دینی مدارس ملتِ اسلامیہ کے لئے قوام اور روح کا درجہ رکھتے ہیں، اسلام کی حفاظت و صیانت کا جتنا بڑا کام ان اداروں میں ہوتا ہے، ویسا کہیں نہیں ہوتا، اسلامی زندگی کے تمام محاذوں پر یہاں بات ہوتی ہے، یوں تو پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی پوری شخصیت ہی چلتا پھرتا ادارہ تھی، جہاں بیٹھ گئے، وہیں مدرسہ، جہاں سجدہ کردیا، وہیں مسجد، بقول شیخ سعدی رحمہ اللہ؛
منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ رفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت
ہر جا کہ رفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت
یعنی بادشاہوں کے لئے کوہ و بیابان بھی پردیس نہیں ہے، وہ جہاں بھی پہنچتے ہیں، خیمہ لگایا اور دربار سجالیا۔۔۔۔
لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے صفہ نام کا ادارہ قائم فرمایا، ایک دو نہیں، عہدِ پیغمبر میں کئی مدارس کا سراغ ملتا ہے، ہمارے دور کے معتبر ترین مؤرخ قاضی اطہر مبارکپوری مرحوم نے اس موضوع پر بڑی ہی جاندار کتاب لکھی ہے جو دارالعلوم دیوبند سے شائع بھی ہوچکی ہے ۔۔۔ الحاصل مدارسِ اسلامیہ مسلمانوں کے لئے ہر عہد میں ناقابلِ تسخیر قلعے کی شکل میں موجود رہے ہیں۔۔۔
مدرسہ تین چیزوں کا ہے مجموعہ:
مدارس اسلامیہ کے بنیادی اجزائے ترکیبی تین ہیں:
1۔۔۔ کتاب
2۔۔۔ طلبہ
3۔۔۔مدرس۔۔۔
یہ تینوں لازمی عناصر ہیں، مدرسے کے لئے عمارت کا وجود ضروری نہیں، عمارت ہو اور یہ تین چیزیں نہ ہوں، تو اس پر مدرسہ کا اطلاق نہیں ہوگا، جب عمارت کے بغیر یہ تینوں کہیں بھی اکٹھے ہوجائیں، مدرسہ تیار ہے۔۔۔ آج کل بہت سے مدارس انٹرنیٹ پر چل رہے ہیں، یعنی 'آن لائن دارالعلوم' ۔۔۔ ہر نبی اور رسول علیہ السلام اپنی قوم کا استاذ ہوتا ہے، پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم بطور مدرس بھیجے گئے تھے:
انما بعثت معلماً۔۔۔
ان کے تلامذہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے اور کتاب "قرآن مجید"۔۔۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی پوری حیاتِ طیبہ اسی قرآن کی تفسیر میں گزری، اسی لیے اہلِ علم احادیثِ رسول ﷺ کو قرآن کی شرح سے بھی یاد کرتے ہیں۔۔۔ اس سے یہ بھی کھلا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم قرآن کے شارح تھے، شارع نہ تھے، یعنی شریعت اللہ نے بنائی ہے، نہ کہ النبی الخاتم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے۔۔۔
مدرسین کا مقام:
مدارسِ اسلامیہ کی اہمیت بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، جب ہمارے درمیان پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس موجود ہے، جنہیں اللہ نے معلم بناکر بھیجا، تو مدارس کی اہمیت و عظمت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ ان کا رشتہ براہِ راست النبی الخاتم سے جڑا ہوا ہے، دین کے خادم دنیا میں بہت ہیں، مگر سب سے مشکل خدمت مدرسین انجام دے رہے ہیں۔۔۔ مدرسین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ صبح شام، سوتے اٹھتے، چلتے پھرتے ذکراللہ میں مشغول رہتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا شاگرد اسلام کو کماحقہ سمجھ جائے، یہ کاوش ایسی دشوار گزار ہوتی ہے کہ غیر مولوی یقین ہی نہیں کرسکتا، یہ لوگ ایک ایک سبق پڑھانے کے لئے مختلف کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، خود بھی سمجھتے ہیں اور اپنے تلامذہ کی تفہیم کے لئے تدبیریں بھی اختیار کرتے ہیں، بسا اوقات چند سطری عبارت کے حل کے لئے ان کے کئی کئی گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں، ان کے لئے نیند آنا بھی خواب و خیال ہے، بڑی محنت سے پڑھاتے ہیں، کتاب سمجھانے میں اپنی جان جھونک دیتے ہیں، مولوی صحیح معنوں میں جفاکش مخلوق ہے۔۔۔
مولوی اور ملامت:
مولویوں کے ساتھ بالخصوص مدرس مولویوں کے ساتھ مسائل بھی بہت ہیں، ان پر سو طرح کے طعنے ہیں، مولویوں کا ٹھیک وہی حال ہے جو ہندو انتہا پسندوں کی نظر میں عام مسلمانوں کا ہے، کسی ہندو لیڈر کو راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچنا ہو تو اس کے لئے آسان نسخہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرلے، اسی طرح مسلمانوں میں کوئی چمکنا چاہتا ہے تو مولوی کے خلاف ایک تبصرہ ہی اسے ستارہ بلند اقبال بنا دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ اسی قوم کو ہدفِ ملامت بنائے رکھتے ہیں، مگر کیا کیجئے! پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی تعلیم کو جب مشن بنا ہی لیا ہے تو مشقتوں کے خارِ مغیلاں راہ میں کیوں نہ ملیں گے۔۔۔ مولویوں کو گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں:
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
مولویوں کی مثال:
مولویوں کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ خود اندر میں پیش آتا ہے، سو طرح کے رقیب ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، ان کے خلاف پے بہ پے جائز نا جائز شکایات، قلتِ تنخواہ اسی اور دوسری مشکلات۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ مدرس بننا ہر شخص کے بس کی بات نہیں:
جسے بننا ہو سمجھ بوجھ کے دیوانہ بنے
میرے مدرس تلامذہ میں سے کوئی بندہ میرے پاس اپنے مدرسے کی شکایات لے کر آتا ہے تو میں اس سے صرف اتنا کہتا ہوں کہ بیٹے! ایک مثال دیتا ہوں، اگرچہ بہت زیادہ مناسب تو نہیں، مگر سمجھانے کے لئے عرض ہے۔۔۔ سنو! مدرس کی مثال کرکٹ کھلاڑی کی سی ہے، ایک بلے باز میدان میں کھڑا ہوتا ہے اور گیارہ کھلاڑی اسے گھیرے ہوتے ہیں، سب کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ اسے آؤٹ کر دیا جاے، گیندباز سے لے کر فیلڈر تک سب ایک دم چوکس، مستعد۔۔۔ کوئی بھی موقع دینے کو تیار نہیں، مگر کامیاب بلے باز وہی ہے جو ان حالات میں بھی بڑے کارنامے کرجاتا ہے اور ایک دنیا اس کی قصیدہ خوانی کرتی ہے، میدان میں اس کے گیارہ دشمن ہیں، مگر وہ پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یہی حال مدرس کا بھی ہے، وہ جب پڑھاتا ہے، تو ہوائیں اور فضائیں اس کی مخالف لگتی ہیں، اس کے لیے قدم قدم پر مشکلات ہیں، مگر یہ مشکلات بس اسی چہاردیواری میں ہیں، ورنہ یہی مدرس اپنے مدرسے کے باہر جیند و بایزید اور مقدس ہستی سمجھا جاتا ہے، اللہ کے یہاں ثواب ہے، وہ الگ، اس لئے کبھی ملول نہ ہوا کرو! کئی مدرسین کو یوں سمجھایا تو انھوں نے شکایت بند کردی اور مست قلندر ہوکر دینی خدمات میں مصروف ہیں۔۔۔
لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے صفہ نام کا ادارہ قائم فرمایا، ایک دو نہیں، عہدِ پیغمبر میں کئی مدارس کا سراغ ملتا ہے، ہمارے دور کے معتبر ترین مؤرخ قاضی اطہر مبارکپوری مرحوم نے اس موضوع پر بڑی ہی جاندار کتاب لکھی ہے جو دارالعلوم دیوبند سے شائع بھی ہوچکی ہے ۔۔۔ الحاصل مدارسِ اسلامیہ مسلمانوں کے لئے ہر عہد میں ناقابلِ تسخیر قلعے کی شکل میں موجود رہے ہیں۔۔۔
مدرسہ تین چیزوں کا ہے مجموعہ:
مدارس اسلامیہ کے بنیادی اجزائے ترکیبی تین ہیں:
1۔۔۔ کتاب
2۔۔۔ طلبہ
3۔۔۔مدرس۔۔۔
یہ تینوں لازمی عناصر ہیں، مدرسے کے لئے عمارت کا وجود ضروری نہیں، عمارت ہو اور یہ تین چیزیں نہ ہوں، تو اس پر مدرسہ کا اطلاق نہیں ہوگا، جب عمارت کے بغیر یہ تینوں کہیں بھی اکٹھے ہوجائیں، مدرسہ تیار ہے۔۔۔ آج کل بہت سے مدارس انٹرنیٹ پر چل رہے ہیں، یعنی 'آن لائن دارالعلوم' ۔۔۔ ہر نبی اور رسول علیہ السلام اپنی قوم کا استاذ ہوتا ہے، پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم بطور مدرس بھیجے گئے تھے:
انما بعثت معلماً۔۔۔
ان کے تلامذہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے اور کتاب "قرآن مجید"۔۔۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی پوری حیاتِ طیبہ اسی قرآن کی تفسیر میں گزری، اسی لیے اہلِ علم احادیثِ رسول ﷺ کو قرآن کی شرح سے بھی یاد کرتے ہیں۔۔۔ اس سے یہ بھی کھلا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم قرآن کے شارح تھے، شارع نہ تھے، یعنی شریعت اللہ نے بنائی ہے، نہ کہ النبی الخاتم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے۔۔۔
مدرسین کا مقام:
مدارسِ اسلامیہ کی اہمیت بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، جب ہمارے درمیان پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس موجود ہے، جنہیں اللہ نے معلم بناکر بھیجا، تو مدارس کی اہمیت و عظمت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ ان کا رشتہ براہِ راست النبی الخاتم سے جڑا ہوا ہے، دین کے خادم دنیا میں بہت ہیں، مگر سب سے مشکل خدمت مدرسین انجام دے رہے ہیں۔۔۔ مدرسین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ صبح شام، سوتے اٹھتے، چلتے پھرتے ذکراللہ میں مشغول رہتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا شاگرد اسلام کو کماحقہ سمجھ جائے، یہ کاوش ایسی دشوار گزار ہوتی ہے کہ غیر مولوی یقین ہی نہیں کرسکتا، یہ لوگ ایک ایک سبق پڑھانے کے لئے مختلف کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، خود بھی سمجھتے ہیں اور اپنے تلامذہ کی تفہیم کے لئے تدبیریں بھی اختیار کرتے ہیں، بسا اوقات چند سطری عبارت کے حل کے لئے ان کے کئی کئی گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں، ان کے لئے نیند آنا بھی خواب و خیال ہے، بڑی محنت سے پڑھاتے ہیں، کتاب سمجھانے میں اپنی جان جھونک دیتے ہیں، مولوی صحیح معنوں میں جفاکش مخلوق ہے۔۔۔
مولوی اور ملامت:
مولویوں کے ساتھ بالخصوص مدرس مولویوں کے ساتھ مسائل بھی بہت ہیں، ان پر سو طرح کے طعنے ہیں، مولویوں کا ٹھیک وہی حال ہے جو ہندو انتہا پسندوں کی نظر میں عام مسلمانوں کا ہے، کسی ہندو لیڈر کو راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچنا ہو تو اس کے لئے آسان نسخہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرلے، اسی طرح مسلمانوں میں کوئی چمکنا چاہتا ہے تو مولوی کے خلاف ایک تبصرہ ہی اسے ستارہ بلند اقبال بنا دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ اسی قوم کو ہدفِ ملامت بنائے رکھتے ہیں، مگر کیا کیجئے! پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی تعلیم کو جب مشن بنا ہی لیا ہے تو مشقتوں کے خارِ مغیلاں راہ میں کیوں نہ ملیں گے۔۔۔ مولویوں کو گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں:
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
مولویوں کی مثال:
مولویوں کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ خود اندر میں پیش آتا ہے، سو طرح کے رقیب ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، ان کے خلاف پے بہ پے جائز نا جائز شکایات، قلتِ تنخواہ اسی اور دوسری مشکلات۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ مدرس بننا ہر شخص کے بس کی بات نہیں:
جسے بننا ہو سمجھ بوجھ کے دیوانہ بنے
میرے مدرس تلامذہ میں سے کوئی بندہ میرے پاس اپنے مدرسے کی شکایات لے کر آتا ہے تو میں اس سے صرف اتنا کہتا ہوں کہ بیٹے! ایک مثال دیتا ہوں، اگرچہ بہت زیادہ مناسب تو نہیں، مگر سمجھانے کے لئے عرض ہے۔۔۔ سنو! مدرس کی مثال کرکٹ کھلاڑی کی سی ہے، ایک بلے باز میدان میں کھڑا ہوتا ہے اور گیارہ کھلاڑی اسے گھیرے ہوتے ہیں، سب کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ اسے آؤٹ کر دیا جاے، گیندباز سے لے کر فیلڈر تک سب ایک دم چوکس، مستعد۔۔۔ کوئی بھی موقع دینے کو تیار نہیں، مگر کامیاب بلے باز وہی ہے جو ان حالات میں بھی بڑے کارنامے کرجاتا ہے اور ایک دنیا اس کی قصیدہ خوانی کرتی ہے، میدان میں اس کے گیارہ دشمن ہیں، مگر وہ پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یہی حال مدرس کا بھی ہے، وہ جب پڑھاتا ہے، تو ہوائیں اور فضائیں اس کی مخالف لگتی ہیں، اس کے لیے قدم قدم پر مشکلات ہیں، مگر یہ مشکلات بس اسی چہاردیواری میں ہیں، ورنہ یہی مدرس اپنے مدرسے کے باہر جیند و بایزید اور مقدس ہستی سمجھا جاتا ہے، اللہ کے یہاں ثواب ہے، وہ الگ، اس لئے کبھی ملول نہ ہوا کرو! کئی مدرسین کو یوں سمجھایا تو انھوں نے شکایت بند کردی اور مست قلندر ہوکر دینی خدمات میں مصروف ہیں۔۔۔
علامہ فضیل احمد ناصری
No comments:
Post a Comment