Thursday 9 November 2017

شب زفاف کے خون کے احکام

شب زفاف کے خون کے احکام
سوال: مفتی صاحب، معلوم یہ کرنا ہے کہ پہلی ملاقات سے جو خون آتا ھے، اس سے نماز ہوجائے گی؟
جواب: یہ عارضی خون ہے جو کچھ دیر کے بعد بند ہوجاتا ہے، لہذا اچھی طرح پاکی حاصل کرنے کے بعد نماز ادا کرے.
.......
سوال: 
شب زفاف کے خون پر استحاضہ کے احکام نافذ ہوں گے یا حیض کے؟
جواب: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اگر ہتھیلی کی مقدار (ایک درہم یا اس سے کم مقدار) کے برابر یا اس سے کم حصہ خون سے کپڑا یا جسم کا کوئی حصہ آلودہ ہو تو معاف ہے، اس حالت میں نماز ہوجائے گی، اس سے زائد معاف نہیں ہے۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی علیہ وسلم قال: تعاد الصلاۃ من قدر الدرہم من الدم۔ (سنن الدار قطني ۱؍۳۸۵ رقم: ۱۴۷۹)
وإن کانت أکثر من قدر الدرہم منعت جواز الصلاۃ۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ ۱؍۴۴۰ زکریا، درمحتار مع الشامي ۱؍۵۲۰)
عورت کو جو خون آتا ہے وہ تین قسم کا ہوتا ہے:
(۱) حیض
(۲) نفاس
(۳) استحاضہ۔
حیض: عورتوں کو ہرمہینہ (ماہواری) جو خون آتا ہے اس کا نام حیض ہے۔
نفاس: عورتوں کو ولادت کے بعد جو خون جاری ہوتا ہے، اس کو نفاس کہتے ہیں۔
استحاضہ: وہ خون ہے جو حیض میں تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ آئے اور نفاس میں چالیس دن سے زیادہ آئے، یہ خون بیماری کا ہوتا ہے، رحم کے اندر کسی باریک رگ کے پھٹ جانے سے خون جاری ہوتا ہے؛ کبھی وقفہ کے ساتھ؛ کبھی مسلسل جاری رہتا ہے، نیزحمل کی حالت میں جو خون آتا ہے وہ بھی استحاضہ ہی کا خون ہوتا ہے۔ (انوار اسلام)
والاستحاضۃ دم نقص عن ثلاثۃ أیام أو زاد علی عشرۃ فی الحیض لما رویناہ ودم زاد علی أربعین فی النفاس أو زاد علی عادتہا۔ (مراقی الفلاح۷۶) قال الأزہری: الاستحاضۃ سیلان الدم فی غیر أوقاتہ المعتادۃ۔ (البحرالرائق ۱؍۱۹۰، القاموس بحوالہ حاشیہ شامی بیروت ۱؍۴۱۱)
والمستحاضۃ من یسیل دمہا ولا یرقأ في غیر أیام معلومۃ، لا من عرق الحیض؛ بل من عرق یقال لہ العاذل۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ ۳/۱۹۷، طحطاوی علی مراقي الفلاح ۷۶)
استحاضہ کا خون بھی شرم گاہ کے اندر سے آتا ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ حیض والی رگ کے علاوہ "عاذل" نامی رگ سے جاری ہوتا ہے۔
استحاضہ کا خون خلاف عادت ومعمول ہے۔ اس کا حکم عام نکسیروں کی طرح ہے۔ صوم وصلات کے لئے مانع نہیں۔ اس سے دوچار ہونے والی خاتون بشرط تسلسل معذور شرعی کے حکم میں رہتی ہے کہ ہر نماز کے وقت کے لئے وضو کرکے نماز پڑھ لے گی۔
شوہر سے اول ملاقات میں پردہ بکارت کے زوال  کی وجہ سے جو خون جاری ہوتا ہے وہ استحاضہ نہیں۔ کیونکہ وہ داخل فرج سے نہیں بلکہ خارجی زخم (زوال بکارت) کی وجہ سے جاری ہوتا ہے۔ اور زیادہ دنوں جاری بھی نہیں رہتا۔
اگر ایک مسلسل نماز کے وقت تک سیلان ہوتا رہے تو 
پھر نکسیر کے حکم میں ہوگا اور معذور کے مذکور بالا احکام طہارت اس پہ نافذ ہونگے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
................
.....سوال: ایک مسئلہ کے تعلق سے رہنمائی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ زید کی شادی ۱۱ تاریخ کو ہوتی ہے رخصتی کے بعد شب زفاف کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیوی ایام حیض سے ہے لیکن گھر کے کسی فرد نے بیوی کو ایک خاص قسم کی دوا دے دی تھی جس سے وقتی طور پر خون بند ہوگیا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا اس حالت میں زید مجامعت کرسکتا ہے یا نہیں؟ مزید یہ بھی بتادیجئے کہ ایام حیض میں جماع کی ممانعت کا سبب کیا ہے؟ خود ایام حیض ہے یا سلسلةالدم ہے؟
جواب: بیوی کو اگر حیض کا خون آنا شروع ہوگیا تھا پھر دوا کے ذریعہ سے خون بند کیا گیا تو محض خون بند ہونے سے وہ پاک شمار نہ ہوگی، بلکہ ایام عادت تک وہ حائضہ ہی شمار ہوگی اور حالت حیض میں مجامعت ممنوع ہے لقولہ تعالی: 
وَیَسْاَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ ہُوَ اَذًی فَاعْتَزِلُواْ النِّسَا فِی الْمَحِیضِ وَلاَ تَقْرَبُوہُنَّ حَتَّیَ یَطْہُرْنَ إلخ (البقرة) وإن منع بعد الظہور أولاً فالحیض والنفاس باقیان أي لا یزول بہذا المنع حکمہا الثابت بالظہور أولاً کما لو خرج بعض المني ومنع باقیہ عن الخروج فإنہ لاتزول الجنابة (منہل الوادین ۸۱، بحوالہ کتاب المسائل: ۱/ ۲۲۸)
اور اگر حیض کا خون شروع ہونے سے پہلے ہی دوا کا استعمال کیا گیا جس سے خون بالکل نہیں آیا تو جب تک خون جاری نہ ہو عورت پاک شمار ہوگی اور پاکی کے ایام میں مجامعت درست ہے؛ لیکن دوا کے ذریعہ فطری خون کو روکنا صحت کے لئے مضر ہوسکتا ہے اس لیے ایسا نہیں کرنا چاہئے، اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ ایام حیض میں جماع کی ممانعت کا سبب دم حیض کا جریان ہے لہٰذا اگر حیض کی عادت کے ایام تو آگئے لیکن حیض نہیں آیا تو مجامعت ممنوع نہیں، مجامعت کرسکتا ہے۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Nikah-Marriage/65099


No comments:

Post a Comment