍۲۶۱)
إن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعلجون فتکثر الجماعۃ۔ (بدائع الصنائع ۱؍۳۸۰)
قال فی الدروتودی فی مصر واحدی بمواضع کثیرۃ مطلقاً علی المذھب اھ قال الشامی فقدذکرالسرخسی ان الصحیح من مذھب ابی حنیفۃ جوازاقامتھا فی مصرواحدفی مسجدین واکثروبہ ناخذ اھ (ص ۸۴۳ ج۱) قلت وقیدالفقہ احترازیۃ وقد قیدواجوازھا بموضع کثیرۃ وبمسجدین فصاعدافمفادہ عدم جواز التعدد فی مسجد واحد کیف لاوجوازالتعدد فی مسجدین مختلف فیہ ایضاً وعدم الجراز ھوالظاھر ولکنھم جوزوہ للضرورۃ ففی ردالمحتاربل قال السبکی من الشافعیۃ انہ(ای عدم جواز التعدد)قول اکثرالعلماء ولایحفظ عن صحابی ولاتابعی تجویزتعددھا اھ الی ان قال ولذاقال فی شرح المنیۃ الاولیٰ ھوالاحتیاط لان الخلاف فی جوازالتعددوعدمہ قوی وکون الصحیح الجواز للضرورۃ للفتویٰ لایمنع شرعیۃالاحتیاط للتقویٰ اھ (ص۸۴۴ ج۱) قلت فلما کان ھذا حال التعدد فی موضعین فکیف بہ فی موضع واحدلعدم الضرورۃ فیہ اصلاوعدم تجویزہ عن احدمن الائمۃ فیمنع کل المنع،

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment