Thursday, 16 November 2017

فسخ نکاح کا اختیار کسے ہے؟

سوال: میاں بیوی میں سے بیوی نے ایک کو حکم بنایا جبکہ شوہر اس کو حکم بنانا نہیں چاہتا. اس لئے شوہر نے ایک دو پیشی کے بعد وہاں لکھ کر دیدیا کہ میں اس معاملہ میں آپ حضرات کو حکم تسلیم نہیں کرتا، اس لئے آپ کا کوئی بھی فیصلہ میری ذات پر نافذ نہیں ہوگا.
تو کیا اب وہ لوگ شوہر کی 3 سے 4 مرتبہ  پیشی نہ ہونے کی بنا پر شوہر کے خلاف فیصلہ کردیوے تو کیا وہ فیصلہ نافذ سمجھا جائے گا؟؟؟

جواب: حکم کون لوگ ہیں؟
اگر میاں بیوی کے گهر کے لوگ ہیں، تو ان کے فسخ نکاح کے فیصلے کا کوئی اعتبار نہیں ہے. فسخ نکاح کا اختیار صرف اور صرف شوہر اور قاضی کو ہے.
دارالقضاء اور محاکم شرعیہ  بعض قابل توجہ اُمور
اسلام صرف چند اعتقادات یا عبادات کا نام نہیں ہے؛ بلکہ یہ ہماری پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے، اس کا ایک اہم شعبہ معاشرہ اور سماجی زندگی ہے، جس میں نکاح، طلاق، والدین اور اولاد کے حقوق، زوجین کے باہمی تعلقات وغیرہ مسائل آتے ہیں، شریعت نے اگرچہ رشتۂ نکاح کے توڑنے کو بہت ہی ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے لیکن بعض دفعہ مزاج کی ناموافقت، باہم ظلم و زیادتی یا قدرتی اسباب کے تحت ایک دوسرے کا حق ادا کرنے سے عاجز ہوجانے کے سبب رشتہ کو ختم کردینا ایک ضرورت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، اسی لئے قرآن مجید نے رشتۂ نکاح کے قطع کرنے کا راستہ بھی کھلا رکھا ہے ۔
رشتۂ نکاح کے ختم ہونے کی بنیادی طورپر تین صورتیں ہوتی ہیں؛
1. طلاق،
2. خلع اور
3. فسخ۔
طلاق کا اختیار شوہر کو دیا گیا ہے لیکن اس کو اس حق کا بے جا استعمال کرنے سے منع بھی کیا گیا ہے، طلاق کے واقع ہونے میں بیوی کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی --- خلع بھی طلاق ہی کی ایک صورت ہے ؛ البتہ یہ صورت شوہر اور بیوی کی باہمی رضامندی سے انجام پاتی ہے، ان کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے کہ بیوی اپنے کسی حق سے دستبردار ہوجائے گی یا شوہر کو کچھ ادا کرے گی اور اس کے عوض شوہر طلاق دے گا، خلع کے لئے کسی خاص سبب کا پایا جانا ضروری نہیں، اگر بیوی کی طرف سے کسی زیادتی کے بغیر خلع کی نوبت آئی ہو تو شوہر کے لئے بیوی سے کوئی معاوضہ لینا یا اس سے اس کا کوئی حق معاف کروانا مکروہ ہے، اور عورت کی طرف سے زیادتی ہو تب بھی اس سے زیادہ وصول کرنا جو اس نے مہر کے طورپر دیا ہے، کراہت سے خالی نہیں ہے۔
لیکن بہر حال خلع، طلاق ہی کی ایک صورت ہے ؛ اس لئے بنیادی طورپر خلع کے لئے شوہر کی اجازت ضروری ہے، اس کا ذکر خود قرآن مجید میں موجود ہے، ( البقرۃ : ۲۲۹) بعض لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ جیسے مرد کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے، اسی طرح عورت کو خلع دینے کا ؛ البتہ امام مالکؒ کے نزدیک اگر اختلاف اور نفرت اتنی شدت اختیار کرگئی ہو کہ عورت کسی بھی قیمت پر اس مرد کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں ہو تو قاضی کے لئے گنجائش ہے کہ وہ ان کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے دو ورنہ کم سے کم ایک حَکم مقرر کردے ، اگر یہ دونوں کے خاندان سے ہوں تو بہتر ہے ؛ ورنہ وہ اپنی طرف سے کسی شخص کو حَکم کی ذمہ داری سونپ سکتا ہے ، یہ حکم دونوں میں مفاہمت کی کوشش کرے گا اور اگر مفاہمت نہ ہوسکے اور اس کا احساس ہو کہ اگرچہ مرد یا عورت کی طرف سے کوئی ایسی زیادتی نہیں ہوئی ہے ، جس کی وجہ سے نکاح فسخ کیا جاتا ہے ؛ لیکن باہمی نفرت اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ اس رشتہ کو باقی رکھنے میں نکاح کے اصل مقاصد فوت ہوجائیں گے تو ایسی صورت میں قاضی حکم کی رائے پر اپنی طرف سے خلع کا فیصلہ کرسکتا ہے ، یہ ایک استثنائی صورت ہے اور ہندوستان میں بھی دارالقضاء احتیاط کے ساتھ اس پر عمل کرتے ہیں ۔
رشتۂ نکاح کو ختم کرنے کی تیسری صورت ’ فسخ و تفریق ‘ ہے ، بعض صورتوں میں تو نکاح آپ سے آپ فسخ ہوجاتا ہے اور اکثر صورتوں میں قاضی کے ذریعہ اسباب فسخ کے ثابت ہونے پر نکاح فسخ کیا جاتا ہے ، قاضی سے مراد نکاح پڑھانے والے حضرات نہیں ہیں ، ان کو تو برطانوی عہد میں قاضی کا نام دے دیا گیا اور پھر یہی نام مختلف علاقوں میں مروج ہوگیا ، فقہاء کی اصطلاح کے اعتبار سے قاضی وہ ہے جسے مسلمانوں کے باہمی نزاعات کو حل کرنے کے لئے فیصلہ کرنے پر مامور کیا گیا ہو ، بنیادی طورپر اس کی دو ذمہ داریاں ہیں ، ایک یہ کہ جو نزاعی معاملہ اس کے سامنے پیش کیا گیا ہو ، وہ اس کی تحقیق کرے ، دوسرے : اس پر شریعت کے احکام جاری کرے ، مفتی اور قاضی میں یہی فرق ہے کہ مفتی کا کام واقعہ کی تحقیق نہیں ہے ؛ بلکہ اس کی ذمہ داری صرف اس قدر ہے کہ اس سے جو سوال کیا جائے اس کا جواب دے دے ؛ اسی لئے فقہاء کی اصطلاح میں اس کی ذمہ داری حکم شرعی کے بارے میں ’’ اخبار ‘‘ یعنی خبر دینا ہے ، جب کہ قاضی کی ذمہ داری واقعہ کی تحقیق اور اس پر حکم شرعی کی تطبیق کے ذریعہ فریقین پر اس کو لازم قرار دینا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کسی شخص کو منصب قضاء سونپنے کا اختیار کس کو ہے ؟ تو اس سلسلہ میں دو حالتیں ہیں : ایک یہ کہ وہ مسلم ملک ہو اور زمام اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو ، وہاں قاضی مقرر کرنے کا حق سربراہ ملک کو ہے ، دوسری صورت یہ ہے کہ مسلمان اقلیت میں ہوں اور حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہ ہو تو یہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ حکومت سے معاشرتی زندگی سے متعلق مقدمات کے فیصلہ کے لئے کسی امیر کا مطالبہ کریں ، جو ان کے لئے قاضی مقرر کرے ، اگر حکومت امیر مقرر کرنے کو تیار نہ ہو تو مسلمان قاضی کے تقرر کا مطالبہ کریں ، اگر حکومت ایسا کردے تو وہی قاضی ایسے معاملات کا فیصلہ کرے گا اور وہ شرعاً نافذ ہوگا ؛ اسی لئے ہندوستان میں جب انفساخ نکاح مسلم قانون ۱۹۳۹ء میں بنا تو اس میں علماء کی طرف سے یہ دفعہ بھی تجویز کی گئی تھی کہ مسلمانوں کے اس طرح کے مقدمات کے فیصلے کے لئے کوئی مسلمان قاضی یا جج مقرر کئے جائیں ؛ لیکن افسوس کہ بعض آوارہ خیال نام نہاد مسلمان دانشوروں کی مخالفت کی وجہ سے یہ دفعہ شامل نہیں ہوسکی ، ورنہ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہوتا ۔
اگر حکومت کی طرف سے یہ سہولت فراہم نہ کی جائے تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی کو اپنا امیر منتخب کرلیں ، وہ قاضی کا تقرر کرے اور وہ قاضی ان معاملات کا فیصلہ کرے ، مسلمان غیر مسلم ملکوں میں بھی جن پر عمل کرنے کے پابند ہیں ؛ البتہ امیر سے تنظیموں اور جماعتوں کے سربراہان مراد نہیں ہیں ؛ کیوںکہ وہ تو صرف اپنی جماعت کے یاتنظیم کے سربراہ ہیں ، امیر سے مراد وہ شخص ہے جس کو بحیثیت مجموعی اُمت کے تمام گروہوں نے مل کر منتخب کیا ہو ، فقہاء احناف کی کتابوں میں امارت اورقضاء کے اس نظام کی صراحت و وضاحت موجود ہے اور علماء ہند میں خاص کر حضرت مولانا عبد الصمد رحمانیؒ کی کتاب ’ مسئلہ امارت ‘ اس سلسلہ میں ایک بنیادی کتاب کا درجہ رکھتی ہے ، ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں امارت شرعی کا نظام اسی اُصول پر قائم ہوا ہے اور اس کے تحت قاضی مقرر ہیں ، خاص کر بہار ، اُڑیسہ ، جھارکھنڈ اور شمال مشرق کی سات ریاستوں میں دارالقضاء کا جال بچھادیا گیا ہے اور مسلمان بکثرت اس سے رُجوع کرتے ہیں ۔
ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں امارت کا ایسا نظام قائم نہ ہوسکا ، جس میں مسلمانوں کے تمام حلقے شامل ہوں ؛ لیکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ایک ایسا ادارہ ہے جس میں مسلمانوں کا سواد اعظم اکٹھا ہے اور جو صرف کسی ایک تنظیم کی نمائندگی نہیں کرتا ؛ بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی نمائندگی کرتا ہے ؛ اس لئے یہ بات طے کی گئی کہ بورڈ کا صدر ان صوبوں میں قاضی کا تقرر کرے ، جہاں اس نوعیت کی امارت نہیں پائی جاتی ہے ؛ اس لئے جن صوبوں میں نظام امارت قائم نہیں ہے ، وہاں بورڈ کے تحت قاضی کا تقرر درست ہے ۔
فقہاء مالکیہ کے نزدیک جہاں قاضی موجود نہ ہو ، وہاں ’ مجلس المسلمین ‘ یعنی چند اہل علم کی مجلس اس کام کو انجام دے سکتی ہے ؛ لیکن ان کے نزدیک بھی جہاں قاضی موجود ہو ، وہاں ایسی کسی مجلس کو فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے ، ہمارے بعض بزرگوں نے اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ ہندوستان میں قاضی کو اپنے فیصلے نافذ کرنے کی طاقت نہیں ہے ، ہندوستان جیسے ملک میں مجلس المسلمین کے ذریعہ فیصلہ کرنے کو بہتر سمجھا ؛ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قوت تنفیذ حاصل نہ ہونے کی دشواری اگر دارالقضاء کے ساتھ ہے تو یہی دشواری مجلس المسلمین کو بھی درپیش ہے ، پھر یہ کہ مالکیہ کے یہاں مجلس المسلمین کی حیثیت کسی مستقل ادارہ کی نہیں ہے ؛ بلکہ ایک وقتی اور عارضی مجلس کی ہے ، جو بنے اور معاملہ طے ہونے کے بعد ختم ہوجائے ، وقتی طورپر بننے والی ایسی مجلسیں سماج میں پیش آنے والے متواتر مسائل کو حل کرسکیں ، یہ دشوار ہے ؛ اسی لئے بعض مؤقر ملی تنظیموں نے شرعی پنچایت یا محکمۂ شرعیہ کے نام سے مجلس المسلمین کے تصور کو اختیار کیا ؛ لیکن عملاً اس کی شکل دارالقضاء کی ہی مماثل ہوگئی ہے اور وہ ایک مستقل ادارہ کی حیثیت سے کام کرتا ہے ، فرق صرف یہ ہوا کہ قاضی تنہا فیصلہ کرتا ہے ؛ البتہ حسب ِضرورت دوسرے اہل علم سے بھی مشورہ لے سکتا ہے ، جیساکہ عہد نبوی یا عہد صحابہ اور بعد کے ادوار میں ہوتا رہا ہے اور اس سلسلہ میں فقہاء کی صراحتیں موجود ہیں ، اور مجلس المسلمین میں ایک کمیٹی فیصلہ کرتی ہے ؛ بہرحال اگر معاملات کے فیصلوں کے لئے چند افراد کی کمیٹی ہو اور وہ ذمہ دارانہ طریقہ پر فیصلہ کرے اور کسی ذمہ دار تنظیم یا مسلمانوں کے درمیان معتبر کسی ادارہ یا درسگاہ کے تحت ہو تو یہ بھی دارالقضاء کے موجود نہ ہونے کی صورت میں اس کے متبادل کے طورپر قابل قبول ہوسکتی ہے ، اسی بنیاد پر ہندوستان کی ایک قدیم دینی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے محاکم شرعیہ قائم ہیں ۔
لیکن دارالقضاء ہو یا محکمۂ شرعیہ ، احتیاط اور شرعی اُصولوں کی تکمیل ضروری ہے اور اس سلسلہ میں بعض نہایت ہی افسوس ناک بے احتیاطیاں اور غلط فہمیاں سامنے آرہی ہیں ، اس سلسلہ میں چار اُمور کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے  :
اول یہ کہ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ بات آگئی ہے کہ جس طرح مردوں کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے ، ٹھیک اسی طرح عورتوں کو شریعت نے خلع دینے کا حق دیا ہے ، اس طرح کا خیال ناپختہ علم دانشوروں ہی میں نہیں ؛ بلکہ بعض مسلمان قانون دانوں میں بھی ہے ، یہاں تک کہ بعض اوقات اخبارات میں اشتہار دیا جاتا ہے کہ ’’ میری مؤکلہ فلاں نے اپنے شوہر فلاں ولد فلاں کو خلع دے دیا ہے ‘‘ یہ بالکل قانون شریعت سے ناواقفیت ہے ، خلع کے لئے شوہر کی آمادگی ضروری ہے ؛ البتہ مالکیہ کے نزدیک اس سے ایک صورت مستثنیٰ ہے ، جس میں قاضی حکم کی رائے پر اپنی طرف سے خلع کا فیصلہ کرسکتا ہے ۔
دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ قاضی کا منصب ایسا نہیں ہے کہ انسان اپنے آپ قاضی ہوجائے ، نکاح خواں ہونے کے لئے تو شرعاً کسی کی طرف سے تقرر ضروری نہیں ہے ، عاقدین کی رضامندی سے کوئی بھی شخص ایجاب و قبول کراسکتا ہے ؛ لیکن فسخ نکاح کے لئے کوئی شخص اپنے آپ قاضی نہیں ہوسکتا ، یا مسلمانوں کی کوئی کمیٹی یا کوئی مسجد ، مدرسہ اپنے طورپر کسی کو قاضی مقرر نہیں کرسکتے ، نہ ان صورتوں میں شرعاً وہ شخص قاضی ہوگا اور نہ اس کا فیصلہ نافذ ہوگا --- یہ بات بے حد افسوس ناک ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں بعض انجمنیں اپنے طورپر قاضی مقرر کررہی ہیں اوربعض حضرات تو اتنے ’’ خود مکتفی ‘‘ ہیں کہ وہ خود ہی اپنے کمرے پر قاضی کا بورڈ لگادیتے ہیں ، گویا دارالقضاء نہ ہوا ، ترکاری کی دُکان ہوگئی ، جس کا جی چاہا ، کھول کر بیٹھ گیا ، ہندوستان کے ایک ساحلی شہر میں اس طرح کے قاضیوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ اندیشہ ہے کہ مستقبل میں شاید مدعی اور مدعا علیہ کی تعداد کم ہوجائے اور قاضیوں کی بڑھ جائے ، اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخص چیف قاضی ہے ، یہ نہایت جسارت انگیز حرکت ہے ، ایسے لوگوں کا نکاح کے فسخ ہونے کا فیصلہ کرنا سخت گناہ ہے اور اگر وہ کسی عورت کے نکاح فسخ ہونے کا فیصلہ کر بھی دیں ، تب بھی نکاح فسخ نہیں ہوگا اور عورت کے لئے شرعاً دوسرا نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ، سوچئے ، یہ کس قدر گناہ ، اللہ تعالیٰ سے بے خوفی اور آخرت کی جواب دہی سے لاپرواہی کی بات ہے ! مسلم سماج کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ قاضی بن جانے والے ایسے دھوکہ بازوں کو روکے اورمسلمانوں کے لئے قطعاً جائز نہیں کہ ایسے لوگوں کے پاس اپنا معاملہ لے جائیں ، یہ تو شریعت کے ساتھ ایک مذاق ہے اور اس طرز عمل سے اسلام کا نظام عدل بے وقعت ہوکر رہ جائے گی ۔
تیسرے : شرعی پنچایت یا محاکم شرعیہ کے نظام میں بھی باضابطگی ضروری ہے ، باضابطگی سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی معتبر دینی تنظیم یا علاقہ کی بڑی دینی درسگاہ کے زیر انتظام کام کرتی ہو اور بطور خود کچھ لوگوں نے فیصلہ کرنا نہ شروع کردیا ہو ؛ بلکہ دیانت و تقویٰ ، صلاحیت اور معاملہ فہمی کی بنیاد پر کسی ذمہ دار ادارہ نے تقرر کیا ہو اور اگر اس کے فیصلہ پر اطمینان نہ ہوتو مرافعہ کی گنجائش ہو ، کسی منضبط نظام کے بغیر اپنے طورپر جو لوگ محکمۂ شرعیہ قائم کررہے ہیں ، ان کا حال بھی خود ساختہ قاضیوں سے بہت مختلف نہیں ہے ، مثلاً اسی طرح کی ایک مجلس جو ایک اور نام سے قائم ہے ، اس کا ایک فیصلہ اس حقیر کے سامنے آیا ، جس میں بیوی نے اپنے شوہر کے خلاف خلافِ فطرت فعل کا دعویٰ کیا تھا ، اگر یہ دعویٰ ثابت ہوجائے تو فسخ نکاح کی گنجائش موجود ہے ؛ لیکن اس ادارہ نے شوہر کے نام نوٹس جاری کی کہ آپ فلاں تاریخ کو حاضر ہوکر لعان کریں اور چوںکہ شوہر لعان کے لئے حاضر نہیں ہوا یا اس نے حاضر ہونے سے انکار کردیا ؛ اس لئے اس کا نکاح فسخ کردیا گیا ، اس کی صراحت خود فیصلہ میں موجود ہے ، لعان ایک شرعی اصطلاح ہے ، یہ اس صورت میں ہے جب کہ شوہر بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور بیوی کو اس سے انکار ہو ، نیز وہاں اسلامی حکومت قائم ہو اور شرعی حدود جاری ہوتی ہوں تو اس خاص صورت میں تہمت اور زنا کی شرعی سزا کی جگہ دونوں سے لعان کرایا جائے گا ، اب اس جہالت پر غور کیجئے کہ ایک تو یہ وہ معاملہ ہے ہی نہیں ، جس میں شرعاً لعان کرایا جاتا ہے ، دوسرے : ہندوستان میں اسلامی حکومت نہیں ہے ، جہاں لعان کا حکم جاری ہوتا ہے ، اسی طرح کئی ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں ، جن میں صرف بیوی کی ناپسندیدگی کی وجہ سے فسخ نکاح کا فیصلہ کردیا گیا --- اسی طرح ایک شہر کا یہ معاملہ سامنے آیا کہ فریقین ایک دوسری ریاست کے رہنے والے ہیں ، جب مدعیہ کو اپنی ریاست میں دارالقضاء سے فسخ نکاح کی ضمانت حاصل نہیں ہوئی تو اس نے ایک دوسری ریاست میں قائم اسی طرح کے محکمۂ شرعیہ میں مقدمہ دائر کیا اور وہاں اس کو فسخ نکاح کی ڈگری دے دی گئی ، ظاہر ہے کہ یہ بات شرعی اُصولوں کے خلاف ہے اور کام کرنے والوں کی دیانت کو مشکوک کرتی ہے ، نیز اس سے افرا تفری اور فساد کا دروازہ کھل سکتا ہے ، قاضی کا منصب تو ایک متفق علیہ شرعی منصب ہے ، پھر بھی وہ اسی علاقہ کے مقدمات کو لے سکتا ہے ، جس کی ذمہ داری اس کو سونپی گئی ہے تومحکمۂ شرعیہ کے لئے اس بات کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ ہو تو کسی اور جگہ اور مقدمہ کسی دوسری جگہ کا لے لے ؟ یہ بددیانتی یا تکمیل شوق کا عمل توہوسکتا ہے ، شرعاً اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ۔
چوتھی قابل توجہ بات عام مسلمانوں کے لئے ہے کہ انھیں اپنے مقدمات فیصلہ کے لئے شرعی معتبر اداروں میں لے جانے چاہئیں ، جن میں فقہ و فتاویٰ سے واقف لوگ قضا کا کام کرتے ہوں ، واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق کی جاتی ہو اور شرعی اُصولوں کے مطابق فیصلے کئے جاتے ہوں ، سرکاری عدالتوں میں جانے سے بچنا چاہئے ؛ کیوںکہ ان عدالتوں پر مقدمات کی بڑی تعداد کا بوجھ ہے ، اس کی وجہ سے فیصلہ میں بے حد تاخیر ہوجاتی ہے ، فریقین کا بڑا سرمایہ خرچ ہوتا ہے ، جو محض مال کا ضیاع ہے ، اکثر و بیشتر اپنی غلطی کو چھپانے کے لئے لوگ حلف اُٹھاکر جھوٹ بولتے ہیں ، گویا دنیا کا بھی ضیاع ہے اور دین کا بھی ، مال بھی خرچ ہوتا ہے ، عزت و وقار کی بھی نیلامی ہوتی ہے ، اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ فسخ نکاح کے مقدمات میں شرعی اعتبار سے فیصلہ کے درست ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان قاضی ہی نے فیصلہ کیا ہو ؛ کیوںکہ یہ فیصلے اس حیثیت سے کئے جاتے ہیں کہ قاضی کو عام مسلمانوں پر ولایت حاصل ہے اور شرعاً مسلمانوں پر مسلمان ہی کی ولایت حاصل ہوسکتی ہے ۔
غرض کہ خود ساختہ قاضی اور خود ساختہ مجلس فیصلہ شرعی اعتبار سے قطعاً درست نہیں ہے ، نہ ایسے لوگوں کا فیصلہ کرنا درست ہے نہ ان کے پاس معاملات کو لے جانا جائز ہے اور نہ ان کے فیصلوں کا کوئی اعتبار ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ نظام قضاء کو ملک کے کونے کونے تک پہنچادیا جائے ، مسلمانوں میں مزاج پیدا کیا جائے کہ وہ اپنے معاملات کو دارالقضاء میں پیش کریں اور اس کے فیصلہ پر عمل کریں ، خواہ ان کی خواہش اور مفاد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ، نیز دارالقضاء یا محاکم شرعیہ کے نظام کو زیادہ سے زیادہ پختہ اور منضبط بنایا جائے اور خود ساختہ قاضیوں اور فیصلہ کمیٹیوں سے مسلمانوں کو بچایا جائے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

No comments:

Post a Comment