ایس اے ساگر
مرد کا ایک وقت میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا یعنی تعدد ازدواج عرف پولی گیمی Polygamy ایک قدیم رواج ہے جو ہر ملک اور قوم میں جاری رہا۔ اس کا محرک آبادی میں اضافہ کرنے کا جذبہ تھا۔ اب سے کئی ہزار برس پیشتر جب شرح اموات بہت زیادہ تھی، لڑائیوں کی کثرت اور وباؤں کے باعث بہت زیادہ جانیں ضائع ہوتی تھیں، آبادی کم تھی اور زمین وافر۔ اس وقت قبیلوں کی زندگی اور موت کا انحصار اپنے قبیلے کی افرادی قوت پر ہوتا تھا۔ اس لئے ایک مرد کئی کئی عورتوں سے شادی کر لیتا تھا۔ بعد میں جب آبادی بڑھ گئی اور باطل نے خوراک اور ذرائع معاش کی تنگی کا رونا رویا تو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا صرف بادشاہوں اور امیروں کا نہ صرف مشغلہ رہ گیا بلکہ برکات پر سے یقین بھی اٹھ گیا۔ یہ کہا جانے لگا کہ پچھلے لوگ معاش کی فکر سے آزاد تھے۔ قبل از اسلام تعدد ازواج کا رواج تھا عام طورپر محبت یا بچوں کی کثرت ایک سے زیادہ ازواج کی سبب تھی۔ بعض اوقات یہ تصور بھی کہ خاندان میں عورتیں زیادہ اور مرد کم ہیں اور عورت کو تحفظ کی ضرورت ہے لہذا تعدد ازواج کا سلسلہ چل نکلا۔ اس میں کوئی قید نہیں تھی، امراء اور مال دار لوگ بہت زیادہ شادیاں رچالیتے تھے۔ جو عورت اچھی محسوس ہوتی اسے اپنے گھر لے آتے۔ ضرورت ہے کہ تعددِ ازواج کی برکات جاننے کی سعی کی جائے؛
صحابہ کرام کے نکاح:
دورِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں نکاح کیسے ہوتے تھے؟ "حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ کے شوہر نے طلاق دی تو حضرت معاویہ اور ابوالجہم رضی اللہ عنہما نے نکاح کا پیغام بھیجا، ایک طلاق یافتہ عورت کی طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے قریشی سردار ابن سردار اور حضرت ابوالجہم بیک وقت دو شخصیات نکاح کا پیغام بھیج رہی ہیں، اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت قیس کے اولیا سے فرمایا کہ
'اما معاویہ فصعلوک'
یعنی معاویہ انتہائی فقیر ومسکین ہیں، لہٰذا ان سے اپنی بچی کا نکاح نہ کرو اور
'اما ابوالجہم'
رہے ابوالجہم
'فلا یضع عصاہ عن عاتکہ'
تو وہ ایسی سخت طبیعت کے ہیں کہ ان کی لاٹھی ان کے کندے سے کبھی نہیں اترتی، لہٰذا ان دونوں کو چھوڑ کر اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نکاح کرو۔
دیکھیں کیسا معاشرہ تھا کہ بیوہ کے لئے اتنے بڑے بڑے رشتے آرہے ہیں کہ نبی صلی اللہ کو مداخلت کرکے فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب تعدد ازواج کی برکات تھیں۔
اسما بنت عمیس جو اپنے جوان شوہر جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے غزوہ موتہ میں شہید ہونے کے بعد بیوہ ہو گئیں ان کے بارے میں روایات میں ہے:
کہ ابھی عدت گزری ہی تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا جسے حضرت اسما نے قبول کرلیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ سے نکاح فرمایا اور پھر ولیمہ کیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی آپ سے نکاح کی خواہش ظاہر کی مگر حضرت اسما بنت عمیس نے یوں کہہ کر انکار کردیا: اے ابوالحسن آپ رہنے دیں کیونکہ آپ ایک ایسے شخص ہیں کہ جن کی طبیعت میں سنجیدگی نہیں۔
دیکھیں اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اگر یہ سوچتے کہ میں تو پہلے ہی دو شادیاں کر چکا ہوں مزید ایک اور شادی سے کہیں پہلی دو کا ثواب بھی کم نہ ہو جائے یا خواہ مخواہ میں مجھے خود پر اتنے سارے بال بچوں کی فکر مسلط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بیویوں میں عدل نہ ہوسکا تو قیامت میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا لہٰذا اطمینان قلب کے ساتھ دین ودنیا کے کاموں میں ہمہ تن مشغول رہنا چاہیے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اسما بنت قیس کی طرف حضرت علی نے دوبارہ پیغام نکاح بھیجا جو انھوں نے قبول کرلیا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات میں آپ کو ایسا بکثرت ملے گا کہ ایک ایک عورت چار چار مرتبہ بیوہ ہوئی اور کبھی بھی اس کو شادی میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا نہ تو وظیفے پڑھے اور نہ ہی بزرگوں سے دعائیں کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام نکاح بھیجا، انھوں نے یہ کہہ کر پیغام مسترد کردیا کہ مجھے ان سے نکاح میں کوئی رغبت نہیں۔
امیرالمومنین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک پیغام ام ابان بنت عتبہ بن شیبہ رضی اللہ عنہا کی طرف بھیجا ام ابان رضی اللہ عنہ نے بھی یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ سخت طبیعت کے ہیں۔ یہ سارے انکار اس لئے ہو رہے تھے کہ ان کو یقین تھا کہ ہمیں اپنی مرضی کا رشتہ مل جائے گا۔"
یعنی معاویہ انتہائی فقیر ومسکین ہیں، لہٰذا ان سے اپنی بچی کا نکاح نہ کرو اور
'اما ابوالجہم'
رہے ابوالجہم
'فلا یضع عصاہ عن عاتکہ'
تو وہ ایسی سخت طبیعت کے ہیں کہ ان کی لاٹھی ان کے کندے سے کبھی نہیں اترتی، لہٰذا ان دونوں کو چھوڑ کر اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نکاح کرو۔
دیکھیں کیسا معاشرہ تھا کہ بیوہ کے لئے اتنے بڑے بڑے رشتے آرہے ہیں کہ نبی صلی اللہ کو مداخلت کرکے فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب تعدد ازواج کی برکات تھیں۔
اسما بنت عمیس جو اپنے جوان شوہر جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے غزوہ موتہ میں شہید ہونے کے بعد بیوہ ہو گئیں ان کے بارے میں روایات میں ہے:
کہ ابھی عدت گزری ہی تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا جسے حضرت اسما نے قبول کرلیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ سے نکاح فرمایا اور پھر ولیمہ کیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی آپ سے نکاح کی خواہش ظاہر کی مگر حضرت اسما بنت عمیس نے یوں کہہ کر انکار کردیا: اے ابوالحسن آپ رہنے دیں کیونکہ آپ ایک ایسے شخص ہیں کہ جن کی طبیعت میں سنجیدگی نہیں۔
دیکھیں اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اگر یہ سوچتے کہ میں تو پہلے ہی دو شادیاں کر چکا ہوں مزید ایک اور شادی سے کہیں پہلی دو کا ثواب بھی کم نہ ہو جائے یا خواہ مخواہ میں مجھے خود پر اتنے سارے بال بچوں کی فکر مسلط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بیویوں میں عدل نہ ہوسکا تو قیامت میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا لہٰذا اطمینان قلب کے ساتھ دین ودنیا کے کاموں میں ہمہ تن مشغول رہنا چاہیے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اسما بنت قیس کی طرف حضرت علی نے دوبارہ پیغام نکاح بھیجا جو انھوں نے قبول کرلیا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات میں آپ کو ایسا بکثرت ملے گا کہ ایک ایک عورت چار چار مرتبہ بیوہ ہوئی اور کبھی بھی اس کو شادی میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا نہ تو وظیفے پڑھے اور نہ ہی بزرگوں سے دعائیں کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام نکاح بھیجا، انھوں نے یہ کہہ کر پیغام مسترد کردیا کہ مجھے ان سے نکاح میں کوئی رغبت نہیں۔
امیرالمومنین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک پیغام ام ابان بنت عتبہ بن شیبہ رضی اللہ عنہا کی طرف بھیجا ام ابان رضی اللہ عنہ نے بھی یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ سخت طبیعت کے ہیں۔ یہ سارے انکار اس لئے ہو رہے تھے کہ ان کو یقین تھا کہ ہمیں اپنی مرضی کا رشتہ مل جائے گا۔"
طبی ہدایات:
تاہم ڈاکٹر یاسر مسلم، ایم ڈی، سی سی آر یو ایم، جے، جے ہاسپٹل، ممبئی کے مطابق "کسی شخص کے لئے نکاح ثانی مناسب ہے یا نہیں؟ اس بارے میں جہاں شرعی، معاشی، قانونی اور سماجی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہیں طبی پہلو پر بھی۔ طبی اعتبار سے جو نکات اس سلسلے میں سمجھ میں آتے ہیں وہ عرض ہیں؛
1. جسمانی اور مزاجی اعتبار سے لوگ مختلف ہوتے ہیں۔ گرم و تر مزاج کے تندرست لوگوں کے لئے ایک سے زائد بیویاں صحت کے بہتر ہونے کا سبب ہوسکتی ہیں جبکہ سرد و خشک مزاج کے کمزور افراد کے لئے صحت کی خرابی کا۔
2. مختلف ملکوں میں تعدد ازدواج کی مختلف شکلیں ہیں۔ کہیں ایک پر اکتفا ہے تو کہیں تین چار تک ضروری ہے۔ ان ملکوں کے باشندوں میں ان کے مزاج اور ان کی ان عادات کے مطابق توافق (Adoptation) ہے. عمومی طور سے ان کو یہی راس آتا ہے۔ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
3. نکاح ثانی کی صورت میں جہاں ایک خاندان کو ذہنی تناؤ سے بچایا جاسکتا ہے وہاں اسے ضروری سمجھنا چاہئے مثلاً ایک جوڑا اگر اولاد سے محروم ہے۔ طبی چانچ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مستقبل میں اولاد ہونے کی امید بھی نہیں ہے تو ایسے مرد کے لئے کسی مناسب بیوہ سے رشتہ کرنا جو پہلے سے اولاد والی ہو اور اسے شوہر کی ضرورت ہو پورے گھرانے کے لئے ذہنی سکون حاصل کرنے کی مفید تدبیر ہے۔
4. ایسے کئی معاملات مشاہدے میں آئے ہیں کہ ملازمت کرنے والی خواتین جن کے بچے بھی ہوں ان پر کام کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے۔آدھا وقت ملازمت میں دینے کے بعد وہ گھر کے کام کاج میں اور بچوں کی تربیت میں مشکلات محسوس کرتی ہیں۔ نتیجتاً کچھ عرصے بعد مختلف بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں مرد کا نکاح ثانی ان عورتوں کی مصروفیات کم کرکے ان کو ذہنی سکون عطا کرسکتا ہے۔
5. جو لوگ اپنی پہلی بیوی سے مطمئن نہیں اور اس کام کے لئے دوسرے ناجائز تعلقات قائم کرتے ہیں ان میں سے کئی افراد مختلف جنسی بیماریوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں حفظان صحت کے لئے نکاح ثانی کی رائے دی جانی چاہئے۔
6. کچھ جنسی امراض ایسے ہیں جن کے سبب مرد یا عورت کی جسمانی و دماغی صحت متاثر ہوتی ہے اور ان کا علاج یہ ہے کہ طرفین دوسرا نکاح کرلیں۔
7. بہت سی عورتیں غربت، جسمانی معذوری، بدصورتی یا خاندانی برابری نہ ہونے کی وجہ سے نکاح سے محروم رہتی ہیں مجبوراً ان میں سے بعض بے دین عورتیں جنسی بے راہ روی کا شکار ہوکر مختلف بیماریوں سے متاثر ہوتی ہیں اور بعض ڈپریشن کی وجہ سے بیمار ہو جاتی ہیں۔ ہر صورت میں معاشرے میں امراض بڑھتے ہیں جن کا حل نکاح ثانی ہوسکتا ہے۔
8. چند مسائل سے پریشان ہوکر ان کے حل کے لئے نکاح ثانی کا جلد فیصلہ کرنے کی بجائے ایک مدت اس پر غور کرنا چاہیے۔
9. نئے نکاح سے قبل اپنے خاندان، پہلی بیوی اور نئے رشتے والے گھرانے کے لوگوں کو ذہنی طور سے تیار کرلینا چاہیے۔
10. دوسرا نکاح کئی مرتبہ بجائے ذہنی تناؤ کم کرنے کے مزید اضافے کا سبب بن جاتا ہے اس کی وجہ درج بالا تمام نکات اور ان طبی امور کے ساتھ شریعت میں بیان کردہ دیگر پہلوؤں پر توازن سے غور نہ کرنا ہوسکتا ہے۔
11. دوسرے نکاح سےقبل (خصوصاًجب کسی ایسی بیوہ سے نکاح کرنا ہو جس کے بچے بھی ہوں) مرد کے لئے یہ اطمینان کرلینا ضروری ہے کہ وہ نئے مزاج اور نئی ذمہ داریاں بخوشی و آسانی برداشت کرسکتا ہے۔ اسی طرح عورت کو بھی غور کرنا چاہیے کہ آئندہ کےحالات اس کے لئے سکون کا ذریعہ ہونگے یا نہیں۔
12. طرفین کے لئے بہتر ہے کہ نکاح سے قبل ضروری میڈیکل ٹیسٹ بھی کرالیں۔
13. نکاح سے قبل اسلامی روح کے حامل ڈاکٹر اور ماہر نفسیات سے رجوع کرکے طبی رائے لینا ذہنی اور جسمانی مسائل سے حفاظت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔"
2. مختلف ملکوں میں تعدد ازدواج کی مختلف شکلیں ہیں۔ کہیں ایک پر اکتفا ہے تو کہیں تین چار تک ضروری ہے۔ ان ملکوں کے باشندوں میں ان کے مزاج اور ان کی ان عادات کے مطابق توافق (Adoptation) ہے. عمومی طور سے ان کو یہی راس آتا ہے۔ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
3. نکاح ثانی کی صورت میں جہاں ایک خاندان کو ذہنی تناؤ سے بچایا جاسکتا ہے وہاں اسے ضروری سمجھنا چاہئے مثلاً ایک جوڑا اگر اولاد سے محروم ہے۔ طبی چانچ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مستقبل میں اولاد ہونے کی امید بھی نہیں ہے تو ایسے مرد کے لئے کسی مناسب بیوہ سے رشتہ کرنا جو پہلے سے اولاد والی ہو اور اسے شوہر کی ضرورت ہو پورے گھرانے کے لئے ذہنی سکون حاصل کرنے کی مفید تدبیر ہے۔
4. ایسے کئی معاملات مشاہدے میں آئے ہیں کہ ملازمت کرنے والی خواتین جن کے بچے بھی ہوں ان پر کام کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے۔آدھا وقت ملازمت میں دینے کے بعد وہ گھر کے کام کاج میں اور بچوں کی تربیت میں مشکلات محسوس کرتی ہیں۔ نتیجتاً کچھ عرصے بعد مختلف بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں مرد کا نکاح ثانی ان عورتوں کی مصروفیات کم کرکے ان کو ذہنی سکون عطا کرسکتا ہے۔
5. جو لوگ اپنی پہلی بیوی سے مطمئن نہیں اور اس کام کے لئے دوسرے ناجائز تعلقات قائم کرتے ہیں ان میں سے کئی افراد مختلف جنسی بیماریوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں حفظان صحت کے لئے نکاح ثانی کی رائے دی جانی چاہئے۔
6. کچھ جنسی امراض ایسے ہیں جن کے سبب مرد یا عورت کی جسمانی و دماغی صحت متاثر ہوتی ہے اور ان کا علاج یہ ہے کہ طرفین دوسرا نکاح کرلیں۔
7. بہت سی عورتیں غربت، جسمانی معذوری، بدصورتی یا خاندانی برابری نہ ہونے کی وجہ سے نکاح سے محروم رہتی ہیں مجبوراً ان میں سے بعض بے دین عورتیں جنسی بے راہ روی کا شکار ہوکر مختلف بیماریوں سے متاثر ہوتی ہیں اور بعض ڈپریشن کی وجہ سے بیمار ہو جاتی ہیں۔ ہر صورت میں معاشرے میں امراض بڑھتے ہیں جن کا حل نکاح ثانی ہوسکتا ہے۔
8. چند مسائل سے پریشان ہوکر ان کے حل کے لئے نکاح ثانی کا جلد فیصلہ کرنے کی بجائے ایک مدت اس پر غور کرنا چاہیے۔
9. نئے نکاح سے قبل اپنے خاندان، پہلی بیوی اور نئے رشتے والے گھرانے کے لوگوں کو ذہنی طور سے تیار کرلینا چاہیے۔
10. دوسرا نکاح کئی مرتبہ بجائے ذہنی تناؤ کم کرنے کے مزید اضافے کا سبب بن جاتا ہے اس کی وجہ درج بالا تمام نکات اور ان طبی امور کے ساتھ شریعت میں بیان کردہ دیگر پہلوؤں پر توازن سے غور نہ کرنا ہوسکتا ہے۔
11. دوسرے نکاح سےقبل (خصوصاًجب کسی ایسی بیوہ سے نکاح کرنا ہو جس کے بچے بھی ہوں) مرد کے لئے یہ اطمینان کرلینا ضروری ہے کہ وہ نئے مزاج اور نئی ذمہ داریاں بخوشی و آسانی برداشت کرسکتا ہے۔ اسی طرح عورت کو بھی غور کرنا چاہیے کہ آئندہ کےحالات اس کے لئے سکون کا ذریعہ ہونگے یا نہیں۔
12. طرفین کے لئے بہتر ہے کہ نکاح سے قبل ضروری میڈیکل ٹیسٹ بھی کرالیں۔
13. نکاح سے قبل اسلامی روح کے حامل ڈاکٹر اور ماہر نفسیات سے رجوع کرکے طبی رائے لینا ذہنی اور جسمانی مسائل سے حفاظت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔"
No comments:
Post a Comment