دریافت کرنے پر اِقرارِ طلاق کاحکم
سوال: زید نے اپنی بیوی کو کہا کہ تجھ کو ہر گز نہیں رکھ سکتا ہوں چاہے تو سونے کے کپڑے میں لپٹ کر آئے ہاں میں نے طلاق دیدی ہے۔ ایک عالم کی موجودگی میں زید سے دریافت کیا کہ کیا تونے اپنی بیوی کو طلاق دید ی ہے تو زید نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہاں طلاق دیدی ہے۔اب قریب چھ ماہ سے زید اس طلاق کا انکار کرتا ہے۔عورت نے زید کے گھرآنے سے انکار کردیاکہ مجھے طلاق ہوگئی ہے۔ اس طلاق کو دوسال ہوگئے عند الشرع کیا صورت اختیار کی جاوے۔
الجـواب وباﷲ التـوفـیـق:
جواب: حسب ِ تحریر سوال جس وقت چند آدمیوں نے ایک عالم کی موجودگی میں دریافت کیا اور زید نے آکر کہاکہ طلاق دیدی تو طلاق ہوگئی۔اب زید کا انکار معتبر نہیں ہے لہٰذا اگر تین طلاق نہ دی ہو صرف دویا ایک ہی دی ہو اور بعد طلاق عورت کو تین حیض آچکے ہوں۔ توپھر سے جدید نکاح پڑھاکر تعلق زوجیت قائم رکھ سکتے ہیں۔
الجـواب وباﷲ التـوفـیـق:
جواب: حسب ِ تحریر سوال جس وقت چند آدمیوں نے ایک عالم کی موجودگی میں دریافت کیا اور زید نے آکر کہاکہ طلاق دیدی تو طلاق ہوگئی۔اب زید کا انکار معتبر نہیں ہے لہٰذا اگر تین طلاق نہ دی ہو صرف دویا ایک ہی دی ہو اور بعد طلاق عورت کو تین حیض آچکے ہوں۔ توپھر سے جدید نکاح پڑھاکر تعلق زوجیت قائم رکھ سکتے ہیں۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
الجواب صحیح کتبہ بندہ محمدنظام الدین
سید احمد علی سعیدمفتی
نظام الفتاوی
..........
الجواب صحیح کتبہ بندہ محمدنظام الدین
سید احمد علی سعیدمفتی
نظام الفتاوی
..........
باب اقرار الطلاق
{۱۹۵۴} اقرار طلاق سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
سوال: ایک شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق دی ، اور بعد میں رجوع کر لیا، اور دونوں چار سال دوبارہ ساتھ میں رہے، ان کے بچے بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں ، ایک دن تاریخ ۷۵؍۸؍۵ کو صبح ۰۰:۱۱ بجے قرآن شریف کی تفسیر سورۂ بقرہ پارہ: ۲ میں طلاق کا مسئلہ پڑھتے پڑھتے عورت سے رجوع کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے اس شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’ میں نے تجھے ایک نہیں لیکن دو طلاق دی ہے، تو مہر لے کر تیرے بھائی کے یہاں چلی جا‘‘ عورت نے سوال کیا کہ دوسری طلاق کب دی؟ اس شخص نے جواب دیا آج سے سات مہینہ قبل میں نے اپنے دل میں دوسری طلاق دی تھی اور آج میں اس کو ظاہر کر رہا ہوں ، عورت اپنے بھائی کے گھر جانے پر راضی نہیں تھی لیکن پھر بھی بذریعہ خط اس کے بھائی کو بلا کر کہا کہ
سوال: ایک شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق دی ، اور بعد میں رجوع کر لیا، اور دونوں چار سال دوبارہ ساتھ میں رہے، ان کے بچے بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں ، ایک دن تاریخ ۷۵؍۸؍۵ کو صبح ۰۰:۱۱ بجے قرآن شریف کی تفسیر سورۂ بقرہ پارہ: ۲ میں طلاق کا مسئلہ پڑھتے پڑھتے عورت سے رجوع کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے اس شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’ میں نے تجھے ایک نہیں لیکن دو طلاق دی ہے، تو مہر لے کر تیرے بھائی کے یہاں چلی جا‘‘ عورت نے سوال کیا کہ دوسری طلاق کب دی؟ اس شخص نے جواب دیا آج سے سات مہینہ قبل میں نے اپنے دل میں دوسری طلاق دی تھی اور آج میں اس کو ظاہر کر رہا ہوں ، عورت اپنے بھائی کے گھر جانے پر راضی نہیں تھی لیکن پھر بھی بذریعہ خط اس کے بھائی کو بلا کر کہا کہ
’’ میں نے تمہاری بہن کو دو طلاق دے دی ہے اور اب میں اسے تم کو سونپتا ہوں اسے تم لے جاؤ‘‘۔
یہ کہہ کر وہ شخص باہر گاؤں چلا گیا اور اس کا بھائی اس عورت کو اپنے گھر لے گیا، اور تین مہینہ عدت گزاری اور ابھی تک میاں بیوی کی ملاقات نہیں ہوئی ہے، اس پورے مسئلہ میں پوچھنا یہ ہے کہ
(۱) پہلی طلاق کے بارے میں کیا حکم ہے؟
یہ کہہ کر وہ شخص باہر گاؤں چلا گیا اور اس کا بھائی اس عورت کو اپنے گھر لے گیا، اور تین مہینہ عدت گزاری اور ابھی تک میاں بیوی کی ملاقات نہیں ہوئی ہے، اس پورے مسئلہ میں پوچھنا یہ ہے کہ
(۱) پہلی طلاق کے بارے میں کیا حکم ہے؟
(۲) دوسری طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟ اور اگر واقع ہو گئی تو اس کی عدت کب سے سمجھی جائے؟ جس دن اقرار کیا تب سے یا ۷ مہینہ پہلے سے؟(۳) اب اسے نکاح میں لانے کی کیا شکل ہے؟
(۴) اور جب اس شخص نےبیوی کے بھائی کے سامنے اقرار کیا تب تیسری طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟
(۵) عدت کا کیا حکم ہے؟
الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلماً…
الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلماً…
جب تک طلاق کا تکلم نہ کیا جائے ، دل میں طلاق سوچنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، لیکن جھوٹے اقرار سے یا طلاق کی جھوٹی اطلاع دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اس عورت پر دو طلاق واقع ہو چکی ہیں ، اس لئے کہ اس نے بیوی کے بھائی کے سامنے اقرار کیا ہے کہ ’’ میں نے تمہاری بہن کو دو طلاق دے دی ہیں ۔ اور اب میں اسے تم کو سونپتا ہوں اسے تم لے جاؤ‘‘ اس سے دوسری طلاق واقع ہو گئی، اور عدت ختم ہو چکی ہے، اس لئے اب بغیر حلالہ کے از سر نو نکاح کر لینے سے دونوں میاں بیوی بن کر رہ سکتے ہیں ۔ (شامی، عالمگیری)
فتاوی دینیہ
......
فتاوی دینیہ
......
طلاق کا اقرار کرنے سے طلاق کا حکم
سوال (۷۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک لڑکی کا نکاح تقریباً سولہ سال قبل ہوا تھا دوسال میاں بیوی کی زندگی خوشگوار رہی اس کے بعد دونوں میں اختلاف ہوگیا، لڑکی اپنے باپ کے گھر آگئی باپ کے ہی گھر بیوی کے ایک بچی پیدا ہوئی، پانچ سال قبل اس بیوی کے شوہر نے دو معتبر شخصوں کے سامنے طلاق کے بارے میں کہا کہ میں نے، تو اپنی بیوی کو طلاق دیدی اس صورت میں معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا طلاق واقع ہوگی؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: برتقدیر صحت سوال شوہر کے یہ اقرار کرنے سے کہ میں نے تو اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے طلاق واقع ہوگئی، اور چو ں کہ پانچ سال پہلے یہ اقرار کیا ہے اس کے بعد رجعت نہیں کی؛ لہٰذا عدت گذرنے کے بعد سے وہ بائنہ ہوچکی ہے۔
ولو أقر بالطلاق وہو کاذب وقع في القضاء … إذا قال: أردت بہ الخبر عن الماضي کذبا، وإن لم یرد بہ الخبر عن الماضی، أو أراد بہ الکذب، أو الہزل وقع قضاء ودیانۃ۔ (البحر الرائق ۳؍ ۲۴۶ کراچی، سکب الأنہر علی ہامش مجمع الأنہر ۲؍۸ بیروت)
فإن طلقہا ولم یراجعہا بل ترکہا حتی انقضت عدتہا بانت۔ (بدائع الصنائع ۳؍ ۲۸۳ زکریا)
أن من أقر بطلاق سابق یکون ذٰلک إیقاعا منہ في الحال؛ لأن من ضرورۃ الاستناد الوقوع في الحال، وہو مالک للإیقاع غیر مالک للاستناد۔ (المبسوط للسرخسي / باب الطلاق ۴؍۱۰۹ کوئٹہ) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
از کتاب النوازل
العبد محمد اسلامپوری
....
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: برتقدیر صحت سوال شوہر کے یہ اقرار کرنے سے کہ میں نے تو اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے طلاق واقع ہوگئی، اور چو ں کہ پانچ سال پہلے یہ اقرار کیا ہے اس کے بعد رجعت نہیں کی؛ لہٰذا عدت گذرنے کے بعد سے وہ بائنہ ہوچکی ہے۔
ولو أقر بالطلاق وہو کاذب وقع في القضاء … إذا قال: أردت بہ الخبر عن الماضي کذبا، وإن لم یرد بہ الخبر عن الماضی، أو أراد بہ الکذب، أو الہزل وقع قضاء ودیانۃ۔ (البحر الرائق ۳؍ ۲۴۶ کراچی، سکب الأنہر علی ہامش مجمع الأنہر ۲؍۸ بیروت)
فإن طلقہا ولم یراجعہا بل ترکہا حتی انقضت عدتہا بانت۔ (بدائع الصنائع ۳؍ ۲۸۳ زکریا)
أن من أقر بطلاق سابق یکون ذٰلک إیقاعا منہ في الحال؛ لأن من ضرورۃ الاستناد الوقوع في الحال، وہو مالک للإیقاع غیر مالک للاستناد۔ (المبسوط للسرخسي / باب الطلاق ۴؍۱۰۹ کوئٹہ) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
از کتاب النوازل
العبد محمد اسلامپوری
....
میں نے اپنی بیوی کو ایک مرتبہ طلاق دیدی، پھر میں نیچے اترکر آیا، تو محلہ میں بہت شور ہورہا تھا، وہ میرے ساتھ نیچے اترآئی، اس سے میں نے کہا کہ میں تجھے لے کر نہیں جاؤں گا اور کافی لوگ اکھٹے ہوگئے، شور شرابہ ہونے لگا، پھر میں نے دو بار طلاق طلاق کہا، دونوں ہی بار لوگوں نے میرے منھ پر ہاتھ رکھ دیا، جس کی وجہ سے میری آواز دب گئی اور اس نے کہا کہ میں نے نیچے نہیں سنا؟
المستفتی: محمداکرام محلہ: بھٹی مرادآباد
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
جب شوہر خود اس بات کا قرار کررہا ہے کہ ایک طلاق دے کر نیچے آیا، پھر نیچے دوبار طلاق دی، اس سے کل تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئیں اور طلاق کے واقع ہونے کے لئے عورت کا اپنے کان سے سننا لازم نہیں، صرف شوہر کا اقرار کافی ہے؛ لہٰذا دونوں کے درمیان زوجیت کا تعلق ختم ہوچکا ہے، بدون حلالہ کے بیوی شوہر کے لئے حلال نہ ہوگی۔
من أقر بطلاق سابق یکون ذٰلک إیقاعاً منہ في الحال۔ (مبسوط سرخسي، دارالکتب العلمیۃ بیروت۶/۱۳۳)
اذا قال لامرأتہ أنت طالق، وطالق، وطالق ولم یعلقہ بالشرط، إن کانت مدخولۃ طلقت ثلاثاً۔ (ہندیۃ، زکریا۱/۳۵۵، جدید زکریا ۱/۴۲۳، الأشباہ والنظائر، زکریا۲۱۹)
وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرۃ، وثنتین في الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ نکاحاً صحیحاً ویدخل بہا، ثم یطلقہا أو یموت عنہا۔ (ہندیۃ، زکریا ۱/۴۷۳، جدید زکریا ۱/۵۳۵) فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
فتاوی قاسمیہ
........
طلاق کی خبر دینے سے طلاق کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ طلاق کی خبر دینے سے طلاق ہوتی ہے یا نہیں ؟ کتب فقہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب استخبار ہو یعنی پوچھا جائے ”ما قلت“؟ آپ نے کیا کہا اور اس کے جواب میں وہ بتائیں کہ میں نے طلاق دیدی ہے تو یہ اخبار ہوگا اور قضاء فقط ایک طلاق کا حکم لگے گا لیکن اگر بغیر استخبار کے اخبار کیا تو دیانۃً تو تصدیق ہوگی اور ایک واقع ہوگی لیکن قضاءً تصدیق نہیں ہوگی بلکہ دو طلاقیں واقع ہوجائیں گی، ایک پہلے دی تھی اور ایک اس اخبار سے واقع ہوگی۔ مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک شخص بغیر استخبار کے اخبار کررہا ہے اور وہ دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے کرآرہا ہوں اور اس کی نیت اخبار کی ہے یا حالات دال ہیں کہ یہ اخبار کررہا ہے تو پھر قضاءً عدم تصدیق اس کے حق میں ظلم نہ ہوگا؟ ازراہ کرم مسئلے کی مفصل تنقیح فرمادیں ۔
الجواب بعون الملک الوھاب… اصول یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے استخبار کیا جائے کہ تو نے اپنی بیوی کو کیا کہا اور اس کے جواب میں وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے تو اس صورت میں اُس کے کلام کو قرینۂ استخبار کی وجہ سے اخبار سمجھا جائے گا اور اس کی بیوی کو دوسری طلاق نہیں ہوگی اور اگر کسی شخص نے بغیر استخبار کے خود ہی خبر دی تو اس صورت میں اس کے الفاظ سے دوسری طلاق واقع ہوگی اور خاوند کی اس میں قضاء ً تصدیق نہیں کی جائے گی، البتہ چونکہ الفاظ میں صیغۂ اخبار ہے تو اس وجہ سے صرف دیانتاً فیما بینہ وبین الله خاوند کی تصدیق کی جائے گی۔
لیکن اگر کسی جگہ پر قرینۂ مقالیہ تو نہ پایا جارہا ہو بلکہ استخبار کا قرینۂ حالیہ پایا جارہا ہو تو وہاں بھی خاوند کی قضاء ً تصدیق کی جائے گی اور خاوند کے ان الفاظ سے دوسری طلاق واقع نہیں ہوگی، بلکہ قرینۂ حالیہ کو استخبار سمجھا جائے گا اور اس کے کلام کو جواب کے قائم مقام بنایا جائے گا مثلاً میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا ہورہا ہو اور باہر کے لوگوں کو معلوم ہو کہ اُن میاں بیوی کی آپس میں لڑائی ہورہی ہے اور اس صورت میں خاوند گھر سے باہر آکر، باہر بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہتا ہے کہ میں نے تو اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس صورت میں اس قرینۂ حالیہ کو استخبار سمجھا جائے گا اور عورت کو دوسری طلاق نہیں پڑے گی۔
البتہ اگر کسی جگہ پر کوئی قرینۂ حالیہ و مقالیہ نہ پایا جارہا ہو اور پھر خاوند یہ کہہ دیتا ہے کہ ”میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی“ تو اس صورت میں قضاءً دوسری طلاق واقع ہوجائے گی مثلاً آپس میں کچھ لوگ بیٹھ کر باتیں کررہے ہوں اور کوئی مذاکرۂ طلاق نہ ہو اور نہ کوئی مقام و کلام اس بارے میں ہو اور پھر خاوند بغیر قرینہ حالیہ و مقالیہ کے کہہ دے کہ ” میں نے تو اپنی بیوی کو طلاق دیدی“ تو اس صورت میں اس کی بیوی کو دوسری طلاق واقع ہوجائے گی اور خاوند کی قضاء ً اس میں کوئی تصدیق نہیں کی جائے گی فقط دیانتاً فیما بینہ و بین الله اس کی تصدیق کی جائے گی۔
.......
باب فی إقرار الطلاق والإخبار والإنشاء(طلاق کا اقرار ،اخبار اور انشاءِ طلاق کا بیان)
(۳۰۷) طلاق کی خبر دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی
سوال… کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دی ہیں اور اس بات کا اقرار میں نے ایک دو بار اپنے تمام رشتہ داروں کے سامنے بھی ان کے پوچھنے پر کیا تھا۔ جب لڑکی والوں کے سامنے بھی کیا تو وہ کہنے لگے کہ تمہاری بیوی پر تو اب تین طلاقیں ہوگئیں ، دو پہلے اور ابھی بھی تم نے طلاق کے الفاظ دہرائے لہٰذا اب تمہارا اپنی بیوی سے رجوع نہیں ہوسکتا۔ مفتی صاحب اب میں بہت پریشان ہوں ، آپ مجھ کو اس مسئلہ کاحل بتادیں میرے لئے رجوع کی گنجائش ہے یا نہیں ؟ کیونکہ ابھی میری بیوی کی عدت باقی ہے اور وہ بھی میرے پاس دوبارہ آنا چاہتی ہے۔ براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں ۔
الجواب بعون الملک الوھاب… فقہاءکرام نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ کوئی شخص اگر اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دیتا ہے اور پھر وہ کسی کے پوچھنے پر اسے بتاتا ہے کہ ’’میں نے اپنی بیوی کو اتنی طلاقیں دی ہیں ‘‘ تو اس سے مزید طلاق واقع نہیں ہوتی لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کی بیوی پر دو طلاق واقع ہونے کے بعد اس طلاق کے بارے میں لوگوں کو خبر دینے یا اس کے اقرار کرنے سے دیگر طلاق واقع نہیں ہوئیں آپ بغیر حلالہ شرعیہ کے رجوع کرسکتے ہیں البتہ اب آپ کو صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔
لمافی الھندیۃ (۳۵۵/۱):ولو قال لامرأته أنت طالق فقال له رجل ما قلت فقال طلقتها أو قال قلت هي طالق فهي واحدة في القضاء كذا في البدائع۔
وفی الدرالمختار (۲۴۹/۳) :ولو قيل له طلقت امرأتك فقال نعم أو بلى بالهجاء طلقت بحر (واحدة رجعية)۔
وفی الشامیۃ: (قولہ رجعیۃ ) أی عند عدم ما یجعل بائنا۔
......
لمافی المحیط البرھانی (۳۹۳/۴) فیما یرجع الی صریح الطلاق: ولو قال لها: أنت طالق طالق أو قال: طلقتك طلقتك، أو قال: أنت طالق قد طلقتك، ثم قال عنيت الأولى دين فيما بينه وبين الله تعالى ولم يدين في القضاء ۔۔۔ ولو قال لها: أنت طالق فقال له رجل: ما قلت فقال طلقتها قال: أو قلت هي طالق فهي واحدة في القضاء لأن قوله في المرة الثانية خرج جواباً فيكون إخباراً عن الإيقاع الأول ليتحقق جواباً بخلاف المسألة المتقدمة لأن قوله في المرة الثانية خرج على سبيل الابتداء فكان إيقاعاً۔
وفی البدائع (۲۲۴/۴):ولو قال لها أنت طالق طالق أو قال أنت طالق أنت طالق أو قال قد طلقتك قد طلقتك أو قال أنت طالق قد طلقتك يقع ثنتان إذا كانت المرأة مدخولا بها لأنه ذكرجملتين كل واحدة منهما إيقاع تام لكونه مبتدأ وخبرا والمحل قابل للوقوع ولو قال عنيت بالثاني الإخبارعن الأول لم يصدق في القضاءلأن هذه الألفاظ في عرف اللغة والشرع تستعمل في إنشاء الطلاق فصرفها إلى الإخبار يكون عدولا عن الظاهر فلا يصدق في الحكم المدعو ويصدق فيمابينه وبين الله تعالى لأن صيغتها صيغة الإخبار ولو قال لامرأته أنت طالق فقال له رجل ما قلت فقال طلقتها أو قال قلت هي طالق فهي واحدة في القضاء لأن كلامه انصرف إلى الإخبار بقرينة الاستخبار ۔
وفی الولوالجیۃ (۱۱/۲):ولو قال رجل لامرأتہ وقد دخل بھا: أنت طالق، أنت طالق وقال: عنیت الأول صدق فیما بینہ و بین الله تعالیٰ، وأما فی القضاء فھما تطلیقتان، لأنہ لما عنی بالثانی الاخبار وھو ایقاع من حیث الظاھر فقد ادعی خلاف الظاھر لکنہ محتمل، فیصدق فیما بینہ و بین الله تعالیٰ ولا یصدق فی القضاء۔
وفی الدرالمختار (۲۴۷/۳) باب الصریح:( صريحه ما لم يستعمل إلا فيه ) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة ) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال : إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها ( ويقع بها ) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ،وإن قال تعمدته تخويفالم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى۔
وفی الرد تحتہ:( قوله ما لم يستعمل إلا فيه ) أي غالبا كما يفيده كلام البحروعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية ، وأراد بھا اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقا كما قدمناه لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر كما مر ( قوله ولو بالفارسية ) فما لا يستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية،وما استعمل فيها استعمال الطلاق وغيره فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام بحر
المستفتی: محمداکرام محلہ: بھٹی مرادآباد
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
جب شوہر خود اس بات کا قرار کررہا ہے کہ ایک طلاق دے کر نیچے آیا، پھر نیچے دوبار طلاق دی، اس سے کل تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئیں اور طلاق کے واقع ہونے کے لئے عورت کا اپنے کان سے سننا لازم نہیں، صرف شوہر کا اقرار کافی ہے؛ لہٰذا دونوں کے درمیان زوجیت کا تعلق ختم ہوچکا ہے، بدون حلالہ کے بیوی شوہر کے لئے حلال نہ ہوگی۔
من أقر بطلاق سابق یکون ذٰلک إیقاعاً منہ في الحال۔ (مبسوط سرخسي، دارالکتب العلمیۃ بیروت۶/۱۳۳)
اذا قال لامرأتہ أنت طالق، وطالق، وطالق ولم یعلقہ بالشرط، إن کانت مدخولۃ طلقت ثلاثاً۔ (ہندیۃ، زکریا۱/۳۵۵، جدید زکریا ۱/۴۲۳، الأشباہ والنظائر، زکریا۲۱۹)
وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرۃ، وثنتین في الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ نکاحاً صحیحاً ویدخل بہا، ثم یطلقہا أو یموت عنہا۔ (ہندیۃ، زکریا ۱/۴۷۳، جدید زکریا ۱/۵۳۵) فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
فتاوی قاسمیہ
........
طلاق کی خبر دینے سے طلاق کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ طلاق کی خبر دینے سے طلاق ہوتی ہے یا نہیں ؟ کتب فقہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب استخبار ہو یعنی پوچھا جائے ”ما قلت“؟ آپ نے کیا کہا اور اس کے جواب میں وہ بتائیں کہ میں نے طلاق دیدی ہے تو یہ اخبار ہوگا اور قضاء فقط ایک طلاق کا حکم لگے گا لیکن اگر بغیر استخبار کے اخبار کیا تو دیانۃً تو تصدیق ہوگی اور ایک واقع ہوگی لیکن قضاءً تصدیق نہیں ہوگی بلکہ دو طلاقیں واقع ہوجائیں گی، ایک پہلے دی تھی اور ایک اس اخبار سے واقع ہوگی۔ مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک شخص بغیر استخبار کے اخبار کررہا ہے اور وہ دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے کرآرہا ہوں اور اس کی نیت اخبار کی ہے یا حالات دال ہیں کہ یہ اخبار کررہا ہے تو پھر قضاءً عدم تصدیق اس کے حق میں ظلم نہ ہوگا؟ ازراہ کرم مسئلے کی مفصل تنقیح فرمادیں ۔
الجواب بعون الملک الوھاب… اصول یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے استخبار کیا جائے کہ تو نے اپنی بیوی کو کیا کہا اور اس کے جواب میں وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے تو اس صورت میں اُس کے کلام کو قرینۂ استخبار کی وجہ سے اخبار سمجھا جائے گا اور اس کی بیوی کو دوسری طلاق نہیں ہوگی اور اگر کسی شخص نے بغیر استخبار کے خود ہی خبر دی تو اس صورت میں اس کے الفاظ سے دوسری طلاق واقع ہوگی اور خاوند کی اس میں قضاء ً تصدیق نہیں کی جائے گی، البتہ چونکہ الفاظ میں صیغۂ اخبار ہے تو اس وجہ سے صرف دیانتاً فیما بینہ وبین الله خاوند کی تصدیق کی جائے گی۔
لیکن اگر کسی جگہ پر قرینۂ مقالیہ تو نہ پایا جارہا ہو بلکہ استخبار کا قرینۂ حالیہ پایا جارہا ہو تو وہاں بھی خاوند کی قضاء ً تصدیق کی جائے گی اور خاوند کے ان الفاظ سے دوسری طلاق واقع نہیں ہوگی، بلکہ قرینۂ حالیہ کو استخبار سمجھا جائے گا اور اس کے کلام کو جواب کے قائم مقام بنایا جائے گا مثلاً میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا ہورہا ہو اور باہر کے لوگوں کو معلوم ہو کہ اُن میاں بیوی کی آپس میں لڑائی ہورہی ہے اور اس صورت میں خاوند گھر سے باہر آکر، باہر بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہتا ہے کہ میں نے تو اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس صورت میں اس قرینۂ حالیہ کو استخبار سمجھا جائے گا اور عورت کو دوسری طلاق نہیں پڑے گی۔
البتہ اگر کسی جگہ پر کوئی قرینۂ حالیہ و مقالیہ نہ پایا جارہا ہو اور پھر خاوند یہ کہہ دیتا ہے کہ ”میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی“ تو اس صورت میں قضاءً دوسری طلاق واقع ہوجائے گی مثلاً آپس میں کچھ لوگ بیٹھ کر باتیں کررہے ہوں اور کوئی مذاکرۂ طلاق نہ ہو اور نہ کوئی مقام و کلام اس بارے میں ہو اور پھر خاوند بغیر قرینہ حالیہ و مقالیہ کے کہہ دے کہ ” میں نے تو اپنی بیوی کو طلاق دیدی“ تو اس صورت میں اس کی بیوی کو دوسری طلاق واقع ہوجائے گی اور خاوند کی قضاء ً اس میں کوئی تصدیق نہیں کی جائے گی فقط دیانتاً فیما بینہ و بین الله اس کی تصدیق کی جائے گی۔
.......
باب فی إقرار الطلاق والإخبار والإنشاء(طلاق کا اقرار ،اخبار اور انشاءِ طلاق کا بیان)
(۳۰۷) طلاق کی خبر دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی
سوال… کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دی ہیں اور اس بات کا اقرار میں نے ایک دو بار اپنے تمام رشتہ داروں کے سامنے بھی ان کے پوچھنے پر کیا تھا۔ جب لڑکی والوں کے سامنے بھی کیا تو وہ کہنے لگے کہ تمہاری بیوی پر تو اب تین طلاقیں ہوگئیں ، دو پہلے اور ابھی بھی تم نے طلاق کے الفاظ دہرائے لہٰذا اب تمہارا اپنی بیوی سے رجوع نہیں ہوسکتا۔ مفتی صاحب اب میں بہت پریشان ہوں ، آپ مجھ کو اس مسئلہ کاحل بتادیں میرے لئے رجوع کی گنجائش ہے یا نہیں ؟ کیونکہ ابھی میری بیوی کی عدت باقی ہے اور وہ بھی میرے پاس دوبارہ آنا چاہتی ہے۔ براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں ۔
الجواب بعون الملک الوھاب… فقہاءکرام نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ کوئی شخص اگر اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دیتا ہے اور پھر وہ کسی کے پوچھنے پر اسے بتاتا ہے کہ ’’میں نے اپنی بیوی کو اتنی طلاقیں دی ہیں ‘‘ تو اس سے مزید طلاق واقع نہیں ہوتی لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کی بیوی پر دو طلاق واقع ہونے کے بعد اس طلاق کے بارے میں لوگوں کو خبر دینے یا اس کے اقرار کرنے سے دیگر طلاق واقع نہیں ہوئیں آپ بغیر حلالہ شرعیہ کے رجوع کرسکتے ہیں البتہ اب آپ کو صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔
لمافی الھندیۃ (۳۵۵/۱):ولو قال لامرأته أنت طالق فقال له رجل ما قلت فقال طلقتها أو قال قلت هي طالق فهي واحدة في القضاء كذا في البدائع۔
وفی الدرالمختار (۲۴۹/۳) :ولو قيل له طلقت امرأتك فقال نعم أو بلى بالهجاء طلقت بحر (واحدة رجعية)۔
وفی الشامیۃ: (قولہ رجعیۃ ) أی عند عدم ما یجعل بائنا۔
......
لمافی المحیط البرھانی (۳۹۳/۴) فیما یرجع الی صریح الطلاق: ولو قال لها: أنت طالق طالق أو قال: طلقتك طلقتك، أو قال: أنت طالق قد طلقتك، ثم قال عنيت الأولى دين فيما بينه وبين الله تعالى ولم يدين في القضاء ۔۔۔ ولو قال لها: أنت طالق فقال له رجل: ما قلت فقال طلقتها قال: أو قلت هي طالق فهي واحدة في القضاء لأن قوله في المرة الثانية خرج جواباً فيكون إخباراً عن الإيقاع الأول ليتحقق جواباً بخلاف المسألة المتقدمة لأن قوله في المرة الثانية خرج على سبيل الابتداء فكان إيقاعاً۔
وفی البدائع (۲۲۴/۴):ولو قال لها أنت طالق طالق أو قال أنت طالق أنت طالق أو قال قد طلقتك قد طلقتك أو قال أنت طالق قد طلقتك يقع ثنتان إذا كانت المرأة مدخولا بها لأنه ذكرجملتين كل واحدة منهما إيقاع تام لكونه مبتدأ وخبرا والمحل قابل للوقوع ولو قال عنيت بالثاني الإخبارعن الأول لم يصدق في القضاءلأن هذه الألفاظ في عرف اللغة والشرع تستعمل في إنشاء الطلاق فصرفها إلى الإخبار يكون عدولا عن الظاهر فلا يصدق في الحكم المدعو ويصدق فيمابينه وبين الله تعالى لأن صيغتها صيغة الإخبار ولو قال لامرأته أنت طالق فقال له رجل ما قلت فقال طلقتها أو قال قلت هي طالق فهي واحدة في القضاء لأن كلامه انصرف إلى الإخبار بقرينة الاستخبار ۔
وفی الولوالجیۃ (۱۱/۲):ولو قال رجل لامرأتہ وقد دخل بھا: أنت طالق، أنت طالق وقال: عنیت الأول صدق فیما بینہ و بین الله تعالیٰ، وأما فی القضاء فھما تطلیقتان، لأنہ لما عنی بالثانی الاخبار وھو ایقاع من حیث الظاھر فقد ادعی خلاف الظاھر لکنہ محتمل، فیصدق فیما بینہ و بین الله تعالیٰ ولا یصدق فی القضاء۔
وفی الدرالمختار (۲۴۷/۳) باب الصریح:( صريحه ما لم يستعمل إلا فيه ) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة ) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال : إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها ( ويقع بها ) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ،وإن قال تعمدته تخويفالم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى۔
وفی الرد تحتہ:( قوله ما لم يستعمل إلا فيه ) أي غالبا كما يفيده كلام البحروعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية ، وأراد بھا اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقا كما قدمناه لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر كما مر ( قوله ولو بالفارسية ) فما لا يستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية،وما استعمل فيها استعمال الطلاق وغيره فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام بحر
No comments:
Post a Comment