مکانات پہ نقصان دہ ٹاوروں کی تنصیب؟
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں
زید کی شہر میں چار منزلہ عمارت ہے اس پر مختلف جدید آلات کے کمپنیاں بالعوض اپنے ٹاورز نصب کرنے کا آفر دے رہی ہیں مثلاً موبائل، انٹرنیٹ، اور ٹی وی وغیرہ کی کی کمپنیاں، تو ان ٹاورز کو لگانا بحیثیت مسلمان شرعاً کیسا ہے؟ جبکہ اس سے لوگ اچھے برے ہردو کام انجام دیتے ہیں دوسری بات یہ کہ آج کل سائنسی تحقیق کہتی ہے ان نیٹ ورک کے لگانے سے مختلف بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہے، انکا کہنا ہے کہ موﺑﺎﺋﻞ ﭨﺎﻭﺭ ﮐﮯ 300 ﻣﯿﭩﺮ ﮐﮯ ﺩﺍﺋﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺭﯾﮉﺋﯿﺸﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍینٹنا ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﺧﺎﺭﺝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ..... جس کینسر، سر درد اور دوسرے مہلک امراض ہوتے ہیں.... ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﮨﯽ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﻤﻘﺎﺑﻠﮧ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﮯ۔ ﭨﺎﻭﺭ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﭩﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﺮﯾﺎ ﻣﯿﮟ 100 ﮔﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺭﯾﮉﯾﺸﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﭨﺎﻭﺭ ﭘﺮ ﺟﺘﻨﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍ ﭨﮯﻧﺎﻧﺼﺐ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ، ﺭﯾﮉﺋﯿﺸﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﮔﺎ اور بیماریاں بھی اتنی پھیلی گی۔
براہ کرم شرعی نقطہ نظر سے مسئلہ کی وضاحت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں.
بندہ خدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
زمین یا مکان کرایہ پہ دینا جائز شرطوں کے ساتھ درست ہے۔ اس میں اگر خلاف شرع امور انجام دیئے جاتے ہوں تو اس کا گناہ ایسے برے اعمال انجام دینے والوں پہ ہوگا۔صاحب مکان پہ نہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق۔ جبکہ حنفیہ میں صاحبین اسے بہتر نہیں سمجھتے۔۔۔۔ ان کا قول احوط ہے اور صاحب مذہب کا قول اوسع ہے۔
ٹاور نصب کرنے سے اگر قرب وجوار میں موذی ومہلک امراض کا تعدیہ ہوتا ہو اور طبی ماہرین کی تحقیق سے یہ ثابت ہو تو چونکہ شریعت اسلامیہ کے مقاصد خمسہ میں "حفظ نفس" بھی ایک اہم مقصد ہے جس کے تحفظ وبقاء کو اسلام نے یقینی بنایا ہے۔ اس لئے انسانی صحت کو برباد کرنے والی چیزوں کا سدباب کیا جائے گا۔ اور اس طرح کے مضر صحت ٹاوروں کی تنصیب کی شرعا ہمت افزائی نہیں کی جائے گی۔ بہتر ہے کہ مسلمان اپنے مکانات پہ اس قسم کے واقعی مضرت رساں ٹاوروں کی تنصیب سے اجتناب کریں۔ ہاں اگر تحقیق سے مضر ہونا ثابت نہ ہو تو پھر شرعا کوئی قباحت نہیں۔
وتصح إجارۃ أرض للبناء والغرس وسائر الانتفاعات کطبخ آجر وخزف ومقیلا ومراحا حتی تلزم الأجرۃ بالتسلیم ۔ (درمختار مع الشامی، الإجارۃ، باب مایجوز من الإجارۃ ومایکون خلافاً فیہا زکریا۹/۴۰، کراچی ۶/۳۰)۔
زید کی شہر میں چار منزلہ عمارت ہے اس پر مختلف جدید آلات کے کمپنیاں بالعوض اپنے ٹاورز نصب کرنے کا آفر دے رہی ہیں مثلاً موبائل، انٹرنیٹ، اور ٹی وی وغیرہ کی کی کمپنیاں، تو ان ٹاورز کو لگانا بحیثیت مسلمان شرعاً کیسا ہے؟ جبکہ اس سے لوگ اچھے برے ہردو کام انجام دیتے ہیں دوسری بات یہ کہ آج کل سائنسی تحقیق کہتی ہے ان نیٹ ورک کے لگانے سے مختلف بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہے، انکا کہنا ہے کہ موﺑﺎﺋﻞ ﭨﺎﻭﺭ ﮐﮯ 300 ﻣﯿﭩﺮ ﮐﮯ ﺩﺍﺋﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺭﯾﮉﺋﯿﺸﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍینٹنا ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﺧﺎﺭﺝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ..... جس کینسر، سر درد اور دوسرے مہلک امراض ہوتے ہیں.... ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﮨﯽ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﻤﻘﺎﺑﻠﮧ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﮯ۔ ﭨﺎﻭﺭ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﭩﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﺮﯾﺎ ﻣﯿﮟ 100 ﮔﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺭﯾﮉﯾﺸﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﭨﺎﻭﺭ ﭘﺮ ﺟﺘﻨﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍ ﭨﮯﻧﺎﻧﺼﺐ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ، ﺭﯾﮉﺋﯿﺸﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﮔﺎ اور بیماریاں بھی اتنی پھیلی گی۔
براہ کرم شرعی نقطہ نظر سے مسئلہ کی وضاحت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں.
بندہ خدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
زمین یا مکان کرایہ پہ دینا جائز شرطوں کے ساتھ درست ہے۔ اس میں اگر خلاف شرع امور انجام دیئے جاتے ہوں تو اس کا گناہ ایسے برے اعمال انجام دینے والوں پہ ہوگا۔صاحب مکان پہ نہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق۔ جبکہ حنفیہ میں صاحبین اسے بہتر نہیں سمجھتے۔۔۔۔ ان کا قول احوط ہے اور صاحب مذہب کا قول اوسع ہے۔
ٹاور نصب کرنے سے اگر قرب وجوار میں موذی ومہلک امراض کا تعدیہ ہوتا ہو اور طبی ماہرین کی تحقیق سے یہ ثابت ہو تو چونکہ شریعت اسلامیہ کے مقاصد خمسہ میں "حفظ نفس" بھی ایک اہم مقصد ہے جس کے تحفظ وبقاء کو اسلام نے یقینی بنایا ہے۔ اس لئے انسانی صحت کو برباد کرنے والی چیزوں کا سدباب کیا جائے گا۔ اور اس طرح کے مضر صحت ٹاوروں کی تنصیب کی شرعا ہمت افزائی نہیں کی جائے گی۔ بہتر ہے کہ مسلمان اپنے مکانات پہ اس قسم کے واقعی مضرت رساں ٹاوروں کی تنصیب سے اجتناب کریں۔ ہاں اگر تحقیق سے مضر ہونا ثابت نہ ہو تو پھر شرعا کوئی قباحت نہیں۔
وتصح إجارۃ أرض للبناء والغرس وسائر الانتفاعات کطبخ آجر وخزف ومقیلا ومراحا حتی تلزم الأجرۃ بالتسلیم ۔ (درمختار مع الشامی، الإجارۃ، باب مایجوز من الإجارۃ ومایکون خلافاً فیہا زکریا۹/۴۰، کراچی ۶/۳۰)۔
في ’’ الموافقات للشاطبي ‘‘ : ومجموع الضروریات خمسۃ: وہي؛ حفظ الدین والنفس والنسل والمال والعقل ، وقد قالوا : انہا مراعاۃ في کل ملۃ۔
(ص/۳۲۶ ، دار المعرفۃ بیروت)
و في ’’المقاصد الشرعیۃ‘‘: فان الذرائع تتصل اتصالا وثیقا بمقاصد الشریعۃ من حیث اعتبارہا مقصودۃ في ذاتہا من قبل الشرع، ومن حیث اعتبارہا شطر موارد الأحکام الشرعیۃ، إذ إن موارد ہذہ الأحکام قسمان : المقاصد والوسائل أو الذرائع ۔
(ص/۴۷، المطلب الثامن)
وفي ’’قواعد الفقہ‘‘ : درء المفاسد أولی من جلب المنافع۔ (ص/۸۱، قاعدۃ :۱۳۳)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
(ص/۳۲۶ ، دار المعرفۃ بیروت)
و في ’’المقاصد الشرعیۃ‘‘: فان الذرائع تتصل اتصالا وثیقا بمقاصد الشریعۃ من حیث اعتبارہا مقصودۃ في ذاتہا من قبل الشرع، ومن حیث اعتبارہا شطر موارد الأحکام الشرعیۃ، إذ إن موارد ہذہ الأحکام قسمان : المقاصد والوسائل أو الذرائع ۔
(ص/۴۷، المطلب الثامن)
وفي ’’قواعد الفقہ‘‘ : درء المفاسد أولی من جلب المنافع۔ (ص/۸۱، قاعدۃ :۱۳۳)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment