Saturday, 11 November 2017

امت کی بعثت کا مقصد کیا ہے؟

ایس اے ساگر
اس امت کو اللہ تعالٰی نے دعوت کی محنت کے لئے منتخب فرمایا ہے. اس عظیم الشان مقصد زندگی پر قابو پانے کے لئے آپسی ربط و ضبط اور اتحاد ضروری ہے. بعض کے نزدیک بڑوں کی یہی سوچ ہے کہ خود کو اقلیت نہ کہا جائے اور کھلے عام ہندوں کی برائی کو ترک کیاجائے، خود کو دہشت زدہ ظاہر نہ کیاجائے، خود کو اس ملک کا کرایہ دار نہ سمجھا جائے۔۔ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بقا کے لئے کام کیا جائے، قومیت سے آگے بڑھ کر ملک کے مفاد کی فکر کی جائے کیونکہ جب ملک کی بقا ہوگی تبھی ملت کی بقا ہوگی۔ بڑی فکر یہ ہے کہ دلتوں کو مکمل سپوٹ کیا جائے اور ان سے کسی بات میں جھگڑا کی نوبت آبھی رہی ہو تو ان کو سمجھانا تاکہ وہ سمجھیں کہ اصل ہم لڑ نہیں رہے بلکہ ہمیں لڑایا جارہا ہے۔ کیونکہ جب جب فساد ہوتاہے تو دلت اور مسلم ہی کٹتے مرتے ہیں اور برہمن فساد کرواکے، نفرتوں کے بیج بوکر دور کھڑے تماش بین بن جاتے ہیں اور کٹتے مرتے ہم دونوں ہیں، وہ تو بس ہم پر حکومت کرتے ہیں اور ایک تیر سے دو شکار مار کر موج کرتے ہیں۔
ایک بات اور یاد رہے کہ ہندوستان  اصل ہندوستانی یہی ملک کا ستر فی صدی دلت طبقہ ہی ہے جس کو آرئین برہمن نے غلام بناکررکھا ۔جس میں دلت، مسلم، آدیواسی، سکھ، عیسائی وغیرہ شامل ہیں۔
یہی اصل ہندستانی ہیں
یہ ہندو نہیں بلکہ ان دلتوں ہندو کہا جاتا ہے تاکہ ان برہمنوں کی اکثریت معلوم ہو جب کہ حقیقت یہ ہے دلت ہندو نہیں ہے اسی لئے برہمن کے ساتھ کھا نہیں سکتے، پوجا نہیں کرسکتے وغیرہ وغیرہ، یہ تو بس محض اس لئے ہندو کہلاتے ہیں تاکہ اکثریت معلوم ہوسکے ورنہ حقیقت یہ ہے برہمن طبقہ ملک کی اقلیت ہے اور اکثریت میں تو اب مسلمان ہیں، مولانا قمرالزماں ندوی اپنے 'آج کا پیغام' میں رقمطراز ہیں کہ مسلمانوں میں باہم انتشار و خلفشار، اختلاف و رنجش، باہمی کشمکش اور کشاکش معمولی اور فروعی مسئلہ میں باہم دست و گریباں ہونا، مسلک اور فرقہ کی بنیاد پر باہم لڑنا اور جھگڑنا اور اپنی زبان و قلم سے پڑھے لکھے حضرات کا ایک دوسرے کو کافر و مشرک ٹھہرانے میں پوری طاقت اور زور صرف کرنا ایک عام اور معمولی بات ہے - ایسا لگتا ہے کہ اپنی ان طفلانہ اور بچکانہ حرکتوں کی وجہ سے ہم مسلمانوں نے اپنی ایسی کردار کشی کی ہے ،جس سے اندرون خانہ ہی نہیں، بیرون خانہ بھی لوگ واقف ہیں، ثبوت کے لئے مولانا مفتی محمد محبوب شریف نظامی حیدر آباد کے مضمون 'اتحاد ملت -- حالات کے تناظر میں' کا یہ اقتباس قابل غور ہے؛
"گاندھی جی نے ایک موقع پر کہا تھا:
ہندوستان میں بڑی تین قومیں رہتی ہیں
1. ہندو،
2. کرسچین اور
3. مسلمان، دو قومیں ایسی ہیں جن کے دو دشمن ہیں اور ایک قوم ایسی ہے جس کے تین دشمن ہیں،
پوچھا گیا کہ وہ کون کون ہیں؟
بتایا کہ ہندو ان کے دو دشمن ہیں:
1. کرسچین اور
2. مسلمان
دوسرے کرسچین ہیں جن کے دو دشمن ہیں: 
1. ہندو اور
2. مسلمان؛
اور مسلمان کے تین دشمن ہیں؛
1. ہندو،
2. کرسچین اور
3. خود مسلمان مسلمان کے دشمن ہیں."
(بحوالہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے: مولف مولانا زاہد ناصری فاضل دیوبند ص، 43)
مسلمانوں کا باہم لڑنا جھگڑنا اور آپس میں دست و گریباں ہونا اور ایک دوسرے کو فاسق کافر اور مشرک ٹھرانا ایک دوسرے کا ناجائز خون بہانا اتنا سنگین جرم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کفر سے تعبیر فرمایا ہے:
لا ترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض..
(صحیح مسلم)
میرے بعد تم ایک دوسرے کی گردنیں مار کر، کافر نہ بن جانا.
اس حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مسلمانوں کا آپسی انتشار و خلفشار، لڑائی جھگڑا اور ایک دوسرے سے باہم خون و خرابہ گویا یہ ایک کافرانہ عمل ہے یہ کسی مسلمان کا شیوہ اور طور و طریقہ ہوہی نہیں سکتا- مسلمان کا شیوہ تو یہ ہے آپس میں ایک دوسے کے لئے مہربان اور کافروں کے لئے سخت جاں ہوتے ہیں - جس کی طرف قرآن مجید نے یوں اشارہ کیا ہے:
"اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم"
کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل
مسلمان جب تک اس قرآنی صفت سے متصف رہے پوری دنیا میں غالب رہے اور اپنا سکہ جما دیا مسلمانوں کی طوطی بولتی رہی ہر جگہ غالب و کامران رہے اور اغیار مغلوب و ناکام رہے-
اور آج جب مسلمانوں کی حالت اس کے برعکس ہوگئی اور مسلمانوں نے اس قرانی فارمولے کو چھوڑ دیا یعنی آپس ہی میں لڑنے جھگڑنے لگے ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگے تو نوبت یہ آگئی کہ اب اغیار ہر طرف سے انہیں لکار رہے ہیں، ان کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے عائلی نظام پر حملہ بول رہے ہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے لئے عرصئہ حیات تنگ کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ہمارے اندر آپسی انتشار و خلفشار دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے اور مسلک کے نام پر آپس میں دوریاں بڑھتی ہی جارہی ہیں ایک دوسرے کے خلاف حملہ کا سلسلہ آگے ہی بڑھ رہا ہے - پھر ہمیں یہ دن کیوں نہیں دیکھنا پڑے گا اور ہم مغلوب مقہور کیوں نہیں ہونگے -
اس لئے آج مسلمان اگر چاہتے ہیں کہ اپنی عظمت رفتہ حاصل کریں، عزت و سرفرازی اور سربلندی ان کے حصہ میں آئے اور وہ دنیا میں باوقار زندگی گزاریں تو اس کا ایک ہی راستہ اور حل ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمابرداری کرتے ہوئے آپس میں بھائی بھائی اور شفیق و رحیم بن کر رہیں - اپنے اختلافات بھائیوں کی طرح آپس میں بیٹھ کر دور کریں اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کے جال بننے چھوڑ دیں - لیکن جہاں دین اسلام خطرے میں پڑجائے، ایمان بچانا مشکل ہوجائے وہاں کافرانہ زندگی گزارنے کی بجائے کفر کے خلاف مجسم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں- باطل کی ریشہ دوانیوں اور فتنہ سامانیون کے لئے کاری ضرب بن جائیں؛
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے
نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاک کاشغر
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1543572742366980&id=120477478009854

No comments:

Post a Comment