ایک شاعر کا قول ہے کہ آج ہم لوگوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے ہم ووٹ پارٹیوں کو ڈالنے لگےہیں، اچھے لوگوں کو ووٹ ڈالنا چھوڑ دیا ہے، اگر ہم اچھے لوگوں کو ووٹ ڈالنا شروع کردیں، تو ہر پارٹی والے اچھے لوگوں کو ٹکٹ دینا شروع کر دیں گے، اور ملک کا نظام بھی درست ہوجائے گا، اور پھر معاشی تنگ حالی سے ملک خوش حالی کے طرف گامزن ہوجائے گا، تیس چالیس پہلے کی بات ہے، جب ٹکٹ پڑھے لکھے خوش حال خاندان کے افراد کو دیاجاتاتھا، نیتا ایک باوقار اور صاحب حیثیت انسان ہوتے تھے، اور سماج میں ان کا ایک مقام اور مرتبہ ہوتا تھا، لوگ ان کی قدر کرتے تھے، اور ان کی باتوں کو مانتے تھے، وہ صرف لوگوں کے فائدے کے لئے اور خدمت خلق کے جذبے سے سیاست میں حصہ لیتے تھے، اور وہ لوگوں کے مزاج و مذاق کے مطابق فیصلہ کرتے تھے، حکام اور پولس کی نقل و حرکت اور ان کی ظلم و زیادتی پر نظر رکھتے تھے، اپنے ماتحتوں پر کڑی نگاہ رکھتے تھے، اورذرہ برابر بے راہ روی کو جائز نہیں سمجھتے تھے، اور کڑی سے کڑی سزا دینے میں اولاد تک پر ترس نہیں کھاتے تھے۔
یاد رکھیں: شرعی نقطۂ نظر سے تو ’’ووٹ‘‘ ایک شہادت ہے، اس لئے ووٹ تو ایسے ہی آدمی کو دیا جائے گا، جو اچھا سچا اور نیکی کا جذبہ اپنے اندر رکھتا ہو، جو انسانوں کی خدمت میں یقین رکھتا ہو، جوقومی یکجہتی کا علمبردار ہو، بین المذاہب انصاف کاخواہاں ہو، مذہب کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کا قائل نہ ہو، ہرآدمی سے بحیثیت انسان محبت رکھتا ہو، اور ہر مذہب کے ماننے والوں کو اس کے مذہبی رسوم و رواج پر عمل درآمد کو درست سمجھتا ہو، مذہبی کتابوں اور مذہبی چیزوں کا قدرداں، اور مذہبی اشخاص کی تعظیم و توقیر بجا لاتا ہو،کسی پر ظلم روا نہ رکھتا ہو، اور ظالم وجابر کا پنجہ مڑوڑنے میں ذرہ برابر دریغ نہ کرتا ہو، جو عدلیہ اور قانون کاعزت و احترام کرتا ہو، اور قانون کے بالا دستی پر یقین رکھتا ہو۔
آج پارٹی اچھے لوگوں کی بجائے ٹکٹ ان کو دے رہی ہے، جن کا سماج میں غنڈہ گردی اور داداگری میں خاصا نام ہے، جو لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور گالی گلوچ میں ماہر ہے، جو لوگوں پر بھپتیاں کستا ہے اور ایذارسانی کے لئے لوگوں میں شہرہ رکھتا ہے، جو بیان بازی میں لمبی زبان اور دلت مسلم فساد کا ماہر ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ محاذ آرائی قائم کرتاہے، اور دلت اور اوبی سی کے لیے کھڈا کھودتا ہے، پسماندہ طبقہ کا مذاق اڑاتاہے، آر ایس ایس کا مزاج رکھتا ہے، اور جو پارٹیاں سیکولر ذہن کی ہے، وہ بھی ایسے ہی تگڑے نیتا کو تلاش کرتی ہے، جو مار دھاڑ میں آگے ہو، سماج میں جھوٹ سچ بول کر خوب پیسے اکٹھا کیا ہو، اور الیکشن لڑنے کے لئے پارٹی کی خوب مدد کرتا ہو، جو لوگوں سے دھونس جماکر ووٹ وصول کر نے پر قادر ہو۔
اسی وجہ سے ہندوستان کی جگ ہنسائی پورے عالم میں ہورہی ہے، نیتا ایسی گری اور اوچھی حرکت کررہا ہے کہ سماج کا ایک نیچا انسان بھی ایسا کرنا گوارہ نہیں کرے گا، اب اس پر تبصرےشروع ہوتا ہے، لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں، ناٹک اور گانا بنتا ہے اور اب تو اس کے ویڈیو بن کر وائرل ہوجاتے ہیں، جس کو پورے عالم میں دیکھا جاتا ہے اور ملک عزیز کا وقار خاک میں مل جاتا ہے۔
وعدے اور سبز باغ تو ایسے دکھاتے ہیں، مانو اب برے دن بھول کر بھی نہیں آئیں گے، ۱۵؍ لاکھ کھاتے میں آگئے، وکاس سر چڑھ کر بولنے لگے، سڑک اور گلی پکی ہوگئی، کھڈے کھوڈے غائب ہوگئے، ایکسیڈنٹ کم ہوگئے، کاروبار جم گئے،ہر ایک کے چہرے دمکنے لگے، کسان کے قرضے معاف ہوگئے، تجارتی منڈیاں جگمگانے لگیں، کسانوں کی کھیتی کے لئے جھیل اور تالاب، ندی نہر کھوددے گئے اور اب ان کے پانی سے کھیتیاں سیراب ہونے لگی ہیں۔
’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ خوش نما نعرہ ہے؛ لیکن نہ جانے بھائی وکاس کو اٹیک آگیا کہ زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا، نہ جانے وہ تمام وعدے کرکے شیعیوں کے امام کی طرح کہاں غائب ہوگئے، کہ کروڑوں ہندوستانی امید لگائے آج بھی وکاس کی راہ تک رہے ہیں، ڈھائی تین سال کا عرصہ گزر گیا، ایسا لگتا ہے اپنا عرصہ ختم کرکے ہی لوٹے گا، ویسے اب وقت بھی کافی کم رہ گیا ہے، ایسا نہ ہوکہ امید پر پانی ہی پھر جائے، اور عام آدمی ۲۰۱۹ میں جھاڑو پھیرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
وزراء تو ایسے شترِ بے مہار ہوگئے ہیں، کہ کسی کے خلاف کچھ بھی بیان بازی کررہے ہیں، ایسا لگتاہے کہ ان کوہیڈکوارٹرس سے بکواس کرنے ہی کے لیے چھوڑا گیاہے، اسی وجہ سے نہ توان کو کچھ بولنے میں تأمل ہے، اورنہ بولے ہوئے پر شرمندگی، بلکہ مزید ڈھٹائی کے ساتھ سینہ پھلاکر بولتے ہیں، ہاں ہم نے یہ بات کہی ہے، نہ اس کو پولس کا ڈر ہے، نہ عدلیہ سے خوف، نہ سرکار کا خطرہ، نہ وزیر اعظم سے باز پرس کی امید، نہ صدر جمہوریہ کی عزت و وقار کا پاس و لحاظ کہ وہ بھی اسی کے کرم کا صدقہ ہے، ورنہ حامد صاحب کے طرح چلتا کردیے جائیں گے۔
کچھ بے باک صحافی کے خاک و خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے، تو ٹویٹر پر بڑوں کی جانب سے انھیں مبارکبادیاں ملتی ہیں، اور بعض وزیر صاف الفاظ میں کہتے ہیں، یہ فلاں کے خلاف لکھنے کا نتیجہ ہے، ورنہ وہ اپنی قیمتی جان سے ہاتھ نہ دھوتے، نہ حکومت کی جانب سے اس کی پکڑ ہے، نہ بازپرس، نہ کیس داخل نہ بڑے لوگوں کی اس سے روگردانی۔
بعض مرتبہ اعلیٰ عہدے داران جھوٹے وعدے یا جھوٹا اعلا ن کردیتے ہیں، اور ڈھٹائی سےکہتے بھی ہیں یہ سب کچھ ہونے والا نہیں ہے، مگر الیکشن کا زمانہ ہے، کچھ نہ کچھ تو وعدے کرنے پڑیں گے، بغیر الّو بنائے بھی ووٹ ملتا ہے کیا، فیاللعجب، اس قدر ابن الوقتی، حیرانی ہوتی ہے کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا، اور یہ جھوٹا وعدہ اس ملک کے وقار کو کتنا مجروح کرے گا۔
کچھ صاحب ذی وقارقلم دان خرید لیے گئے ہیں،کہ وہی فیصلہ لکھنا ہے،جو ہم چاہتے ہیں،ورنہ سینہ ٹھوک کر کوئی غلط کو صحیح بنانے کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے،اورحاشا و کلا ّفیصلے بھی وہی آتے ہیں،جس کا دعویٰ پیش کیا گیا تھا،ان کی قلموں کے مار سے ایسے ایسے نصیبہ ور،جناب اخلاق حسین کا قاتل، محترم حافظ صاحب کا بے رحمی سے بہیمانہ قتل کرنے والے،نجیب کو لاپتہ کرنے والےکھلے بندے گھوم رہے ہیں،جس کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے،اور بہت سے بد نصیب بغیر کسی جرم کے ملزم سے مجرم بناکر سلاخوں کے پیچھے چکیاں پیس رہے ہیں، اور گوری لنکیش کے قاتل تو ہندوستانی سی بی آئی کے دسترس سے ہی دور ہیں،پتہ نہیں کیس ہی سرد خانے میں نہ ڈال دیا جائے،اور معاملہ ٹل جائے،ہمیں تعجب تو حکومت کے سرد مہری پر ہے کہ وہ ہندوستانی تاریخ کو مسخ ہوتے دیکھ رہی ہے،پھر بھی مہر سکوت توڑنے پر آمادہ نہیں ہیں، شہدائے ہند کے وقار کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے،مگرکچھ بولنے کوتیار نہیں،تاریخی عمارتوں کے وقار کو مسمار جارہاہے،پھر بھی لب سلے ہوئے ہیں،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے دشمنی اور عداوت کا چشمہ پہن رکھا ہے، یا پھر کہا جائے کہ ہم نے اچھے آدمیوں کاالیکشن میں انتخاب نہیں کیا ،جن کوملک کے وقاروبلندی کاپتہ ہی نہیں،نہ وہ تاریخ ہند سے واقفیت رکھتے ہیں،نہ مذہب کا پاس و لحاظ ہے، اورنہ قاتل و ظالم کے بارے میں کوئی خاص علم ہے۔
آئندہ ہمیں ان باتوں کا بہت خیال رکھنا ہے کہ ووٹ - جو ہمارا جمہوری حق ہے- ضرور بالضرور ڈالیں گے، اس میں کسی طرح کی سستی وکاہلی یا کسی کام کا بہانہ حائل نہیں ہونے دیں گے، مگر ووٹ اچھے آدمی ہی کو ڈالیں گے، یا ان میں سےجو کم درجے کا ہے، اس کو ڈالیں گے، مگر ووٹ ڈالیں گے ضرور کہ ووٹ ہمارا جمہوری حق ہے، ہمارا ایک ووٹ سیکولر انسان کے ہاتھ کو مضبوط کرسکتا ہے، اور ملک کو افسرواد، کرسی واد، اور ذات پات واد سے نکال کر سماج واد بناسکتا ہے، یاد رکھیں! ووٹ ہمارے ملک اور دیش کی ترقی کی ضمانت ہے، اس لئے ووٹ کی اہمیت سمجھتے ہوئے اچھے انسانوں کو دینے کی کوشش کریں، تاکہ ہمارا ملک خوش حال ہوجائے، ورنہ بہ صورت دیگر ملک کاستیہ ناس ہوجائے گا؛اس لیے جمہوریت کی بحالی اور فرقہ پرستوں کے خیمے میں صفِ ماتم بچھا نے کے لئے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں، اللہ ہم سب کا حامی ومدد گار ہے ،ان شاء اللہ۔
معلم
از: عبد القیوم قاسمی [مدیر اذانِ ہند]
........
ووٹوں کی سودے بازی حرام:
دارالعلوم دیوبند
آج پارٹی اچھے لوگوں کی بجائے ٹکٹ ان کو دے رہی ہے، جن کا سماج میں غنڈہ گردی اور داداگری میں خاصا نام ہے، جو لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور گالی گلوچ میں ماہر ہے، جو لوگوں پر بھپتیاں کستا ہے اور ایذارسانی کے لئے لوگوں میں شہرہ رکھتا ہے، جو بیان بازی میں لمبی زبان اور دلت مسلم فساد کا ماہر ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ محاذ آرائی قائم کرتاہے، اور دلت اور اوبی سی کے لیے کھڈا کھودتا ہے، پسماندہ طبقہ کا مذاق اڑاتاہے، آر ایس ایس کا مزاج رکھتا ہے، اور جو پارٹیاں سیکولر ذہن کی ہے، وہ بھی ایسے ہی تگڑے نیتا کو تلاش کرتی ہے، جو مار دھاڑ میں آگے ہو، سماج میں جھوٹ سچ بول کر خوب پیسے اکٹھا کیا ہو، اور الیکشن لڑنے کے لئے پارٹی کی خوب مدد کرتا ہو، جو لوگوں سے دھونس جماکر ووٹ وصول کر نے پر قادر ہو۔
اسی وجہ سے ہندوستان کی جگ ہنسائی پورے عالم میں ہورہی ہے، نیتا ایسی گری اور اوچھی حرکت کررہا ہے کہ سماج کا ایک نیچا انسان بھی ایسا کرنا گوارہ نہیں کرے گا، اب اس پر تبصرےشروع ہوتا ہے، لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں، ناٹک اور گانا بنتا ہے اور اب تو اس کے ویڈیو بن کر وائرل ہوجاتے ہیں، جس کو پورے عالم میں دیکھا جاتا ہے اور ملک عزیز کا وقار خاک میں مل جاتا ہے۔
وعدے اور سبز باغ تو ایسے دکھاتے ہیں، مانو اب برے دن بھول کر بھی نہیں آئیں گے، ۱۵؍ لاکھ کھاتے میں آگئے، وکاس سر چڑھ کر بولنے لگے، سڑک اور گلی پکی ہوگئی، کھڈے کھوڈے غائب ہوگئے، ایکسیڈنٹ کم ہوگئے، کاروبار جم گئے،ہر ایک کے چہرے دمکنے لگے، کسان کے قرضے معاف ہوگئے، تجارتی منڈیاں جگمگانے لگیں، کسانوں کی کھیتی کے لئے جھیل اور تالاب، ندی نہر کھوددے گئے اور اب ان کے پانی سے کھیتیاں سیراب ہونے لگی ہیں۔
’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ خوش نما نعرہ ہے؛ لیکن نہ جانے بھائی وکاس کو اٹیک آگیا کہ زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا، نہ جانے وہ تمام وعدے کرکے شیعیوں کے امام کی طرح کہاں غائب ہوگئے، کہ کروڑوں ہندوستانی امید لگائے آج بھی وکاس کی راہ تک رہے ہیں، ڈھائی تین سال کا عرصہ گزر گیا، ایسا لگتا ہے اپنا عرصہ ختم کرکے ہی لوٹے گا، ویسے اب وقت بھی کافی کم رہ گیا ہے، ایسا نہ ہوکہ امید پر پانی ہی پھر جائے، اور عام آدمی ۲۰۱۹ میں جھاڑو پھیرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
وزراء تو ایسے شترِ بے مہار ہوگئے ہیں، کہ کسی کے خلاف کچھ بھی بیان بازی کررہے ہیں، ایسا لگتاہے کہ ان کوہیڈکوارٹرس سے بکواس کرنے ہی کے لیے چھوڑا گیاہے، اسی وجہ سے نہ توان کو کچھ بولنے میں تأمل ہے، اورنہ بولے ہوئے پر شرمندگی، بلکہ مزید ڈھٹائی کے ساتھ سینہ پھلاکر بولتے ہیں، ہاں ہم نے یہ بات کہی ہے، نہ اس کو پولس کا ڈر ہے، نہ عدلیہ سے خوف، نہ سرکار کا خطرہ، نہ وزیر اعظم سے باز پرس کی امید، نہ صدر جمہوریہ کی عزت و وقار کا پاس و لحاظ کہ وہ بھی اسی کے کرم کا صدقہ ہے، ورنہ حامد صاحب کے طرح چلتا کردیے جائیں گے۔
کچھ بے باک صحافی کے خاک و خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے، تو ٹویٹر پر بڑوں کی جانب سے انھیں مبارکبادیاں ملتی ہیں، اور بعض وزیر صاف الفاظ میں کہتے ہیں، یہ فلاں کے خلاف لکھنے کا نتیجہ ہے، ورنہ وہ اپنی قیمتی جان سے ہاتھ نہ دھوتے، نہ حکومت کی جانب سے اس کی پکڑ ہے، نہ بازپرس، نہ کیس داخل نہ بڑے لوگوں کی اس سے روگردانی۔
بعض مرتبہ اعلیٰ عہدے داران جھوٹے وعدے یا جھوٹا اعلا ن کردیتے ہیں، اور ڈھٹائی سےکہتے بھی ہیں یہ سب کچھ ہونے والا نہیں ہے، مگر الیکشن کا زمانہ ہے، کچھ نہ کچھ تو وعدے کرنے پڑیں گے، بغیر الّو بنائے بھی ووٹ ملتا ہے کیا، فیاللعجب، اس قدر ابن الوقتی، حیرانی ہوتی ہے کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا، اور یہ جھوٹا وعدہ اس ملک کے وقار کو کتنا مجروح کرے گا۔
کچھ صاحب ذی وقارقلم دان خرید لیے گئے ہیں،کہ وہی فیصلہ لکھنا ہے،جو ہم چاہتے ہیں،ورنہ سینہ ٹھوک کر کوئی غلط کو صحیح بنانے کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے،اورحاشا و کلا ّفیصلے بھی وہی آتے ہیں،جس کا دعویٰ پیش کیا گیا تھا،ان کی قلموں کے مار سے ایسے ایسے نصیبہ ور،جناب اخلاق حسین کا قاتل، محترم حافظ صاحب کا بے رحمی سے بہیمانہ قتل کرنے والے،نجیب کو لاپتہ کرنے والےکھلے بندے گھوم رہے ہیں،جس کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے،اور بہت سے بد نصیب بغیر کسی جرم کے ملزم سے مجرم بناکر سلاخوں کے پیچھے چکیاں پیس رہے ہیں، اور گوری لنکیش کے قاتل تو ہندوستانی سی بی آئی کے دسترس سے ہی دور ہیں،پتہ نہیں کیس ہی سرد خانے میں نہ ڈال دیا جائے،اور معاملہ ٹل جائے،ہمیں تعجب تو حکومت کے سرد مہری پر ہے کہ وہ ہندوستانی تاریخ کو مسخ ہوتے دیکھ رہی ہے،پھر بھی مہر سکوت توڑنے پر آمادہ نہیں ہیں، شہدائے ہند کے وقار کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے،مگرکچھ بولنے کوتیار نہیں،تاریخی عمارتوں کے وقار کو مسمار جارہاہے،پھر بھی لب سلے ہوئے ہیں،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے دشمنی اور عداوت کا چشمہ پہن رکھا ہے، یا پھر کہا جائے کہ ہم نے اچھے آدمیوں کاالیکشن میں انتخاب نہیں کیا ،جن کوملک کے وقاروبلندی کاپتہ ہی نہیں،نہ وہ تاریخ ہند سے واقفیت رکھتے ہیں،نہ مذہب کا پاس و لحاظ ہے، اورنہ قاتل و ظالم کے بارے میں کوئی خاص علم ہے۔
آئندہ ہمیں ان باتوں کا بہت خیال رکھنا ہے کہ ووٹ - جو ہمارا جمہوری حق ہے- ضرور بالضرور ڈالیں گے، اس میں کسی طرح کی سستی وکاہلی یا کسی کام کا بہانہ حائل نہیں ہونے دیں گے، مگر ووٹ اچھے آدمی ہی کو ڈالیں گے، یا ان میں سےجو کم درجے کا ہے، اس کو ڈالیں گے، مگر ووٹ ڈالیں گے ضرور کہ ووٹ ہمارا جمہوری حق ہے، ہمارا ایک ووٹ سیکولر انسان کے ہاتھ کو مضبوط کرسکتا ہے، اور ملک کو افسرواد، کرسی واد، اور ذات پات واد سے نکال کر سماج واد بناسکتا ہے، یاد رکھیں! ووٹ ہمارے ملک اور دیش کی ترقی کی ضمانت ہے، اس لئے ووٹ کی اہمیت سمجھتے ہوئے اچھے انسانوں کو دینے کی کوشش کریں، تاکہ ہمارا ملک خوش حال ہوجائے، ورنہ بہ صورت دیگر ملک کاستیہ ناس ہوجائے گا؛اس لیے جمہوریت کی بحالی اور فرقہ پرستوں کے خیمے میں صفِ ماتم بچھا نے کے لئے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں، اللہ ہم سب کا حامی ومدد گار ہے ،ان شاء اللہ۔
معلم
از: عبد القیوم قاسمی [مدیر اذانِ ہند]
........
ووٹوں کی سودے بازی حرام:
دارالعلوم دیوبند
http://nationalspeak.com/darul-uloom-deoband-fatwa-on-civil-body-election-hindi-news/
No comments:
Post a Comment