Sunday, 5 November 2017

عورت کی آواز میں خبریں سننا


عورت کی آواز میں خبریں سننا 

سوال: عورت اگر نیوز چینل پر ہو تو اس کی نیوز سننا کیسا ہے؟ بحوالہ جواب مطلوب ہے. 
............
فیس بک اور موبائل پہ اجنبیہ سے گفتگو اور میسیج؟
السلام علیکم، 
اسلام میں عورت کی آواز کے پردے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جیسا کے آج کل عورتیں بھی دین پھیلانے میں مردوں کے شانہ بہ شانہ ہے، فیس بک، یوٹوب، واٹس ایپ پر  ان کی  تقاریر منظر عام پر آتی ہیں جو نہ محرم  مرد بھی سنتے ہیں، اس کے بارے شریعت کیا کہتی ہے؟     
اور کیا نہ محرم  مردوں سے دین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے واٹس ایپ پر چیٹنگ کرسکتے ہیں؟ یا فون پر گفتگو کرسکتے ہیں؟ قران و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے وضاحت کریں. نوازش ہوگی
بندہ خدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
صحیح اور راجح قول کے مطابق عورت کی آواز پردہ (ستر) میں داخل نہیں ہے۔ عوارض مثلا خوف فتنہ کی وجہ سے اس پہ روک لگائی گئی ہے۔ جہاں یہ علت نہ ہوگی، وہاں عورت کی آواز کا پردہ بھی نہ ہوگا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آیت حجاب کے نزول کے بعد بھی پردہ سے امہات المومنین سے بوقت ضرورت باتیں کرتے۔ مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
کیا عورت کی آواز فی نفسہ ستر میں داخل ہے اور غیر محرم کو آواز سنانا جائز ہے؟ اس معاملے میں حضرات ائمہ کا اختلاف ہے۔ امام شافعی کی کتب میں عورت کی آواز کو ستر میں داخل نہیں کیا گیا۔ حنفیہ کے نزدیک بھی مختلف اقوال ہیں ۔ ابن ہمام نے نوازل کی روایت کی بناء پر ستر میں داخل قرار دیا ہے۔ اسی لئے حنفیہ کے نزدیک عورت کی اذان مکروہ ہے لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ازواج مطہرات نزول حجاب کے بعد بھی پس پردہ غیر محارم سے بات کرتی تھیں. اس مجموعہ سے راجح اور صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس موقع اور جس محل میں عورت کی آواز سے فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو وہاں ممنوع ہے جہاں یہ نہ ہو جائز ہے (جصاص) اور احتیاط اسی میں ہے کہ بلا ضروت عورتیں پس پردہ بھی غیر محرموں سے گفتگو نہ کریں ۔
(معارف القرآن 407/6)
الموسوعةالفقہیہ میں ہے:
ذَهَبَ الْفُقَهَاءُ إِلَى أَنَّهُ لاَ يَجُوزُ التَّكَلُّمُ مَعَ الشَّابَّةِ الأَْجْنَبِيَّةِ بِلاَ حَاجَةٍ لأَِنَّهُ مَظِنَّةُ الْفِتْنَةِ، وَقَالُوا إِنَّ الْمَرْأَةَ الأَْجْنَبِيَّةَ إِذَا سَلَّمَتْ عَلَى الرَّجُل إِنْ كَانَتْ عَجُوزًا رَدَّ الرَّجُل عَلَيْهَا لَفْظًا أَمَّا إِنْ كَانَتْ شَابَّةً يُخْشَى الاِفْتِتَانُ بِهَا أَوْ يُخْشَى افْتِتَانُهَا هِيَ بِمَنْ سَلَّمَ عَلَيْهَا فَالسَّلاَمُ عَلَيْهَا وَجَوَابُ السَّلاَمِ مِنْهَا حُكْمُهُ الْكَرَاهَةُ عِنْدَ الْمَالِكِيَّةِ وَالشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ، وَذَكَرَ الْحَنَفِيَّةُ أَنَّ الرَّجُل يَرُدُّ عَلَى سَلاَمِ الْمَرْأَةِ فِي نَفْسِهِ إِنْ سَلَّمَتْ عَلَيْهِ وَتَرُدُّ هِيَ فِي نَفْسِهَا إِنْ سَلَّمَ عَلَيْهَا، وَصَرَّحَ الشَّافِعِيَّةُ بِحُرْمَةِ رَدِّهَا عَلَيْهِ۔
(بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية 4 / 1577، وحاشية ابن عابدين 1 / 272، 5 / 233، والفواكه الدواني 2 / 224، وشرح الزرقاني 3 / 110، وروضة الطالبين 10 / 229، والمغني 6 / 558 - 560.)
مرشد تھانوی رحمة اللہ علیہ کے مختلف ملفوظات وفتاوی میں ہے:
عورت کی آواز کے عورت (ستر) ہونے میں اِختلاف ہے مگر صحیح یہ ہے کہ وہ عورت نہیں۔ (اِمدادُالفتاوی) لیکن عوارض کی وجہ سے بعض جائز اُمور کا ناجائز ہوجانا فقہ میں معروف و مشہور ہے اِس لئے فتنہ کی وجہ سے عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے۔
(اِمدا دُالفتاوی)
بعض فقہاء نے عورت کی آواز کو عورت (ستر) کہا ہے گو بدن مستور (پردہ) ہی میں ہو کیونکہ گفتگو اَور کلام سے بھی عشق ہوجاتا ہے اَور آواز سے بھی میلان ہوجاتا ہے۔ (ملفوظاتِ اَشرفیہ)
عورت کی آواز تو بے شک عورت(ستر) ہوتی ہے، اِس کو آہستہ بولنا چاہئے تاکہ کبھی کوئی آواز سن کر عاشق نہ ہوجائے۔ اِس کے زور سے بولنے میں فتنہ ہے اِس لئے (عورت کو ) زور سے نہ بولنا چاہئے۔
(الافاضات الیومیہ)
اَز افادات: حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ)
فتاوی شامی میں ہے:
ولا یکلم الأجنبیۃ إلا عجوزاً۔’’درمختار‘‘۔ ویجوز الکلام المباح مع امرأۃ أجنبیۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي الحدیث دلیل أنہ لا بأس بأن یتکلم مع النساء بما لا یحتاج إلیہ ولیس ھذا من الخوض فیما لایعنیہ ،إنما ذلک في کلا م فیہ إثم، فالظاہر أنہ قول آخر أو محمول علی العجوز ۔
’رد المحتار علی الدر المختار‘
(۹/۵۳۰ ، الحظروالإباحۃ ، فصل في النظر والمس)
مذکورہ بالا فقہی نصوص سے واضح ہے کہ بوقت ضرورت اجنبیہ عورت سے بات کی جاسکتی ہے۔ بشرطیکہ لذت بخش اور نغمگی آواز کے ذریعہ نہ ہو اور خوف فتنہ بھی نہ ہو۔ بلا ضرورت ان سے بات کرنا یا نجی نمبر پہ فیس بک کے 'ان باکس' In box میں  انہیں چیٹنگ یا میسیج کرنا خطرات سے خالی نہیں۔ اس لئے ناجائز ہے ۔۔۔۔۔ اللہ نے قرآن کریم میں امہات المومنین کو جو سلیقہ گفتگو سکھایا وہ اس جانب بھی مشیر ہے۔
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ۔۔۔۔ (033:032)
فلا تخضعن بالقول کہ کسی اجنبی آدمی سے دب کر بات نہ کرو بلکہ کلام میں درشتگی اختیار کرو۔ کیونکہ نرم لہجے میں بات کرنے سے فیطمع الذی فی قلبہ مرض دل کا روگی آدمی لالچ کرے گا۔ دل کے روگ سے مراد نفاق، خواہشات نفسانی اور شہوانی میلان ہے۔ اس لئے حکم دیا کہ اگر کسی اجنبی آدمی سے بات کرنی پڑے تو روکھا پن ظاہر کرو، تاکہ کسی بد باطن آدمی کے دل میں کوئی خیال نہ آسکے۔
'ان باکس' وغیرہ میں شخصی چیٹنگ "فیطمع الذی فی قلبہ مرض" کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
سیدپور /بیگوسرائے
............
کیا عورت کی آواز میں درس حدیث یا درس قرآن سننا جائز ہے؟ برائے مہربانی مفصل جواب عنایت فرمائیں...
جزاکم اللہ خیرا
Published on: Dec 1, 2016 جواب # 146567
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 208-138/D=2/1438
عورت کی آواز بھی ستر ہے لہٰذا وہ اگر عورتوں کو درس حدیث یا درس قرآن دیں تو پست آواز میں دیں تاکہ مردوں تک آواز نہ پہنچے اور مردوں کے مجمع کے لئے عورتوں کا درس حدیث یا درس قرآن دینے کی ضرورت نہیں ہے اور ٹیپ وغیرہ سے عورت کی آواز میں نعت تلاوت درس وغیرہ سننا کراہت سے خالی نہیں ہے اور اگر ااستلذاذ ہو تو احتراز واجب ہے اسی لیے عورتوں کو اذان دینے کی اور زور سے تلبیہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔
نغمة المرأة عورة وتعلمہا القرآن من المرأة أحب قال علیہ الصلوة والسلام التسبیح للرجال والتصفیق للنساء فلایحسن أن یسمعہا الرجل وفی الکافی ولاتلبی جہراً لأن صوتہا عورة (شامی/ ۲:۷۸) ولا نجیز لہن رفع أصواتہن ولا تمطیطہا ولا تلیینہا وتقطیعہا لما فی ذالک من استمالة الرجال إلیہن وتحریک الشہوة منہم (شامی: ۲/۷۹)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
...........
عورت کی آواز کا پردہ
سوال: کیا عورت کی آواز کا پردہ ہے یا نہیں؟
الْجَواب حامِداوّمُصلّیاً:
عورت کی آواز کو بہت سے فقہاء کرام نے ستر جبکہ جمہور نے فتنہ قرار دیا ہے لہٰذا عورتوں کے لئے بلاضرورت مردوں تک اپنی آواز پہنچانے کی اجازت نہیں ہے.
المبسوط للسرخسي – (1 / 133)
وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالْأَذَانِ وَالْمَرْأَةُ مَمْنُوعَةٌ مِنْ ذَلِكَ لِخَوْفِ الْفِتْنَةِ، فَإِنْ صَلَّيْنَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ جَازَتْ صَلَاتُهُنَّ مَعَ الْإِسَاءَةِ لِمُخَالَفَةِ السُّنَّةِ وَالتَّعَرُّضِ لِلْفِتْنَةِ.
(م م)غمز عيون البصائر – (3 / 383)
وصوتها عورة في قول في شرح المنية الأشبه أن صوتها ليس بعورة وإنما يؤدي إلى الفتنة وفي النوازل نغمة المرأة عورة وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من تعلمها من الأعمى ولذا قال عليه الصلاة والسلام التسبيح للرجال والتصفيق للنساء فلا يجوز أن يسمعها الرجل كذا في الفتح

وَاللہ اَعْلَمُ
...............
جواب: بدرجہ اولی ناجائز ہوگا.


No comments:

Post a Comment