Sunday, 19 November 2017

ناسمجھ بچہ کا احرام عمرہ

ناسمجھ بچہ کا احرام عمرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سؤال
والدین کے ساتھ ایک بچہ جس کی عمر چار سالہ ہے، اسے ممبئی سے عمرہ کروانے کا ارادہ ہے .... معلوم یہ کرنا ہے کہ وہ احرام کہاں سے باندھے؟ ممبئی سے یا آگے سے یا والدین کے ہمراہ؟
نیز اگر اس سے احرام کی حالت میں کسی جنایت کا صدور ہوجائے تو کیا بچے پر بھی دم لازم ہوگا؟
مدلل جواب عنایت فرمائیں والسلام
محمد مدثر، چلمل، بیگوسرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
جہاں سے بچہ کے والدین احرام باندھیں گے وہیں سے یہ بھی احرام باندھے۔ احرام کے لئے نیت ضروری ہے۔ بچہ کی نیت کا اعتبار نہیں ہے۔ اس لئے اس کا والد یا ولی اس کی طرف سے احرام کی نیت کرے۔ ولی کی نیت کرنے سے بچہ محرم ہوجائے گا۔ ممنوعات  کے لئے مکلف ہونا ضروری ہے۔ بچہ مکلف نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی پابندی کا مسئول نہیں۔ بہتر ہے کہ اسے بھی چادر اور تہبند (احرام کے کپڑے) پہنادیا جائے۔ لیکن یہ ضروری نہیں۔ کرتا پاجامہ میں بھی وہ رہ سکتا ہے۔ حتی الامکان ناسمجھ بچہ کو بھی ممنوعات سے بچانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ لیکن اگر وہ پہر بھی ممنوعات احرام کا ارتکاب کرلے تو  اس پہ اور اس کے ولی پہ کفارہ یا صدقہ وغیرہ کچھ بھی واجب نہیں ہوگا۔
عمرہ کی بجائے اگر بچہ نے حج کا احرام باندھا ہو تو بچہ کا حج حج نفل ہوگا. بلوغ کے بعد اگر اس پہ حج فرض ہوا تو اس کو پھر سے حج فرض ادا کرنا ہوگا۔ نابالغی کی حالت میں ادا شدہ حج، حج فرض کی طرف سے کافی نہیں۔
واذا احرم لہ ینبغی ان یجنبہ من محظورات الاحرام ولو ارتکب محظوراً لا شئ علیہما۔ (غنیۃ الناسک ۸۴، شامی زکریا ۳؍۴۶۷، ہندیۃ ۱؍۲۳۶)
في ’’ البحر الرائق ‘‘: فإن کان لا یعقلہ فأحرم عنہ أبوہ صار محرما فینبغي أن یجردہ قبلہ ویلبسہ إزارًا وردائً ، ولما کان الصبي غیر مخاطب کان إحرامہ غیر لازم ۔ =(۲/۵۵۳، ۵۵۴ ، کتاب الحج) (کتاب الفتاویٰ: ۴/۳۹،۴۰،)

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /سیدپور

1 comment:

  1. تو پھر اسکا عمرہ کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا اور وہ ادھر سے ہیں پھر مدینہ چلی جائے کہ اگر کوئی عورت حیض کی حالت میں مکہ پہنچ جائے مجھے آپ سے پوچھنا تھا

    ReplyDelete