Wednesday 22 November 2017

مولانا محمد اسلم قاسمی؛ ایک ہمہ جہت شخصیت

مولانا محمد اسلم قاسمی؛ 
ایک ہمہ جہت شخصیت
رواں ماہ کی 13 ویں تاریخ تھی، میں بہار میں ایک اجلاس کے لئے سفر پر نکل پڑا تھا، غازی آباد کے قریب پہونچا ہوں گا کہ اچانگ واٹس ایپ کے مختلف حلقوں میں متکلمِ اسلام حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی صاحب کی خبرِ وفات گردش کرنے لگی، خبر پڑھ کر دل دھک سے رہ گیا، استرجاع کیا، دعاے مغفرت کی اور ساری راہ انہی کی شخصیت ذہن میں گھومتی رہی، سفر میں لکھنا پڑھنا میرے لئے مشکل ہے، میں لیپ ٹاپ کا آدمی نہیں ہوں، مجھے ان کے بارے میں معلومات بھی زیادہ نہیں تھیں، موبائل پر لکھتا بھی تو کیا لکھتا اور کیسے لکھتا، سرسری سا مضمون خود مجھے اذیت میں مبتلا کرتا ہے، سفر چار دن تک چلتا رہا، اس دوران متعدد مضامین نظر سے گزرے، مگر میری تشنگی قلم اٹھانے سے مانع رہی، میں نے سوچا کہ واپسی پر حضرت کے فرزند سے تعزیت بھی کر لوں گا اور ضروری معلومات بھی، چناں چہ یہی ہوا، آج بتاریخ 21 نومبر ان کے فرزندِ اکبر مولانا فاروق صاحب استاذ دارالعلوم وقف دیوبند کے درِ دولت پر حاضری ہوئی، مکان وہی حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ والا۔ اینٹ کا فرش، بوسیدہ عمارت، سادگی کا مجسمہ۔ دروازہ کھٹکھٹایا، آواز دی، وہ تشریف لائے اور اس کمرے میں بیٹھے جو میری طالب علمی کے دور میں دارالعلوم وقف کا دفترِ تعلیمات رہ چکا تھا۔ بیٹھے، تعزیت کی، باتیں ہوئیں، اگلی سطور میں جو کچھ عرض کروں گا، بیش تر کا ماخذ وہی صاحب زادے ہوں گے۔۔
مولانا کی پہلی زیارت:
مولانا سے میری ملاقات اور زیارتوں کی داستان تو بڑی طویل ہے، مگر زیارت کی پہلی سعادت اس وقت حاصل ہوئی جب میں دیوبند بصیغہ متعلم آیا۔۔ میرا داخلہ گرچہ دونوں دارالعلوموں میں ہوا، تاہم تعلیم کے بقیہ مراحل قدیم دارالعلوم میں گزرے۔ دارالعلوم وقف اس وقت تعلیم کے معاملے میں دارالعلوم کے ٹکر کا تھا، یہی معنویت کبھی کبھار وقف دارالعلوم کھینچ لاتی۔ یہاں آتا تو دورہ حدیث میں جس استاذ کا گھنٹہ پڑتا، ان سے استفادے کے لئے بیٹھ جاتا۔ حضرت مولانا کی پہلی زیارت یہیں ہوئی۔ گورا رنگ، کشادہ پیشانی، خمیدہ نگاہیں، دراز قامت، سروقد، مناسب جسم، عصا بدست، کرتا پاجامے میں ملبوس، آنکھوں پر عینک۔ یہ ان کا سراپا تھا۔ آے، عبارت پڑھی گئی، تقریر ہوئی، مختصر تشریح، ضروری توضیح۔ زائد گفتگو سے اجتنابِ کلی۔ گھنٹہ ختم ہوا اور وہ خراماں خراماں درس گاہ سے نکل کر یہ جا، وہ جا۔۔۔
پھر زیارتوں کا سلسلہ رہا، درس گاہ سے لے کر جلسہ گاہ تک ہر جگہ ان کا تعاقب۔ ان کی تقریر کا بڑا شہرہ تھا۔ دیوبند کے بعض جلسوں میں ان کی خطابت کے جوہر دیکھنے کو ملے۔ دل نشیں طرزِ اظہار، خوب صورت اسلوبِ بیان، خاندانی روایات کا اعادہ، الفاظ کا مناسب استعمال۔ دیکھا کہ سامعین گوش بر آواز ہیں۔ میں ان کی تقریر پر ٹکٹکی لگاے رکھتا۔ مجھےاچھی طرح یاد ہے کہ حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کا یہ شعر پہلی بار انہیں سے سنا تھا:
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے، نقشِ روے محمد بنایا گیا
پھر اسی نقش سے مانگ کر روشنی بزمِ کون و مکاں کو سجایا گیا
دارالعلوم سے نکلا تو پھر ان کے جلووں سے محرومی رہ گئی۔ پھر دیکھا، نہ سنا، تاہم احوال آتے رہے۔ سن 2008 میں بصیغہ مدرس دیوبند آیا تو ان کی زیارتوں کا موقوف سلسلہ پھر شروع ہوا اور وفات سے چند ماہ پیش تر تک جاری رہا۔ زیارتوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی رہیں، استفادے کی راہیں بھی پے در پے کھلتی رہیں۔۔۔
سوانحی خدوخال:
مرحوم کی ولادت 1937 میں ہوئی، والدِ ماجد سے تو ایک عالم واقف ہے، دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ۔ دادا بھی کسی عہد میں مشہورِ زمانہ رہے، یعنی شمس العلما حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحب رحمة اللہ علیہ۔ رہے پڑدادا، تو دارالعلوم کے اول آخر سب، یعنی حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتو ی رحمة اللہ علیہ۔ گویا ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ مولانا کی نانیہال رام پور منیہاران سہارن پور ہے، نانا کا نام حکیم محمود، جو اپنے وقت کے بے حد نباض طبیب تھے، دستِ شفا سے سرفراز، سب کے لئے مرجعِ خلائق۔
تعلیمی مراحل:
جب پورا گھر ہی علم و عرفان کا سرچشمہ تھا، اس سے گھر کا فرد کیوں چوک جاتا، چناں چہ کم عمری میں ہی تعلیم شروع کردی گئی۔ ابجد سے لے کر بخاری شریف تک پوری تعلیم دارالعلوم میں ہوئی۔ پڑھتے گئے، چڑھتے گئے۔ فراغت 1958 میں ہوئی۔ بخاری شریف ابتداءشیخ الاسلام حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ سے پڑھی، جب ان کا وصال ہوا تو حضرت مولانا فخرالدین مراد آبادی رحمة اللہ علیہ سے بقیہ حصے پڑھے۔ دورہ حدیث کے سارے اساتذہ نامور ہیں: علامہ ابراہیم بلیاوی، شیخ الادب مولانا اعزاز امروہوی رحمہم اللہ وغیرہم۔
فراغت کے بعد:
فراغت کے بعد دو سال تک فارغ بیٹھے رہے، اس دوران حکیم الاسلام قاری طیب رحمة اللہ علیہ نے ری یونین اور افریقہ کے دورے کئے تو رفاقت کی ذمے داریاں انہوں نے ہی انجام دیں۔ خالی اوقات میں مطالعات کو اپنا مشغلہ بنایا۔ حضرت قاری صاحب کے اسفار میں زیادہ تر حقِ رفاقت یہی ادا کرتے۔
دارالعلوم سے وابستگی:
دوسالہ مطالعاتی دور کے بعد 1960 میں بحیثیت ناظمِ برقیات دارالعلوم میں تقرر ہوا، بڑے فرض شناس نکلے۔ حسنِ انتظام کے خوگر اور سلیقہ مندی کے پاسبان۔ ان کا دورِ نظامت حسنِ انتظام کے لئے یاد رکھا جاتا ہے۔
مضمون نگاری کا آغاز:
سبھی جانتے ہیں برقیات کا شعبہ خالص غیر علمی ہے، مگر طبیعت میں علم پرستی ہو تو آدمی اپنی تشنگی کے سامان کہیں سے بھی نکال سکتا ہے۔ درس و تدریس سے نہ جڑے تو کیا ہوا، بقول کسے:
مجھے سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی
قلم سنبھال لیا اور تحریروں کی بسم اللہ کردی۔ مضمون نگاری میں انہوں نے کسی سے اصلاح نہیں لی، ان کی تحریر کا آغاز ’انسان العیون فی سیرة الامین المامون‘کے ترجمے سے ہوا۔ یہ ترجمہ سیرتِ حلبیہ کے نام سے چودہ برسوں میں مکمل ہوا اور 45 قسطوں میں چھپا۔ اب اس کی جلدیں سمیٹ کر چھ تک کر دی گئی ہیں۔ اس کارنامے سے علمی دنیا میں ہلچل سی مچ گئی اور سبھوں نے اسے پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا۔ پھر تو ان کے قدم بڑھتے گئے۔ اس کے بعد کچھ اور کتابیں ان کے خامہ عنبر شمامہ سے نکلیں، جن میں ضخیم کتاب سیرت پاک نمایاں ہے، تفسیرِ رازی کے ترجمے بھی ان کے قلم سے نکلے جو دو جلدوں میں شائع ہوے۔ حکیم الاسلام حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کا مجموعہ کلام ’عرفانِ عارف‘انہیں کی ترتیب سے منظرِ عام پر آیا۔
کتب خانہ قاسمی کا آغاز:
ادھر تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوا اور ادھر’کتب خانہ قاسمی‘کے نام سے ایک مکتبہ کی بنیاد رکھ دی، ان کی ساری کتابیں اور حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کی تصنیفات یہیں سے شائع ہونے لگیں۔ سیرت کے موضوع پر حکیم الاسلام حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کے چند رسائل کو انہوں نے مرتب فرما کر یہیں سے شائع کیا، جسے ’مقاماتِ سیرت‘ کا نام دیا گیا۔
ریڈیائی تقریریں:
ان کے قلم کی دھوم مچی تو آل انڈیا ریڈیو نے بھی اپنی تقریروں کے لئے انہیں یاد کیا، خوش آواز تو تھے ہی، پھر تحریر کا جادو بھی چلا ہی چکے تھے، ان کے مشاغل میں ایک اور نیا مشغلہ شروع ہو گیا۔ ریڈیو پر ان کی تقریریں ہونے لگیں اور چار پانچ برسوں تک متواتر ہوتی رہیں۔ مولانا یہ تقریریں اپنے قلم سے تیار کرتے اور ریڈیو کے ذریعے امت سے مخاطب ہوتے۔ ان کے یہ خطبات بعد میں ’قاسمی تقریریں‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ 
اجلاسِ صد سالہ میں کار کردگی:
اجلاسِ صد سالہ دارالعلوم دیوبند کا وہ عظیم علمی و روحانی اجتماع ہے، جس کی نظیر حجاجِ کرام کے علاوہ کسی نے نہیں دیکھی۔ مفکرِ اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ نے اس زبردست ہجوم کو’عرفاتی بھیڑ‘سے تعبیر کیا تھا۔ اسی اجلاس میں قدیم و جدید فضلاے دارالعلوم کی دستاربندی عمل میں آئی تھی۔ اس میں عالمِ اسلام کی چوٹی کی شخصیات شہ نشیں اور سامعین کی صفوں میں جلوہ فرما تھیں۔ میرے دادا حضرت مولانا محمود احمد ناصری رحمة اللہ علیہ اور عمِ مکرم مولانا عقیل احمد ناصری زیدمجدہم کی دستاربندی بھی اسی اجتماعِ عظیم میں ہوئی تھی۔ مصر کے مشہور مجود قاری عبدالباسط رحمة اللہ علیہ بھی اس میں تشریف لائے تھے۔ یہ اجتماع اپنی نوعیت کا منفرد اجتماع تھا۔ چشمِ فلک نے کائنات میں ایسا نظارہ پیش تر بھی نہ دیکھا تھا اور اب تصور بھی نہیں۔ جانتے ہیں کہ اس کا روحِ رواں کون تھا؟ جی ہاں! یہی مولانا محمد اسلم قاسمی، جن کا ذکرِ خیر چل رہا ہے۔ یہ اجلاس تین روزہ تھا۔ 21،22،23 مارچ 1980 میں علم و عرفان کا یہ عظیم اجتماع منعقد ہوا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ بوریہ نشین علما ایسی بھیڑ اکٹھی کر لیں گے، مگر تاریخ نے یہ سارا ریکارڈ درج کر لیا ہے۔ اجلاس کی نظامت وقت کے مقبول ادیب و مصنف مولانا حامد الانصاری غازی رحمة اللہ علیہ صاحب کے سپرد کی گئی تھی۔ یہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ کے داماد تھے۔ ان کی رہائش بیشتر ممبئی میں ہوا کرتی۔ عمر بھی اچھی ہو چکی تھی۔ ضعف و نقاہت اپنا رنگ جما چکی تھی۔ ان کے لئے دیوبند میں طویل قیام مشکل تھا، تاہم اپنی پیرانہ سالی کے باوجود کام کی بسم اللہ تو کر ہی دی تھی۔ اجلاس کی تاریخیں ابھی مقرر نہیں ہوئی تھیں۔ انہوں نے فضلاے کرام کے نام اور تفصیلات قلم بند کر لئے تھے۔ تیاریوں کی تمہید بطریقِ احسن جاری تھی، مگر دارالعلوم کی مجلسِ شوریٰ نے دیکھا کہ کام اہم اور نقاہت غالب ہے۔ اگلے مراحل مزید دشوار گزار ہیں۔ِ شوریٰ نے نظامتِ اجلاس کے لئے مولانا مرحوم کے نام کی تجویز پیش کر دی۔ یہ تجویز منظور ہوئی اور جو شخصیت نرم دمِ گفتگو نظر آ رہی تھی، وہ گرم دمِ جستجو کا نمونہ بن کر سامنے آئی۔ ان کی تقرری اجلاس سے دس ماہ پیش تر عمل میں آئی۔ ان کی نظامت کیا آئی، مہم نے رفتار پکڑی۔ مرحوم نے اپنے ساتھ مظاہرِ حق جدید کے مصنف مولانا عبداللہ جاوید زید مجدہم کو ساتھ لگایا۔ ان کے علاوہ دوسرے گرم خونوں کو عملہ میں شامل کیا۔ اس طرح مولانا کی نظامت میں اجلاس کی تیاریاں پروان چڑھتی رہیں۔ شہر تو دولہن کی طرح پہلے ہی سجا تھا۔ بیابان بھی خیابان میں تبدیل ہو چکا تھا۔ خیمے ہی خیمے۔ انتظامات ہی انتظامات۔ اجلاس کی تاریخوں کا اعلان ہنوز نہیں ہوا تھا، عوام اس تعیین کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ اصرار حد سے بڑھا تو مرحوم کی نظامت کے دوسرے تیسرے ہفتے ہی تاریخوں کی تعیین عمل میں آئی۔ اجلاس کی کامیابی کا پورا سہرا یقیناً حضرت مرحوم اور ان کے عملہ کے سر سجتا ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس کوہ کنی اور خارا شگافی میں جوے خوں کتنی بار سر سے گزری۔ جزاہم اللہ احسن الجزائ۔
مسندِ درس پر جلوہ ریزی:
ادھر اجلاسِ صد سالہ ختم ہوا اور ادھر دارالعلوم ایک دیوہیکل حادثے کے آہنی چنگل میں پھنس گیا۔ داستان بڑی دل خراش ہے۔ اس کے تصور سے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اساتذہ دارالعلوم دو خیموں میں بٹ گئے۔ نتیجتاً حکیم الاسلام قاری طیب صاحب کو معزول ہونا پڑا۔ اس طرح ان کے کم و بیش ساٹھ سالہ دورِ اہتمام کا ناخوشگوار اختتام ہوا۔ شر کے اس پہلو سے دارالعلوم وقف کے نام سے ایک دوسرے عالمی ادارے نے آنکھیں کھولیں۔ اس کے قیام اور عروج و شباب میں فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ کا کردار بے حد نمایاں ہے۔ مرحوم مولانا اسلم صاحب ہنگامے کے بعد خالی بیٹھے تھے۔ حضرت شاہ صاحب سیرتِ حلبیہ کے ترجمے کے دوران ان کی قابلیت دیکھ چکے تھے، انہیں بطور استاذ اس ادارے میں لے آے۔ اب وہ دارالعلوم کے ناظمِ برقیات نہیں، دارالعلوم وقف کے مو ¿قر استاذ ہو گئے۔ تدریس چلی اور خوب چلی۔ لگا ہی نہیں کہ 45 سال کا ایک نیا مدرس اسباق پڑھا رہا ہے، بلکہ اپنی وسعتِ مطالعہ، قوتِ تفہیم اور زورِ بیان سے ایک کامل مدرس کے روپ میں ڈھل گئے۔ طلبہ بھی مستفید۔ انتظامیہ بھی مطمئن۔ یہ 1982 تھا۔ اس کے بعد سے تدریس نے انہیں ایسا پکڑا کہ ایک عظیم و عبقری استاذ کی شکل میں دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوے۔ وہ عام مدرس سے لے کر شیخ الحدیث تک بنے۔ جس جماعت کی جونسی کتابیں انہیں ملیں، انہوں نے اپنی ذمے داریوں کا حق ادا کیا۔ اپنے 34 سالہ دورِ تدریس میں انہیں ہدایہ اولین، مشکوة ، ترمذی شریف اور اخیر میں بخاری شریف پڑھانے کا شرف حاصل ہوا۔
دارالعلوم وقف میں دیگر ذمہ داریاں:
مولانا نے صرف مسندِ تدریس کو ہی زینت نہیں بخشی، بلکہ انتظامی امور بھی بحسن و خوبی انجام دیے۔ فخرالمحدثین حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ 2008 میں رہ گزاے آخرت ہوے تو صدرالمدرسین اور ناظمِ تعلیمات انہیں ہی نامزد کیا گیا۔ یہ مولانا کا کمال ہے کہ اپنی ضعیف العمری کے باوجود ان مناصب کا حق ادا کرنے کے لئے نہایت چاق و چوبند رہے۔
آسمانِ خطابت کے نیّرِ اعظم:
مولانا نے تدریس سے وابستگی کی تو اس سے وابستہ کئی صلاحیتیں اجاگر ہونا شروع ہو گئیں۔ ان کی خطابت کی عمر بھی وہی ہے جو عمر ان کی تدریس کی ہے۔ تقریر پر آے تو سامعین کو حیران کر دیا۔ علوم و افکار کا بہتا دریا، بہترین لب و لہجہ، فصاحت سے بھرپور زبان، بلاغت سے معمور بیان۔ وہ حافظِ قرآن نہیں تھے، مگر موقع بہ موقع قرآن سے استدلال ان کا مثالی تھا۔ پھر تو وہ اہم اجلاس کی زینت بن گئے۔ میں نے اپنی طالب علمی کے دور میں ان کی کئی تقریریں سنیں۔ آخری بار سننے کا اتفاق محمود ہال دیوبند میں ہوا۔ یہ ابھی دو سال پہلے کی ہی بات ہے۔ خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی دامت برکاتہم کو حیدرآباد کی ایک علمی تنظیم نے ’حجة الاسلام مولانا قاسم نانوتوی ایوارڈ‘ دیا تھا۔ اسی سلسلے میں ایوارڈ دہندہ تنظیم کے اظہارِ تشکر اور صاحبِ اعزاز حضرت خطیب الاسلام کے استقبال کے لئے دیوبند کا یہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس میں دیوبند کی مو ¿قر شخصیات نے شرکت کی تھی۔ حفید الانور حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ کشمیری اور نبیرہ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی دام ظلہما بھی شریکِ اجلاس تھے۔ اس جلسے میں مجھے بطور مقرر مدعو کیا گیا تھا، اجلاس کے کرتا دھرتا معروف عالمِ دین محترم مولانا عبداللہ ابن القمر الحسینی زیدمجدہم تھے۔ حضرت خطیب الاسلام تو بڑھتی نقاہت کے سبب تشریف نہ لا سکے، مگر متکلمِ اسلام حضرت مولانا محمد اسلم صاحب رحمة اللہ علیہ کی تشریف آوری ہوئی۔ دیکھا تو بخار سے پورا جسم لرز رہا تھا۔ چلنا بھی دشوار، بولنا مشکل، تاہم کپکپاتے ہونٹوں اور لڑکھڑاتی زبان سے تقریر ہوئی۔ وہی شستہ زبان، وہی گھلاوٹ، وہی جاذبیت۔ سلسلہ کلام زیادہ دیر نہیں چلا، مگر جتنا چلا، شاندار تھا۔
شعروسخن کے شہ سوار:
مولانا صرف بہترین منتظم، بابصیرت مدرس، باکمال خطیب اور قابلِ رشک مصنف ہی نہیں تھے، وہ بلندپایہ شاعر بھی تھے۔ ان کا تخلص رمزی تھا۔ جس طرح رمز سے ہر کوئی آشنا نہیں ہوتا، اسی طرح ان کی شاعری بھی عالم آشکار نہیں تھی۔ مجھے اجمالاً اتنی تو خبر تھی کہ انہوں نے کبھی شاعری کی ہے، مگر ان کی پائیگاہ کا اندازہ نہیں تھا۔ ان کا کوئی کلام بھی نظر سے نہیں گزرا تھا۔ مخدومِ گرامی رئیس الجامعہ حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ کشمیری دامت برکاتہم نے جب اس طرف توجہ دلائی تو میں حیران رہ گیا۔ میں نے سوچا کہ جب ایسا ہے تو کیوں نہ ان کے فرزند سے کچھ نمونے لے لئے جائیں۔ چناں چہ صاحب زادہ محترم مولانا فاروق صاحب زیدمجدہم سے رابطہ کیا اور ڈائری منگائی تو مرحوم کا اور ہی رنگ سامنے آیا۔ خوب صورت اشعار سے پوری ڈائری بھری ہوئی۔ 100 کے قریب نعتوں، نظموں، تہنیت ناموں اور غزلوں کا حسین گل دستہ میرے سامنے تھا۔ خوش خطی کے ساتھ۔ اس بیاض سے مولانا کے دو راز سے پردے ہٹے۔ ایک تو یہ کہ وہ خوش نویس بھی تھے۔ پوری بیاض سلیقے اور صفائی سے لکھی ہوئی۔ آرائش و تزئین کا بھی مکمل لحاظ۔ دوسرے ان کا ذوقِ سخن اور حیرت انگیز قدرتِ کلام۔ تقریبا ہر کلام پر عنوان چڑھا ہوا۔ ایک ایک کلام بیس بیس پچیس اشعار پر مشتمل۔ بعض کلام تو پچاس پچاس اشعار کو محیط۔ مثنیٰ، مربع ہر نوع کی تخلیقات۔ اللہ جانے کہ ان کا کلام اب تک کیوں شائع نہیں ہوا۔ حالاں کہ وہ اردو زبان کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اگر وہ چھپے تو ڈیڑھ دو سو صفحات سے کم میں نہیں آے گا۔ میں نے چاہا کہ اچھے اشعار کا زیادہ سے زیادہ انتخاب ہو، مگر قلتِ وقت دامن گیر تھی اور صاحب زادہ محترم کی مصروفیت عناں گیر۔ تاہم جو بھی حاصل ہو سکا، آپ کی خدمت میں پیش ہے، اجڑی بہاریں کے عنوان سے ایک طویل نظم کا مطلع یوں عرض کیا ہے:
چمن کی اجڑی بہاروں کو یاد کرتے ہیں
تری نگہ کے شراروں کو یاد کرتے ہیں
اور آگے لکھتے ہیں:
خوشا کہ وہ جو مجسّم بہار و نغمہ تھے
ہم ایسے سینہ فگاروں کو یاد کرتے ہیں
ملا ہے عشق سے یہ درسِ ناگوار کہ ہم
گلوں کو بھول کے خاروں کو یاد کرتے ہیں
ایک نظم کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں:
سمجھا تھا جسے ہم نے اک گنجِ گراں مایہ
بے مول ہوئی آخر اس دل کی خریداری
اخیر میں ایک اور طویل نظم کے یہ اشعار بھی دیکھتے جائیں:
قطرہ ہر اشک بحرِ بے کراں بنتا گیا
حسن پابستہ رہا، عشق آسماں بنتا گیا
میں تو تنہا ہی اٹھا تھا بارگاہِ ناز سے
راہ میں بربادیوں کا کارواں بنتا گیا
رہ گزارِ شوق میں اہلِ جنوں کے واسطے
ان کا ہر نقشِ قدم اک آستاں بنتا گیا
ہم نے یوں دیکھیں شبِ غم کی کرشمہ سازیاں
جو بھی ٹوٹا وہ ستارہ آسماں بنتا گیا
دیکھ اعجازِ جنوں رمزی کے راہِ شوق میں
ہر قدم پر زخمِ دل سے گل ستاں بنتا گیا
مولانا رحمة اللہ علیہ کی شاعری کی پختگی اور فنی گرفت پر میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ علمائے دیوبند میں ایسی شاعری بس برائے نام ہی ہے۔ ان کی اس بیاض کا آغاز’ہجومِ شوق‘ کے عنوان سے ہوتا ہے، جس میں انہوں نے بارگاہِ رسالت میں عقیدت و محبت کا حسین نذرانہ پیش کیا ہے۔ بیاض کی پہلی تخلیق پر 23.01.1960 درج ہے۔ پوری ڈائری میں ہر کلام کے ساتھ تاریخ لگی ہوئی ہے۔ مطالعے سے اندازہ ہوا کہ پرورشِ شعر و سخن کا یہ سلسلہ تین چار دہائیاں چلا ہے۔
بیعت و خلافت:
مولانا نے اپنی سادگی کی بنا پر کبھی یہ نہیں بتایا کہ سلوک و تصوف سے بھی ان کی دعا سلام رہی ہے، مگر کل ہی پتہ چلا کہ وہ اس راہ کے بھی مردِ راہ داں تھے۔ بیعت بھی اور خلافت بھی۔ پہلی بیعت تو اپنے والدِ گرامی حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمة اللہ علیہ سے تھی، خلافت بھی پائی۔ 1983 میں جب والدِ گرامی دنیا سے گزرے تو مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خاں جلال آبادی رحمة اللہ علیہ سے وابستگی اختیار کی۔ اس سے اصلاحِ نفس کے تئیں مولانا کی فکرمندی واضح ہے۔ یہ دونوں اکابر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کے خلفا رہے ہیں۔
اولاد و احفاد:
مولانا مرحوم کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ بڑے بیٹے محترم مولانا فاروق صاحب قاسمی رحمة اللہ علیہ ہیں۔ یہ تقریبا دو دہائیوں سے دارالعلوم وقف کے استاذ ہیں۔ پاک سیرت اور فکرِ دنیا سے آزاد، گم سم، کم گو، سر جھکا کے چلتے اور سر جھکا کے ملتے ہیں۔ بے نفسی اور سادگی کا حیرت انگیز نمونہ۔ ان کی کوئی اولاد نہیں۔ دوسرے حافظ ہشام صاحب ہیں۔ ان کے پاس ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔
علالت اور وفات:
مولانا کی کل عمر 80 ہوئی۔ بڑھاپا تو تھا ہی، کمزوری حاوی ہوتی گئی۔ سالِ گزشتہ شوال 1438 میں بیمار پڑے۔ سانس میں دقت اور جسمانی نقاہت بڑھتی گئی۔ دہلی کے اڈیبا اسپتال میں ایک ہفتہ علاج معالجہ ہوا۔ کچھ افاقہ ہوا، پھر دیوبند آگئے۔ تکلیف میں اتار چڑھاو ہوتا رہا۔ چلنا پھرنا اسی وقت سے موقوف ہو گیا تھا۔ تاہم قدرے ٹھیک ٹھاک رہے، مگر ادھر چند ماہ سے ان کی حالت بگڑتی گئی اور پھر سنبھل نہ سکی۔ اس طرح ایک علمی و عبقری شخصیت نے موت کے سامنے خود سپردگی کردی۔ نمازِ جنازہ دارالعلوم وقف کے مہتمم حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی دام مجدہ نے پڑھائی۔ علم و عمل کا یہ سنگم اب قبرستانِ قاسمی میں ابدی نیند سوتا ہے۔
علامہ فضیل احمد ناصری
fuzailahmadnasiri@gmail.com
8881347125

No comments:

Post a Comment