Monday, 20 November 2017

مسجد شرعی کرایہ پر دینا؟

مسجد شرعی کرایہ پر دینا؟
مسجد میں دعوت وتبلیغ کے امور کی انجام دہی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دراصل مسئلہ یہ ھےکہ ایک مسجد تھی جسے تبلیغی جماعت کے احباب اب تک بطور مرکز کے استعمال کرتے تھے لیکن جب سے مرکز میں اختلاف ہوا تو اس کا اثر تقریبا ہر جگہ پڑا اور ہر جگہ دو گروپ بن گئے چنانچہ اسی اختلاف کے پیش نظر تبیلیغی جماعت کےاحباب نے پرانے مرکز کو چھوڑ کر ایک دوسری نئی مسجد کا انتخاب بطور مرکز کے کیا ھے (اور وہ مسجد وقف کی ھے اور اس میں روزانہ باجماعت نماز بھی ہوتی ھے) البتہ بطور مرکز دعوت وتبلیغ اس کا استعمال اس طرح طے ہوا ھے کہ اس کی رسید بنائی گئی ھے کسی خاص فرد کے نام جیسے کہ دوکان ومکان کی ہوتی ھے بطور کرایہ بعینہ اس مسجدکاکرایہ طے کیا گیا ھے اور کرایہ کے نام پہ رسید بھی کٹی ھے اور پھر اس مسجد کو بطور مرکز دعوت وتبلیغ استعمال کی اجازت دی گئی ھے. اب معلوم یہ کرنا ہیکہ اس طرح وقف کی مسجد کو کرایہ پہ دینا اور دوسرے کا اس طرح اس مسجد کو کرایہ پہ  لیکر  تبلیغی مرکز بنانا جبکہ اس کے پاس دوسرے متبادل موجود ہیں یعنی دیگر مساجد جنکو وہ بلامعاوضہ استعمال میں لاسکتا ھے، ازروئے شرع کیسا ھے؟ جواب مدلل مطلوب ھے
والسلام مع الاکرام
افتخارقاسمی
کانپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
مسجد کے آداب اور احترام وتقدس کی مکمل رعایت ولحاظ کے ساتھ اس میں  ذکر وتسبیح اور وعظ و تبلیغ کے امور انجام دینا یا عبادت کی نیت (اعتکاف) سے اہل محلہ کا یا اجنبی اور مسافرین کا وہاں قیام وطعام کرنا جائز ہے۔ اگرچہ افضل وبہتر نہیں ہے۔
سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق تبلیغی حضرات کا مسجد میں مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ اپنے تبلیغی امور انجام دینا درست ہے۔
مسجد کی زمین جب وقف ہوجائے اور لوگ اس میں اذان واقامت کے ساتھ باجماعت کم از کم ایک بار نماز پڑھ لیں تو اب وہ جگہ شرعی مسجد کہلائے گی۔ اورجب کوئی جگہ مسجد قرار پاجاتی ہے تو نیچے تحت الثریٰ سے لیکرعرش معلیٰ تک سب مسجد ہی ہوجاتی ہے اور قیامت تک کے لئے مسجد ہی رہتی ہے۔ اب اسے کرایہ پہ دینا ناجائز ہے۔ اس سے  وصول شدہ اجرت بھی شرعا جائز نہیں۔
شرائط وحدود میں رہتے ہوئے مسجد شرعی میں دعوت وتبلیغ کے کام انجام دینا حسب تصریح بالا ویسے بھی درست ہے۔ پھر مسجد کو کرایہ پر لے کر ایک ممنوع شرعی کا ارتکاب کوئی عقلمندی یا دانشمندی کا کام نہیں۔ مسجد کے منتظمین کے مشاورت باہمی سے وہاں دعوتی امور انجام دیئے جائیں۔ اجرت کا معاملہ خلاف شرع ہے۔ اسے فسخ کیا جائے۔
وکرہ تحریمًا الوطء فوقہ … لأنہ مسجد إلی عنان السماء، وکذا إلی تحت الثریٰ۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب في أحکام المسجد ۱؍۶۵۶ کراچی، ۲؍۴۲۸ زکریا)
أما لوتمت المسجد یۃ ثم أراد البناء منع (إلیٰ قولہ) فیجب ہدمہ ولوعلی جدار المسجد ولا یجوز أخذ الأجرۃ منہ الخ۔ (الدرالمختار مع الشامی، الوقف، مطلب فی أحکام المسجد ، زکریا۶/۵۴۸، کراچی ۴/۳۵۸، کوئٹہ۳/۴۰۶، بزازیہ زکریاجدید۳/۱۵۲، وعلیٰ ہامش الہندیۃ۶/۲۸۵)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment