سیاہ خضاب کی شرعی حیثیت
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر یا ڈاڑھی کے سفید بالوں کو رنگنے کا حکم فرمایا جو استحباب پر محمول ہے۔ حدیث میں سیاہ خضاب سے اجتنا ب کا ذکر ہے۔؟سیاہ خضاب کا کیا حکم ہے؟۔بطور تمہید چند اصول و ضوابط ذہن نشین رکھئے۔
1۔ قرآن و سنت کا وہی فہم معتبرہے جو سلف صالحین،یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے لیا جائے۔ سلف صالحین ساری امت سے بڑھ کر قرآن وسنت کو سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے تھے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن وسنت کا کوئی حکم فرضیت کے لیے ہو اور ائمہ سنت اسے مستحب سمجھتے رہے ہوں اور شریعت کی کوئی ممانعت حرمت کے لیے ہو اور سلف اسے خلاف اولیٰ کہتے رہے ہوں۔ اسی لئے بعد والوں کا فہم اسلاف ِامت کے خلاف ہو تو مردود ہوگا۔ زبانِ نبوی سے اسلافِ امت کو خیرالقرون کا جو معززلقب ملا ہے، اس کا یہی تقاضا ہے۔
2۔ حکم فرضیت کے لئے ہوتا ہے، الا یہ کہ کوئی قرینہ اسے استحباب کی طرف لے جائے اور ممانعت حرمت کے لئے ہوتی ہے، الا یہ کہ کوئی قرینہ اسے کراہت پر محمول کردے۔
3۔ دلیل صرف کتاب و سنت ہے، البتہ کتاب و سنت کو سمجھنے کے لئے جس طرح لغت اور دیگر علوم و فنون کی ضرورت ہے، اس سے کہیں بڑھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین رحمہم اللہ کے علم و فہم کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ کسی مسلمان زیبا نہیں کہ وہ نصوصِ شرعیہ کو سمجھنے کے لئے اہل لغت کی بات تو مانے، لیکن متقدمین ائمہ حدیث کی تصریحات کو نظر انداز کردے۔ بعض لوگ لغت اور اصولِ فقہ جیسے علوم سے کتاب و سنت کے اوامر و نواہی کا درجہ متعین کرنے کو عین شریعت سمجھتے ہیں لیکن صحابہ و تابعین اور ائمہ مسلمین کے فہم و عمل کے ذریعے ایسا کرنے کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہیں۔ یہ انصاف نہیں۔
منہ جاہل حدیث یہ ہے کہ کتاب و سنت کے وہی معانی و مفاہیم معتبر ہیں جو زمانہ مشہود لہا با لخیرمیںسمجھ لئے گئے۔ جس حکم کو اسلاف درجہ فرض پہ رکھتے اسے اہل حدیث بھی فرض کا درجہ دیتے ہیں اور جو اسلاف کے ہاںمستحب قرار پاتا، اسے اہل حدیث بھی مستحب سمجھتے ہیں۔ جس ممانعت کو اسلاف نے حرام سمجھا اہل حدیث نے بھی حرام سمجھا اور جسے ائمہ صرف خلاف ِاولیٰ فرماتے، اہل حدیث بھی خلاف ِاولیٰ ہی کہتے۔ ہم نہ تو سلف سے ایک قدم آگے بڑھے، نہ ایک قدم پیچھے رہے۔ یہی مسلک اہل حدیث ہے۔
اس تمہید کے بعد ہمارے لئے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شریعت ِاسلامیہ میں سیاہ خضاب لگانے کی گنجائش موجود ہے۔محدثین کا فہم و عمل یہی بتاتا ہے۔
مرفوع احادیث اور ان کا صحیح معنیٰ و مفہوم
حدیث نمبر 1: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ فتح مکہ والے دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ِگرامی سیدنا ابوقحافہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے۔ ان کے سر اور ڈاڑھی کے بال بالکل سفید تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
'غَیِّرُوا ھٰذَا بِشَيْئٍ، وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ'
''سفیدی کو رنگ دیں، البتہ (بوڑھے کو) سیاہ رنگ دینے سے اجتناب کریں۔''
(صحیح مسلم: 2/991، ح : 2102)
اس حدیث میں دو حکم ہیں اور دونوں استحباب پر محمول ہیں، ایک بال رنگنے کا اور دوسرا سیاہ خضاب سے بچنے کا۔ یہ حکم ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کے انتہائی بڑھاپے کی بنا پر ارشاد ہوا، ان کے وجود پر سفیدی اس قدر غالب تھی کہ سیاہ رنگ انہیں کوئی فائدہ نہ دیتا۔
جس طرح بہت سارے اسلاف بالوں کو نہیں رنگتے تھے اور ان کے فہم و عمل کی بنا پر بالوں کو رنگنا فرض نہیں، اسی طرح اسلاف سیاہ خضاب لگاتے اور اس کی اجازت بھی دیتے تھے، لہٰذا اس بنا پہ سیاہ خضاب حرام نہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں؛
اِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَأَی عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَقَدْ سَوَّدَ شَیْبَہُ، فَہُوَ مِثْلُ جَنَاحِ الْغُرَابِ، فَقَالَ: مَا ہَذَا یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أُحِبُّ أَنْ تَرَی فِیَّ بَقِیَّۃً، فَلَمْ یَنْہَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ ذَلِکَ، وَلَمْ یَعِبْہُ عَلَیْہِ.
''سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے سیاہ خضاب لگا رکھا ہے، جیسا کہ کوئے کے پر، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمانے لگے،
ابو عبداللہ! یہ کیا؟
تو سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرا لمومنین! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے جوان دیکھیں،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے انہیں منع کیانہ معیوب جانا۔''
(المستد رک علی الصحیحین للحاکم: 3/454، وسندہ، حسنٌ)
دیکھئے ایک عمل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے متبع سنت خلیفہ کے سامنے آتا ہے، وہ اس پر متعجب ہوکر سوال تو کرتے ہیں، مگر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد خاموشی اختیار کرتے ہیں، انکار نہ تردید اور وضاحت بھی کیا ہے؟ بوڑھا نظر نہ آؤں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اس عمل پر خاموشی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ آپ بھی سیاہ خضاب جائز سمجھتے تھے۔
حدیث نمبر 2: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
1۔ قرآن و سنت کا وہی فہم معتبرہے جو سلف صالحین،یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے لیا جائے۔ سلف صالحین ساری امت سے بڑھ کر قرآن وسنت کو سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے تھے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن وسنت کا کوئی حکم فرضیت کے لیے ہو اور ائمہ سنت اسے مستحب سمجھتے رہے ہوں اور شریعت کی کوئی ممانعت حرمت کے لیے ہو اور سلف اسے خلاف اولیٰ کہتے رہے ہوں۔ اسی لئے بعد والوں کا فہم اسلاف ِامت کے خلاف ہو تو مردود ہوگا۔ زبانِ نبوی سے اسلافِ امت کو خیرالقرون کا جو معززلقب ملا ہے، اس کا یہی تقاضا ہے۔
2۔ حکم فرضیت کے لئے ہوتا ہے، الا یہ کہ کوئی قرینہ اسے استحباب کی طرف لے جائے اور ممانعت حرمت کے لئے ہوتی ہے، الا یہ کہ کوئی قرینہ اسے کراہت پر محمول کردے۔
3۔ دلیل صرف کتاب و سنت ہے، البتہ کتاب و سنت کو سمجھنے کے لئے جس طرح لغت اور دیگر علوم و فنون کی ضرورت ہے، اس سے کہیں بڑھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین رحمہم اللہ کے علم و فہم کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ کسی مسلمان زیبا نہیں کہ وہ نصوصِ شرعیہ کو سمجھنے کے لئے اہل لغت کی بات تو مانے، لیکن متقدمین ائمہ حدیث کی تصریحات کو نظر انداز کردے۔ بعض لوگ لغت اور اصولِ فقہ جیسے علوم سے کتاب و سنت کے اوامر و نواہی کا درجہ متعین کرنے کو عین شریعت سمجھتے ہیں لیکن صحابہ و تابعین اور ائمہ مسلمین کے فہم و عمل کے ذریعے ایسا کرنے کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہیں۔ یہ انصاف نہیں۔
منہ جاہل حدیث یہ ہے کہ کتاب و سنت کے وہی معانی و مفاہیم معتبر ہیں جو زمانہ مشہود لہا با لخیرمیںسمجھ لئے گئے۔ جس حکم کو اسلاف درجہ فرض پہ رکھتے اسے اہل حدیث بھی فرض کا درجہ دیتے ہیں اور جو اسلاف کے ہاںمستحب قرار پاتا، اسے اہل حدیث بھی مستحب سمجھتے ہیں۔ جس ممانعت کو اسلاف نے حرام سمجھا اہل حدیث نے بھی حرام سمجھا اور جسے ائمہ صرف خلاف ِاولیٰ فرماتے، اہل حدیث بھی خلاف ِاولیٰ ہی کہتے۔ ہم نہ تو سلف سے ایک قدم آگے بڑھے، نہ ایک قدم پیچھے رہے۔ یہی مسلک اہل حدیث ہے۔
اس تمہید کے بعد ہمارے لئے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شریعت ِاسلامیہ میں سیاہ خضاب لگانے کی گنجائش موجود ہے۔محدثین کا فہم و عمل یہی بتاتا ہے۔
مرفوع احادیث اور ان کا صحیح معنیٰ و مفہوم
حدیث نمبر 1: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ فتح مکہ والے دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ِگرامی سیدنا ابوقحافہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے۔ ان کے سر اور ڈاڑھی کے بال بالکل سفید تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
'غَیِّرُوا ھٰذَا بِشَيْئٍ، وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ'
''سفیدی کو رنگ دیں، البتہ (بوڑھے کو) سیاہ رنگ دینے سے اجتناب کریں۔''
(صحیح مسلم: 2/991، ح : 2102)
اس حدیث میں دو حکم ہیں اور دونوں استحباب پر محمول ہیں، ایک بال رنگنے کا اور دوسرا سیاہ خضاب سے بچنے کا۔ یہ حکم ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کے انتہائی بڑھاپے کی بنا پر ارشاد ہوا، ان کے وجود پر سفیدی اس قدر غالب تھی کہ سیاہ رنگ انہیں کوئی فائدہ نہ دیتا۔
جس طرح بہت سارے اسلاف بالوں کو نہیں رنگتے تھے اور ان کے فہم و عمل کی بنا پر بالوں کو رنگنا فرض نہیں، اسی طرح اسلاف سیاہ خضاب لگاتے اور اس کی اجازت بھی دیتے تھے، لہٰذا اس بنا پہ سیاہ خضاب حرام نہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں؛
اِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رَأَی عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَقَدْ سَوَّدَ شَیْبَہُ، فَہُوَ مِثْلُ جَنَاحِ الْغُرَابِ، فَقَالَ: مَا ہَذَا یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أُحِبُّ أَنْ تَرَی فِیَّ بَقِیَّۃً، فَلَمْ یَنْہَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ ذَلِکَ، وَلَمْ یَعِبْہُ عَلَیْہِ.
''سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے سیاہ خضاب لگا رکھا ہے، جیسا کہ کوئے کے پر، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمانے لگے،
ابو عبداللہ! یہ کیا؟
تو سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرا لمومنین! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے جوان دیکھیں،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے انہیں منع کیانہ معیوب جانا۔''
(المستد رک علی الصحیحین للحاکم: 3/454، وسندہ، حسنٌ)
دیکھئے ایک عمل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے متبع سنت خلیفہ کے سامنے آتا ہے، وہ اس پر متعجب ہوکر سوال تو کرتے ہیں، مگر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد خاموشی اختیار کرتے ہیں، انکار نہ تردید اور وضاحت بھی کیا ہے؟ بوڑھا نظر نہ آؤں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اس عمل پر خاموشی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ آپ بھی سیاہ خضاب جائز سمجھتے تھے۔
حدیث نمبر 2: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'یَکُونُ قَوْمٌ یَخْضِبُونَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِالسَّوَادِ، کَحَوَاصِلِ الْحَمَامِ، لَا یَرِیحُونَ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ' .
''آخری زمانہ میں ایک قوم کبوتر کے پوٹے جیسا سیاہ خضاب لگائے گی۔ وہ جنت کی خوشبوبھی نہیں پائے گی۔''
(سنن أبي داو،د : 4213، سنن النسائي : 8/138، ح : 5078، مسند الإمام أحمد : 1/273، المعجم الکبیر للطبراني : 12/413، التاریخ الکبیر لابن أبي خیثمۃ : 909، المختارۃ للضیاء المقدسي : 10/233، ح : 244، شرح السنۃ للبغوي : 3180، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ . ''یہ حدیث حسن غریب ہے۔''
(سیر أعلام النبلاء : 4/339)
حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ''جید''کہا ہے۔
(تخریج إحیاء علوم الدین : 1/143)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ''قوی'' قرار دیا ہے۔ (فتح الباري : 6/499)
اس کے راوی عبد الکریم جزری کو حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے عبد الکریم بن ابو المخارق سمجھ کر جرح کی ہے۔(الموضوعات : 3/55)
حالانکہ ''صحیح'' سندوں میں عبد الکریم کے جزری ہونے کی صراحت موجود ہے۔
فائدہ: مسند اسحاق بن راہویہ (کما في [النکت الظراف علی الأطراف لابن حجر : 4/424] ) میں یہ الفاظ ہیں:
یَخْضِبُونَ لِحَاھُمْ بِالسَّوَادِ . ''وہ اپنی ڈاڑھیوں کو سیاہ خضاب لگائیں گے۔''
بعض لوگ اس حدیث سے سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت پردلیل لیتے ہیں، لیکن ان کا یہ استدلال کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلاف ِامت اور محدثین کرام میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت کا قائل نہیں۔ دوسری یہ کہ اہل علم نے اس حدیث کا یہ معنیٰ و مفہوم بیان نہیں کیا، بلکہ بعض اہل علم نے اس سے سیاہ خضاب کی حرمت پر استدلال کا ردّ کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
1۔ مشہور محدث، امام ابوبکر ابن ابو عاصم رحمہ اللہ (206۔287ھ) فرماتے ہیں:
فَإِنَّہ، لَا دَلَالَۃَ فِیہِ عَلٰی کَرَاھَۃِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ، فِیہِ الْإِخْبَارُ عَنْ قَوْمٍ ھٰذَا صِفَتُھُمْ . ''اس حدیث میں سیاہ خضاب کی کراہت پر کوئی دلیل نہیں۔ اس میں تو ایک قوم کے بارے میں خبر دی گئی ہے، جن کی نشانی یہ ہو گی۔''
(فتح الباري في شرح صحیح البخاري لابن حجر: 10/354)
2۔ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ (238۔321ھ) لکھتے ہیں:
فَعَقَلْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ الْکَرَاھَۃَ إِنَّمَا کَانَتْ لِذٰلِکَ، لِأَنَّہ، أَفْعَالُ قَوْمٍ مَّذْمُومِینَ، لَا لِأَنَّہ، فِي نَفْسِہٖ مَذْمُومٌ، وَقَدْ خَضَبَ نَاسٌ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالسَّوَادِ، مِنْھُمْ عُقْبَۃُ بْنُ عَامِرٍ.
''اس سے سمجھ آتا ہے کہ وہ قوم اپنے حرام و ناجائزا فعال کی بنا پر مذموم ہوگی۔ سیاہ خضاب فی نفسہٖ مذموم نہیں ہے۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ خضاب لگاتے رہے، ان میںعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں.''
''آخری زمانہ میں ایک قوم کبوتر کے پوٹے جیسا سیاہ خضاب لگائے گی۔ وہ جنت کی خوشبوبھی نہیں پائے گی۔''
(سنن أبي داو،د : 4213، سنن النسائي : 8/138، ح : 5078، مسند الإمام أحمد : 1/273، المعجم الکبیر للطبراني : 12/413، التاریخ الکبیر لابن أبي خیثمۃ : 909، المختارۃ للضیاء المقدسي : 10/233، ح : 244، شرح السنۃ للبغوي : 3180، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ . ''یہ حدیث حسن غریب ہے۔''
(سیر أعلام النبلاء : 4/339)
حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ''جید''کہا ہے۔
(تخریج إحیاء علوم الدین : 1/143)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ''قوی'' قرار دیا ہے۔ (فتح الباري : 6/499)
اس کے راوی عبد الکریم جزری کو حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے عبد الکریم بن ابو المخارق سمجھ کر جرح کی ہے۔(الموضوعات : 3/55)
حالانکہ ''صحیح'' سندوں میں عبد الکریم کے جزری ہونے کی صراحت موجود ہے۔
فائدہ: مسند اسحاق بن راہویہ (کما في [النکت الظراف علی الأطراف لابن حجر : 4/424] ) میں یہ الفاظ ہیں:
یَخْضِبُونَ لِحَاھُمْ بِالسَّوَادِ . ''وہ اپنی ڈاڑھیوں کو سیاہ خضاب لگائیں گے۔''
بعض لوگ اس حدیث سے سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت پردلیل لیتے ہیں، لیکن ان کا یہ استدلال کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلاف ِامت اور محدثین کرام میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت کا قائل نہیں۔ دوسری یہ کہ اہل علم نے اس حدیث کا یہ معنیٰ و مفہوم بیان نہیں کیا، بلکہ بعض اہل علم نے اس سے سیاہ خضاب کی حرمت پر استدلال کا ردّ کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
1۔ مشہور محدث، امام ابوبکر ابن ابو عاصم رحمہ اللہ (206۔287ھ) فرماتے ہیں:
فَإِنَّہ، لَا دَلَالَۃَ فِیہِ عَلٰی کَرَاھَۃِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ، فِیہِ الْإِخْبَارُ عَنْ قَوْمٍ ھٰذَا صِفَتُھُمْ . ''اس حدیث میں سیاہ خضاب کی کراہت پر کوئی دلیل نہیں۔ اس میں تو ایک قوم کے بارے میں خبر دی گئی ہے، جن کی نشانی یہ ہو گی۔''
(فتح الباري في شرح صحیح البخاري لابن حجر: 10/354)
2۔ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ (238۔321ھ) لکھتے ہیں:
فَعَقَلْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ الْکَرَاھَۃَ إِنَّمَا کَانَتْ لِذٰلِکَ، لِأَنَّہ، أَفْعَالُ قَوْمٍ مَّذْمُومِینَ، لَا لِأَنَّہ، فِي نَفْسِہٖ مَذْمُومٌ، وَقَدْ خَضَبَ نَاسٌ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالسَّوَادِ، مِنْھُمْ عُقْبَۃُ بْنُ عَامِرٍ.
''اس سے سمجھ آتا ہے کہ وہ قوم اپنے حرام و ناجائزا فعال کی بنا پر مذموم ہوگی۔ سیاہ خضاب فی نفسہٖ مذموم نہیں ہے۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ خضاب لگاتے رہے، ان میںعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں.''
(شرح مشکل الآثار : 9/313، ح : 3699)
3 حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (508۔597ھ) فرماتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّہ، قَدْ خَضَبَ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ بِالسَّوَادِ، مِنْہُمُ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَسَعْدُ ابْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَخَلْقٌ کَثِیرٌ مِّنَ التَّابِعِینَ، وَإِنَّمَا کَرِہَہ، قَوْمٌ لِّمَا فِیہِ مِنَ التَّدْلِیسِ، فَأَمَّا أَنْ یَّرْتَقِيَ إِلٰی دَرَجَۃِ التَّحْرِیمِ، إِذْ لَمْ یُدَلِّسْ، فَیَجِبَ فِیہِ ہٰذَا الْوَعِیدُ، فَلَمْ یَقُلْ بِذٰلِکَ أَحَدٌ، ثُمَّ نَقُولُ عَلٰی تَقْدِیرِ الصِّحَّۃِ : یَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُونَ الْمَعْنٰی : لَا یَرِیحُونَ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ، لِفِعْلٍ یَّصْدُرُ مِنْہُم، أَوِ اعْتِقَادٍ، لَا لِعِلَّۃِ الْخِضَابِ، وَیَکُونُ الْخِضَابُ سِیمَاہُمْ، فَعَرَّفَہُمْ بِالسِّیمَا، کَمَا قَالَ فِي الْخَوَارِجِ : سِیمَاہُمُ التَّحْلِیقُ، وَإِنْ کَانَ تَحْلِیقُ الشَّعْرِ لَیْسَ بِحَرَامٍ .
''آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت نے سیاہ خضاب استعمال کیا ہے۔ ان میں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنھم، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ شامل ہیں۔ بہت سے تابعین کرام بھی ایسا کرتے تھے۔بعض لوگوں نے اسے اس لئے مکروہ سمجھا ہے کہ اس میں ایک قسم کا دھوکا ہے۔ رہی یہ بات کہ سیاہ خضاب کے ذریعے دھوکے کا ارادہ نہ بھی ہو تو اس کا استعمال حرمت کے درجے تک پہنچ جائے اور اس کے استعمال کنندہ پر جنت کی خوشبو سے بھی محرومی کی وعید صادق آجائے، تو یہ بات آج تک کسی اہل علم نے نہیں کہی۔ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ وہ اپنے کسی غلط عقیدے یا عمل کی بنا پر جنت کی خوشبو سے محروم رہیں گے، سیاہ خضاب کی بنا پر نہیں۔ یہ خضاب تو ان کی ایک نشانی ہے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پہچان کے لئے بتلائی ہے، جس طرح خارجیوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ ان کی نشانی سر کے بالوں کو منڈانا ہے۔ اس کے باوجود سر کے بالوں کو منڈانا حرام نہیں۔'' (الموضوعات : 3/55)
ثابت ہوا کہ مذکورہ حدیث میں موجود وعید سیاہ خضاب کی وجہ سے نہیں، ورنہ ''آخری زمانے'' کی قید کا کیا معنیٰ؟ سیاہ خضاب کا استعمال کرنے والے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر ہر دور میں موجود رہے!!!
4 شارحِ ترمذی،علامہ محمدعبد الرحمن، مبارک پوری رحمہ اللہ (1353ھ) فرماتے ہیں:
فَالِاسْتِدْلَالُ بِہٰذَا الْحَدِیثِ عَلٰی کَرَاھَۃِ الْخَضْبِ بِالسَّوَادِ لَیْسَ بِصَحِیحٍ.
''اس حدیث سے سیاہ خضاب کے مکروہ ہونے کی دلیل لینا صحیح نہیں۔'' (تحفۃ الأحوذي : 3/55)
حدیث نمبر 3: سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'إِنَّ أَحْسَنَ مَا غُیِّرَ بِہٖ ھٰذَا الشَّیْبُ الْحِنَّاءُ وَالْکَتَمُ'.
''بڑھاپے کے سفید بالوں کو رنگنے کے لئے بہترین چیز مہندی اور کتم کا آمیزہ ہے۔''
(سنن أبي داود : 4205، مسند الإمام أحمد: 5/147، 150، وسندہ، صحیحٌ)
اس کے راوی سعید بن ایاس جُرَیری آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، البتہ معمر اور عبد الوارث نے ان سے اختلاط سے پہلے احادیث سنی ہیں، لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ (1753)نے ''حسن صحیح'' اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (5474) نے ''صحیح'' قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773۔852ھ) ''کتم'' کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَالْکَتَمُ نَبَاتٌ بِالْیَمَنِ، یُخْرِجُ الصَِّبْغَ أَسْوَدَ، یَمِیلُ إِلَی الْحُمْرَۃِ، وَصَِبْغُ الْحِنَّاءِ أَحْمَرُ، فَالصَِّبْغُ بِھِمَا معًا یَخْرُجُ بَیْنَ السَّوَادِ وَالْحُمْرَۃِ .
''کتم یمن میں پائی جانے والی ایک بُوٹی ہے جو سرخی مائل سیاہ رنگ دیتی ہے۔ مہندی کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ یوں کتم اور مہندی مل کر سیاہی اور سرخی کا درمیانی رنگ دیتے ہیں۔'' (فتح الباري : 10/355)
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ سیاہی اور سرخی کا درمیانی رنگ سفید بالوں کو دینے کے لیے بہتر اور احسن رنگ ہے۔اس سے کالے خضاب کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
ان صحیح احادیث اور ان کے بارے میں اہل علم کی رائے کے بعد سیاہ خضاب کے بارے میں سلف صالحین کا عمل اور فہم ملاحظہ فرمائیں۔
سیاہ خضاب اور سلف صالحین
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سیاہ خضاب:
1۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أُتِيَ عُبَیْدُ اللّٰہِ ابْنُ زِیَادٍ بِرَأْسِ الحُسَیْنِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ، فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ، فَجَعَلَ یَنْکُتُ، وَقَالَ فِي حُسْنِہٖ شَیْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ : کَانَ أَشْبَہَہُمْ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَ مَخْضُوبًا بِالوَسْمَۃِ.
''عبیداللہ بن زیاد کے پاس سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک طشتری میں لایا گیا۔عبیداللہ فرط غم سے زمین کُریدنے لگا اور اس نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے حسن کی تعریف کی۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے سر کو سیاہ خضاب لگا ہوا تھا۔''
(صحیح البخاري : 1/530، ح : 3748)
2۔ امام ابوجعفر باقر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ کَانَ یَخْضِبُ بِالسَّوَادِ . ''سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سیاہ خضاب سے بال رنگتے تھے۔''
(المعجم الکبیر للطبراني : 3/22، ح : 2535، معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم الأصبھاني : 1750، وسندہ، صحیحٌ)
3۔ حي بن یومن،ابوعشانہ معافری بیان کرتے ہیں:
رَأَیْتُ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ الْجُھَنِيَّ، یَصْبَغُ بِالسَّوَادِ .
''میں نے سیدنا عقبہ بن عامرجہنی رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ آپ سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے۔''
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 8/437، التاریخ الکبیر لابن أبي خیثمۃ : 1391، الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 7/345، الثقات لابن حبّان : 3/280، المعجم الکبیر للطبراني : 17/268، وسندہ، صحیحٌ متّصلٌ)
تابعین عظام اور سیاہ خضاب:
درج ذیل تابعین کرام سے سیاہ خضاب لگانا ثابت ہے:
4۔ ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف، قرشی (م: 94/104ھ)
3 حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (508۔597ھ) فرماتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّہ، قَدْ خَضَبَ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ بِالسَّوَادِ، مِنْہُمُ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَسَعْدُ ابْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَخَلْقٌ کَثِیرٌ مِّنَ التَّابِعِینَ، وَإِنَّمَا کَرِہَہ، قَوْمٌ لِّمَا فِیہِ مِنَ التَّدْلِیسِ، فَأَمَّا أَنْ یَّرْتَقِيَ إِلٰی دَرَجَۃِ التَّحْرِیمِ، إِذْ لَمْ یُدَلِّسْ، فَیَجِبَ فِیہِ ہٰذَا الْوَعِیدُ، فَلَمْ یَقُلْ بِذٰلِکَ أَحَدٌ، ثُمَّ نَقُولُ عَلٰی تَقْدِیرِ الصِّحَّۃِ : یَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُونَ الْمَعْنٰی : لَا یَرِیحُونَ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ، لِفِعْلٍ یَّصْدُرُ مِنْہُم، أَوِ اعْتِقَادٍ، لَا لِعِلَّۃِ الْخِضَابِ، وَیَکُونُ الْخِضَابُ سِیمَاہُمْ، فَعَرَّفَہُمْ بِالسِّیمَا، کَمَا قَالَ فِي الْخَوَارِجِ : سِیمَاہُمُ التَّحْلِیقُ، وَإِنْ کَانَ تَحْلِیقُ الشَّعْرِ لَیْسَ بِحَرَامٍ .
''آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت نے سیاہ خضاب استعمال کیا ہے۔ ان میں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنھم، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ شامل ہیں۔ بہت سے تابعین کرام بھی ایسا کرتے تھے۔بعض لوگوں نے اسے اس لئے مکروہ سمجھا ہے کہ اس میں ایک قسم کا دھوکا ہے۔ رہی یہ بات کہ سیاہ خضاب کے ذریعے دھوکے کا ارادہ نہ بھی ہو تو اس کا استعمال حرمت کے درجے تک پہنچ جائے اور اس کے استعمال کنندہ پر جنت کی خوشبو سے بھی محرومی کی وعید صادق آجائے، تو یہ بات آج تک کسی اہل علم نے نہیں کہی۔ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ وہ اپنے کسی غلط عقیدے یا عمل کی بنا پر جنت کی خوشبو سے محروم رہیں گے، سیاہ خضاب کی بنا پر نہیں۔ یہ خضاب تو ان کی ایک نشانی ہے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پہچان کے لئے بتلائی ہے، جس طرح خارجیوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ ان کی نشانی سر کے بالوں کو منڈانا ہے۔ اس کے باوجود سر کے بالوں کو منڈانا حرام نہیں۔'' (الموضوعات : 3/55)
ثابت ہوا کہ مذکورہ حدیث میں موجود وعید سیاہ خضاب کی وجہ سے نہیں، ورنہ ''آخری زمانے'' کی قید کا کیا معنیٰ؟ سیاہ خضاب کا استعمال کرنے والے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر ہر دور میں موجود رہے!!!
4 شارحِ ترمذی،علامہ محمدعبد الرحمن، مبارک پوری رحمہ اللہ (1353ھ) فرماتے ہیں:
فَالِاسْتِدْلَالُ بِہٰذَا الْحَدِیثِ عَلٰی کَرَاھَۃِ الْخَضْبِ بِالسَّوَادِ لَیْسَ بِصَحِیحٍ.
''اس حدیث سے سیاہ خضاب کے مکروہ ہونے کی دلیل لینا صحیح نہیں۔'' (تحفۃ الأحوذي : 3/55)
حدیث نمبر 3: سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'إِنَّ أَحْسَنَ مَا غُیِّرَ بِہٖ ھٰذَا الشَّیْبُ الْحِنَّاءُ وَالْکَتَمُ'.
''بڑھاپے کے سفید بالوں کو رنگنے کے لئے بہترین چیز مہندی اور کتم کا آمیزہ ہے۔''
(سنن أبي داود : 4205، مسند الإمام أحمد: 5/147، 150، وسندہ، صحیحٌ)
اس کے راوی سعید بن ایاس جُرَیری آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، البتہ معمر اور عبد الوارث نے ان سے اختلاط سے پہلے احادیث سنی ہیں، لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ (1753)نے ''حسن صحیح'' اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (5474) نے ''صحیح'' قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773۔852ھ) ''کتم'' کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَالْکَتَمُ نَبَاتٌ بِالْیَمَنِ، یُخْرِجُ الصَِّبْغَ أَسْوَدَ، یَمِیلُ إِلَی الْحُمْرَۃِ، وَصَِبْغُ الْحِنَّاءِ أَحْمَرُ، فَالصَِّبْغُ بِھِمَا معًا یَخْرُجُ بَیْنَ السَّوَادِ وَالْحُمْرَۃِ .
''کتم یمن میں پائی جانے والی ایک بُوٹی ہے جو سرخی مائل سیاہ رنگ دیتی ہے۔ مہندی کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ یوں کتم اور مہندی مل کر سیاہی اور سرخی کا درمیانی رنگ دیتے ہیں۔'' (فتح الباري : 10/355)
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ سیاہی اور سرخی کا درمیانی رنگ سفید بالوں کو دینے کے لیے بہتر اور احسن رنگ ہے۔اس سے کالے خضاب کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
ان صحیح احادیث اور ان کے بارے میں اہل علم کی رائے کے بعد سیاہ خضاب کے بارے میں سلف صالحین کا عمل اور فہم ملاحظہ فرمائیں۔
سیاہ خضاب اور سلف صالحین
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سیاہ خضاب:
1۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أُتِيَ عُبَیْدُ اللّٰہِ ابْنُ زِیَادٍ بِرَأْسِ الحُسَیْنِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ، فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ، فَجَعَلَ یَنْکُتُ، وَقَالَ فِي حُسْنِہٖ شَیْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ : کَانَ أَشْبَہَہُمْ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَ مَخْضُوبًا بِالوَسْمَۃِ.
''عبیداللہ بن زیاد کے پاس سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک طشتری میں لایا گیا۔عبیداللہ فرط غم سے زمین کُریدنے لگا اور اس نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے حسن کی تعریف کی۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے سر کو سیاہ خضاب لگا ہوا تھا۔''
(صحیح البخاري : 1/530، ح : 3748)
2۔ امام ابوجعفر باقر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ کَانَ یَخْضِبُ بِالسَّوَادِ . ''سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سیاہ خضاب سے بال رنگتے تھے۔''
(المعجم الکبیر للطبراني : 3/22، ح : 2535، معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم الأصبھاني : 1750، وسندہ، صحیحٌ)
3۔ حي بن یومن،ابوعشانہ معافری بیان کرتے ہیں:
رَأَیْتُ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ الْجُھَنِيَّ، یَصْبَغُ بِالسَّوَادِ .
''میں نے سیدنا عقبہ بن عامرجہنی رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ آپ سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے۔''
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 8/437، التاریخ الکبیر لابن أبي خیثمۃ : 1391، الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 7/345، الثقات لابن حبّان : 3/280، المعجم الکبیر للطبراني : 17/268، وسندہ، صحیحٌ متّصلٌ)
تابعین عظام اور سیاہ خضاب:
درج ذیل تابعین کرام سے سیاہ خضاب لگانا ثابت ہے:
4۔ ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف، قرشی (م: 94/104ھ)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد: 5/119، وسندہ، صحیحٌ)
5۔ محمد بن اسحاق بن یسار،مدنی (م : 150ھ)
(المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان الفسوي : 1/137، وسندہ، صحیحٌ)
6۔ علی بن عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب، قرشی، ہاشمی (118ھ)
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 5/240، وسندہ، صحیحٌ)
7۔ ابوقلابہ،عبد اللہ بن زید بن عمرو، جرمی، بصری (م : 104ھ)
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 7/138، وسندہ، صحیحٌ)
8۔ ابو عبد اللہ،بکر بن عبداللہ، مزنی، بصری (م : 106ھ) (الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 7/158، وسندہ، صحیحٌ)
9۔ قاضی، محارب بن دثار، سدوسی، کوفی (م : 116ھ)
(مسند علي بن الجعد: 725، وسندہ، حسنٌ)
10۔ ابوبکر، محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبد اللہ بن شہاب، زہری، مدنی (م : 125ھ)
(جامع معمر بن راشد: 11/155، مسند الامام احمد: 8083، وسندہ، صحیحٌ)
11۔ موسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ، قرشی (م: 103ھ)
(مصنف ابن أبي شیبۃ: 8/436، الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 124/5، وسندہ، حسنٌ)
12۔ نافع بن جبیر بن مطعم بن عدی، قرشی، نوفلی (م : 99ھ)
(مصنف ابن أبي شیبۃ: 8/430، الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 5/158، وسندہ، حسنٌ)
13۔ امام شعبہ بن حجاج کے استاذ عمر بن ابوسلمہ۔ (تہذیب الآثار للطبري: 895، وسندہ، صحیحٌ، الجزء المفقود)
14۔ ابوخطاب، امام قتادہ بن دعامہ بن قتادہ، سدوسی، بصری (م : بعد 110ھ) نے فرمایا:
رَخَّصَ فِي صِبَاغِ الشَّعْرِ بِالسَّوَادِ لِلنِّسَاءِ .
"عورتوں کے لئے بالوں کو سیاہ خضاب لگانے میں رخصت ہے۔''
(جامع معمر بن راشد: 20182، وسندہ، صحیحٌ)
15۔ عبداللہ بن عون بیان کرتے ہیں:
کَانُوا یَسْأَلُونَ مُحَمَّدًا عَنِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ، فَیَقُولُ: لَا أَعْلَمُ بِہٖ بَأْسًا.
''لوگ محمدبن سیرین تابعی رحمہ اللہ (م : 110ھ) سے سیاہ خضاب کے بارے میں سوال کرتے تھے۔ آپ فرماتے کہ میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔''
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 8/436، وسندہ، صحیحٌ)
تابعین کے کچھ متعارض اقوال :
سابقہ تصریحات قارئین ملاحظہ فرماچکے ہیں، اس کے برعکس:
1۔ امام عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ (27۔115ھ) سے سیاہ خضاب استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
ھُوَ مِمَّا أَحْدَثَ النَّاسُ، قَدْ رَأَیْتُ نَفَرًا مِّنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَا رَأَیْتُ أَحَدًا مِّنْھُمْ یَخْتَضِبُ بِالْوَسْمَۃِ، مَا کَانُوا یَخْضِبُونَ إِلَّا بِالْحِنَّاءِ وَالْکَتَمِ وَھٰذِہِ الصُّفْرَۃِ .
''یہ نئی دریافت ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کو دیکھا۔ ان میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب نہیں لگاتا تھا۔ صحابہ کرام مہندی اور کتم (سیاہ رنگ دینے والا درخت) ملاکر اور اس زرد رنگ کے ساتھ بالوں کو رنگتے تھے۔''
(مصنف ابن أبي شیبۃ: 8/438، وسندہ، صحیحٌ)
امام عطاء رحمہ اللہ نے اپنے علم کے مطابق بات کی۔ ہم صحابہ کرام کی ایک جماعت سے سیاہ خضاب کا استعمال ثابت کرچکے ہیں۔امام عطاء رحمہ اللہ نے ان صحابہ کرام کو نہیں دیکھا ہو گا جو سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے۔
2۔ امام سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ (م : 95ھ) سے سیاہ خضاب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
یَکْسُو اللّٰہُ الْعَبْدَ فِي وَجْہِہِ النُّورَ، ثُمَّ یُطْفِئُہ، بِالسَّوَادِ .
''اللہ تعالیٰ بندے کے چہرے کو منور کرتا ہے،بندہ سیاہ خضاب کے ساتھ اس نور کو بجھا دیتا ہے۔''
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 8/439، وسندہ، صحیحٌ)
خضاب بالوں کو لگایا جاتا ہے،چہرے کو نہیں۔ مہندی اور کتم ملا کر خضاب لگایا جائے تو زرد سا رنگ نکلتا ہے اور یہ سنت سے بھی ثابت ہے۔ کیا کہا جاسکتا ہے کہ بندے نے نورانی چہرے کو زرد کرلیا؟ جو صحابہ کرام سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے، ان کے چہروں سے نور ختم نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا یہ قول ناقابل التفات ہے۔
3۔ امام مکحول تابعی رحمہ اللہ (م : بعد 110ھ) نے سیاہ خضاب کو مکروہ قراردیا۔
(مصنف ابن أبي شیبۃ: 8/438، وسندہ، صحیحٌ)
اس سے کراہت تنزیہی، یعنی خلاف ِاولیٰ ہونا مراد ہے۔ اسلاف امت میں سے کسی نے سیاہ خضاب کو ناجائز، ممنوع اور حرام قرار نہیں دیا۔
ائمہ دین اور سیاہ خضاب:
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (م : 294ھ) سے پوچھا گیا کہ عورت سیاہ خضاب استعمال کرسکتی ہے، تو فرمایا:
لَا بَأْسَ بِذٰلِکَ لِلزَّوْجِ أَنْ تَتَزَیَّنَ لَہ .
''خاوند کے لئے لگائے تو کوئی حرج نہیں۔''
(الوقوف والترجّل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بکر الخلّال : 142، وسندہ، صحیحٌ)
امام مالک رحمہ اللہ (93۔179ھ) سیاہ خضاب کے بارے میں فرماتے ہیں:
لَمْ أَسْمَعْ فِي ذٰلِکَ شَیْئًا مَّعْلُومًا، وَغَیْرُ ذٰلِکَ مِنَ الصَّبْغِ أَحَبُّ إِلَيَّ، وَتَرْکُ الصَّبْغِ کُلِّہٖ وَاسِعٌ، إِنْ شَاءَ اللّٰہُ، لَیْسَ عَلَی النَّاسِ فِیہِ ضَیْقٌ.
''میں نے اس بارے میں کوئی متعین بات نہیں سنی۔سیاہ کے مقابلے میں دوسرے رنگ مجھے زیادہ پسند ہیں۔ بالوں کو بالکل نہ رنگنے کی بھی گنجائش ہے۔ان شاء اللہ! بالوں کو خضاب لگانے کے میں تنگی نہیں رکھی گئی۔''
(المؤطّأ للإمام مالک بروایۃ یحیٰی: 3497)
سیاہ خضاب کے بارے میں ''ضعیف'' روایات
اب بطور فائدہ اس بارے میں ''ضعیف'' روایات ملاحظہ فرمائیں:
روایت نمبر 1: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے منسوب روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'یَکُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ، یُسَوِّدُونَ أَشْعَارَھُمْ، لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ .
''آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے بالوں کو سیاہ کیا کریں گے۔ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ان کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔''
(المعجم الأوسط للطبراني: 4/136، ح : 3803، الوقوف والترجّل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بکر الخلّال : 160)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کیونکہ :
1۔ اس کا راوی عبد الکریم بن ابو المخارق ''ضعیف'' ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ.
''اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔''
(اتّخاف المھرۃ: 11/719)
علامہ عینی حنفی کہتے ہیں:
وَإِنْ کَانَ الْجُمْھُورُ عَلٰی تَضْعِیفِہٖ .
''جمہور محدثین اس کو ضعیف ہی قرار دیتے ہیں۔''
(النہایۃ في شرح الہدایۃ : 11/582)
2۔ عبد الوہاب بن عطاء خفاف راوی ''مدلس'' ہے۔ سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
3۔ امام طبرانی کے استاذ علی بن سعید رازی ''متکلم فیہ''ہیں۔ حافظ ہیثمی نے انہیں ''ضعیف'' قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد : 3/124، 9/357، 10/110)
لہٰذا علامہ ہیثمی (مجمع الزوائد: 5/161) کا اس کی سند کو ''جید'' کہنا درست نہیں۔
روایت نمبر 2: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
کُنَّا یَوْمًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ الْیَہُودُ، فَرَآھُمْ بِیضَ اللِّحٰی، فَقَالَ : 'مَا لَکُمْ لَا تُغَیِّرُونَ ؟'، فَقِیلَ : إِنَّھُمْ یَکْرَھُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : 'لٰکِنَّکُمْ غَیِّرُوا، وَإِیَّايَ وَالسَّوَادَ'.
''ایک روز ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ یہود آپ کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ڈاڑھیاں سفید دیکھیں تو فرمایا:
انھیں رنگتے نہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہود بال رنگنے کو پسند نہیں کرتے۔
اس پر آپ نے فرمایا:
آپ بالوں کو رنگیں اور سیاہ رنگ سے بچیں۔''
(المعجم الأوسط للطبراني : 1/51، ح : 142)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے۔ اس میں ابنِ لہیعہ راوی جمہور کے نزدیک ''ضعیف''، ''مدلس'' اور ''مختلط'' ہے۔
اس کے بارے میں حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہُوَ ضَعِیفٌ بِالِاتِّفَاقِ، لِاخْتِلَالِ ضَبْطِہٖ .
''حافظے کی خرابی کی بنا پر بالاتفاق ضعیف ہے۔'' (خلاصۃ الأحکام : 2/625)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:
وَابْنُ لَھِیعَۃَ ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ .
''ابن لہیعہ کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔''
(مجمع الزوائد : 10/375)
حافظ سخاوی لکھتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ.
''اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔''
(فتح المغیث : 221)
حافظ ابناسی کہتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ .
''اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔''
(الشذا الفیّاح من علوم ابن الصلاح: 1/201)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
ضَعِیفُ الْحَدِیثِ.
''اس کی حدیث ضعیف ہوتی ہے۔''
(تغلیق التعلیق : 3/239)
روایت نمبر 3: سیدنا عمرو بن عبسہ سلمی سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
'مَنْ شَابَ شَیْبَۃً فِي الْإِسْلَامِ ــــ أَوْ قَالَ: فِي سَبِیلِ اللّٰہِ ــــ کَانَتْ لَہ، نُورًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ، مَا لَمْ یَخْضِبْہَا أَوْ یَنْتِفْہَا'، قُلْتُ لِشَہْرٍ : إِنَّہُمْ یُصَفِّرُونَ وَیَخْضِبُونَ بِالْحِنَّائِ؟ قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: کَأَنَّہ، یَعْنِي السَّوَادَ .
''جس شخص کے بال اسلام میں یا اللہ کی راہ میں سفید ہو جاتے ہیں، اس کے بال قیامت کے دن اس کے لئے روشنی بن جائیں گے بشرطیکہ وہ ان کو رنگے نہ اُکھیڑے۔ (راویء حدیث عبد الجلیل بن عطیہ کہتے ہیں:) میں نے (اپنے استاذ) شہر (بن حوشب) سے پوچھا:
مسلمان سفید بالوں کو زرد اور مہندی لگاتے تھے؟
کہا: جی ہاں۔ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سیاہ خضاب ہو۔''
(مسند الطیالسي: 1248، مسند أبي یعلٰی [کما في جامع المسانید والسنن لابن کثیر: 6/587، ح : 8352]، شعب الإیمان للبیہقي: 6/386، ح: 5972)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کیونکہ:
1۔ عبد الجلیل بن عطیہ ''مدلس'' ہے۔ اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
2۔ شہر بن حوشب (موثق، حسن الحدیث) کا سیدنا عمرو بن عبسہ سے سماع و لقاء نہیں۔ امام ابوحاتم رازی اور امام ابوزرعہ رحمھما اللہ کا یہی فیصلہ ہے۔ (کتاب المراسیل لابن أبي حاتم : 89)
یوں یہ روایت ''منقطع'' ہونے کی بنا پر ''ضعیف'' ہے۔
روایت نمبر 4: سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
'غَیِّرُوا الشَّیْبَ، وَلَا تُقَرِّبُوہُ السَّوَادَ، وَلَا تَشَبَّھُوا بِأَعْدَائِکُمْ مِّنَ الْمُشْرِکِینَ، وَخَیْرُ مَا غَیَّرْتُمْ بِہِ الشَّیْبَ الْحِنَّاءُ وَالْکَتَمُ' .
''سفید بالوں کو رنگ دیں لیکن سیاہ رنگ استعمال کرکے اپنے مشرک دشمن کی مشابہت اختیار نہ کریں۔ بالوں کے لئے سب سے بہتر رنگ مہندی اور کتم کو ملاکر بنتا ہے۔'' (المعجم الأوسط للطبراني: 5/227، ح: 5160)
تبصرہ: یہ سند باطل ہے۔ اس کا راوی سلم بن سالم بلخی باتفاقِ محدثین ''ضعیف'' ہے۔
روایت نمبر 5: سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'مَنْ خَضَبَ بِالسَّوَادِ، سَوَّدَ اللّٰہُ وَجْہَہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ' .
''جس نے سیاہ خضاب لگایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا چہرہ سیاہ کر دے گا۔'' (مسند الشامیّین للطبراني: 652، الکامل لابن عدي: 3/222، الناسخ والمنسوخ لابن شاھین، ص : 462، ح : 614، الأمالی للشجري: 2/249۔250)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے۔ اس کی سند میں زہیر بن محمد خراسانی جمہور کے نزدیک ''ثقہ'' ہے، لیکن اس سے اہل شام کی روایت ''ضعیف'' ہوتی ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رِوَایَۃُ أَھْلِ الشَّامِ عَنْہُ غَیْرُ مُسْتَقِیمَۃٍ .
''اہل شام کی اس سے بیان کردہ روایت صحیح نہیں ہوتی۔'' (تقریب التھذیب: 2049)
یہ روایت بھی اہل شام کی ہے، لہٰذا یہ جرح مفسر ہے اور روایت ''ضعیف'' ہے۔
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ (277ھ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
ھُوَ حَدِیثٌ مَّوْضُوعٌ . ''یہ من گھڑت حدیث ہے۔'' (علل الحدیث لابن أبي حاتم : 2/299)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَسَنَدُہ، لَیِّنٌ .
''اس کی سند کمزور ہے۔'' (فتح الباري: 10/355)
روایت نمبر 6: عامر شعبی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:
'إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی مَنْ یَّخْضِبُ بِالسَّوَادِ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ' .
''جو سیاہ خضاب لگاتا ہے، روزقیامت اللہ تعالیٰ اسے (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔''
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 1/340)
تبصرہ : یہ روایت سخت ''ضعیف'' ہے،
1۔ روایت ''مرسل'' ہے، عامر شعبی تابعی ہیں اور براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں۔
2۔ لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کرام کے نزدیک ''ضعیف'' اور ''مختلط و مدلس'' ہے۔ اس کے بارے میں حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ .
''یہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔'' (تخریج أحادیث الإحیاء: 2/170)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں: وَضَعَّفَہُ الْـأَکْثَرُ .
''اسے اکثر محدثین نے ضعیف قراردیا ہے۔'' (مجمع الزوائد : 1/90۔91)
حافظ ابن ملقن کہتے ہیں: ضَعِیفٌ عِنْدَ الْجُمْھُورُ .
''یہ جمہور کے ہاں ضعیف راوی ہے۔'' (البدر المنیر : 2/104)
حافظ بوصیری کہتے ہیں: ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ .
''اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔'' (زوائد ابن ماجہ : 1/63، ح : 54)
3۔ عبد الرحمن بن محمد محاربی راوی ''مدلس'' ہے اور اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
یوں یہ روایت کئی وجوہ سے ''ضعیف'' ہے۔
روایت نمبر 7: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'فَإِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمُ امْرَأَۃً، وَقَدْ خَضَبَ بِالسَّوَادِ، فَلْیُعْلِمْھَا، لَا یُغِرَّنَّھَا' .
''کسی عورت کو نکاح کا پیغام دیں، سیاہ خضاب لگا رکھا ہو تواسے بتا دیں، دھوکہ مت دیں۔'' (السنن الکبرٰی للبیہقي : 7/290)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کیونکہ اس کا راوی عیسیٰ بن میمون مدنی ''ضعیف'' ہے۔اس کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:
عِیسَی بْنُ مَیْمُونٍ ضَعِیفٌ . ''عیسیٰ بن میمون ضعیف راوی ہے۔''
روایت نمبر 8 : سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 'مَنْ صَبَغَ بِالسَّوَادِ، لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ' . ''جو سیاہ خضاب لگائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔''
(مسند الشامیّین للطبراني : 2/306، ح : 1393، تاریخ دمشق لابن عساکر : 34/114)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کیونکہ اس کا راوی مثنّٰی بن صباح جمہور محدثین کے نزدیک ''ضعیف'' اور ''مختلط''ہے۔ اس کے بارے میں حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضَعِیفٌ عِنْدَ الْجُمْھُورِ.
''یہ جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔'' (فیض القدیر للمناوي : 1/69)
علامہ ہیثمی نے اسے ''متروک'' قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:
وَالْجُمْھُورُ عَلٰی ضَعْفِہٖ . ''جمہور محدثین اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔'' (مجمع الزوائد : 5/70)
روایت نمبر 9: امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'یَکُونُ أَقْوَامٌ یُّغَیِّرُونَ الْبَیَاضَ بِالسَّوَادِ، (قَالَ مَرَّۃً :) یُغَیِّرُونَ بَیَاضَ اللِّحْیَۃِ وَالرَّأْسِ بِالسَّوَادِ، یُسَوِّدُ اللّٰہُ وُجُوھَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ'.
''کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے سر اور ڈاڑھی کے سفید بالوں کو سیاہ خضاب لگائیں گے،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ کر دے گا۔'' (الوقوف والترجّل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بکر الخلّال : 143)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے،
1۔ حسن بصری رحمہ اللہ تابعی ہیں اور بلا واسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں۔اس طرح یہ روایت ''مرسل'' ہونے کی وجہ سے ''ضعیف'' ہے۔
2۔ زہیربن محمد کا حسن بصری سے سماع مطلوب ہے۔
روایت نمبر 10: صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 'إِنَّ أَحْسَنَ مَا اخْتَضَبْتُمْ بِہٖ لَہٰذَا السَّوَادُ، أَرْغَبُ لِنِسَائِکُمْ فِیکُمْ، وَأَھْیَبُ لَکُمْ فِي صُدُورِ عَدُوِّکُمْ'.
''سیاہ رنگ بالوں کو رنگنے کے لئے سب سے اچھا ہے۔ یہ آپ کو بیویوں کے لئے زیادہ دلکش بناتا ہے اور دشمن کے دل میں رُعب پیدا کرتا ہے۔'' (سنن ابن ماجہ : 3625)
تبصرہ: یہ روایت سخت ''ضعیف'' ہے۔ اس کا راوی دفاع بن دغفل جمہور کے نزدیک ''ضعیف'' ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ''ضعیف'' قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب : 1827)
اس کا دوسرا راوی عبد الحمید بن صفی بھی ''لین الحدیث'' ہے۔ (تقریب التھذیب : 3765)
اس کا تیسرا راوی صفی بن صہیب ''مجہول الحال'' ہے۔ (تقریب التھذیب : 2961)
اس میں اور بھی علّتیں موجود ہیں۔
روایت نمبر 11: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں،
أَمَرَ بِالْحِنَّاء ِ، وَنَہَی عَنِ السَّوَادِ .
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہندی لگانے اور کالے رنگ سے بچنے کا حکم دیا۔''
(البزار (کشف الاستار ) : 2977)
تبصرہ :
اس کی سند سخت ضعیف ہے، یوسف بن خالد سمتی ''ضعیف'' ہے۔ امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں؛
کَانَ یَکْذِبُ '' یہ جھوٹا تھا۔'' (الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم : 9/222)
اس میں اور علتیں بھی ہیں۔
روایت نمبر 12: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں؛
"غَیِّرُوا الشَّیْبَ وَلَا تَشَبَّہُوا بِالْیَہُودِ وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ"
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کے بارہ میں فرمایا کہ سفیدی کو بدل دیں، اس حوالے سے یہود کی مشابہت اختیار مت کریں اور کالے رنگ سے بچیں۔'' (السنن الکبریٰ للبیہقي : 7/311)
تبصرہ :
سند ضعیف ہے، حسن بن ہارون نیشا پوری مجہول الحال ہیں، امام ابن حبان (الثقات: 7/178) کے علاوہ کسی نے توثیق نہیں کی، مکی بن عبدان اور ابو حامد شرقی سے توصیف و ثنا کی سند نہیں مل سکی۔
روایت نمبر 13: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے:
إِنَّہ، عَرَضَتْ عَلَیْہِ مَوْلَاۃٌ لَّہ، أَنْ یَصْبُغَ لِحْیَتَہ،، فَقَالَ: مَا أُرِیدُ تُطْفِیئُ نُورِي، کَمَا أَطْفَأَ فُلَانٌ نُورَہ، . ''ان کی لونڈی نے انہیں سیاہ خضاب لگانے کی اجازت چاہی تو فرمایا : میں نہیں چاہتا ہے کہ آپ میرا نور اس طرح بجھادیں جس طرح فلاں نے اپنا نور بجھالیا ہے۔'' (معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم الأصبھاني : 182)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کونکہ اس میں بقیہ بن ولید (موثق، حسن الحدیث) کی ''تدلیس''ہے۔ سماع کی صراحت نہیں مل سکی۔
بقیہ بن ولید کے بارے میں حافظ ابن ناصر الدین دمشقی (777۔842ھ) فرماتے ہیں:
وَثَّقَہُ الْجُمْھُورُ عَنِ الثِّقَاتِ، بِلَفْظٍ یَّدُلُّ عَلَی السَّمَاعِ.
''اسے جمہور محدثین نے اس وقت قابل اعتبار سمجھا ہے، جب یہ ثقہ راویوں سے روایت کرے اور سماع کی صراحت کرے۔'' (توضیح المشتبہ: 2/59)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَثَّقَہُ الْجُمْھُورُ فِیمَا سَمِعَہ، مِنَ الثِّقَاتِ.
''اسے جمہور محدثین نے ان روایات میں ثقہ قرار دیا ہے جو اس نے ثقہ راویوں سے خود سن رکھی ہوں۔'' (الکاشف : 106۔107)
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (723۔804ھ) فرماتے ہیں :
لٰکِنْ بَقِیَّۃُ رُمِيَ بِتَدْلِیسِ التَّسْوِیَۃِ، فَلَا یَنْفَعُہ، بِتَصْرِیحِہٖ بِالْحَدِیثِ.
''بقیہ بن ولید پر تدلیس تسویہ کا الزام ہے، لہٰذا اس کا (صرف اپنے استاذ سے) سماع کی تصریح کر دینا مفید نہیں۔'' (البدر المنیر: 4/509)
روایت نمبر 14: ابوقبیل حی بن ہانی تابعی کا بیان ہے:
دَخَلَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ عَلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَقَدْ صَبَغَ رَأْسَہ، وَلِحْیَتَہ، بِسَوَادٍ، فَقَالَ عُمَرُ : مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ : أَنَا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، قَالَ عُمَرُ : عَھْدِي بِکَ شَیْخًا، وَأَنْتَ الْیَوْمَ شَابٌّ، عَزَمْتُ عَلَیْکَ، إِلَّا مَا خَرَجْتَ، فَغَسَلْتَ ھٰذَا . ''سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے اپنے سر اور ڈاڑھی کو سیاہ خضاب لگا رکھا تھا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ کون ہیں؟ عرض کیا: میں عمروبن عاص ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: میں نے تو آپ کو بڑھاپے میں دیکھا تھا، لیکن اب آپ جوان نظر آتے ہیں۔ میں آپ پر یہ لازم کرتا ہوں کہ یہاں سے جائیں اور اس رنگ کو دھو ڈالیں۔''
(فتوح مصر والمغرب لأبي القاسم عبد الرحمٰن بن عبد اللّٰہ بن عبد الحکم، ص : 207)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے۔ اس میں ابن لہیعہ موجود ہے، جو جمہور محدثین کرام کے نزدیک ''ضعیف'' اور ''مدلس'' ہے۔ کَمَا مَرَّ
روایت نمبر 15 : کعب احبار تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلَیَصْبُغَنَّ أَقْوَامٌ بِالسَّوَادِ، لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ .
''لوگ ضرور سیاہ خضاب استعمال کریں گے۔ایسوں کو اللہ تعالیٰ روزقیامت (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔'' (حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبھاني : 5/377)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کیونکہ :
1۔ اس کا راوی عقیل بن مدرک سلمی ''مجہول الحال'' ہے۔ سوائے ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 7/294) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ''مقبول'' (مجہول الحال) قراردیا ہے۔(تقریب التھذیب: 4663)
2۔ عقیل بن مدرک کا استاذ ولید بن عامر یزنی بھی ''مجہول الحال'' ہے۔ اس کی توثیق بھی سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 7/552) کے کسی نے نہیں کی۔
فائدہ 1: امام جعفر صادق رحمہ اللہ (م : 148ھ) سے منقول ہے:
اَلْخِضَابُ مَکْبَدَۃٌ لِّلْعَدُوِّ، مَرْضَاۃٌ لِّلزَّوْجَۃِ .
''خضاب دشمن کو پریشان کرنے اور بیوی کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے۔''
(شعب الإیمان للبیہقي : 8/400، ح : 5995)
تبصرہ : اس کی سند ''ضعیف''ہے۔اس کے راوی علی بن محمد بن عقبہ شیبانی کی توثیق نہیں مل سکی۔
فائدہ 2: ضمرہ بن ربیعہ بیان کرتے ہیں:
سَمِعْتُ عَبْدَ الْعَزِیزِ بْنَ أَبِي رَوَادٍ یَّذْکُرُ، قَالَ : الصُّفْرَۃُ خِضَابُ الْإِیمَانِ، وَالْحُمْرَۃُ خِضَابُ الْإِسْلَامِ، وَالسَّوَادُ خِضَابُ الشَّیْطَانِ .
''میں نے عبد العزیز بن ابو رواد (م : 159ھ) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ زردی ایمان کا، سرخی اسلام کا اور سیاہی شیطان کا خضاب ہے۔'' (تاریخ ابن أبي خیثمۃ: 383، وسندہ، صحیحٌ)
تبصرہ: یہ شاذ قول ہے جس میں عبد العزیز بن ابو رواد کا کوئی سلف نہیں۔ جس کام کو صحابہ کرام اور تابعین کی ایک جماعت نے کیا ہو، اسے شیطانی عمل قرار دینا کیوں کر درست ہوگا۔
الحاصل:
مذکورہ دلائل وبراہین اور نصوص سلف سے مستفاد ہے کہ سیاہ خضاب بلا کراہت درست اور ثابت ہے،
واللہ اعلم۔
اللہ ہمیں حق سمجھ کر اس پہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
5۔ محمد بن اسحاق بن یسار،مدنی (م : 150ھ)
(المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان الفسوي : 1/137، وسندہ، صحیحٌ)
6۔ علی بن عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب، قرشی، ہاشمی (118ھ)
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 5/240، وسندہ، صحیحٌ)
7۔ ابوقلابہ،عبد اللہ بن زید بن عمرو، جرمی، بصری (م : 104ھ)
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 7/138، وسندہ، صحیحٌ)
8۔ ابو عبد اللہ،بکر بن عبداللہ، مزنی، بصری (م : 106ھ) (الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 7/158، وسندہ، صحیحٌ)
9۔ قاضی، محارب بن دثار، سدوسی، کوفی (م : 116ھ)
(مسند علي بن الجعد: 725، وسندہ، حسنٌ)
10۔ ابوبکر، محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبد اللہ بن شہاب، زہری، مدنی (م : 125ھ)
(جامع معمر بن راشد: 11/155، مسند الامام احمد: 8083، وسندہ، صحیحٌ)
11۔ موسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ، قرشی (م: 103ھ)
(مصنف ابن أبي شیبۃ: 8/436، الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 124/5، وسندہ، حسنٌ)
12۔ نافع بن جبیر بن مطعم بن عدی، قرشی، نوفلی (م : 99ھ)
(مصنف ابن أبي شیبۃ: 8/430، الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 5/158، وسندہ، حسنٌ)
13۔ امام شعبہ بن حجاج کے استاذ عمر بن ابوسلمہ۔ (تہذیب الآثار للطبري: 895، وسندہ، صحیحٌ، الجزء المفقود)
14۔ ابوخطاب، امام قتادہ بن دعامہ بن قتادہ، سدوسی، بصری (م : بعد 110ھ) نے فرمایا:
رَخَّصَ فِي صِبَاغِ الشَّعْرِ بِالسَّوَادِ لِلنِّسَاءِ .
"عورتوں کے لئے بالوں کو سیاہ خضاب لگانے میں رخصت ہے۔''
(جامع معمر بن راشد: 20182، وسندہ، صحیحٌ)
15۔ عبداللہ بن عون بیان کرتے ہیں:
کَانُوا یَسْأَلُونَ مُحَمَّدًا عَنِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ، فَیَقُولُ: لَا أَعْلَمُ بِہٖ بَأْسًا.
''لوگ محمدبن سیرین تابعی رحمہ اللہ (م : 110ھ) سے سیاہ خضاب کے بارے میں سوال کرتے تھے۔ آپ فرماتے کہ میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔''
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 8/436، وسندہ، صحیحٌ)
تابعین کے کچھ متعارض اقوال :
سابقہ تصریحات قارئین ملاحظہ فرماچکے ہیں، اس کے برعکس:
1۔ امام عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ (27۔115ھ) سے سیاہ خضاب استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
ھُوَ مِمَّا أَحْدَثَ النَّاسُ، قَدْ رَأَیْتُ نَفَرًا مِّنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَا رَأَیْتُ أَحَدًا مِّنْھُمْ یَخْتَضِبُ بِالْوَسْمَۃِ، مَا کَانُوا یَخْضِبُونَ إِلَّا بِالْحِنَّاءِ وَالْکَتَمِ وَھٰذِہِ الصُّفْرَۃِ .
''یہ نئی دریافت ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کو دیکھا۔ ان میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب نہیں لگاتا تھا۔ صحابہ کرام مہندی اور کتم (سیاہ رنگ دینے والا درخت) ملاکر اور اس زرد رنگ کے ساتھ بالوں کو رنگتے تھے۔''
(مصنف ابن أبي شیبۃ: 8/438، وسندہ، صحیحٌ)
امام عطاء رحمہ اللہ نے اپنے علم کے مطابق بات کی۔ ہم صحابہ کرام کی ایک جماعت سے سیاہ خضاب کا استعمال ثابت کرچکے ہیں۔امام عطاء رحمہ اللہ نے ان صحابہ کرام کو نہیں دیکھا ہو گا جو سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے۔
2۔ امام سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ (م : 95ھ) سے سیاہ خضاب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
یَکْسُو اللّٰہُ الْعَبْدَ فِي وَجْہِہِ النُّورَ، ثُمَّ یُطْفِئُہ، بِالسَّوَادِ .
''اللہ تعالیٰ بندے کے چہرے کو منور کرتا ہے،بندہ سیاہ خضاب کے ساتھ اس نور کو بجھا دیتا ہے۔''
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 8/439، وسندہ، صحیحٌ)
خضاب بالوں کو لگایا جاتا ہے،چہرے کو نہیں۔ مہندی اور کتم ملا کر خضاب لگایا جائے تو زرد سا رنگ نکلتا ہے اور یہ سنت سے بھی ثابت ہے۔ کیا کہا جاسکتا ہے کہ بندے نے نورانی چہرے کو زرد کرلیا؟ جو صحابہ کرام سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے، ان کے چہروں سے نور ختم نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا یہ قول ناقابل التفات ہے۔
3۔ امام مکحول تابعی رحمہ اللہ (م : بعد 110ھ) نے سیاہ خضاب کو مکروہ قراردیا۔
(مصنف ابن أبي شیبۃ: 8/438، وسندہ، صحیحٌ)
اس سے کراہت تنزیہی، یعنی خلاف ِاولیٰ ہونا مراد ہے۔ اسلاف امت میں سے کسی نے سیاہ خضاب کو ناجائز، ممنوع اور حرام قرار نہیں دیا۔
ائمہ دین اور سیاہ خضاب:
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (م : 294ھ) سے پوچھا گیا کہ عورت سیاہ خضاب استعمال کرسکتی ہے، تو فرمایا:
لَا بَأْسَ بِذٰلِکَ لِلزَّوْجِ أَنْ تَتَزَیَّنَ لَہ .
''خاوند کے لئے لگائے تو کوئی حرج نہیں۔''
(الوقوف والترجّل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بکر الخلّال : 142، وسندہ، صحیحٌ)
امام مالک رحمہ اللہ (93۔179ھ) سیاہ خضاب کے بارے میں فرماتے ہیں:
لَمْ أَسْمَعْ فِي ذٰلِکَ شَیْئًا مَّعْلُومًا، وَغَیْرُ ذٰلِکَ مِنَ الصَّبْغِ أَحَبُّ إِلَيَّ، وَتَرْکُ الصَّبْغِ کُلِّہٖ وَاسِعٌ، إِنْ شَاءَ اللّٰہُ، لَیْسَ عَلَی النَّاسِ فِیہِ ضَیْقٌ.
''میں نے اس بارے میں کوئی متعین بات نہیں سنی۔سیاہ کے مقابلے میں دوسرے رنگ مجھے زیادہ پسند ہیں۔ بالوں کو بالکل نہ رنگنے کی بھی گنجائش ہے۔ان شاء اللہ! بالوں کو خضاب لگانے کے میں تنگی نہیں رکھی گئی۔''
(المؤطّأ للإمام مالک بروایۃ یحیٰی: 3497)
سیاہ خضاب کے بارے میں ''ضعیف'' روایات
اب بطور فائدہ اس بارے میں ''ضعیف'' روایات ملاحظہ فرمائیں:
روایت نمبر 1: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے منسوب روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'یَکُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ، یُسَوِّدُونَ أَشْعَارَھُمْ، لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ .
''آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے بالوں کو سیاہ کیا کریں گے۔ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ان کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔''
(المعجم الأوسط للطبراني: 4/136، ح : 3803، الوقوف والترجّل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بکر الخلّال : 160)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کیونکہ :
1۔ اس کا راوی عبد الکریم بن ابو المخارق ''ضعیف'' ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ.
''اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔''
(اتّخاف المھرۃ: 11/719)
علامہ عینی حنفی کہتے ہیں:
وَإِنْ کَانَ الْجُمْھُورُ عَلٰی تَضْعِیفِہٖ .
''جمہور محدثین اس کو ضعیف ہی قرار دیتے ہیں۔''
(النہایۃ في شرح الہدایۃ : 11/582)
2۔ عبد الوہاب بن عطاء خفاف راوی ''مدلس'' ہے۔ سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
3۔ امام طبرانی کے استاذ علی بن سعید رازی ''متکلم فیہ''ہیں۔ حافظ ہیثمی نے انہیں ''ضعیف'' قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد : 3/124، 9/357، 10/110)
لہٰذا علامہ ہیثمی (مجمع الزوائد: 5/161) کا اس کی سند کو ''جید'' کہنا درست نہیں۔
روایت نمبر 2: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
کُنَّا یَوْمًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ الْیَہُودُ، فَرَآھُمْ بِیضَ اللِّحٰی، فَقَالَ : 'مَا لَکُمْ لَا تُغَیِّرُونَ ؟'، فَقِیلَ : إِنَّھُمْ یَکْرَھُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : 'لٰکِنَّکُمْ غَیِّرُوا، وَإِیَّايَ وَالسَّوَادَ'.
''ایک روز ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ یہود آپ کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ڈاڑھیاں سفید دیکھیں تو فرمایا:
انھیں رنگتے نہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہود بال رنگنے کو پسند نہیں کرتے۔
اس پر آپ نے فرمایا:
آپ بالوں کو رنگیں اور سیاہ رنگ سے بچیں۔''
(المعجم الأوسط للطبراني : 1/51، ح : 142)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے۔ اس میں ابنِ لہیعہ راوی جمہور کے نزدیک ''ضعیف''، ''مدلس'' اور ''مختلط'' ہے۔
اس کے بارے میں حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہُوَ ضَعِیفٌ بِالِاتِّفَاقِ، لِاخْتِلَالِ ضَبْطِہٖ .
''حافظے کی خرابی کی بنا پر بالاتفاق ضعیف ہے۔'' (خلاصۃ الأحکام : 2/625)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:
وَابْنُ لَھِیعَۃَ ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ .
''ابن لہیعہ کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔''
(مجمع الزوائد : 10/375)
حافظ سخاوی لکھتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ.
''اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔''
(فتح المغیث : 221)
حافظ ابناسی کہتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ .
''اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔''
(الشذا الفیّاح من علوم ابن الصلاح: 1/201)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
ضَعِیفُ الْحَدِیثِ.
''اس کی حدیث ضعیف ہوتی ہے۔''
(تغلیق التعلیق : 3/239)
روایت نمبر 3: سیدنا عمرو بن عبسہ سلمی سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
'مَنْ شَابَ شَیْبَۃً فِي الْإِسْلَامِ ــــ أَوْ قَالَ: فِي سَبِیلِ اللّٰہِ ــــ کَانَتْ لَہ، نُورًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ، مَا لَمْ یَخْضِبْہَا أَوْ یَنْتِفْہَا'، قُلْتُ لِشَہْرٍ : إِنَّہُمْ یُصَفِّرُونَ وَیَخْضِبُونَ بِالْحِنَّائِ؟ قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: کَأَنَّہ، یَعْنِي السَّوَادَ .
''جس شخص کے بال اسلام میں یا اللہ کی راہ میں سفید ہو جاتے ہیں، اس کے بال قیامت کے دن اس کے لئے روشنی بن جائیں گے بشرطیکہ وہ ان کو رنگے نہ اُکھیڑے۔ (راویء حدیث عبد الجلیل بن عطیہ کہتے ہیں:) میں نے (اپنے استاذ) شہر (بن حوشب) سے پوچھا:
مسلمان سفید بالوں کو زرد اور مہندی لگاتے تھے؟
کہا: جی ہاں۔ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سیاہ خضاب ہو۔''
(مسند الطیالسي: 1248، مسند أبي یعلٰی [کما في جامع المسانید والسنن لابن کثیر: 6/587، ح : 8352]، شعب الإیمان للبیہقي: 6/386، ح: 5972)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کیونکہ:
1۔ عبد الجلیل بن عطیہ ''مدلس'' ہے۔ اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
2۔ شہر بن حوشب (موثق، حسن الحدیث) کا سیدنا عمرو بن عبسہ سے سماع و لقاء نہیں۔ امام ابوحاتم رازی اور امام ابوزرعہ رحمھما اللہ کا یہی فیصلہ ہے۔ (کتاب المراسیل لابن أبي حاتم : 89)
یوں یہ روایت ''منقطع'' ہونے کی بنا پر ''ضعیف'' ہے۔
روایت نمبر 4: سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
'غَیِّرُوا الشَّیْبَ، وَلَا تُقَرِّبُوہُ السَّوَادَ، وَلَا تَشَبَّھُوا بِأَعْدَائِکُمْ مِّنَ الْمُشْرِکِینَ، وَخَیْرُ مَا غَیَّرْتُمْ بِہِ الشَّیْبَ الْحِنَّاءُ وَالْکَتَمُ' .
''سفید بالوں کو رنگ دیں لیکن سیاہ رنگ استعمال کرکے اپنے مشرک دشمن کی مشابہت اختیار نہ کریں۔ بالوں کے لئے سب سے بہتر رنگ مہندی اور کتم کو ملاکر بنتا ہے۔'' (المعجم الأوسط للطبراني: 5/227، ح: 5160)
تبصرہ: یہ سند باطل ہے۔ اس کا راوی سلم بن سالم بلخی باتفاقِ محدثین ''ضعیف'' ہے۔
روایت نمبر 5: سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'مَنْ خَضَبَ بِالسَّوَادِ، سَوَّدَ اللّٰہُ وَجْہَہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ' .
''جس نے سیاہ خضاب لگایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا چہرہ سیاہ کر دے گا۔'' (مسند الشامیّین للطبراني: 652، الکامل لابن عدي: 3/222، الناسخ والمنسوخ لابن شاھین، ص : 462، ح : 614، الأمالی للشجري: 2/249۔250)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے۔ اس کی سند میں زہیر بن محمد خراسانی جمہور کے نزدیک ''ثقہ'' ہے، لیکن اس سے اہل شام کی روایت ''ضعیف'' ہوتی ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رِوَایَۃُ أَھْلِ الشَّامِ عَنْہُ غَیْرُ مُسْتَقِیمَۃٍ .
''اہل شام کی اس سے بیان کردہ روایت صحیح نہیں ہوتی۔'' (تقریب التھذیب: 2049)
یہ روایت بھی اہل شام کی ہے، لہٰذا یہ جرح مفسر ہے اور روایت ''ضعیف'' ہے۔
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ (277ھ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
ھُوَ حَدِیثٌ مَّوْضُوعٌ . ''یہ من گھڑت حدیث ہے۔'' (علل الحدیث لابن أبي حاتم : 2/299)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَسَنَدُہ، لَیِّنٌ .
''اس کی سند کمزور ہے۔'' (فتح الباري: 10/355)
روایت نمبر 6: عامر شعبی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:
'إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی مَنْ یَّخْضِبُ بِالسَّوَادِ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ' .
''جو سیاہ خضاب لگاتا ہے، روزقیامت اللہ تعالیٰ اسے (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔''
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 1/340)
تبصرہ : یہ روایت سخت ''ضعیف'' ہے،
1۔ روایت ''مرسل'' ہے، عامر شعبی تابعی ہیں اور براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں۔
2۔ لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کرام کے نزدیک ''ضعیف'' اور ''مختلط و مدلس'' ہے۔ اس کے بارے میں حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ .
''یہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔'' (تخریج أحادیث الإحیاء: 2/170)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں: وَضَعَّفَہُ الْـأَکْثَرُ .
''اسے اکثر محدثین نے ضعیف قراردیا ہے۔'' (مجمع الزوائد : 1/90۔91)
حافظ ابن ملقن کہتے ہیں: ضَعِیفٌ عِنْدَ الْجُمْھُورُ .
''یہ جمہور کے ہاں ضعیف راوی ہے۔'' (البدر المنیر : 2/104)
حافظ بوصیری کہتے ہیں: ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ .
''اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔'' (زوائد ابن ماجہ : 1/63، ح : 54)
3۔ عبد الرحمن بن محمد محاربی راوی ''مدلس'' ہے اور اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
یوں یہ روایت کئی وجوہ سے ''ضعیف'' ہے۔
روایت نمبر 7: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'فَإِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمُ امْرَأَۃً، وَقَدْ خَضَبَ بِالسَّوَادِ، فَلْیُعْلِمْھَا، لَا یُغِرَّنَّھَا' .
''کسی عورت کو نکاح کا پیغام دیں، سیاہ خضاب لگا رکھا ہو تواسے بتا دیں، دھوکہ مت دیں۔'' (السنن الکبرٰی للبیہقي : 7/290)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کیونکہ اس کا راوی عیسیٰ بن میمون مدنی ''ضعیف'' ہے۔اس کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:
عِیسَی بْنُ مَیْمُونٍ ضَعِیفٌ . ''عیسیٰ بن میمون ضعیف راوی ہے۔''
روایت نمبر 8 : سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 'مَنْ صَبَغَ بِالسَّوَادِ، لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ' . ''جو سیاہ خضاب لگائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔''
(مسند الشامیّین للطبراني : 2/306، ح : 1393، تاریخ دمشق لابن عساکر : 34/114)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کیونکہ اس کا راوی مثنّٰی بن صباح جمہور محدثین کے نزدیک ''ضعیف'' اور ''مختلط''ہے۔ اس کے بارے میں حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضَعِیفٌ عِنْدَ الْجُمْھُورِ.
''یہ جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔'' (فیض القدیر للمناوي : 1/69)
علامہ ہیثمی نے اسے ''متروک'' قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:
وَالْجُمْھُورُ عَلٰی ضَعْفِہٖ . ''جمہور محدثین اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔'' (مجمع الزوائد : 5/70)
روایت نمبر 9: امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'یَکُونُ أَقْوَامٌ یُّغَیِّرُونَ الْبَیَاضَ بِالسَّوَادِ، (قَالَ مَرَّۃً :) یُغَیِّرُونَ بَیَاضَ اللِّحْیَۃِ وَالرَّأْسِ بِالسَّوَادِ، یُسَوِّدُ اللّٰہُ وُجُوھَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ'.
''کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے سر اور ڈاڑھی کے سفید بالوں کو سیاہ خضاب لگائیں گے،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ کر دے گا۔'' (الوقوف والترجّل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بکر الخلّال : 143)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے،
1۔ حسن بصری رحمہ اللہ تابعی ہیں اور بلا واسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں۔اس طرح یہ روایت ''مرسل'' ہونے کی وجہ سے ''ضعیف'' ہے۔
2۔ زہیربن محمد کا حسن بصری سے سماع مطلوب ہے۔
روایت نمبر 10: صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 'إِنَّ أَحْسَنَ مَا اخْتَضَبْتُمْ بِہٖ لَہٰذَا السَّوَادُ، أَرْغَبُ لِنِسَائِکُمْ فِیکُمْ، وَأَھْیَبُ لَکُمْ فِي صُدُورِ عَدُوِّکُمْ'.
''سیاہ رنگ بالوں کو رنگنے کے لئے سب سے اچھا ہے۔ یہ آپ کو بیویوں کے لئے زیادہ دلکش بناتا ہے اور دشمن کے دل میں رُعب پیدا کرتا ہے۔'' (سنن ابن ماجہ : 3625)
تبصرہ: یہ روایت سخت ''ضعیف'' ہے۔ اس کا راوی دفاع بن دغفل جمہور کے نزدیک ''ضعیف'' ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ''ضعیف'' قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب : 1827)
اس کا دوسرا راوی عبد الحمید بن صفی بھی ''لین الحدیث'' ہے۔ (تقریب التھذیب : 3765)
اس کا تیسرا راوی صفی بن صہیب ''مجہول الحال'' ہے۔ (تقریب التھذیب : 2961)
اس میں اور بھی علّتیں موجود ہیں۔
روایت نمبر 11: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں،
أَمَرَ بِالْحِنَّاء ِ، وَنَہَی عَنِ السَّوَادِ .
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہندی لگانے اور کالے رنگ سے بچنے کا حکم دیا۔''
(البزار (کشف الاستار ) : 2977)
تبصرہ :
اس کی سند سخت ضعیف ہے، یوسف بن خالد سمتی ''ضعیف'' ہے۔ امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں؛
کَانَ یَکْذِبُ '' یہ جھوٹا تھا۔'' (الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم : 9/222)
اس میں اور علتیں بھی ہیں۔
روایت نمبر 12: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں؛
"غَیِّرُوا الشَّیْبَ وَلَا تَشَبَّہُوا بِالْیَہُودِ وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ"
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کے بارہ میں فرمایا کہ سفیدی کو بدل دیں، اس حوالے سے یہود کی مشابہت اختیار مت کریں اور کالے رنگ سے بچیں۔'' (السنن الکبریٰ للبیہقي : 7/311)
تبصرہ :
سند ضعیف ہے، حسن بن ہارون نیشا پوری مجہول الحال ہیں، امام ابن حبان (الثقات: 7/178) کے علاوہ کسی نے توثیق نہیں کی، مکی بن عبدان اور ابو حامد شرقی سے توصیف و ثنا کی سند نہیں مل سکی۔
روایت نمبر 13: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے:
إِنَّہ، عَرَضَتْ عَلَیْہِ مَوْلَاۃٌ لَّہ، أَنْ یَصْبُغَ لِحْیَتَہ،، فَقَالَ: مَا أُرِیدُ تُطْفِیئُ نُورِي، کَمَا أَطْفَأَ فُلَانٌ نُورَہ، . ''ان کی لونڈی نے انہیں سیاہ خضاب لگانے کی اجازت چاہی تو فرمایا : میں نہیں چاہتا ہے کہ آپ میرا نور اس طرح بجھادیں جس طرح فلاں نے اپنا نور بجھالیا ہے۔'' (معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم الأصبھاني : 182)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کونکہ اس میں بقیہ بن ولید (موثق، حسن الحدیث) کی ''تدلیس''ہے۔ سماع کی صراحت نہیں مل سکی۔
بقیہ بن ولید کے بارے میں حافظ ابن ناصر الدین دمشقی (777۔842ھ) فرماتے ہیں:
وَثَّقَہُ الْجُمْھُورُ عَنِ الثِّقَاتِ، بِلَفْظٍ یَّدُلُّ عَلَی السَّمَاعِ.
''اسے جمہور محدثین نے اس وقت قابل اعتبار سمجھا ہے، جب یہ ثقہ راویوں سے روایت کرے اور سماع کی صراحت کرے۔'' (توضیح المشتبہ: 2/59)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَثَّقَہُ الْجُمْھُورُ فِیمَا سَمِعَہ، مِنَ الثِّقَاتِ.
''اسے جمہور محدثین نے ان روایات میں ثقہ قرار دیا ہے جو اس نے ثقہ راویوں سے خود سن رکھی ہوں۔'' (الکاشف : 106۔107)
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (723۔804ھ) فرماتے ہیں :
لٰکِنْ بَقِیَّۃُ رُمِيَ بِتَدْلِیسِ التَّسْوِیَۃِ، فَلَا یَنْفَعُہ، بِتَصْرِیحِہٖ بِالْحَدِیثِ.
''بقیہ بن ولید پر تدلیس تسویہ کا الزام ہے، لہٰذا اس کا (صرف اپنے استاذ سے) سماع کی تصریح کر دینا مفید نہیں۔'' (البدر المنیر: 4/509)
روایت نمبر 14: ابوقبیل حی بن ہانی تابعی کا بیان ہے:
دَخَلَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ عَلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَقَدْ صَبَغَ رَأْسَہ، وَلِحْیَتَہ، بِسَوَادٍ، فَقَالَ عُمَرُ : مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ : أَنَا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، قَالَ عُمَرُ : عَھْدِي بِکَ شَیْخًا، وَأَنْتَ الْیَوْمَ شَابٌّ، عَزَمْتُ عَلَیْکَ، إِلَّا مَا خَرَجْتَ، فَغَسَلْتَ ھٰذَا . ''سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے اپنے سر اور ڈاڑھی کو سیاہ خضاب لگا رکھا تھا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ کون ہیں؟ عرض کیا: میں عمروبن عاص ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: میں نے تو آپ کو بڑھاپے میں دیکھا تھا، لیکن اب آپ جوان نظر آتے ہیں۔ میں آپ پر یہ لازم کرتا ہوں کہ یہاں سے جائیں اور اس رنگ کو دھو ڈالیں۔''
(فتوح مصر والمغرب لأبي القاسم عبد الرحمٰن بن عبد اللّٰہ بن عبد الحکم، ص : 207)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے۔ اس میں ابن لہیعہ موجود ہے، جو جمہور محدثین کرام کے نزدیک ''ضعیف'' اور ''مدلس'' ہے۔ کَمَا مَرَّ
روایت نمبر 15 : کعب احبار تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلَیَصْبُغَنَّ أَقْوَامٌ بِالسَّوَادِ، لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ .
''لوگ ضرور سیاہ خضاب استعمال کریں گے۔ایسوں کو اللہ تعالیٰ روزقیامت (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔'' (حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبھاني : 5/377)
تبصرہ: اس کی سند ''ضعیف'' ہے، کیونکہ :
1۔ اس کا راوی عقیل بن مدرک سلمی ''مجہول الحال'' ہے۔ سوائے ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 7/294) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ''مقبول'' (مجہول الحال) قراردیا ہے۔(تقریب التھذیب: 4663)
2۔ عقیل بن مدرک کا استاذ ولید بن عامر یزنی بھی ''مجہول الحال'' ہے۔ اس کی توثیق بھی سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 7/552) کے کسی نے نہیں کی۔
فائدہ 1: امام جعفر صادق رحمہ اللہ (م : 148ھ) سے منقول ہے:
اَلْخِضَابُ مَکْبَدَۃٌ لِّلْعَدُوِّ، مَرْضَاۃٌ لِّلزَّوْجَۃِ .
''خضاب دشمن کو پریشان کرنے اور بیوی کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے۔''
(شعب الإیمان للبیہقي : 8/400، ح : 5995)
تبصرہ : اس کی سند ''ضعیف''ہے۔اس کے راوی علی بن محمد بن عقبہ شیبانی کی توثیق نہیں مل سکی۔
فائدہ 2: ضمرہ بن ربیعہ بیان کرتے ہیں:
سَمِعْتُ عَبْدَ الْعَزِیزِ بْنَ أَبِي رَوَادٍ یَّذْکُرُ، قَالَ : الصُّفْرَۃُ خِضَابُ الْإِیمَانِ، وَالْحُمْرَۃُ خِضَابُ الْإِسْلَامِ، وَالسَّوَادُ خِضَابُ الشَّیْطَانِ .
''میں نے عبد العزیز بن ابو رواد (م : 159ھ) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ زردی ایمان کا، سرخی اسلام کا اور سیاہی شیطان کا خضاب ہے۔'' (تاریخ ابن أبي خیثمۃ: 383، وسندہ، صحیحٌ)
تبصرہ: یہ شاذ قول ہے جس میں عبد العزیز بن ابو رواد کا کوئی سلف نہیں۔ جس کام کو صحابہ کرام اور تابعین کی ایک جماعت نے کیا ہو، اسے شیطانی عمل قرار دینا کیوں کر درست ہوگا۔
الحاصل:
مذکورہ دلائل وبراہین اور نصوص سلف سے مستفاد ہے کہ سیاہ خضاب بلا کراہت درست اور ثابت ہے،
واللہ اعلم۔
اللہ ہمیں حق سمجھ کر اس پہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
تحریر:
غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
جزاک اللہ
ReplyDelete