حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کے لئے دعائے مغفرت؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللٰہ وبرکاتہ......
ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر بت پرست تھے ...... مشرک تھے تو حضرت ابراہیم نے انکے لئے مغفرت کی دعاء کیوں مانگی؟
ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر بت پرست تھے ...... مشرک تھے تو حضرت ابراہیم نے انکے لئے مغفرت کی دعاء کیوں مانگی؟
شرح و بسط کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں نوازش ہوگی
بندہ خدا۔ قطر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (41)
بندہ خدا۔ قطر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (41)
یہ دعا غالباً اپنے والد کے حالت کفر پر مرنے کی خبر موصول ہونے سے پہلے کی۔ تو مطلب یہ ہوگا کہ اسے اسلام کی ہدایت کر کے قیامت کے دن مغفرت کا مستحق بنا دے۔ اور اگر مرنے کی خبر ملنے کے بعد دعا کی ہے تو شاید اس وقت تک خدا تعالیٰ نے آپ کو مطلع نہیں کیا ہوگا کہ کافر کی مغفرت نہیں ہوگی۔ عقلاً کافر کی مغفرت محال نہیں، سمعاً ممتنع ہے۔ سو اس کا علم سمع پر موقوف ہوگا اور قبل از سمع امکان عقلی معتبر رہے گا۔ بعض شیعہ نے یہ لکھا ہے کہ قرآن کریم میں ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کو جو کافر کہا گیا ہے وہ ان کے حقیقی باپ نہ تھے بلکہ چچا وغیرہ کوئی دوسرے خاندان کے بڑے تھے۔ (تفسیرعثمانی)۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے لئے اور مومنین کے حق میں دعاء مغفرت کرنا تو ایک صاف اور سیدھی سی بات ہے البتہ شبہ اس میں پیدا ہوتا ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے اپنے کافر والد کے حق میں دعائے مغفرت کیسے کردی؟ سو اگر یہ دعاء آپ (علیہ السلام) نے ان کی زندگی ہی میں کی تھی جب تو آپ (علیہ السلام) کی مراد یہی ہوگی کہ انہیں توفیق ہدایت دے کر ان کی مغفرت کا سامان کردیاجائے۔ اور اگر بعد وفات یہ دعا کی تھی تو یہ دعاء ان کی ایمان کے ساتھ (علم الہی میں) مشروط ہوگی، یعنی اے پروردگار اگر تیرے علم میں ان کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہے تو ان کی مغفرت کردے۔ (آیت) ”اغفرلی“۔ غفر کے معنی ہیں رحمت الہی کا ڈھانپ لینا، اور اس کی حاجت جس طرح عاصی کو رہتی ہے، معصوم کو بھی رہتی ہے اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے حق میں طلب مغفرت کرنے سے ان کا غیرمعصوم ہونا ہرگز لازم نہیں آتا۔ (تفسیر ماجدی)
ربنا اغفررَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والدین مسلمان تھے۔ آذر آپ کا چچا تھا اور تارخ آپ کے باپ کا نام تھا۔ تفصیل سورة بقرہ میں گذر چکی ہے۔ چونکہ 'اب' کا لفظ چچا کیلئے بھی بولا جاتا ہے‘ اس لئے اگر وَالِدَيَّ کی جگہ اَبَوَیَّ کا لفظ استعمال کیا جاتا تو خیال ہوسکتا کہ شاید حضرت نے آذر کیلئے بھی دعائے مغفرت کی تھی (باوجودیکہ آذر مشرک تھا اور مشرک ناقابل مغفرت ہے) اس خیال کو دفع کرنے کیلئے وَالِدیَّ فرمایا، یعنی حقیقی ماں اور حقیقی باپ اور بالفرض اگر آذر کو (حقیقی) باپ مان بھی لیا جائے تو اس کیلئے دعائے مغفرت کی وجہ خود ہی اللہ نے بیان فرمادی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باپ کیلئے دعائے مغفرت صرف اس وعدہ کی وجہ سے کی تھی کہ اس سے وعدہ کرلیا تھا ‘ لیکن جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے اور بیزاری کا اظہار کردیا۔ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ الاَّ عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِلّٰہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ۔
وللمؤمنین یوم یقوم الحساب اور (تمام) ایمان والوں کو جس روز حساب برپا ہوگا۔ برپا ہونے سے مراد ہے: موجود ہونا یا ظاہر ہونا۔ یہ معنی قیام علی الرجل (پاؤں پر کھڑا ہونا) سے مستعار لیا گیا ہے۔ محاورے میں بولا جاتا ہے:
قَامَتِ الحربُ عَلٰی ساقٍ' لڑائی اپنی پنڈلی پر کھڑی ہوگئی (یعنی برپا ہوگئی) یا 'الحسابُ سے پہلے لفظ 'اَہْلُ' محذوف ہے، یعنی جس روز اہل حساب کھڑے ہوں گے۔ جیسے آیت 'واسْلِ الْقَرْیَۃَ' اور بستی سے پوچھ لو، یعنی بستی والوں سے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ کھڑے ہونے کی نسبت حساب کی طرف مجازی ہے (پہلی صورت میں مجاز فی الحذف ہوگا اور اس صورت میں مجاز فی الاسناد) یعنی لوگ حساب کیلئے کھڑے ہوں گے۔ (مظہری)
وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ الاَّ عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِلّٰہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ۔
وللمؤمنین یوم یقوم الحساب اور (تمام) ایمان والوں کو جس روز حساب برپا ہوگا۔ برپا ہونے سے مراد ہے: موجود ہونا یا ظاہر ہونا۔ یہ معنی قیام علی الرجل (پاؤں پر کھڑا ہونا) سے مستعار لیا گیا ہے۔ محاورے میں بولا جاتا ہے:
قَامَتِ الحربُ عَلٰی ساقٍ' لڑائی اپنی پنڈلی پر کھڑی ہوگئی (یعنی برپا ہوگئی) یا 'الحسابُ سے پہلے لفظ 'اَہْلُ' محذوف ہے، یعنی جس روز اہل حساب کھڑے ہوں گے۔ جیسے آیت 'واسْلِ الْقَرْیَۃَ' اور بستی سے پوچھ لو، یعنی بستی والوں سے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ کھڑے ہونے کی نسبت حساب کی طرف مجازی ہے (پہلی صورت میں مجاز فی الحذف ہوگا اور اس صورت میں مجاز فی الاسناد) یعنی لوگ حساب کیلئے کھڑے ہوں گے۔ (مظہری)
اس میں والدین کے لئے بھی مغفرت کی دعاء فرمائی حالانکہ والد یعنی آذر کا کافر ہونا قرآن میں مذکور ہے ہوسکتا ہے کہ یہ دعاء اس وقت کی ہو جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کافروں کی سفارش اور دعائے مغفرت سے منع نہیں کیا گیا تھا جیسے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے (آیت)
وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۔ (معارف القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۔ (معارف القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment