استخارہ کا مطلب ہے کسی معاملے میں خیراور بھلائی کا طلب کرنا، یعنی روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے اپنے ہرجائز کام میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا اور اللہ سے اس کام میں خیر، بھلائی اور رہنمائی طلب کرنا، استخارہ کے عمل کو یہ سمجھنا کہ اس سے کوئی خبر مل جاتی ہے تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے کئی غلط فہمیوں نے جنم لیا جن کا تفصیل سے تذکرہ آگے آرہا ہے، استخارہ ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث میں منقول ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہرکام سے پہلے اہمیت کے ساتھ استخارے کی تعلیم دیا کرتے تھے، حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہئے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے۔
استخارہ حدیث نبوی کی روشنی میں:
۱- عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا کما یعلمنا سورة من القرآن (ترمذی)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے۔
استخارہ نہ کرنا محرومی اور بدنصیبی ہے
ایک حدیث میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۲- من شقوة ابن آدم ترکہ استخارة اللّٰہ (مجمع الاسانید)
یعنی اللہ تعالی سے استخارہ کا چھوڑدینا اور نہ کرنا انسان کے لئے بدبختی اور بدنصیبی میں شمار ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
۳- عن سعد بن وقاص عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من سعادة ابن ادم استخارتہ من اللہ و من شقاوتہ ترک الاستخارة و من سعادة ابن اٰدم رضاہ بما قضاہ اللہ ومن شقوة ابن اٰدم سخطہ بما قضی اللہ (مشکوة)
۳- عن سعد بن وقاص عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من سعادة ابن ادم استخارتہ من اللہ و من شقاوتہ ترک الاستخارة و من سعادة ابن اٰدم رضاہ بما قضاہ اللہ ومن شقوة ابن اٰدم سخطہ بما قضی اللہ (مشکوة)
ترجمہ: انسان کی سعادت اورنیک بختی یہ ہے کہ اپنے کاموں میں استخارہ کرے اور بدنصیبی یہ ہے کہ استخارہ کو چھوڑ بیٹھے، اور انسان کی خوش نصیبی اس میں ہے کہ اس کے بارے میں کئے گئے اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہے اور بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرے۔
استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوگا:
ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۴- ما خاب من استخار وما ندم من استشار (طبرانی)
یعنی جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا اور جو شخص اپنے کاموں میں مشورہ کرتا ہو اس کو کبھی شرمندگی یا پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے گا کہ میں نے یہ کام کیوں کیا؟ یا میں نے یہ کام کیوں نہیں کیا، اس لئے کہ جو کام کیا وہ مشورہ کے بعد کیا اور اگر نہیں کیا تو مشورہ کے بعد نہیں کیا، اس وجہ سے وہ شرمندہ نہیں ہوگا۔
اس حدیث میں جو یہ فرمایا کہ استخارہ کرنے والاناکام نہیں ہوگا، مطلب اس کا یہ کہ انجام کے اعتبار سے استخارہ کرنے والے کو ضرور کامیابی ہوگی، چاہے کسی موقع پر اس کے دل میں یہ خیال بھی آجائے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نہیں ہوا، لیکن اس خیال کے آنے کے باوجود کامیابی اسی شخص کو ہوگی جو اللہ تعالی سے استخارہ کرتا رہے، اسی طرح جو شخص مشورہ کرکے کام کرے گا وہ کبھی پچھتائے گا نہیں، اس لئے کہ خدا نخواستہ اگر وہ کام خراب بھی ہوگیا تو اس کے دل میں اس بات کی تسلی ہوگی کہ میں نے یہ کام اپنی خود رائی اور اپنے بل بوتے پر نہیں کیا تھا بلکہ اپنے دوستوں اور بڑوں سے مشورہ کے بعد کیا تھا، اب آگے اللہ تعالی کے حوالے ہے کہ وہ جیسا چاہیں فیصلہ فرمادیں۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوباتوں کا مشورہ دیا ہے کہ جب بھی کسی کام میں کشمکش ہو تو دو کام کرلیا کرو، ایک استخارہ اور دوسرے استشارہ یعنی مشورہ۔
استخارہ کا مقصد:
محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
”واضح ہو کہ استخارہ مسنونہ کا مقصد یہ ہے کہ بندے کے ذمے جو کام تھا وہ اس نے کرلیا اور اپنے آپ کو حق تعالی کے علم محیط اور قدرت کاملہ کے حوالہ کردیا، گویا استخارہ کرنے سے بندہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا، ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان کسی تجربہ کار عاقل اور شریف شخص سے مشورہ کرنے جاتا ہے تو وہ شخص صحیح مشورہ ہی دیتا ہے اور اپنی مقدور کے مطابق اس کی اعانت بھی کرتا ہے، گویا استخارہ کیا ہے؟ حق تعالی سے مشورہ لینا ہے، اپنی درخواست استخارہ کی شکل میں پیش کردی، حق تعالی سے بڑھ کر کون رحیم وکریم ہے؟ اس کا کرم بے نظیر ہے، علم کامل ہے اور قدرت بے عدیل ہے، اب جو صورت انسان کے حق میں مفید ہوگی، حق تعالی اس کی توفیق دے گا، اس کی رہنمائی فرمائے گا، پھر نہ سوچنے کی ضرورت، نہ خواب میں نظر آنے کی حاجت، جو اس کے حق میں خیر ہوگا وہی ہوگا، چاہے اس کے علم میں اس کی بھلائی آئے یا نہ آئے، اطمینان وسکون فی الحال حاصل ہویانہ ہو، ہوگا وہی جو خیر ہوگا، یہ ہے استخارہ مسنونہ کا مطلوب، اسی لئے تمام امت کے لئے تاقیامت یہ دستور العمل چھوڑا گیا ہے۔“ (دورحاضر کے فتنے اور ان کا علاج)
استخارہ کی حکمت:
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’حجة اللہ البالغة‘ میں استخارہ کی دو حکمتیں بیان فرمائیں ہیں:
۱- فال نکالنے سے نجات اور اس کی حرمت:
۱- پہلی حکمت یہ کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ جب کوئی اہم کام کرنا ہوتا مثلا سفر یا نکاح یا کوئی بڑا سودا کرنا ہوتا تو وہ تیروں کے ذریعے فال نکالا کرتے تھے، یہ تیر کعبہ شریف کے مجاور کے پاس رہتے تھے ، ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا ’امرنی ربی‘ (میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے) اور کسی پر لکھا ہوتا ’نہانی ربی‘ (میرے رب نے مجھے منع کیا ہے) اور کوئی تیر بے نشان ہوتا، اس پر کچھ لکھا ہوا نہیں ہوتا تھا، مجاور تھیلا ہلاکر فال طلب کرنے والے سے کہتا کہ ہاتھ ڈال کر ایک تیر نکال لے ،اگر’امرنی ربی‘(کام کے حکم) والا تیر نکلتا تو وہ شخص کام کرتا اور’نہانی ربی‘(کام سے منع) والا تیر نکلتا تو وہ کام سے رک جاتا اور بے نشان تیر ہاتھ میں آتا تو دوبارہ فال نکالی جاتی، سورة مائدہ آیت نمبر ۳ کے ذریعے اس کی حرمت نازل ہوئی، اور حرمت کی دو وجہیں ہیں:
۱- یہ ایک بے بنیاد عمل ہے اور محض اتفاق ہے، جب بھی تھیلے میں ہاتھ ڈالا جائے گا تو کوئی نہ کوئی تیر ضرور ہاتھ آئے گا۔
۲- اس طرح سے فال نکالنا یہ اللہ تعالی پر افترا اور جھوٹا الزا م ہے، اللہ تعالی نے کہاں حکم دیا ہے اور کب منع کیا ہے؟ اور اللہ پر افتراء حرام ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فال کی جگہ استخارہ کی تعلیم دی ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ جب بندہ رب علیم سے رہنمائی کی التجاءکرتا ہے تو اپنے معاملے کو اپنے مولی کے حوالے کرکے اللہ کی مرضی معلوم کرنے کا شدید خواہش مند ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالی کے دروازے پر جا پڑتا ہے اور اس کا دل ملتجی ہوتا ہے تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندے کی رہنمائی اور مدد نہ فرمائیں ، اللہ تعالی کی طرف سے فیضان کا باب کشادہ ہوتا ہے ، اور اس پر معاملہ کا راز کھولاجاتا ہے ، چنانچہ استخارہ محض اتفاق نہیں ہے، بلکہ اس کی مضبوط بنیاد ہے۔
۲- فرشتوں سے مشابہت:
۲-دوسری حکمت یہ کہ استخارہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فرشتہ صفت بن جاتا ہے ، استخارہ کرنے والا اپنی ذاتی رائے سے نکل جاتا ہے اور اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے ،اس کی بہیمیت (حیوانیت) ملکیت(فرشتہ صفتی)کی تابع داری کرنے لگتی ہے اور وہ اپنا رخ پوری طرح اللہ کی طرف جھکادیتا ہے تو اس میں فرشتوں کی سی خو بو پیدا ہوجاتی ہے ، ملائکہ الہام ربانی کا انتظام کرتے ہیں اور جب ان کو الہام ہوتا ہے تو وہ داعیہ ربانی سے اس معاملے میں اپنی سی پوری کوشش خرچ کرتے ہیں ، ان میں کوئی داعیہ نفسانی نہیں ہوتا ، اسی طرح جو بندہ بکثرت استخارہ کرتا ہے وہ رفتہ رفتہ فرشتوں کے مانند ہوجاتا ہے ، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :ملائکہ کے مانند بننے کا یہ ایک تیر بہدف مجرب نسخہ ہے جو چاہے آزما کر دیکھے۔ (حجةاللہ البالغة)
استخارہ کا مسنون اور صحیح طریقہ:
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو) دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں۔
سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے، یہ بڑی عجیب دعا ہے ،اللہ جل شانہ کے نبی ہی یہ دعا مانگ سکتے ہیں اور کسی کے بس کی بات نہیں ، کوئی گوشہ زندگی کا اس دعاءمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا نہیں ، اگر انسان ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتا تو بھی ایسی دعا کبھی نہ کرسکتا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی، اگرکسی کو دعا یاد نہ ہو توکوئی بات نہیں توکتاب سے دیکھ کریہ دعا مانگ لے، اگر عربی میں دعا مانگنے میں دقت ہورہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا مانگے، بس! دعا کے جتنے الفاظ ہیں، وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں ، وہ الفاظ یہ ہیں:
استخارہ کی مسنون دعا:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ ․
اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ ․
وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ․ (بخاری، ترمذی)
اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ ․
وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ․ (بخاری، ترمذی)
دعاکرتے وقت جب ’ہذا الامر ‘پر پہنچے (جس کے نیچے لکیر بنی ہے) تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ’ہذا الامر ‘کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ’ہذا السفر‘ یا ’ہذا النکاح‘ یا ’ہذہ التجارة‘ یا ’ہذا البیع‘ کہے، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ’ہذا الامر ‘ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لئے استخارہ کررہا ہے۔
استخارہ کی دعا کا مطلب ومفہوم:
اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے ہیں۔
اے اللہ! آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا ، یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں ،اس کا علم آپ کو ہے، مجھے نہیں ، اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں۔
یا اللہ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لئے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں بہتر ہے ، میرے دین کے لئے بھی بہتر ہے ، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لئے مقدر فرمادیجئے اور اس کو میرے لئے آسان فرمادیجئے اور اس میں میرے لئے برکت پیدا فرمادیجئے۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لئے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں برا ہے ،میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجئے اور مجھے اس سے پھیر دیجئے اور میرے لئے خیر مقدر فرمادیجئے جہاں بھی ہو ، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لئے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجئے اور اس کے بدلے جو کام میرے لئے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجئے ، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجئے اور اس پر مطمئن بھی کردیجئے۔ (اصلاحی خطبات)
استخارہ کتنی بار کیا جائے؟
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالی سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ) دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز القاءکی جائے اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لئے وہی بہتر ہے۔ (مظاہر حق)
بہتر یہ ہے کہ استخارہ تین سے سات دن تک پابندی کے ساتھ متواتر کیا جائے، اگر اس کے بعد بھی تذبذب اور شک باقی رہے تو استخارہ کاعمل مسلسل جاری رکھے ، جب تک کسی ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے ، اس موقع پر اتنی بات سمجھنی ضروری ہے کہ استخارہ کرنے کے لئے کوئی مدت متعین نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ایک ماہ تک استخارہ کیا تھا تو ایک ماہ بعد آپ کو شرح صدر ہوگیا تھا۔ اگر شرح صدر نہ ہوتا تو آپ آگے بھی استخارہ جاری رکھتے۔ (رحمة اللہ الواسعة)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”دعائے استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے دعائے خیر کرتا رہے، استخارہ کرنے کے بعد ندامت نہیں ہوتی اور یہ مشورہ کرنا نہیں ہے، کیونکہ مشورہ تو دوستوں سے ہوتا ہے، استخارہ سنت عمل ہے، اس کی دعا مشہور ہے، اس کے پڑھ لینے سے سات روز کے اندر اندر قلب میں ایک رجحان پیدا ہوجاتا ہے اور یہ خواب میں کچھ نظرآنا ،یا یہ قلبی رجحان حجت شرعیہ نہیں ہیں کہ ضرور ایسا کرناہی پڑے گا ، اور یہ جو دوسروں سے استخارہ کروایا کرتے ہیں ،یہ کچھ نہیں ہے ، بعض لوگوں نے عملیات مقرر کرلئے ہیں دائیں طرف یا بائیں طرف گردن پھیرنا یہ سب غلط ہیں ، ہاں دوسروں سے کروالینا گناہ تو نہیں لیکن اس دعا کے الفاظ ہی ایسے ہیں کہ خود کرنا چاہئے۔“ (مجالس مفتی اعظم)
استخارہ کا نتیجہ اور مقبول ہونے کی علامت:
استخارہ سے کس طرح رہنمائی ملے گی؟
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ استخارہ کا صرف اتنا اثر ہوتا ہے کہ جس کام میں تردد اور شک ہو کہ یوں کرنا بہتر ہے یا یوں ؟یا یہ کرنا بہتر ہے یا نہیں ؟تو استخارے کے مسنون عمل سے دو فائدے ہوتے ہیں :
۱- دل کا کسی ایک بات پر مطمئن ہوجانا۔
۲-اور اس مصلحت کے اسباب میسر ہوجانا۔
تاہم اس میں خواب آنا ضروری نہیں۔ (اصلاح انقلاب امت)
استخارہ میں صرف یکسوئی کا حاصل ہونا استخارہ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے، اس کے بعد اس کے مقتضی پر عمل کرے ، اگرکئی مرتبہ استخارہ کے بعد بھی یکسوئی اور کسی ایک جانب اطمینان نہ ہوتو استخارہ کے ساتھ ساتھ استشارہ بھی کرے یعنی اس کام میں کسی سے مشورہ بھی لے لیکن استخارہ میں ضروری نہیں کہ یکسوئی ہوا ہی کرے۔ (الکلام الحسن)
بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خود انسان کے دل کا رجحان ایک طرف ہوجاتا ہے، بس جس طرف رجحان ہوجائے وہ کام کر لے ، اور بکثرت ایسا رجحان ہوجاتا ہے، لیکن بالفرض اگر کسی ایک طرف رجحان نہ بھی ہو بلکہ دل میں کشمکش موجود ہو تو بھی استخارہ کا مقصد حاصل ہوگیا ، اس لئے کہ بندہ کے استخارہ کرنے کے بعد اللہ تعالی وہی کرتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ، اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لئے خیر ہوتی ہے اور اس کو پہلے سے معلوم بھی نہیں ہوتا ، بعض اوقات انسان ایک راستے کو بہت اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں اور اللہ تعالی اس کو اس بندے سے پھیر دیتے ہیں ، لہذا اللہ تعالی استخارہ کے بعد اسباب ایسے پیدا فرمادیتے ہیں کہ پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لئے خیر ہوتی ہے ، اب خیر کس میں ہے ؟ انسان کو پتہ نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی فیصلہ فرمادیتے ہیں۔
بس استخارہ کی حقیقت اتنی سی ہے کہ دو رکعت نفل پڑھ کر دعا مانگ لی ، پھر آگے جوہوگا اسی میں خیر ہے، کام ہوگیا تو خیر، نہیں ہوا تو خیر! دل جس طرف متوجہ ہو جائے اور جس کے اسباب پیدا ہورہے ہوں یقین کرلیں کہ یہی میرے لئے بہتر ہے اور اگر دل کی توجہ ہٹ گئی یا اسباب پیدا نہیں ہوئے یا اسباب موجود تھے مگر استخارہ کے بعد ختم ہوگئے، کام نہیں ہوسکا تو اطمینان رکھے، اللہ پر یقین رکھے کہ اس میں میری بہتری ہوگی، اپنی طبیعت بہت چاہتی ہے مگر اللہ تعالی میرے نفع ونقصان کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، اس طرح سوچنے سے ان شآءاللہ اطمینان ہوجائے گا، اگر دل کا رجحان کسی جانب نہ ہو تو صرف اسباب کے پیش نظر جو فیصلہ بھی کرلے گا اس میں خیر ہوگی ، خدا نخواستہ اگر استخارہ کے بعد کوئی نقصان بھی ہوجائے تو یہ عقیدہ رکھے کہ استخارہ کی برکت سے اللہ تعالی نے چھوٹے نقصان کے ذریعے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا ، استخارہ کی دعا میں دین کا ذکر پہلے ہے اور دنیا کا بعدمیں، اس لئے کہ مسلمان کا اصل مقصد دین ہے، دنیا تودر حقیقت دین کے تابع ہے۔
استخارہ کے باوجود اگرنقصان ہوگیا تو؟
عن مکحول الازدی رحمہ اللہ تعالی قال : سمعت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ یقول: ان الرجل یستخیر اللہ تبارک وتعالی فیختار لہ، فیسخط علی ربہ عز وجل، فلا یلبث ان ینظر فی العاقبة فاذا ہو خیر لہ (کتاب الزہد)
مکحول ازدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا یہ ارشاد سنا ،فرماتے ہیں کہ بعض اوقات انسان اللہ تعالی سے استخارہ کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لئے خیر ہو وہ کام ہوجائے تو اللہ تعالی اس کے لئے وہ کام اختیار فرمادیتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ،لیکن ظاہری اعتبار سے وہ کام اس بندہ کی سمجھ میں نہیں آتا تو بندہ اپنے پروردگار سے ناراض ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی سے تو یہ کہا تھا کہ میرے لئے اچھا کام تلاش کیجئے ، لیکن جو کام ملا وہ تو مجھے اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، اس میں میرے لئے تکلیف اور پریشانی ہے، لیکن کچھ عرصے بعد جب انجام سامنے آتا ہے تب اس کو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالی نے میرے لئے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا، اس وقت اس کو پتہ نہیں تھا اور یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے ساتھ زیادتی اور ظلم ہوا ہے، اوراصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلے کا صحیح ہونا بعض اوقات دنیا میں ظاہر ہوجاتا ہے اور بعض اوقات آخرت میں ظاہر ہوگا۔
اب جب وہ کام ہوگیا تو ظاہری اعتبار سے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نظر نہیں آرہا ہے، دل کے مطابق نہیں ہے، تو اب بندہ اللہ تعالی سے شکوہ کرتا ہے کہ یا اللہ! میں نے آپ سے استخارہ کیا تھا مگر کام وہ ہوگیا جو میری مرضی اور طبیعت کے خلاف ہے اور بظاہر یہ کام اچھا معلوم نہیں ہورہا ہے ، اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرمارہے ہیں کہ ارے نادان ! تو اپنی محدود عقل سے سوچ رہا ہے کہ یہ کام تیرے حق میں بہتر نہیں ہوا ، لیکن جس کے علم میں ساری کائنات کا نظام ہے، وہ جانتا ہے کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور کیا بہتر نہیں تھا ، اس نے جو کیا وہی تیرے حق میں بہتر تھا ، بعض اوقات دنیا میں تجھے پتہ چل جائے گا کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور بعض اوقات پوری زندگی میں کبھی پتہ نہیں چلے گا ، جب آخرت میں پہنچے گا تب وہاں جا کر پتہ چلے گا کہ واقعة یہی میرے لئے بہتر تھا۔
اس کی مثال یوں سمجھیں جیسے ایک بچہ ہے جو ماں باپ کے سامنے مچل رہا ہے کہ فلاں چیز کھاوں گا اور ماں باپ جانتے ہیں کہ اس وقت یہ چیز کھانا بچے کے لئے نقصان دہ اور مہلک ہے ، چنانچہ ماں باپ بچے کو وہ چیز نہیں دیتے ، اب بچہ اپنی نادانی کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ میرے ماں باپ نے مجھ پر ظلم کیا ،میں جو چیز مانگ رہا تھا وہ مجھے نہیں دی اور اس کے بدلے میں مجھے کڑوی کڑوی دوا کھلا رہے ہیں ، اب وہ بچہ اس دوا کو اپنے حق میں خیر نہیں سمجھ رہا ہے لیکن بڑا ہونے کے بعد جب اللہ تعالی اس بچے کو عقل اور فہم عطا فرمائیں گے اور اس کو سمجھ آئے گی تو اس وقت اس کو پتہ چلے گا کہ میں تو اپنے لئے موت مانگ رہا تھا اور میرے ماں باپ میرے لئے زندگی اور صحت کا راستہ تلاش کررہے تھے ، اللہ تعالی تو اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ مہربان ہیں ، اس لئے اللہ تعالی وہ راستہ اختیار فرماتے ہیں جو انجام کار بندہ کے لئے بہتر ہوتا ہے ، اب بعض اوقات اس کا بہتر ہونا دنیا میں پتہ چل جاتا ہے اور بعض اوقات دنیا میں پتہ نہیں چلتا۔
یہ کمزور انسان کس طرح اپنی محدود عقل سے اللہ تعالی کے فیصلوں کا ادراک کرسکتا ہے، وہی جانتے ہیں کہ کس بندے کے حق میں کیا بہتر ہے، انسان صرف ظاہر میں چند چیزوں کو دیکھ کر اللہ تعالی سے شکوہ کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالی کے فیصلوں کو برا ماننے لگتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا کہ کس کے حق میں کیا اور کب بہتر ہے۔
اسی وجہ سے اس حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمارہے ہیں کہ جب تم کسی کام کا استخارہ کرچکو تو اس کے بعد اس پر مطمئن ہوجاوکہ اب اللہ تعالی جو بھی فیصلہ فرمائیں گے وہ خیر ہی کا فیصلہ فرمائیں گے ، چاہے وہ فیصلہ ظاہر نظر میں تمہیں اچھا نظر نہ آرہا ہو ، لیکن انجام کے اعتبار سے وہی بہتر ہوگا ، اور پھر اس کا بہتر ہونا یا تو دنیا ہی میں معلوم ہوجائے گا، ورنہ آخرت میں جا کر تو یقینا معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالی نے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا۔ (اصلاحی خطبات)
استخارہ کے بارے میں چند کوتاہیاں اورغلط فہمیاں:
مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”اب دیکھئے یہ(استخارہ) کس قدر آسان کام ہے مگر اس میں بھی شیطان نے کئی پیوند لگادئے ہیں:
۱- پہلا پیوند یہ کہ دو رکعت پڑھ کر کسی سے بات کئے بغیر سو جاو ، سونا ضروری ہے ورنہ استخارہ بے فائدہ رہے گا۔
۲- دوسرا پیوند یہ لگایا کہ لیٹو بھی دائیں کروٹ پر۔
۳- تیسرا یہ کہ قبلہ رو لیٹو۔
۴- چوتھا پیوند یہ لگایا کہ لیٹنے کے بعد اب خواب کا انتظار کرو ، استخارہ کے دوران خواب نظر آئے گا۔
۵- پانچواں پیوند یہ لگایا کہ اگر خواب میں فلاں رنگ نظر آئے تو وہ کام بہتر ہوتا ہے ، فلاں نظر آئے تو وہ بہتر نہیں۔
۶- چھٹا پیوند یہ لگایا کہ اس خواب میں کوئی بزرگ آئے گا بزرگ کا انتظار کیجئے کہ وہ خواب میں آکر سب کچھ بتادے گا ، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بزرگ کون ہو گا؟اگر شیطان ہی بزرگ بن کر خواب میں آجائے تو اس کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ شیطان ہے یا کوئی بزرگ؟
یاد رکھئے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی حدیث سے ثابت نہیں ، بس یہ باتیں لکھنے والوں نے کتابوں میں بغیر تحقیق کے لکھ دی ہیں ، اللہ تعالی ان لکھنے والے مصنّفین پر رحم فرمائیں۔“ (خطبات الرشید)
باوضو ،قبلہ رخ اور دائیں کروٹ پر سونا نیندکے آداب میں سے تو ضرور ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ استخارہ رات کو سونے سے پہلے ان مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ لازمی سمجھ کر کیا جائے۔
۱- استخارہ صرف اہم کام کے لئے نہیں!
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ صرف اسی کام میں ہے جو کام بہت اہم یا بڑا ہے اور جہاں انسان کے سامنے دو راستے ہیں یا جس کام میں انسان کو تردد یا شک ہے صرف ایسے ہی کاموں میں استخارہ کرنا چاہئے، چنانچہ آج کل عوام الناس کو اپنی زندگی کے صرف چند مواقع پر ہی استخارہ کے مسنون عمل کی توفیق نصیب ہوتی ہے، مثلا نکاح کے لئے یا کاروبار کے لئے استخارہ کرلیا اور بس!گویا ہم ان چندگنے چنے مواقع پر تو اللہ سے خیر اور بھلائی کے طلب گار ہیں اور باقی تمام زندگی کے روز وشب میں ہم اللہ سے خیر مانگنے سے بے نیاز اور مستغنی ہیں، یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ استخارہ صرف اہم اور بڑے کاموں ہی میں نہیں ہے بلکہ اپنے ہر کام میں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی طلب کرنی چاہئے، اسی طرح استخارے میں یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کام میں تردداور تذبذب ہو تب ہی استخارہ کیا جائے ، بلکہ تردد نہ بھی ہو اور اس کام میں ایک ہی صورت اورایک ہی راستہ ہو تب بھی استخارہ کرنا چاہئے ،حدیث نبوی کے الفاظ ہیں:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا (بخاری)
یعنی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہر کام میں استخارے یعنی اللہ سے خیر طلب کرنے کی تعلیم دیتے تھے۔
۲- استخارہ کے لئے کوئی وقت مقررنہیں
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ ہمیشہ رات کو سوتے وقت ہی کرنا چاہئے یا عشاءکی نماز کے بعد ہی کرنا چاہئے، ایسا کوئی ضروری نہیں ، بلکہ جب بھی موقع ملے اس وقت استخارہ کرلے ، نہ رات کی کوئی قید ہے اور نہ دن کی کوئی قید ہے، نہ سونے کی کوئی قید ہے اور نہ جاگنے کی کوئی قید ہے بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو۔
۳- استخارہ کے بعد خواب آنا ضروری نہیں
استخارہ کے بارے میں لوگوں کے درمیان طرح طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’استخارہ ‘ کرنے کا کوئی خاص طریقہ اور خاص عمل ہوتا ہے ، اس کے بعد کوئی خواب نظر آتا ہے اور اس خواب کے اندر ہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں کام کرو یا نہ کرو، خوب سمجھ لیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے استخارہ کا جو مسنون طریقہ ثابت ہے، اس میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ کرنے کے بعدآسمان سے کوئی فرشتہ آئے گا یاکوئی کشف والہام ہوگا یا خواب آئے گا اور خواب کے ذریعے ہمیں بتایا جائے گا کہ یہ کام کرو یا نہ کرو ، یاد رکھئے ، خواب آنا کوئی ضروری نہیں کہ خواب میں کوئی بات ضرور بتائی جائے یا خواب میں کوئی اشارہ ضرور دیا جائے ، بعض مرتبہ خواب میں آجاتا ہے اور بعض مرتبہ نہیں آتا۔
۴- کسی دوسرے سے ’استخارہ نکلوانا‘
استخارہ کے باب میں لوگ ایک غلطی کرتے ہیں اس کی اصلاح بھی ضروری ہے وہ یہ کہ بہت سے لوگ خود استخارہ کرنے کی بجائے دوسروں سے کرواتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ آپ ہمارے لئے ’استخارہ نکال دیجئے‘گویا جیسے فال نکالی جاتی ہے ویسے ہی استخارہ بھی نکال دیجئے، دوسروں سے استخارے کروانے کا مطلب تو وہی عمل ہوا جو جاہلیت میں مشرکین کیا کرتے تھے اور جس کے انسداداور خاتمے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو استخارے کی نماز اور دعا سکھائی، اور یہ اسی وجہ سے ہوا کہ لوگوں نے استخارے کو یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سے گویا کوئی خبر مل جاتی ہے یایہ الہام ہوجاتا ہے کہ کیا کرنا چاہئے، جس طرح جاہلیت میں تیروں پر لکھ کر یہ معلوم کیا جاتا تھا اسی طرح آج کل تسبیح کے دانوں پر اس قسم کے استخارے کئے جارہے ہیں، یہ طریقہ بالکل غلط ہے اور انتہا تو یہ ہوگئی کہ اب عوام میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو پر استخارے نکلوائے جارہے ہیں،حالانکہ استخارہ اللہ تعالی سے اپنے معاملے میں خیر اور بھلائی کا طلب کرنا ہے نہ کہ خبر کا معلوم کرنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہدایت یہ ہے کہ جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے، دوسروں سے کروانے کا کوئی ثبوت نہیں ،جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود تھے، اس وقت صحابہ سے زیادہ دین پر عمل کرنے والا کوئی نہیں تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر استخارہ کرنے والا بھی کوئی نہ تھا لیکن آج تک کہیں یہ نہیں لکھا کہ کسی صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر یہ کہا ہو کہ آپ میرے لئے استخارہ کردیجئے ، سنت طریقہ یہی ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے، اسی میں برکت ہے۔ لوگ یہ سوچ کر کہ ہم تو گناہ گار ہیں ،ہمارے استخارے کا کیا اعتبار ؟ اس لئے خود استخارہ کرنے کی بجائے فلاں بزرگ اور عالم سے یا کسی نیک آدمی سے کرواتے ہیں کہ اس میں برکت ہوگی ، لوگوں کا یہ زعم اور یہ عقیدہ غلط ہے ، جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار، دوسرے سے استخارہ کروانا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،خود د عا کے الفاظ سے بھی یہی مترشح ہورہا ہے ،دعا کے الفاظ میں متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، اس لئے صاحب معاملہ کو خود کرنا چاہئے ، استخارہ دوسرے سے کروانا، ناجائز تونہیں لیکن بہتر اور مسنون بھی نہیں ہے۔سلامتی کا طریقہ وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے۔
۵- ہم گناہ گار ہیں، استخارہ کیسے کریں؟
انسان کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، بندہ تو اللہ ہی کا ہے اور جب بندہ اللہ سے مانگے گا تو جواب ضرور آئے گا،جس ذات کا یہ فرمان ہوکہ” ادعونی استجب لکم“ مجھ سے مانگو میں دعا قبول کروں گا۔ تویہ اس عظیم وکبیر ذات کے ساتھ بد گمانی ہے، وہ ذات تو ایسی ہے کہ شیطان جب جنت سے نکالاجارہا ہے راندہ درگاہ کیا جارہا ہے تواس وقت شیطان نے دعا کی، اللہ نے اس کی دعا کو قبول فرمایا، جو شیطان کی دعا قبول کررہا ہے کیا وہ ہم گناہ گاروں کی دعا قبول نہ کرے گا اور جب کوئی استخارہ رسول اللہ کی اتباع سنت کے طور پر کرے گا تو یہ ممکن نہیں کہ اللہ دعا نہ سنے بلکہ ضرور سنے گا اور خیر کو مقدر فرمائے گا،اللہ کی بارگاہ میں سب کی دعائیں سنی جاتی ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ گناہوں سے بچنا چاہئے تاکہ دعا جلد قبول ہو۔
لوگوں میں بکثرت یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ گناہ گار استخارہ نہیں کرسکتے، یہ دو وجہ سے باطل اور غلط ہے:
۱- پہلی وجہ یہ کہ گناہوں سے بچنا آپ کے اختیار میں ہے، مسلمان ہوکر کیوں گناہ گار ہیں؟ گناہ صادر ہوگیا تو صدق دل سے توبہ کرلیجئے ، بس گناہوں سے پاک ہوگئے ، گناہ گار نہ رہے ، نیک لوگوں کے زمرے میں شامل ہوگئے ، توبہ کی برکت سے اللہ تعالی نے پاک کردیا ، اب اللہ کی اس رحمت کی قدر کریں اور آئندہ جان بوجھ کر گناہ نہ کریں۔
۲- دوسری وجہ یہ کہ استخارہ کے لئے شریعت نے تو کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ استخارہ گناہ گار انسان نہ کرے، کوئی ولی اللہ کرے ، جو شرط شریعت نے نہیں لگائی آپ اپنی طرف سے اس شرط کو کیوں بڑھاتے ہیں؟ شریعت کی طرف سے تو صرف یہ حکم ہے کہ جس کی حاجت ہو وہ استخارہ کرے خواہ وہ گناہ گار ہو یا نیک، جیسا بھی ہو خود کرے، عوام یہ کہتے ہیں کہ استخارہ کرنا بزرگوں کا کام ہے تو بزرگ حضرات بھی سمجھنے لگے کہ ہاں! یہ صحیح کہہ رہے ہیں، استخارہ کرنا ہمارا ہی کام ہے، عوام کا کام نہیں، عوام کو غلطی پر تنبیہ کرنے کی بجائے خود غلطی میں شریک ہوگئے، ان کے پاس جو بھی چلا جائے یہ پہلے سے تیار بیٹھے ہیں کہ ہاں لائیں، آپ کا استخارہ ہم ’نکال دیں گے‘ اور استخارہ کرنے کو ’استخارہ نکالنا‘ کہتے ہیں، یاد رکھیں یہ ایک غلط روش ہے اوراس غلط روش کی اصلاح فرض ہے۔
۶- استخارہ کے ذریعہ گذشتہ یا آئندہ کا کوئی واقعہ معلوم کرنا
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ کسی امر کے مصلحت یا خلاف مصلحت ہونے میں تردد ہو تو خاص دعا پڑھ کر اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو ، اس کے دل میں جو بات عزم اور پختگی کے ساتھ آئے اسی میں خیر سمجھے ، استخارہ کا مقصد تردداور شک ختم کرنا ہے نہ کہ آئندہ کسی واقعے کو معلوم کرلینا۔
بعض لوگ استخارہ کی یہ غرض بتلاتے ہیں کہ اس سے گذشتہ زمانے میں پیش آنے والا کوئی واقعہ یا آئندہ ہونے والا واقعہ معلوم ہوجاتا ہے ، سو استخارہ شریعت میں اس غرض سے منقول نہیں ، بلکہ وہ تو محض کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا تردد اور شک دور کرنے کے لئے ہے ، نہ کہ واقعات معلوم کرنے کے لئے ،بلکہ ایسے استخارہ کے ثمرہ اور نتیجے پر یقین کرنا بھی ناجائز ہے۔(اغلاط العوام)
۷- استخارہ کے ذریعے چور کا پتہ یا خواب میں کوئی بات معلوم کرنا
یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح استخارہ سے گذشتہ زمانے میں پیش آنے والاکوئی واقعہ نہیں پتہ چل سکتا بالکل اسی طرح آئندہ پیش آنے والا واقعہ کہ فلاں بات یوں ہوگی معلوم نہیں کیا جاسکتا ، اور اگر کوئی استخارہ کو اس غرض کے لئے سمجھے ہوئے ہے تو وہ اپنے غلط خیال کی اصلاح کرے کہ یہ بالکل باطل اعتقاد ہے، مثلا کسی کے ہاں چوری ہوجائے تو اس غرض کے لئے کہ چور کا پتہ معلوم ہوجائے استخارہ کرنا نہ تو جائز ہے اور نہ مفید ہے۔
اور بعض بزرگوں سے جواس قسم کے بعض استخارے منقول ہیں جس سے کوئی واقعة صراحتا یا اشارة خواب میں نظر آجائے ،سو وہ استخارہ نہیں ہے بلکہ خواب نظر آنے کا عمل ہے ، پھر اس کا یہ اثر بھی لازمی نہیں ، خواب کبھی نظر آتا ہے اور کبھی نہیں اور اگر خواب نظر آبھی گیا تو وہ محتاج تعبیر ہے، اگرچہ صراحت کے ساتھ نظر آئے پھر تعبیر جو ہوگی وہ بھی ظنی ہوگی یقینی نہیں ، اس میں اتنے شبہات ہیں پس اس کو استخارہ کہنا یا مجاز ہے، اگر ان بزرگوں سے یہ نام منقول ہے، ورنہ اغلاط عامہ میں سے ہے۔ (اصلاح انقلاب امت)
۸- استخارہ کام کے ارادہ سے پہلے ہو
استخارہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ ارادہ ابھی کر لو پھر برائے نام استخارہ بھی کرلو ، استخارہ تو ارادہ سے پہلے کرنا چاہئے تاکہ ایک طرف قلب کو سکون پیدا ہوجائے ، اس میں لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں ، استخارہ اس شخص کے لئے مفید ہوتا ہے جو خالی الذہن ہو ورنہ جو خیالات ذہن میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں دل اسی جانب مائل ہوجاتا ہے اور وہ شخص اس غلط فہمی کا شکار رہتا ہے کہ یہ بات استخارہ سے معلوم ہوئی ہے۔
۹- استخارہ صرف جائز کاموں میں ہے
ایک بات یہ بھی سمجھ لینی چاہئے کہ استخارہ کا محل مباحات ہے ،جو مباح یعنی جائز کام ہیں ان میں استخارہ کرناچاہئے ،جو چیزیں اللہ نے فرض کردی ہیں یا واجبات اور سنن موکدہ ہیں ان میں استخارے کی حاجت نہیں۔
اسی طرح جن کاموں کو اللہ اوراس کے رسول نے حرام اور ناجائز کردیا ہے ان میں بھی استخارہ نہیں ہے ،مثلا کوئی آدمی استخارہ کرے کہ نماز پڑھوں یانہ پڑھوں؟ روزہ رکھوں یانہ رکھوں؟ تویہاں استخارہ نہیں، یہ کام تو اللہ تعالی نے فرض کردیاہے، یا کوئی شخص اس بارے میں استخارہ کرے کہ شراب پیوں یانہ پیوں، رشوت لوں کہ نہ لوں ،ویڈیو فلموں کا کاروبار کروں نہ کروں، سودی معاملہ کروں یانہ کروں تو ان سب منہیات میں بھی استخارہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ یہ سب تو حرام ہیں، استخارہ ان چیزوں میں کیا جائے جو جائز امورہیں،رزق حلال کے حاصل کرنے اور کسب معاش کے لئے استخارے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو فریضہ ہے، استخارہ اس میں کیا جائے کہ رزق حلال کے حصول کے لئے ملازمت کروں یا تجارت کروں؟ تجارت کپڑے کی کی جائے یا اشیائے خورد ونوش کی؟ اب یہاں استخارہ کی ضرورت ہے ، اسی طرح اگر حج کے لئے جانا ہو تو یہ استخارہ نہ کرے کہ میں جاوں یا نہ جاوں؟ بلکہ یوں استخارہ کرے کہ فلاں دن جاوں یا نہ جاوں ؟۔
رشتوں کے لئے استخارہ:
رشتہ کا معاملہ عام معاملات سے الگ ہے ، یہ صرف اولاد کا کام نہیں بلکہ والدین کا کام بھی ہے ، صحیح رشتہ کا انتخاب والدین ہی کرسکتے ہیں ، یہ ان کی ذمہ داری ہے اور ان کومستقبل کے حوالے سے سوچنا پڑتا ہے کہ کہاں رشتہ کریں ؟اس لئے بہتر یہ ہے کہ جن لڑکوں یا لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ہے وہ خود بھی استخارہ کرلیں اور اگر ان کے والدین زندہ ہوں تو وہ بھی کرلیں۔
استخارہ ہر مشکل، پریشانی اور فتنے سے بچاوکا حل:
محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
”دورِ حاضر میں امت کا شیرازہ جس بری طرح سے بکھر گیا ہے ، مستقبل قریب میں اس کی شیرازہ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ، جب استشارے کا راستہ بند ہوگیا تو اب صرف استخارہ کا راستہ ہی باقی رہ گیا ہے، حدیث شریف میں تو فرمایا تھا:
مَاخَابَ مَن اِستَخَارَ وَمَا نَدِمَ مَن اِستَشَارَ
ترجمہ : جو استخارہ کرے گا خائب وخاسر(ناکام اور نقصان اٹھانے والا) نہ ہوگا، اور جو مشورہ کرے گاوہ پشیمان شرمندہ نہ ہوگا۔
عوام کے لئے یہی دستور العمل ہے کہ اگر کوئی ان فتنوں میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا تو مسنون استخارہ کرکے عمل کرے اور امید ہے کہ استخارہ کے بعد اس کا قدم صحیح ہوگا ، مسنون استخارہ کا مطلب یہی ہے کہ انسان جب کسی امر میں متحیر اور متردد ہوتا ہے اور کوئی واضح اور صاف پہلو نظر نہیں آتا، اس کا علم رہنمائی سے قاصراور اس کی طاقت بہتر کام کرنے سے عاجز تو حق تعالی کی بارگاہ رحمت والطاف میں التجا کرتا ہے اور حق تعالی کی بارگاہ سے دعا ، توکل تفویض اور تسلیم ورضا بالقضا ءکے راستوں سے کرتا ہے کہ وہ اس کی دستگیری اور رہنمائی فرمائے ، بہتر صورت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔“(دور حاضر کے فتنے اور ان کا علاج)
استخارہ کے خود ساختہ طریقے اور ان کے مفاسد:
اس زمانے کے مسلمانوں نے استخارہ کے کئی ایسے طریقے خود گھڑ لئے ہیں جن کا طریقہ مسنونہ سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو استخارہ کا طریقہ بیان فرمایا در حقیقت وہ اللہ تعالی کے حکم سے ہے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول کے ذریعے بندوں تک پہنچایا مگر بندوں نے یہ قدر کی کہ اسے پس پشت ڈال کر اپنی طرف سے کئی طریقے ایجاد کر لئے ، اللہ تعالی نے جو استخارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی اپنی امت کو سکھایا اور ایسے اہتمام سے سکھایا جیسے قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔
مگر آج کے مسلمانوں نے اللہ تعالی کے ارشاد فرمائے ہوئے طریقے کے مقابلے میں اپنی پسند کے مختلف طریقے گھڑ لئے ہیں ،انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر اعتماد نہیں۔تو وہ تمام طریقے مسنون نہیں ہے ، کوئی تکیہ کے نیچے رکھنے کا ہے ،کوئی سر کے گھوم جانے کا ہے ، کوئی تسبیح پر پڑھنے کا ہے وغیرہ وغیرہ ، اس میں سے کوئی سنت سے ثابت نہیں ہے بلکہ ان طریقوں میں تو ایک گونہ خطرے کا اندیشہ ہے ، رسول اللہ کا سنت طریقہ چھوڑ کردوسرے طریقے اختیار کرنا پتہ نہیں اللہ کو پسند بھی ہویا نہ ہو۔
وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں
استخارے کا ایک اور مسنون طریقہ:
سنت استخارے کا ایک تفصیلی طریقہ تو وہ ہوا جس کو ماقبل میں تفصیل سے بیان کردیا گیا لیکن قربان جائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں بھی ایک مختصر سا استخارہ تجویز فرمادیا تاکہ استخارے سے محرومی نہ ہوجائے ،اس سے قبل استخارہ کا جو مسنون طریقہ عرض کیا گیا، یہ تو اس وقت ہے جب آدمی کو استخارہ کرنے کی مہلت اور موقع ہو ، اس وقت تو وضو کرکے دو رکعت نفل پڑھ کر وہ استخارہ کی مسنون دعا کرے ، لیکن بسا اوقات انسان کو اتنی جلدی اور فوری فیصلہ کرنا پڑتا ہے، دو رکعت پڑھ کر دعا کرنے کا موقع ہی نہیں ہوتا ، اس لئے کہ اچانک کوئی کام سامنے آگیا اور فورا اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے ،اتنا وقت ہے نہیں کہ دو رکعت نفل پڑھ کر استخارہ کیا جائے تو ایسے موقع کے لئے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا تلقین فرمائی، وہ یہ ہے :
اَللّٰہمَّ خِرلِی وَاختَر لِی (کنز العمال)
اے اللہ ! میرے لئے آپ پسندفرمادیجئے کہ مجھے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہئے ، بس یہ دعا پڑھ لے ، اس کے علاوہ ایک اور دعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے ، وہ یہ ہے:
اَللّٰہمَّ اہدِنِی وَسَدِّدنِی (صحیح مسلم)
اے اللہ ! میری صحیح ہدایت فرمائیے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھئے۔
اسی طرح ایک اور مسنون دعا ہے :
اَللّٰہمَ اَلہِمنِی رشدِی (ترمذی)
اے اللہ ! جو صحیح راستہ ہے وہ میرے دل پر القا فرمادیجئے ، ان دعاوں میں سے جو دعا یاد آجائے اس کو اسی وقت پڑھ لے ، اور اگر عربی میں دعایاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کر لو کہ اے اللہ !مجھے یہ کشمکش پیش آئی ہے ،آپ مجھے صحیح راستہ دکھا دیجئے ، اگر زبان سے نہ کہہ سکو تو دل ہی دل میں اللہ تعالی سے کہہ دو کہ یا اللہ ! یہ مشکل اور یہ پریشانی پیش آگئی ہے ، آپ صحیح راستے پر ڈال دیجئے جو راستہ آپ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں میرے لئے خیر ہو۔
مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کا ساری عمر یہ معمول رہا کہ جب کبھی کوئی ایسا معاملہ پیش آتا جس میں فوری فیصلہ کرنا ہوتا کہ یہ دو راستے ہیں ان میں سے ایک راستہ کو اختیار کرنا ہے تو آپ اس وقت چند لمحوں کے لئے آنکھ بند کرلیتے ، اب جو شخص آپ کی عادت سے واقف نہیں اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ آنکھ بند کرکے کیا کام ہورہا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ آنکھ بند کرکے ذرا سی دیر میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلیتے اور دل ہی دل میں اللہ تعالی سے دعا کر لیتے کہ یا اللہ ! میرے سامنے یہ کشمکش کی بات پیش آگئی ہے ، میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا فیصلہ کروں، آپ میرے دل میں وہ بات ڈال دیجئے جو آپ کے نزدیک بہتر ہو ، بس دل ہی دل میں یہ چھوٹا سا اور مختصر سا استخارہ ہوگیا۔
حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلے تو اللہ تعالی ضرور اس کی مدد فرماتے ہیں ، اس لئے کہ تمہیں اس کا اندازہ نہیں کہ تم نے ایک لمحہ کے اندر کیا سے کیا کرلیا، یعنی اس ایک لمحے کے اندر تم نے اللہ تعالی سے رشتہ جوڑ لیا ، اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرلیا ، اللہ تعالی سے خیر مانگ لی اور اپنے لئے صحیح راستہ طلب کرلیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تمہیں صحیح راستہ مل گیا اور دوسری طرف اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا اجر بھی مل گیا اور دعا کرنے کا بھی اجر وثواب مل گیا ، کیونکہ اللہ تعالی اس بات کو بہت پسند فرماتے ہیں کہ بندہ ایسے مواقع پر مجھ سے رجوع کرتا ہے اور اس پر خاص اجروثواب بھی عطا فرماتے ہیں ، اس لئے انسان کو اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے ، صبح سے لے کر شام تک نہ جانے کتنے واقعات ایسے پیش آتے ہیں جس میں آدمی کو کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں ، اس وقت فورا ایک لمحہ کے لئے اللہ تعالی سے رجوع کر لو ، یا اللہ ! میرے دل میں وہ بات ڈال دیجئے جو آپ کی رضا کے مطابق ہو۔ (اصلاحی خطبات)
الغرض استخارہ اللہ تعالی سے خیر مانگنے اور بھلائی طلب کرنے کا مسنون ذریعہ ہے لہذا اس بات کی کوشش کی جائے کہ اس کی وہی اصل شکل اور روح برقرار رہے جو شریعت اسلام نے واضح فرمائی ہے ، محض سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے حضرات علماءکرام سے رہنمائی حاصل کی جائے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو دین کی صحیح معنی میں سمجھ ،اس پر عمل کرنے والا اور عملا اس کو روئے زمین پر قائم کرنے والا بنائے ، آمین۔
............
وہ کتب جن سے استفادہ کیا گیا:
۱- حجة اللہ البالغة حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ
۲- مظاہر حق علامہ محمد قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ
۳-اصلاح انقلاب امت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
۴-اغلاط العوام حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
۵-اشرف العملیات حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
۶- الکلام الحسن حضرت مولانا مفتی محمد حسن رحمہ اللہ
۷-مجالس مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ
۸-دور حاضر کے فتنے اور ان کا علاج حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ
۹- خطبات الرشید حضرت مولانا مفتی رشید احمد رحمہ اللہ
۱۰-تحفة المسلمین حضرت مولانا محمد عاشق الہی رحمہ اللہ
۱۱-رحمة اللہ الواسعة حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری صاحب مدظلہ
۱۲-اصلاحی خطبات حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ
از: محمد عمر انور، استاذ جامعہ علوم اسلامیہ
دینی کاموں میں لوگوں کی طرف سے رکاٹ نہ ہو اور صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق نصیب ہو
حضرت حصین رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی، حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میری قوم ہے میرا خاندان ہے (اگر اسلام) لاؤں گا تو ان سے مجھے خطرہ ہے اس لئے اب میں کیا کہوں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعا پڑھو۔
اَللّٰھُمَّ اسْتَھْدِیْكَ لِاَرْشُدِ اَمْرِیْ وَزِدْنِیْ عِلْماً یَّنْفَعُنِیْ
[ترجمہ] "اے اللہ میں اپنے معاملہ میں زیادہ رشدوہدایت والے راستے کی آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں اور مجھے علم نافع اور زیادہ عطا فرما."
چنانچہ حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے یہ دعا پڑھی اور اسی مجلس میں اُٹھنے سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے۔
(حیاة الصحابہ، جلد1، صفحہ93)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعا پڑھو۔
اَللّٰھُمَّ اسْتَھْدِیْكَ لِاَرْشُدِ اَمْرِیْ وَزِدْنِیْ عِلْماً یَّنْفَعُنِیْ
[ترجمہ] "اے اللہ میں اپنے معاملہ میں زیادہ رشدوہدایت والے راستے کی آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں اور مجھے علم نافع اور زیادہ عطا فرما."
چنانچہ حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے یہ دعا پڑھی اور اسی مجلس میں اُٹھنے سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے۔
(حیاة الصحابہ، جلد1، صفحہ93)
فائدہ (1) اگر کسی کو دینی کام کے اندر صحیح فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آرہی ہو تو مذکورہ بالا دعا کو حضور قلب اور توجہ الی اللہ کرتے ہوئے گیارہ مرتبہ پڑھیں ان شاءاللہ صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق نصیب ہوگی۔
No comments:
Post a Comment