Tuesday, 31 July 2018

ایس ایم ایس کے ذریعہ طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے

سوال… کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ ایک شخص اپنی بیو ی کو ”تجھے طلاق ہے“ کا میسج تین بار سینڈ کرتا ہے تو کیا اس سے ایک طلاق واقع ہوگی یا تین؟ نیز اختیاری اور غیر اختیاری طور پر تین بار سینڈ ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق ہوگا یا نہیں؟ براہ مہربانی قرآن و حدیث و فقہ حنفی کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب…
صورت مسئولہ میں  جب مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو ”تجھے طلاق ہے“ کا میسج تین دفعہ بھیج دیا تو اس سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں پڑ گئیں یہ میسج اگرچہ طلاق مرسومہ نہیں لیکن وہ شخص میسج بھیجنے کا اقرار کررہا ہے پھر چاہے اس نے یہ میسج اپنے اختیار سے کیا ہو یا غیر اختیاری طور پر، دونوں  صورتوں میں طلاق پڑجاتی ہے۔
لمافی القرآن الکریم (البقرة:۲۲۹): الطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌ بِإِحْسَانٍ۔
وفی سنن الترمذی (۲۲۵/۱) باب ماجاء فی الجد والھزل فی الطلاق:عن أبى هريرة ؓ قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم:
"ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النكاح والطلاق والرجعة"
وفی الشامیۃ (۲۴۶/۳) مطلب فی الطلاق بالکتابۃ: قوله (طلقت بوصول الكتاب) أي إليها ولا يحتاج إلى النية في المستبين المرسوم ولا يصدق في القضاء أنه عنى تجربة الخط ط بحر ومفهومه أنه يصدق ديانة في المرسوم رحمتي ۔۔۔ وفي التاترخانية كتب في قرطاس إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق ثم نسخه في آخر أو أمر غيره بنسخه ولم يمله عليه فأتاها الكتابان طلقت ثنتين قضاء إن إقر أنهما كتاباه أو برهنت وفي الديانة تقع واحدة بأيهما أتاها ويبطل الآخر ۔

(۲۰۳) ایس ایم ایس کے ذریعے مذاق میں  طلاق دینے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ زید اپنی بیوی کو SMS کررہا تھا ایک دن مذاق میں SMS کیا کہ تجھے تین طلاق تو کیا اس طرح ایس ایم ایس کرنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
الجواب بعون الملک الوھاب…
مذاق میں تحریراً طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے لہٰذا صورت مسئولہ میں زید کا اپنی بیوی کو مذاق میں SMSکے ذریعے تین طلاقیں دینے سے، تین طلاقیں اس پر واقع ہوگئی ہیں اور مذکورہ عورت زید پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے لہٰذا زید کا بغیر حلالہ شرعیہ کے مذکورہ عورت کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم رکھنا ناجائز اور حرام ہے۔
لمافی القرآن الکریم(البقرة:۲۳۰): فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِن بَّعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَه فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا اَن يَّتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا اَن يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللهِ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۔
وفی الھندیۃ (۳۵۳/۱) فصل فیمن یقع الطلاق وفیمن لایقع طلاقہ: وطلاق اللاعب والھازل بہ واقع۔
وفی الشامیۃ (۲۴۶/۳) مطلب فی الطلاق بالکتابۃ: (قولہ کتب الطلاق الخ) قال فی الھندیۃ: الکتابۃ علی نوعین: مرسومۃ وغیر مرسومۃ۔الخ۔
باب تعلیق الطلاق (طلاق کو معلق کرنے کا بیان)

.....
ایس ایم ایس کے ذریعہ طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے
http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/8781
ایس ایم ایس کے ذریعہ طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے
http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/8781

من ترک سنتی لم ینل شفاعتی کی تحقیق

من ترک سنتی لم ینل شفاعتی کی تحقیق
سوال: یہ ایک حدیث ہماری بعض فقہ واصول کی کتابوں میں ذکر کی جاتی ہے: "من ترک سنتی لم تنلہ شفاعتی" اس کی تحقیق مطلوب ہے۔
الجواب: جی یہ حدیث مختلف الفاظ سے ہماری کتابوں میں سنن مؤکدہ کے ترک، یا مکروہ تحریمی کے ارتکاب کے سلسلہ میں بطور وعید پیش کی جاتی ہے، اگرچہ روایت کے الفاظ مطلق ہیں، بہر حال: یہ الگ بحث ہے، فی الحال تو روایت کے ثبوت کی بات ہے۔
مجھے اس طرح کی وعید (شفاعت سے محرومی) پر مشتمل تین روایتیں ملی ہیں:
پہلی روایت: جو شاید سب سے اقرب ہے: اس کی روایت خطیب بغدادی نے « تاریخ بغداد » میں کی ہے، اور وہ یہ ہے:
أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو الْعَلاءِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ يَعْقُوبَ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَرَجِ الْخَلالُ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَامِدٍ أَحْمَدُ بْنُ رَجَاءِ بْنِ عُبَيْدَةَ قَدِمَ عَلَيْنَا لِلْحَجَّ سَنَةَ عَشْرَةَ وَثَلاثِ مِئَةٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ الْبَلْخِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلَّهِ ثَلاثَةُ أَمْلاكٍ : مَلَكٌ مُوَكَّلٌ بِالْكَعْبَةِ ، وَمَلَكٌ مُوَكَّلٌ بِمَسْجِدِي هَذَا ، وَمَلَكٌ مُوَكَّلٌ بِالْمَسْجِدِ الأَقْصَى.
فَأَمَّا الْمُوَكَّلُ بِالْكَعْبَةِ فَيُنَادِي فِي كُلِّ يَوْمٍ: "مَنْ تَرَكَ فَرَائِضَ اللَّهِ خَرَجَ مِنْ أَمَانِ اللَّهِ".
وَأَمَّا الْمُوَكَّلُ بِمَسْجِدِي هَذَا فَيُنَادِي فِي كُلِّ يَوْمٍ : "مَنْ تَرَكَ سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرِدِ الْحَوْضَ وَلَمْ تُدْرِكْهُ شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
 وَأَمَّا الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِالْمَسْجِدِ الأَقْصَى فَيُنَادِي فِي كُلِّ يَوْمٍ : "مَنْ كَانَ طُعْمَتُهُ حَرَامًا كَانَ عَمَلُهُ مَضْرُوبًا بِهِ حُرُّ وَجْهِهِ" .
قال الخطيب : هَذَا حديث منكر، ورجال إسناده كلهم ثقات معروفون ، سوى البصري وأحمد بن رجاء فإنهما مجهولان. [تاريخ بغداد تحقيق بشار 5/ 254]
الشاہد فی الحدیث : وَأَمَّا الْمُوَكَّلُ بِمَسْجِدِي هَذَا فَيُنَادِي فِي كُلِّ يَوْمٍ : "مَنْ تَرَكَ سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرِدِ الْحَوْضَ وَلَمْ تُدْرِكْهُ شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ترجمہ: اور وہ فرشتہ جو میری مسجد پر مقرر ہے، وہ روزانہ پکار کر کہتا ہے: جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منھ موڑے گا وہ حوض کوثرپرنہیں پہنچ پائے گا، اورحضور کی  شفاعت اس کو لاحق نہیں ہوگی ۔
روایت کا مرتبہ:  شدید الضعف، شبہ موضوع۔
سند میں دو  راوی غیر معروف ہیں، ایک تو محمد بن محمد بن اسحاق بصری ، ذہبی نے ميزان الاعتدال (4/ 25) میں اسے کو متہم قرار دیا ہے، اسی طرح اس سے روایت کرنے والا احمد بن رجاء  بن عبیدہ یہ بھی مجہول ہے۔
قال الذهبي:
محمد بن محمد بن إسحاق، شيخٌ بصري .روى عن سُوَيد بن نصر المروزي ، أتىٰ بخبر كذب . وعنه أحمدُ بن رجاء: لا يُعرف أيضا. [ميزان الاعتدال 4/ 25]
موضوع احادیث کی کتابوں میں بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے، گویا کہ وہ بھی حکم بالوضع ہے، دیکھئے:
الموضوعات لابن الجوزي (1/ 147) ، اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (1/ 85) ، تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة (1/ 170) .
دوسری روایت: معجم کبیر اور مسند ابویعلی میں ہے
قال الطبراني في "المعجم الكبير" (11/ 213) :
11532 - حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، ثنا مُسَدَّدٌ، ثنا خَالِدٌ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، أَلَا إِنَّ اللهَ فَرَضَ فَرَائِضَ، وَسَنَّ سننًا، وَحَدَّ حُدُودًا، أَحَلَّ حَلَالًا، وَحَرَّمَ حَرَامًا، وشَرَعَ الدِّينَ، فَجَعَلَهُ سَهْلًا سَمْحًا وَاسِعًا وَلَمْ يَجْعَلْهُ ضَيِّقًا، أَلَا إِنَّهُ لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ، وَمَنْ نَكَثَ ذِمَّتِي لَمْ يَنَلْ شَفَاعَتِي، وَلَمْ يَرِدْ عَلِيَّ الْحَوْضَ ، أَلَا إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُرَخِّصْ فِي الْقَتْلِ إِلَّا ثَلَاثًا: مُرْتَدٌ بَعْدَ إِيمَانٍ، أَوْ زَانٍ بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ قَاتَلُ نَفْسٍ فَيُقْتَلُ بِقَتْلِهِ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ » .
وقال أبو يعلى الموصلي في " المسند " (4/ 343) :
2458 - حَدَّثَنَا وَهْبٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُسَيْنٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، وَإِنَّ اللَّهَ فَرَضَ فَرَائِضَ وَسَنَّ سُنَنًا، وَحَّدَ حُدُودًا، وَأَحَلَّ حَلَالًا، وَحَرَّمَ حَرَامًا، وَشَرَعَ الْإِسْلَامَ، وَجَعَلَهُ سَهْلًا سَمْحًا وَاسِعًا، وَلَمْ يَجْعَلْهُ ضَيِّقًا ، يَا أَيُّهَا النَّاسُ ! إِنَّهُ لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ، وَمَنْ نَكَثَ ذِمَّةَ اللَّهِ طَلَبَهُ اللَّهُ، وَمَنْ نَكَثَ ذِمَّتِي خَاصَمْتُهُ ، وَمَنْ خَاصَمْتُهُ فَلَجْتُ عَلَيْهِ، وَمَنْ نَكَثَ ذِمَّتِي لَمْ يَنَلْ شَفَاعَتِي وَلَمْ يَرِدْ عَلَيَّ الْحَوْضِ. أَلَا إِنَّ اللَّهَ لَمْ يُرَخِّصْ فِي الْقَتْلِ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ: مُرْتَدٌ بَعْدَ إِيمَانٍ، وَزَّانٍ بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ قَاتَلِ نَفْسٍ فَيُقْتَلُ بِهَا. اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ؟ " .
الشاہد فی الحدیث : وَمَنْ نَكَثَ ذِمَّتِي لَمْ يَنَلْ شَفَاعَتِي، وَلَمْ يَرِدْ عَلِيَّ الْحَوْضَ .
ترجمہ: اور جس نے میرے عہد وپیمان کا پاس ولحاظ نہ کیا اس کو میری شفاعت حاصل نہیں ہوگی، اور وہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ پائے گا۔ عہد وپیمان سے بظاہر یہاں دین وشریعت، حلال وحرام ،فرائض وسنن مراد ہیں ، جیساکہ روایت کے آغاز میں مذکور ہے، تو وہ معنی قریب قریب ہے۔
روایت کا مرتبہ: شدید الضعف
سند میں حسین بن قیس الملقب حنش ہے ، جو متروک ہے، اور اس کی روایات نکارت سے خالی نہیں ہوتی ہیں ۔متعدد ائمہ حدیث نے اس پر جرح کی ہے ۔
تیسری روایت : ظہر کی چار سنت قبلیہ کے ساتھ خاص ہے
قَالَ عليه السلام: "مَنْ تَرَكَ الْأَرْبَعَ قَبْلَ الظُّهْرِ، لَمْ تَنَلْهُ شَفَاعَتِي" قُلْت : غَرِيبٌ جِدًّا [ نصب الراية 2/ 162] .
" من لم يداوم على أربع قبل الظهر لم تنله شفاعتي " . نقل السيوطي في آخر "الموضوعات" عن الحافظ ابن حجر أنه سئل عنه فأجاب بأنه : لا أصل له، والله أعلم. [ كشف الخفاء 2/ 332 ]
روایت کا مرتبہ: لا اصل لہ۔
الخلاصہ : کوئی معتبر روایت سنتوں کے ترک پر ، جو اس طرح کی وعید پر مشتمل ہو ، وارد نہیں ہے، اس لئے سنن مؤکدہ کے ترک پر یہ روایت پیش کرنا درست نہیں ہے ۔
البتہ ترکِ سنن بمعنی ان کو ہلکا سمجھنے یا ترک کی عادت بنالینے کے سلسلہ میں دوسری وعیدیں کتب حدیث میں ہیں ۔ واللہ اعلم
رتبہ اضعف العباد محمد طلحہ بلال احمد منیار عفی عنہ

عہد تمیمی ۔۔۔ فلسطینی نسل نو کا عظیم شاہکار

عہد تمیمی ۔۔۔ فلسطینی نسل نو کا عظیم شاہکار
عہد تمیمی کا نام گزشتہ کئی ماہ سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر گردش کرتا رہا، آخر یہ عہد تمیمی کون تھی؟
عہد تمیمی کا تعلق مقبوضہ فلسطین سے ہے کہ جہاں اس نے آنکھیں کھولیں تو ہر طرف اس کو صیہونی درندگی کا سامنا کرنا پڑا، ایک ایسی سرزمین کہ جہاں روزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق کو بد ترین پامالیوں سے روند ڈالا جاتا ہے ، مقبوضہ فلسطین ایک ایسی سرزمین کہ جہاں پر بچوں کو بھی جیل خانوں میں قید کیا جاتا ہے اور کئی کئی ماہ تک ان بچوں کو ان کے گھر والوں سے ملاقات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ عہد تمیمی ایک ایسے معاشرے میں جنم لے کر آئی کہ جہاں فلسطین کے مظلوم عوام کے گھروں کو بڑے بڑے بلڈوزروں کی مدد سے کسی بھی وقت مسمار کیا جاتا ہے، حتیٰ ایسے واقعات بھی موجود ہیں کہ رات کو جب فلسطینی گھروں میں نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں تو ان کے گھروں کو صیہونی درندوں کے بلڈوزر مسمار کرنے پہنچ جاتے ہیں اور ان واقعات میں متعدد معصوم بچے اور معذور بزرگوں کی موت ملبے تلے دب کر واقع ہوتی ہے۔
عہد تمیمی ایک سولہ سال کی فلسطینی نوجوان لڑکی ہے کہ جس نے سرزمین فلسطین پر اپنی پیدائش سے لے کر اپنی زندگی کے سولہ سالوں کو غاصب صیہونیوں کی جانب سے روا رکھے گئے بدترین مظالم اور وحشت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور محسوس کیا ہے۔عہد تمیمی فلسطین کے باقی ان تمام بچوں جیسی نہیں رہی ، عہد تمیمی نے بچپن سے ہی مزاحمت کاری کے راستہ کو اپنایا اور یہ راستہ اس کو وراثت میں اس کے والدین کی جانب سے ملا ۔آج بھی اگر انٹر نیٹ کی دنیا پر عہد تمیمی کی والد ہ ناریمان تمیمی اور والدباسم تمیمی کا نام لکھ کر سرچ کیاجائے تو ایسے درجنوں واقعات سامنے آئیں گے کہ جس میں اس خاندان کی جانب سے نہ صرف صیہونیوں کے مقابلے میں اپنے گھر کا دفاع کیا ہے بلکہ علاقے میں بسنے والے دیگر فلسطینیوں کو بھی حوصلہ دینے اور غاصب صیہونی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے میں اسی خاندان اور بالخصوص عہدتمیمی کی والدہ اور والد کا بڑا کردار رہا ہے۔واضح رہے کہ عہد تمیمی کی والدہ اور والد کو غاصب صیونی ریاست اسرائیل پہلے بھی قید و بند کی سزائیں دے چکی ہے۔
گذشتہ دنوں 29جولائی اتوار کو عہد تمیمی اور اس کی والدہ ناریمان تمیمی کو اسرائیلی جیل سے آٹھ ماہ کے بعد رہا کیا گیا ہے، عہد تمیمی کا جرم کیا تھا؟ عہد تمیمی نے بہادری اور شجاعت کی ایک ایسی مثال قائم کی تھی کہ جسے رہتی دنیا تک ہمیشہ تاریخ فلسطین اور آزادی فلسطین کی جد وجہد میں سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔عہدتمیمی نے فلسطینی عوام کے ساتھ جبر و ستم کے ساتھ پیش آنے والے ایک غاصب صیہونی فوجی کے منہ پر تھپڑ رسید کیا تھا اور اس جرم میں عہد تمیمی کو گرفتار کیا گیا اور پھر مختلف اوقات میں سنگین سزائیں اور نفسیاتی ٹارچر کیا جاتا رہا تاہم 29جولائی سنہ2018ء کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی قید سے وہ اپنی والدہ کے ہمراہ آزادی پا کر ایک مرتبہ پھر فلسطینی عوام سمیت دنیا بھر کے حریت پسندوں اور متوالوں کے لئے رول ماڈل بن گئی ہیں۔
ایک سولہ سالہ فلسطینی نوجوان بہادر لڑکی کا غاصب صیہونی فوجی کو تھپڑ رسید کرنا یقیناًایک قابل جرات اور شجاعت مندانہ عمل ہے جو ا س بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ فلسطین کی نئی نسل بھی پرانی نسلوں کی طرح جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور جد وجہد کو ترجیح دے رہی ہے اور یہ نسل نو کسی بھی طرح سے غاسب اسرائیل یا اس کے مدد گار امریکہ و مغربی ممالک کی طرف سے کی جانے والی صیہونیوں کی مسلح مدد سے مرعوب نہیں بلکہ یہ نسل اپنے حقوق کے دفاع کی خاطر نہتے ہی برسرپیکار رہنے کو عزت و شرف کا راستہ سمجھ کر فلسطین و القدس کے دفاع کے لئے سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے۔
یہ عہد تمیمی اور ان جیسی سیکڑوں فلسطینی نوجوان بچیاں اور بچے گذشتہ کئی ہفتوں سے غزہ اور مغربی کنارے کے ناجائز قائم کردہ بارڈر پر حق واپسی مارچ کا حصہ ہیں اور اس پاداش میں صیہونی غاصب افواج کی جانب سے مسلسل فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ بھی جاری ہے جو تاحال اس نسل نو کا حوصلہ پست کرنے میں بری طرح سے ناکام ہے، بلکہ فلسطین کی نسل نو کے حوصلہ مزید بلند سے بلند ہو رہے ہیں اور وہ مزاحمت کاری کے عمل کو ہی اپنی بقاء اور فلسطین کی آزادی کا راستہ قرار دے رہے ہیں ، یہی کچھ دراصل فلسطین کی اس بہادربیٹی عہد تمیمی نے بھی انجام دیا۔
فلسطین کی نئی نسل میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مظالم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کے خلاف جنم لینے والا جذبہ حریت اور مزاحمت دراصل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسرائیل مسلسل زوال کی طرف ہے ۔جہاں ایک طرف صیہونی جعلی ریاست اسرائیل اپنے دفاع کی خاطر اب مختلف دیواریں بنا کر سہارا لے رہی ہے وہاں غزہ اور مغربی کنارے کے راستے کو جدا کر کے ناجائز سرحد کی تعمیر کے ذریعہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے اپنے لئے شکست کا ایک اور باب کھول لیا ہے اور خود کو مزید محدود کر لیا ہے۔یہی اسرائیل سنہ48ء سے پہلے اور بعد میں عظیم تر اسرائیل کی بات کرتا تھا آج عہد تمیمی جیسی بہادر نوجوان نسل کے سامنے تسلیم خم ہو رہاہے اور خود کو محدود سے محدود کرنے میں مصروف ہے۔
یہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کہ جو چھ مسلمان ممالک کے ساتھ ہونے والی جنگ میں چند گھنٹوں میں نتائج حاصل کر لیتا تھا او ر فتح حاصل کرتا تھا آج ایک سولہ سالہ نوجوان لڑکی کے ہاتھوں اس غاصب ریاست کے درندہ صفت فوجی تھپڑ کھا رہے ہیں اور اس پر شکست تو یہ ہے کہ آٹھ ماہ قید رکھنے کے بعد بالآخر فتح کس کی ہوئی ہے؟ اسرائیل پھر بھی شکست سے دوچار ہو اہے، جعلی ریاست اسرائیل کو بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں اور فلسطینی نوجوانوں کی جد وجہد رنگ لائی ہے اور عہد تمیمی کو اس کی والدہ کے ہمراہ آزاد کرنا پڑا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ اور دنیا کی بڑی مغربی طاقتیں غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ امداد کے نام پر دے کر اسے مزید طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف اب اس جعلی ریاست اسرائیل کی حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ایک سولہ سال کی نوجوان لڑکی اسرائیلی غاصب فوجیوں سے نہتے ہی نبرد آزما ہے اور اپنے آہنی ہاتھوں کے تھپڑ ان صیہونی درندوں کو رسید کر رہی ہے۔یقیناًاسرائیل تاریخ میں اس سے زیادہ زوال کا شکار نہیں ہوا تھا کہ ایک پوری نسل جو کہ فلسطین میں مقبوضہ حالات میں جنم لے کر نوجوانی کی منزل گزار رہی ہے آج غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے لئے درد سر بن چکی ہے اور اسرائیل کو کسی بھی محاذ پر چین و سکون میسر نہیں آ رہا۔عرب دنیا اور خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں کی رائے میں بھی فلسطین کی اس بہادر اور شجاع نوجوان لڑکی عہد تمیمی کی رہائی فلسطینی مزاحمت کے حامیوں اور فلسطین کی نئی نسل کی ناقابل تسخیر کامیابی ہے جس پر اسرائیل کے حصے میں فقط ذلت و رسوائی کے کچھ اور نہیں رہا۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عہد تمیمی کی رہائی پر پوری پاکستانی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور فلسطین کاز کے لئے سرگرم عمل تنظیم فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے عہد تمیمی کی صیہونی قید سے رہائی کو فلسطینی عوام کی عظیم کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے فلسطین کے عوام کو مبارک باد پیش کی ہے۔

حالت جنابت میں جمعہ کا خطبہ دینا؟

حالت جنابت میں جمعہ کا خطبہ دینا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ مفتی صاحب ايك غیر مقلد نےصاحب درمختار پر اعتراض کیا ھے کە حالت جنابت میں اگر امام نے خطبە دیا ھے تو خطبە درست ھے لوٹانے کی ضرورت نھی خطبە ھو جائگا لوٹا لے تو بھتر ھے میں معلوم کرنا چاھتا کیا صاحب در مختارنے ایسا لکھا ھے اگر لکھا تو اسکو کیا جواب دیں براہ کرم جواب جلد ارسال فرمائیں
نور الحسن قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
صرف امام اعظم ابو حنیفہ ہی پر یہ اعتراض کیوں؟
تقریبا یہ مسئلہ اتفاقی ہے کہ
خطبہ جمعہ کی حیثیت ذکر ودعا اور تذکیر وموعظت کی ہے' اس کے لئے طہارت شرط ولازم نہیں' بلکہ مسنون و مستحب ہے، ناپاکی کی حالت میں خطبہ دینا مکروہ ہے، لیکن اگر مجبوری ومعذوری کی وجہ سے کبھی ایسا ہوگیا (مثلا بحالت جنابت بھول سے خطبہ دیدے پہر بعد خطبہ معلوم ہو کہ وہ ناپاک تھا تو خطبہ کا اعادہ ضروری نہیں، بلکہ بہتر ہوگا) تو اعادہ خطبہ لازم نہیں
اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ بحالت جنابت خطبہ دینے کی تعلیم دی جارہی ہے!
مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا حل پہلے ہی ڈھونڈ لینا فقہاء کرام کا طرہ امتیاز ہے' اس مسئلے کو غلط رخ سے پیش کرنا افسوسناک وحیران کن ہے۔
يجوز خطبة الجمعة لمن كان جنباً في المذهب المالكي مع كراهة ذلك، وفي ظاهر الرّواية عن الحنفية، وهو قول الإمام أحمد، وفي القديم عند الشّافعية، لأنّ الطهارة في خطبة الجمعة سنّة عندهم وليست شرطاً، ولأنّها من باب الذّكر والجنابة لا تمنع الذّكر، فإذا خطب الشّخص جنباً واستخلف غيره في الصّلاة فإنّه يجزؤه عند المالكيّة، وفي الجديد عند الشّافعية، وهو الأشبه بأصول مذهب الحنابلة.
(مستفاد من کتب المذاہب الاربعہ) 
ولو خطب محدثاً أو جنباً، ثم توضاً أو اغتسل وصلی جاز الخ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، زکریا ۲/۲۵۸، کراچي ۲/۱۴۷)
لو خطب محدثا أو جنباً، جاز و یأثم ثم إقامۃ الخطیب في المسجد، وبہ ظہر معنی السنیۃ مقابل الشرط من حیث صحۃ الخطبۃ۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، با ب صلاۃ الجمعۃ، زکریا۳/۳۴، کراچي ۲/۱۵۰)
وفی الھندیۃ (۱۴۶/۱) واماسننھا؛ فخمسۃ عشر احدھاالطھارۃ حتی کرھت للمحدث والجنب۔

فقط واﷲ اعلم
شکیل منصور القاسمی

گاندھی اور صیہونیت: نئے انکشافات یا تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش؟

گاندھی اور صیہونیت: نئے انکشافات یا تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش؟
کتاب کے مصنف کے بقول اصل دستاویزات کا معائنہ کرنے کے بعد ان کو ادراک ہوا کہ گاندھی اور دیگر…
کتاب کے مصنف کے بقول اصل دستاویزات کا معائنہ کرنے کے بعد ان کو ادراک ہوا کہ گاندھی اور دیگر کانگرسی لیڈروں نے صیہونیت کے ساتھ اپنی قربت صرف اس لیے چھپائی تھی کیونکہ وہ ایک طرف ہندوستان کی مسلم آبادی سے خائف تھے، دوسری طرف عربوں کو خوش رکھنا چاہتے تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کی طرف سے قدیم اور عہد وسطیٰ کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں تو ہو ہی رہی ہیں، تاکہ ایک طرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو برصغیر کے اصل وارثوں کے بطور تسلیم کروایا جائے، دوسری طرف 800سالہ مسلم دور حکومت کو ایک تاریک دور کے طور پر ریکارڈ کرایا جائے ، مگر اب جدید تاریخ کو بھی از سر نو مرتب کرنے کی سعی جاری ہے۔ اسکی تازہ مثال جنگ آزادی کے سرخیل اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کو اسرائیل نواز اور صہیونیت کا حامی بتانے کی کوشش ہے۔ پچھلے 70سالوں سے سبھی حکومتوں نے عربوں کو رجھانے کےلئے گاندھی کے نومبر 1938کے اس خط کا بھر پور استعمال کیا، جس میں انہوں نے اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی اور لکھا تھا کہ” فلسطین پر عربوں کا حق بالکل اسی طرح ہے، جس طرح انگریزوں کا انگلینڈ پر اور فرانسیوں کا فرانس پر ہے“۔
حا ل ہی میں سبکدوش ہوئے صدر پرنب مکرجی نے 2015میں اردن اور فلسطین کے دورہ کے دوران گاندھی کے ہریجن اخبار میں چھپے اس خط کے اقتباسات کو اپنی تقریروں میں اور عرب لیڈروں کے ساتھ بات چیت کے دوران ہندوستان کی تاریخی قربت اور حمایت جتانے کےلئے خوب استعمال کیا۔ ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ رشتوں کی داستان1953سے ہی شروع ہوئی تھی، جب ممبئی میں اسکو کونصلیٹ کھولنے کی اجازت مل گئی تھی ۔ 1993میں باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعددونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور ملٹری تعاون میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا رہا، مگر بقول دہلی میں اسرائیلی سفیر ڈینیل کارمون کے اس میں سیاسی عنصر غائب تھا۔ جس کا اسرائیل کو شدید قلق تھا۔ شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو چونکہ پارٹیوں کی سیاست سے بالاتر مہاتما گاندھی کو ایک طرح سے ملک میں ”پاسبان ضمیر“ کی حثیت حاصل ہے اس لیے ہندوستانی سیاستدان گاندھی کی تعلیمات سے قربت اور اپنی اخلاقی برتری جتانے کےلئے اسرائیل کے ساتھ اپنے رشتوں کو پس پردہ رکھنے او”ضرورت پر مبنی رفاقت“ تک ہی اسکو محدود رکھنے سے اپنے ضمیر کو مطمئن کرتے تھے۔ہندوستان کی حکومتوں نے گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کو بین ا لاقوامی فورمز میں استعمال کرکے اسکو فارن پالیسی کا ایک جز بنایا ہوا ہے۔
مگر اب چند روز قبل اعلان بلفور(Balfour Declaration) کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر ہندوستان کی موخر تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالیسس (IDSA) میں سابق نائب صدر حامد انصاری کی موجودگی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پرفیسر پی آر کمار سوامی کی کتاب Squaring The Circle–Mahatma Gandhi and the Jewish National Home کا اجراءہوا۔ جس میں بتایا گیا، کہ عالمی جنگ عظیم دوم کے بعد گاندھی نے اسرائیل اور صیہونیت کے تئیں اپنا نظریہ تبدیل کیا تھا۔ اس میں گاندھی کے پرسنل سیکرٹری پیارے لال پر بھی الزام عائد کیا ہےکہ گاندھی کے مخطوطات اور ان کی مختلف میٹنگوں کے احوال پر مشتمل 100جلدوں پر محیط دستاویز میں اس نے ان واقعات کو یا تو قلمبند ہی نہیں کیا ہے یا ان ملاقاتوں کی تفصیلات غائب کر دی ہیں، جہاں گاندھی نے صیہونیت اور اسرائیل کے قیام کی حمایت کی تھی۔اگر یہ واقعی سچ ہے تو یہ گاندھی کی پیچیدہ شخصیت کی ایک اور عکاسی ہے۔ اس سے ان محقیقین کو بھی تقویت ملتی ہے ، جن کا الزام ہے کہ ایک سنت اور مہا تما کے بھیس میں گاندھی کے اند ر ایک متکبرً ہندو چھپا ہوا تھا، جو دیگر قوموں کو جھوٹے خواب دکھا کر ایسے حالات پیدا کرنے کے فراق میں تھا، جہاں ان کےلئے ہندو اعلیٰ ذاتوں کی غلامی کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔
کتاب کے مصنف کے بقول اصل دستاویزات کا معائنہ کرنے کے بعد ان کو ادراک ہوا کہ گاندھی اور دیگر کانگرسی لیڈروں نے صیہونیت کے ساتھ اپنی قربت صرف اس لیے چھپائی تھی کیونکہ وہ ایک طرف ہندوستان کی مسلم آبادی سے خائف تھے، دوسری طرف عربوں کو خوش رکھنا چاہتے تھے، جن سے ہندوستان کے وسیع تر اقتصادی اور انرجی مفادات منسلک تھے۔ 1937کی ایک میٹنگ کا حوالہ دیکر پروفیسر کمار سوامی کہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ میں گاندھی کے دوست رہے ایک یہودی ہرمین کالینباچ 23سال بعد جب ان سے ملے تو ایک لمبی گفتگو کے بعد گاندھی نے صیہونیت کے بارے میں ایک بغیر دستخط شدہ بیان ان کے سپرد کیا۔ کالینباچ نے یہ بیان عالمی صیہونی آرگنائزیشن کے صدر چیم ویزمین کے حوالے اس ہدایت کے ساتھ کیا، کہ گاندھی اسکی تشہیر نہیں چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس سے عرب بھڑک جائیں گے۔ گاندھی کے ہاتھ کے لکھے اس بیان کی کاپی دہلی کے نیشنل آرکائیوز میں موجود نہیں ہے، مگریہ من و عن یروشلم کے سنٹرل صیہونی آر کائیوز کا حصہ ہے۔بتایا جاتا ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی ان سے ملاقات کےلئے آئے ایک یہودی ڈیلی گیشن کو بتایا کہ ان کی میٹنگ کی تفصیلات کو افشانہ کیا جائے، جس میں انہوں نے یہودی قوم پرستی کی حمایت کی تھی۔
ہندوستان کے ایک مقتدر سفارت کار اور جواہر لال نہرو کے دست راست کے ایم پانیکر ، جو علی گڑھ یونیورسٹی میں پروفیسر بھی رہے ہیں نے اپریل 1947 میں ’ہندو ۔صیہونی تعلقات ‘ کے عنوان سے ایک خفیہ میمورنڈم تحریر کیا تھا۔ پانیکر بعد میں چین اور مصر میں ہندوستان کے سفیر رہے۔تاہم کتاب کا اہم انکشاف عالمی جنگ کے خاتمہ کے بعد 8 مارچ 1946 کو گاندھی کی ورلڈ یہودی کانگریس کے رکن ہونیک اور برطانوی پارلیامنٹ کے لیبر پارٹی کے رکن سڈنی سلورمین کے ساتھ ہوئی میٹنگ کے مندرجات ہیں۔ گاندھی کے سیکریٹری پیارے لال اس میٹنگ میں شامل تھے اور وہ نوٹس لے رہے تھے۔ان نوٹس کے مطابق گاندھی نے ان دونوں یہودی لیڈروں کو بتایا’کہ ان (گاندھی) کے کام کی کچھ حدیں مقرر ہیں۔ جب تک آپ لوگ ہندوستان میں مسلمانوں کی ہمدردیا ں حاصل نہیں کر پائیں گے۔ مجھے ڈرہے کہ آپ لوگوں کی حمایت کےلئے ہندوستا ن میں کچھ نہیں کیا جاسکتا۔‘ میٹنگ کے اختتام پر گاندھی نے دوبار ہ کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عرب اسرائیل تنازعہ کا کوئی پر امن اور منصفانہ حل تلاش کیا جاسکے۔ اس نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ کانگریس کے صدر ابو الکلام آزاد اورمحمد علی جناح سے ملاقات کریں اور ان کی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کریں۔دونوں نے کہا کہ یہ ایک ناممکن کام ہے۔ گاندھی نے کہا:
’ہاں اس میں مشکلات ہیں، مگر ناممکنات میں نہیں ہے‘۔ یہودی لیڈروں نے سوال کیا کہ ’کیا آپ کے خیال میں جناح ہماری بات سننے پر راضی ہونگے؟‘ گاندھی نے جواب دیا ’ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ بھی مسلمانوں کےلئے ایک علیٰحدہ وطن کا مطالبہ مذہب کی بنیاد پرہی کر رہے ہیں۔‘ اسکے بعد انہوں نے پوچھا کہ’ کیا اس بات چیت سے وہ یہ نتیجہ اخذ کریں کہ گاندھی یہودیوں کےلئے ایک علیٰحدہ وطن کے حامی ہیں؟‘
پیارے لال کے ریکارڈزاور ہندوستان کے نیشنل آرکاوئز میں اس سوال کا جواب درج نہیں ہے۔ پیار ے لال کے پیپرز کے مطابق دونوں لیڈروں اور گاندھی نے قہقہہ کے ساتھ میٹنگ ختم کی۔ مگر کتاب کے مصنف پروفیسر پی آر کمار سوامی نے گاندھی کے امریکن تذکرہ نویس لوئیس فشر کے کاغذات کا جائزہ لیکر پایا کہ گاندھی نے یہودی لیڈروں کے سوال کا خاصا مدلل جواب دیا ہے۔ فشر کے مطابق گاندھی نے اس کی تصدیق بھی کی ، مگر اسکی تشہیر سے منع کیا۔ گاندھی نے فشر کو کہا
یہودیوں کا مقدمہ مضبوط ہے۔ میں نے سڈنی سلورمین کو کہا کہ یہودیوں کا فلسطین پر دعویٰ مضبو ط ہے۔ اگر عرب فلسطین پر دعویٰ کرتے ہیں، تو یہودیوں کا دعویٰ تو اس سے بھی پرانا ہے“۔
:بعد میں 14جولائی 1946کے ہریجن کے شمارہ میں گاندھی نے لکھا کہ
’ اگر یوروپ میں یہودیوں پر ظلم و ستم نہ ڈھائے گئے ہوتے تو شاید ان کے فلسطین واپس جانے کا سوال ہی کھڑا نہیں ہوتا۔ انکی ممتاز خدمات کے عوض پوری دنیا انکا گھر ہوسکتا تھا۔‘
مگر گاندھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اگر ظلم و ستم یورپ میں عیسائیوں نے کیا، تو فلسطین کے مسلمانوں اور عربوں سے اسکا بدلہ کیسے لیا جاسکتا تھا؟ یورپ کے عیسائیوں کے گناہوں کے عوض 5000 سالوں سے فلسطین میں رہنے والے مکینوں کو گھروں سے بے گھر کرکے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر کیسے مجبور کرایا جاسکتا تھا؟
میں ایک واقعہ کا چشم دید گواہ ہوں۔2010میں چنندہ  ہندوستانی صحافیوں کی معیت میں ، میں اسرائیل اور فلسطین کے دورہ کے دوران جب یروشلم پہنچا تو اسی دن اخبار میں ایک پرانے یروشلم شہرکے مسکین ایک فلسطینی خاندان کی ایک تصویر دیکھی جو اپنے گھر کے باہر سڑک پر بے آسرا پڑا تھا ۔ معلوم ہواکہ یہ خاندان مع خواتین اور بچوں کے اپنے کسی رشتہ دار کی شادی میں شرکت کی غرض سے شہر کے باہر گئے ہوئے تھے۔ ایک ہفتے کے بعد جب وہ خو ش وہ خرم واپس اپنے گھر پہنچے تو دیکھا کہ تالا ٹوٹا ہوا ہے اور کسی یہودی خاندان نے وہاں ڈیرا ڈالا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کی عدم موجودگی میں حکومت نے ان کا گھرقبضے میں لیکر اسکو کسی یہودی خاندان کو تفویض کیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اسرائیلی سیکورٹی دستے انکو مغربی کنارہ میں ریفوجیوں کی بستی میں دھکیلنے کےلئے لاو لشکر سمیت ٹرک وغیرہ لیکر پہنچے تھے۔
بھلا ہو سابق نائب صدر حامد انصاری کا، جنہوں نے اس کتاب کے اجرا ء کے دوران واضع کیا کہ وہ یہودیت اور اسکے سیاسی بازو صیہونیت میں تفریق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا گو کہ وہ یہودیت کو ایک قدیمی مذہب کے رو سے تسلیم کرتے ہیں، مگر صیہونیت موجودہ دور کی دہشت گردی کی مادر ہے۔ انصاری جو خود بھی سفارت کار رہے ہیں اور ہندوستان میں مغربی ایشیا اور خلیج کے معاملوں کے تئیں ایک ایکسپرٹ کا درجہ رکھتے ہیں نے کہا کہ جس طرح صیہونیت نے مذہب کا سہار الیکر اور اسکی تشریح کرکے تشدد کو ہوا دی، کچھ اسی کی پیروی کرکے آج دنیا کے مختلف خطوں میں مذہب کی تشریح کرکے دیگر افراد اور تنظیمیں دہشت گردی اور تشدد کو جائز قراد دے رہی ہیں۔مورخ پال جانسن کا حوالہ دیکر انصار ی نے کہا کہ اسرائیل کے چھٹے وزیر اعظم میناخم بیگن موجودہ دور اور ماڈرن دہشت گردی کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کے موجد ہیں۔اور ابھی بھی مواخذہ سے دور ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)

قبض؛ ام الامراض

قبض؛ ام الامراض
قبض جسے عربی میں حصر اور انگریزی میں Constipation کہتے ہیں اتنا عام مرض ہے کہ محتاج تعارف نہیں۔ اس کے نقصانات اور نتائج جتنے بھیانک ہیں عوام اس کے خطرات سے اتنے ہی لا پروا ہیں۔ پاخانہ کا روزانہ جسم سے خارج نہ ہونا بلکہ دوسرے یا تیسرے اور چوتھے روز آنا یا کم مقدار میں مینگنیوں کی شکل میں یا سخت حالت میں دن میں کئی بار آنا قبض کہلاتا ہے۔ جو کچھ ہم کھاتے ہیں وہ منہ میں لعابِ دہن کے ساتھ مل کر معدے اور چھوٹی آنت میں پہنچتا ہے۔ یہاں خوراک پکنا شروع ہوتی ہے اس کے رقیق اور صاف اجزا جذب ہوکر جگر اور مجری الصدر میں چلے جاتے ہیں اور باقی حصہ جو پھوک کی طرح ہوتا ہے آنتوں کی حرکت اور صفراء کی وجہ سے بڑی آنت میں سے ہوتا ہوا امعاء مستقیم میں جمع ہو جاتا ہے پھر ایک مناسب وقفہ کے بعد ناقابل برداشت ہو کر نیچے کو حرکت کرتا ہے۔ اگر غذا کا یہ فضلہ خارج نہ ہو اور بری آنت میں پڑا رہے تو بے شمار جان لیوا امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ضعف قلب، بلند فشارِ خون، دل کی گھبراہٹ، غشی، دل کی تیز دھڑکن، دردِ سر، نزلہ زکام، ضعف دماغ، غنودگی، تبخیر، تھکاوٹ، ہر وقت ہلکا ہلکا بخار رہنا، آنکھ کان اور ناک کی بیماریاں، اپنڈکس (ورم زائدہ اعور)، گردوں اور جگر کی بیماریاں، بواسیر، بھوک کی کمی، دردِ شکم، ورم جگر، جوڑوں کا درد، یرقان، خون کی کمی اور انتڑیوں اور پتہ میں پتھریاں وغیرہ وغیرہ۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ قبض ام الامراض ہے۔
قبض کی تین وجوہات ہیں۔
1۔پہلی وجہ ناقص غذا ہے۔ نان، کلچے، چنے، جو، باجرے اور میداہ کی روٹی۔ ثقیل، چربیلی اور دیر سے ہضم والی غذائیں، وہ غذائیں جو خشک ہوں یا جن میں رطوبت کم ہو تب بھی قبض کا سبب بنتی ہیں۔
2۔ آنتوں کے اندر ایک قسم کی قدرتی حرکت ہوتی ہے، جب یہ حرکت سست ہوتی ہے تو قبض لاحق ہو جاتی ہے۔
3۔ گردوں کے راستے جسمانی رطوبتوں کا زائد مقدار میں خارج ہونا، قے کی زیادتی وغیرہ سے بھی قبض ہو جاتی ہے ان کے علاوہ بواسیر، آنتوں کی سوزش اور موٹاپا بھی قبض کا باعث بنتے ہیں۔ قبض کے مریض کو پانی کثرت سے پینا چاہیے اس سے قبض کشائی ہو جاتی ہے۔
قبض دور کرنے کے لیے ورزش اور سیر بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ چند تدبیریں بھی اکثر اوقات قبض کشائی کا باعث بنتی ہیں۔
1۔ علی الصباح بیداری کے بعد بستر پر آنکھیں بند کر کے بیٹھیں اور دماغ کو دیگر تمام خیالات سے پاک کر کے ذہن میں یہی تصور لائیں کہ مجھے قضائے حاجت ہو رہی ہے اور اگر میں اُٹھ کر بیت الخلا میں نہ گیا تو یہیں فارغ ہو جاؤں گا۔ اس خیال کے بار بار دہرانے سے قبض اکثر اوقات دور ہو جاتی ہے۔
2۔ مسواک جہاں دانتوں کی بے شمار امراض کا علاج ہے وہاں اس کے استعمال سے قبض کا بھی قلع قمع ہوتا ہے۔
3۔ کھانا کھانے کے دوران نیم گرم پانی پینا بھی قبض کا قدرتی علاج ہے۔ ایک حکیم صاحب کا بیان ھے  کہ کچھ عرصہ قبل مجھے چین کی سرحد پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں چین سے آنے والے جتنے بھی لوگ تھے ان کے پاس تھرماس تھے۔ پوچھا کہ یہ کس مقصد کے لیے ہیں، تو ان کا سب کا ایک ہی جواب تھا کہ ان میں ہم گرم پانی رکھتے ہیں۔ جب بھی ہمیں پیاس لگے تو یہی پانی پیتے ہیں۔ انہوں نے اس کا ایک فائدہ یہ بتایا کہ انہیں قبض نہیں ہوتی۔
4۔ برصغیر کے لوگوں کی عادت ہے کہ آٹا چھان کر استعمال کرتے ہیں۔ یہ عادت درست نہیں ہے۔ انہیں چاہیے بغیر چھانے آٹے کی روٹی استعمال کریں۔ اناج کے چھلکے میں ایک ایسا جوہر جو طاقت بخشتا ہے اور قبض کو بھی دور کرتا ہے۔
5۔کبھی کبھی  صبح کو اُٹھ کر نہار منہ نیم گرم پانی کے دو یا چار گلاس پینا قبض کا بہترین علاج ہے۔
6۔ صبح اُٹھ کر ۳ کلومیٹر پیدل چلنا قبض کا بہترین علاج ہے۔
7۔ رات کو سوتے وقت ۵ تولہ گل قند اور پسی ہوئی سونف کا ایک چمچ گرم دودھ میں گھی یا بادامِ روغن ڈال کر استعمال کریں۔
میرے  بھائیو اور بہنوں
قبض کی علامات اتنی عام ہیں کہ انہیں سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ قبض کی صورت میں بدبودار سانس، زبان پر سفیدی، پیٹ میں درد، پیٹ کا پھولنا، بدہضمی، سر درد اور بے چینی وغیرہ پیدا ہوتی ہے۔ اگر قبض تھوڑی سی پرانی ہو جائے تو بواسیر کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔ نوجوانوں میں قبض سے کیل مہاسے نکل سکتے ہیں۔ بڑی عمر کے لوگوں میں جلد پھیکی اور پیلی پڑ جاتی ہے۔
بقراط کا قول ہے کہ جس طرح اجابت کا نرم ہونا خطرناک ہے اسی طرح سخت ہونا بھی خطرناک ہے لیکن اجابت کی سختی اس کی نرمی سے زیادہ خطرناک ہے۔ عموماً 24 گھنٹے میں ایک بار اجابت آتی ہے، لیکن بعض نوجوانوں کو 24 گھنٹے میں دو بار اور بعض کو 48 گھنٹے میں ایک بار اجابت ہوتی ہے۔
اعصاب اور آنتوں کے لیے مکھن، گھی، بادام، دودھ، سبز ترکاریاں اور موٹے آٹے کی روٹی بہترین غذا ان کے استعمال سے قبض بھی رفع ہوتی ہے۔ قبض کے مریضوں کے لیے ساگ پات، امرود، خرفہ، پالک، میتھی، چولائی، چقندر، شلغم، گاجر اور ہرے چنے بہترین غذا ہیں۔ اگر ادویات کا استعمال کرنا ہو تو اسپغول ایک تولہ سادہ پانی یا نیم گرم دودھ کے ساتھ استعمال کریں یا رات سوتے وقت اطریفل زمانی ۹ ماشہ کیسٹر آئل ایک چمچ کے ساتھ استعمال کریں۔
قبض کی شکایت زیادہ تر ان لوگوں کو ہوتی ہے جنہیں محنت کی عادت نہ ہو اور سارا دن بیٹھے یا لیٹے رہتے ہوں۔ اس لیے قبض دور کرنے کے لیے انہیں ورزش کی عادت ڈالنی چاہیے۔ دوڑنا، ۴ کلومیٹر روزانہ چلنا، باغ اور سبزہ زار میں سیر کرنا، کشتی چلانا، گھڑ دوڑ، تیراکی، ڈنڈ پیلنا، کبڈی، ہاکی، فٹ بال، والی بال، ٹینس کھیلنا ایسی کھیلیں ہیں جن سے قبض نہیں رہتی۔
مندرجہ ذیل طریقوں سے پھلوں کا استعمال بھی قبض کشائی کے لیے مفید ہے۔
1۔ دن میں ۴ مرتبہ لیموں کا عرق نکال کر آدھے کپ پانی میں ملا کر استعمال کرنا مفید اثرات کا حامل ہے۔
2۔ اگر اعصابی کمزوری اور معدے کے ضعف کی وجہ سے قبض ہو تو روزانہ نہار منہ ۲۔۳ سیب کھانا قبض کشائی کا باعث بنتا ہے۔
3۔ کھانا کھانے کے بعد اگر پکے ہوئے امرود کھائے جائیں تو قبض کشا اور نہار منہ کھائے جائیں تو قابض ہیں۔
4۔ خشک میوہ جات میں سے بادام قبض کشائی کے لیے مفید ہیں۔ رات کو سوتے وقت اگر ۱۱ سے ۱۵ بادام کھائے جائیں تو بہترین قبض کشائی ہوتی ہے۔ جن لوگوں کا معدہ کمزور ہو وہ باداموں کے ساتھ ایک چمچ سونف بھی استعمال کریں۔
5۔ آلو بخارا اس سلسلے میں ایک بہترین پھل ہے۔ قبض کے ازالہ کے لیے ۷ دانے اور جلاب کے لیے ۲۰ آلو بخارے استعمال کرنا چاہئیں۔
6۔۲ یا ۳ آموں کا میٹھا رس نکال کر رات کو سوتے وقت دودھ سے لیا جائے تو صبح اجابت کھل کر ہوتی ہے۔
7۔ قبض کو دور کرنے کے لیے انجیر ایک بہترین پھل ہے۔ رات کو انجیر کے ۳ دانے پانی میں بھگوئیں اور صبح نہار منہ صاف کر کے کھائیں۔ قبض ختم ہو جائے گی۔
چند ادویاتی علاج جو میرے تجربے میں آئے ہیں، درج ذیل ہیں :
1۔پنجاب کے دیہاتوں میں رواج ہے کہ پانچ تا دس تولہ گھی صبح نہار منہ نیم گرم پیتے ہیں اس سے قبض رفع ہو جاتی ہے۔
2۔بنفشہ کے پھول ۶ ماشہ رات کو دودھ کے ساتھ لیں۔ صبح کھل کر اجابت ہو گی۔
3۔یہ نسخہ بہت مجرب ہے
ھوالشافی : سقمونیا ولایتی۔ گوگل صاف شدہ۔ مصبر زرد۔ عصرہ ریوند خطائی ۱۲۔ ۱۲ گرم۔ پہلے گوگل کو پانی میں حل کریں اور دیگر ادویہ کا سفوف ملا کر چنے کے برابر گولیاں بنا لیں اور رات سوتے وقت ۱ تا ۳ گولی نیم گرم پانی یا دودھ کے ساتھ استعمال کریں۔ فوری قبض کشائی کرے گی۔
4۔ثابت اسپغول ایک تولہ۔ گائے کا دودھ ایک پاؤ  لے کر اس میں ایک تولہ خالص بادام روغن ملائیں۔ رات سوتے وقت لے لیں چند دن کے استعمال سے پاخانہ کھل کر آئے گا۔
5۔ ھوالشافی: گل سرخ ۲۵۰ گرام۔ سنا مکی ۲۵۰ گرام۔ دونوں دواؤں کو رات بھر ایک کلو پانی میں تر کریں اور صبح آگ پر جوش دے کر پکا لیں۔ جب دو تہائی پانی سوکھ جائے تو ۷۵۰ گرام مصری ملا کر محفوظ رکھیں۔ نہایت مزیدار دوا تیار ہے۔ دوائی کی دوائی۔ مٹھائی کی مٹھائی۔ رات کو سوتے وقت چھ تا ۱۲ گرام دودھ سے لے لیں۔
6۔ گلاب کے پھولوں کی بنی ہوئی گل قند ۲۵۰ گرام۔ ہرڑ جلابہ ۵۰ گرام۔ عرق گلاب آدھ کلو۔ جلابہ ہرڑ کو کھرل میں باریک پیس کر گل قند میں شامل کر کے نیم گرم دودھ سے لیں۔ یہ بہترین قسم کی دوا ہے اور اس سے ہر ایک کو فائدہ ہوتا ہے۔
7۔یہ نسخہ بہترین قبض کشا، مخرج بلغم ہے۔ پیٹ کے کیڑوں کو خارج کرتا ہے۔
ھوالشافی : مصبر سیاہ ۲۵۰ گرام۔ سونٹھ ۲۵۰ گرام۔ سرکہ ۱۶۰ گرام۔ سنلائٹ صابن کا ایک ٹکڑا ۵۰ گرام۔ سب سے پہلے مصبر اور سونٹھ کو باریک پیسیں۔ پھر صابن کو سرکہ میں ڈال کر کھرل کریں۔ جب اچھی طرح حل ہو جائے تو باقی سفوف اس میں شامل کر لیں اور خشک کر کے چنے کے برابر گولیاں بنائیں۔ رات کو سوتے وقت ۱ تا ۲ گولیاں دودھ کے ساتھ استعمال کریں۔
8۔یہ دوا قبض کشا اور مسہل ہے۔ دائمی قبض میں تھوڑی مقدار میں ۱ تا ۳ گولی دینی چاہیے تاکہ اجابت با فراغت ہو جائے لیکن اگر ان گولیوں کو جلاب کے لیے استعمال کرنا ہو تو ۴ تا ۶ گولیاں استعمال کرائیں۔
ھوالشافی: ست صبر سقوطری ۱۲ گرام۔ گودہ اندرائن ۶ گرام۔ ستمو ۶ گرام۔ غاریقون ۶ گرام۔ اجوائن خراسانی ۶ گرام۔ سب ادویہ کو الگ الگ پیس لیں اور شہد ملا کر چنے کے برابر گولیاں بنا لیں۔
صبر سقوطری کو تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ صاف ستھرا سقوطرہ کا مصبر لے کر اسے کوٹ کر باریک کرلیں اور دس گناہ پانی میں حل کر کے رکھ دیں۔ ہر ایک گھنٹہ بعد مسلسل بارہ گھنٹے اسی میں چمچ پھیرتے رہیں۔ پھر ۱۴ گھنٹے اس کو محفوظ پڑا رہنے دیں۔ اس کے بعد پانی کو نتھار کر آگ پر پکائیں۔ جب گاڑھا ہو جائے تو آگ سے نیچے اتار لیں۔ پھر اس کو پانی کی بھاپ میں زیادہ گاڑھا کریں حتیٰ کہ بھاپ اڑنا بند ہو جائے۔ یہ وہ دوا ہے جو قبض کے لیے انتہائی مفید ہے تاہم اپنے طبیب کی نگرانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا.

خلاصہ مناظرہ چھبڑا

خلاصہ مناظرہ چھبڑا
بتاریخ ۲۲/جولائی٨١٠٢؁ء بروز اتوار کو راجستھان کے چھبڑہ شہر میں ”نماز میں ہاتھ سینے پر باندھے جائیں یا ناف کے نیچے“ کے عنوان پر غیرمقلدین واحناف کے مابین  ہونے والے مناظرے کی اہم وخاص باتیں جنہیں مناظرے کا خلاصہ یا نچوڑ بھی کہا جاسکتا ہے
(۱) مناظرہ کی ابتدا غیرمقلدین کی جانب سے ہوئی کیونکہ چھبڑہ شہرمیں انہوں نے ہی آکر اپنی رشتے داریوں میں فتنہ پھیلانے کی کوشش کی
(۲) غیرمقلدین نے یہ سمجھ کر کہ کون آئے گا اور ہم سے الجھے گا مناظرے کی ابتداء توکردی لیکن جب طے ہوگیا تو فرار کی بھی بھرپور کوشش کی، فیس بک پوسٹ کو بہانہ بناکر مناظرے میں نہ آنے کی دھمکی دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
(۳) جب غیرمقلدین کی جھوٹی تعلیوں سے تنگ آکر عوام نے مناظرے میں آنے کیلئے مجبور کردیا تو لاج بچانے آتو گئے لیکن علمی وتحقیقی انداز میں مسئلہ حل کرنے نہیں محض کٹ حجتی اور بکواس بازی کیلئے، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ کہ رضاء اللہ مدنی، ابوزیدضمیر جیسے لوگوں سے رابطہ کے باوجود زین العابدین نامی ایک کتب فروش دوکاندار کو مناظرےکیلئے آگے بڑھایا اور معدودے چند اردو کی کتابیں لیکر مناظرہ کرنے چلے آئے، ہرانصاف پسند آدمی جانتا ہے کہ علمی وتحقیقی گفتگو کرنے کیلئے آنے والا آدمی مکمل تیاری اور کتابوں کے انبار کے ساتھ آتا ہے جیساکہ بحمداللہ ہم گئے تھے۔
(۴) فریقین کی دستخط شدہ تحریر میں لکھا تھا کہ فریقین مناظرے کے وقت سے پہلے شرائط طے کریں گے جس کیلئے غیرمقلدین کو کم از کم ایک دوگھنٹے پہلے پہنچنا تھا لیکن سب نے دیکھا کہ یہ حضرات مناظرے کے عین وقت پہنچے اور آتے ہی کھانے میں مشغول ہوگئے جبکہ ہم لوگ مناظرے کے وقت سے پانچ گھنٹے پہلے پہنچ چکے تھے۔
(۵) جب غیرمقلدین کوشرائط طے کرنے کیلئے کہا گیا تو طے شدہ موضوع بدلنے کیلئے اڑ گئے اور آخرتک اڑے رہے جبکہ یہ موضوع مقامی لوگوں کے مطالبے پر فریقین کی رضامندی اور دستخطوں کے بعد طے ہوا تھا۔
(۶) مقامی منتظمین اور تمام حاضرین باربارکہتے رہے کہ ہمیں وہی مسئلہ سننا اور سمجھناہے جو طے شدہ ہے دوسرا مسئلہ بالکل نہیں سننا لیکن غیرمقلدین برابر اپنی ضدپراڑے رہے۔
(۷) ہم نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی دس سے زیادہ مرفوع وموقوف احادیث اصل کتابوں سے پڑھ کر سنائی۔
(۸) غیرمقلد مولوی نے اپنی آبائی روایت پر عمل کرتے ہماری طرف سے پیش کی گئی دسوں حدیثوں کاجواب محض ان الفاظ میں دیدیا کہ ”جتنی حدیثیں انہوں نے پڑھی ہیں اور جتنی آئندہ پڑھیں گے سب ضعیف ہیں۔
(۹) ہزار مطالبے کے باوجود غیرمقلدین اپنے موقف پرایک بھی حدیث نہیں سناسکے۔
(۱۰) غیرمقلد مناظر نے سنن ابوداؤد میں حضرت علیؓ کی روایت میں ”علی صدرہ“ کے الفاظ ہونے کا جھوٹا دعوی کیا۔
(۱۱) غیرمقلد مناظرنے صحیح بخاری میں ”علی صدرہ“ کے الفاظ والی روایت ہونے کا جھوٹا دعوی کیا۔
(۱۲) غیرمقلدمناظر کے دونوں دعووں (ابوداؤد میں حضرت علیؓ کی روایت میں ”علی صدرہ“ کے الفاظ ہیں اور صحیح بخاری میں بھی ”علی صدرہ“ کے الفاظ والی روایت موجود ہے) کی جانچ کیلئے ہمارے مشورے پر عوام نے اپنا ایک فیصل منتخب کیا جس نے غیرمقلدین سے مذکورہ دونوں کتابیں لیکر دیکھی، عوام میں پڑھ کرسنائی اور فیصلہ دیا کہ غیرمقلد مناظرنے دونوں کتابوں پر جھوٹ بولا ہے۔
(۱۳) حدیث رسول ﷺ پر غیرمقلدین کا صریح جھوٹ ثابت ہونے کے بعد عوام نے غیرمقلد مولویوں کوزبردست لتاڑ لگائی۔
(۱۴) حدیث رسولﷺ پرجھوٹ بکنے اور عوامی فیصل کی جانب سے جھوٹا قرار دئیے جانے اور عوام کی جانب سے سخت دھتکار وپھٹکار پڑنے کے باوجود بھی غیرمقلدین کوذرہ برابربھی نہ کوئی ندامت ہوئی اور نہ کسی طرح کی شرم ولحاظ آئی بلکہ اپنی ذلت پر مسلسل ہنستے رہے۔
(۱۵) ناچیز نے غیرمقلدمناظر کو چیلینج کیا کہ کوئی ایک روایت پڑھ دیں جس میں علی صدرہ کے الفاظ ہوں اور اسے خود غیرمقلد علماء نےضعیف نہ کہا ہو، غیرمقلد مناظر اس چیلینج کوقبول کرنے کی جرأت نہیں کرسکا۔
(۱۶) غیرمقلدین مناظرکی بیچارگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اس سے حدیث پڑھنے کو کہا گیا تو یہ کہہ کر رحم کی درخوست کرنے لگا: ٹھیک ہے میں حدیث پڑھتا ہوں لیکن آپ میری حدیث پر جرح مت کرنا۔
(۱۷) مناظرے میں کئی دفعہ ایسے موقع آئے جب تمام حاضرین نے کھڑے ہوکر بیک زبان غیرمقلدین کی غلط وبیہودہ باتوں پر سخت احتجاج کیا اور ناراضگی ظاہر کی ۔
(۱۸) ناچیز کی جانب سے کہی گئی مدلل، اصولی، سنجیدہ اور معقول باتوں پر تمام حاضرین نے نہایت اطمینان کا اظہار کیا ۔
(۱۹) غیرمقلدین کی ضد ہٹ دھرمی اور انانیت پر احناف کی اکثریت بلکہ کلیت ہونے کے باوجود بھی کسی نے ان کے ساتھ دھکا مکی، دست درازی یا بدکلامی نہیں کی جبکہ غیرمقلدمولویوں نےکئی دفعہ چھبڑہ کی معززترین شخصیت مفتی نجیب صاحب اورمنتظم مناظرہ بھائی خورشید کے ساتھ سخت کلامی کی ۔
(۲۰) غیرمقلدین کی کٹ حجتی، ضد اور ہٹ دھرمی دیکھ کر بعض وہ لوگ جو دین کی کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتے اور یوں ہی کسی کے ساتھ مناظرہ دیکھنے چلے آتے ہیں ایسے لوگ نہ صرف علماء بلکہ دین سے ہی بدظن ہوجاتے ہیں۔
(۲۱) بھائی خورشید جنہوں نے  اپنےاور اپنے بھائیوں کے اطمینان کیلئے یہ مناظرہ رکھوایا اور جو غیرمقلدین کی باتوں سے متأثر تھے وہ اپنے تمام بھائیوں کے ساتھ بحمداللہ مسلک حقہ پر مطمئن اور غیرمقلدیت سے سخت متنفر ہوگئے۔
ان تمام باتوں کو ویڈیو میں صاف ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ ۔ویڈیوجلد ہی اپلوڈ کی جائیگی اور مناظرے کی تفصیلی روئیداد بھی عنقریب ہی منظرعام پر آئے گی ان شاء اللہ ۔

اسلامی لباس

اسلامی لباس
          یٰبَنِی آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْآتِکُمْ وَرِیْشاً․ (اے اولادِ آدم! ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا جو تمہارے ستر کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے) آیت شریفہ میں حضرتِ حق جَلَّ مجدُہ نے تمام اولاد ِ آدم کو خطاب فرمایا کہ تمہارا لباس قدرت کی ایک عظیم وبیش قیمت نعمت ہے اس کی قدر کرو، صرف اہل اسلام کو یعنی دین سماوی اور قانونِ الٰہی کے ماننے والے کو خاص نہیں کیا؛ بلکہ پوری انسانیت کو شامل فرمایا، اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کہ لباس اور سترپوشی انسان کی فطری خواہش اور ضرورت ہے، مزید آیت کریمہ میں اس طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ ہم نے تمہاری صلاح وفلاح کے لیے ایسا لباس اُتارا ہے جس سے تم اپنے قابلِ شرم اعضا چھپاسکو اور سترپوشی کے علاوہ ایک مزید فائدہ لباس سے اور حاصل ہوتا ہے کہ انسان اپنی ہیئت اورحالت کو مہذب وشائستہ بنانے کے لیے لباس سے زینت وجمال حاصل کرسکتا ہے نیز دوسری آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰبَنِیْ آدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (اے آدم کی اولاد! لے لو اپنی آرائش ہر نماز کے وقت) حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ آیت اُن لوگوں کے رد میں نازل ہوئی ہے جو کعبہ کا طواف برہنہ ہوکر کرتے تھے اور اسے پرہیزگاری اور اللہ سے قریب ہونے کا ذریعہ سمجھتے تھے، اللہ رب العزت نے ان کو بتلایا کہ یہ کوئی نیکی نہیں اورنہ ہی اس کا تقویٰ سے تعلق ہے، خدا کی دی ہوئی پوشاک جس سے تمہارے بدن کا ستر اور آرائش ہے، وہ اس کی عبادت کے وقت دوسرے اوقات سے بڑھ کر قابلِ استعمال ہے؛ تاکہ بندہ اپنے پروردگار کے دربار میں اُس کی نعمتوں کا اثر لے کر حاضر ہو۔ (تفسیر عثمانی سورة الاعراف:۳۱)
          پس دنیا کی ہر مہذب اور باشعور قوم سترپوشی اور لباس کو لازم قرار دیتی ہے اور لباس کے بغیر ستر کھول کر رہنا پسند نہیں کرتی، اطرافِ عالم میں شاید کوئی انسانی آبادی اور بستی ایسی ہو جو اس فطری قانون اور ضابطہٴ حیاتِ انسانی سے انحراف کرتی ہو؛ البتہ جنگلی اور وحشی قوموں کے بارے میں ضرور سنا ہے جو انسانیت سے عاری ہوتی ہیں اور اُن کا بود وباش اور رہن، سہن بالکل جانوروں جیسا ہوتا ہے وہ لباس کیا؟ کسی بھی تہذیبی عمل اور قانونِ انسانیت سے واقف نہیں ہوتیں؛ لہٰذا اُن سے بحث ہی نہیں۔ بات تو باشعور اور خردمند معاشروں کی چل رہی ہے، وہ سب اس فطری خواہش وضرورت کا پاس ولحاظ رکھتے ہیں اور ہر مہذب معاشرہ وماحول مردوں کی بہ نسبت عورتوں کی سترپوشی پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے؛ لیکن آج تہذیب وتمدن اور ترقی و شائستگی کا مفہوم بدل کر دَجَّالی قومیں اور شیطانی ذُرّیت فطرت سے بغاوت کررہی ہیں۔
ربِ کائنات کا پسندفرمودہ لباس:
          اللہ رب العزت کا کوئی نبی اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاشرے اور تہذیب سے متاثر نہیں ہوتا؛ بلکہ ہر ہر مسئلے اور حکم میں مامور من اللہ ہوتا ہے، اسی لیے حضرات انبیاء علیہم الصلوٰة والتسلیم اپنے ماننے والوں اور پیروکاروں کو فطری ضروریات اور مواقع پر بھی خدائی ہدایات اور قوانین الٰہی کی روشنی میں راستے اور طریقے بتاتے اور سکھاتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ سونے، جاگنے، کھانے، پینے اور بول وبراز جیسے معمولی اور چھوٹے امور میں بھی خدائی احکامات سے ہدایات جاری کرتے ہیں اور خود بھی عمل کرتے ہیں، اسی لیے آقائے مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے جاں نثاروں کو یہ باتیں تعلیم کیں تو دشمنانِ خدانے ٹھٹا کیا تھا کہ لو دیکھ لو یہ کیسا خدا کا پیغمبر ہے ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں سکھاتا ہے؟ ان عقل کے اندھوں کو یہ کہاں معلوم تھا کہ دین اور مذہب ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہوتا ہے، انسانی زندگی اور حیات کے کسی شعبہ اور گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا جاتا؛ بلکہ ہر مسئلہ کا حل بیان کردیا جاتاہے جب نبی اور رسول تمام امور میں مامور من اللہ ہوتا ہے تو لباس اور سترپوشی جیسے اہم مسئلہ میں کیوں نہ خدائی حکم موجود ہوگا؛ ایسا ہوناکہ لباس کے حوالے سے کوئی غیبی اشارہ اور الہام باطنی نبی کے پاس نہ ہو اور وہ اپنی قوم وملت کے معاشرہ اور ماحول سے متاثر ہوکر انھیں کا لباس اپنا لے اور اپنی امت کو بھی اسی کا حکم کرے، ایسا ہونا عقل ونقل دونوں اعتبار سے بعید معلوم ہوتا ہے ، نقلاً تو اس لیے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انَّ ہٰذِہ مِنْ ثِیَابِ الْکُفَّارِ فَلاَ تَلْبَسْہا (مسلم شریف کتاب اللباس والزینة) (یہ کافروں کا لباس ہے اس کو مت پہننا) جو انسان ماحول ومعاشرے سے متاثر ہوکر لباس استعمال کرتا ہو وہ ایسا جملہ کیسے کہہ سکتا ہے؟ جب عام آدمی اور انسان اپنے قول وعمل میں ایسا کھلا تضاد نہیں کرسکتا تو نبی اور رسول سے ایسا معاملہ کیوں کر ممکن ہے؟ اسی طرح ذخیرئہ احادیث میں بکثرت ایسی روایات موجود ہیں جن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: یہ لباس جائز ہے وہ ناجائز ہے، فلاں بہتر ہے اور فلاں غیر مناسب ہے، کہیں تشبہ بالکفار کی ممانعت فرمائی تو کہیں یہود ونصاریٰ اورمشرکین کی مخالفت کا حکم فرمایا، جو نبی اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ایسے احکامات اور ہدایات بیان فرمائے وہ خود کافر معاشرہ اور مشرکانہ ماحول سے کیسے متاثر ہوسکتا ہے؟
          اور عقلاً اس لیے کہ جو نبی اسلام اور پیغمبر برحق معاش اور معاد کے تمام شعبوں میں غیبی اشارات اور باطنی الہامات سے سرفراز کیاجاتا ہو، جو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم حیاتِ انسانی کے ہر ہر گوشہ پر انسان کی ہدایت ورہنمائی خدائی پیغامات اور آسمانی ہدایات کی روشنی میں کرتا ہو وہ سترپوشی اور لباس کے مسئلہ میں موجودہ معاشرہ سے کیسے مرعوب ہوسکتا ہے؟
          لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ جو سترپوشی کاطریقہ اور جولباس خالق کائنات کو پسند تھا اور ہے، وہی اس کے حبیب  صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا اور جیسے حبیب اِلٰہ العالمین قیامت تک کے نبی ہیں ایسے ہی قیامت تک اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ لباس بھی وہی ہے جو سنتی لباس ہو؛ چنانچہ ان لوگوں کی بات کوئی وزن اور حیثیت نہیں رکھتی جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ کوئی لباس شرعی نہیں؛ بلکہ پیغمبر خدا اگر یورپ اور امریکا میں مبعوث ہوتے تو وہاں کے معاشرہ اور تہذیب کے مطابق لباس اختیار فرماتے اور اسی لباس کو شرعی لباس کا درجہ دیتے، یہ سب سراسر جہالت وگمراہی پر مبنی باتیں ہیں۔
لباسِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام:
          آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا لباسِ مبارک نہایت سادہ اور معمولی ہوتا تھا، فقیرانہ اور دُرویشانہ زندگی تھی، زیادہ تر اور عام طور پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس میں تہہ بند، چادر، کرتہ ، جبہ اور کمبل ہوتے تھے اور فقر ودرویشی کی حالت یہ ہوتی تھی کہ مبارک لباس میں پیوند لگے ہوتے تھے، رنگت میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو سبز لباس پسند تھا؛ البتہ نبی رحمت اور ہادیِ برحق  صلی اللہ علیہ وسلم کی پوشاک عموماً سفید ہوتی تھی، آنحضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یمنی چادر تھی جس پر سبز اور سرخ دھاریاں تھیں وہ آپ کو بہت پسند تھی؛ لہٰذا تقریب وغیرہ کے موقع پر آپ اس کو استعمال فرماتے تھے، وہ بردیمانی کے نام سے مشہور تھی۔
          فائدہ: آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے خالص سرخ لباس استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
          ٹوپی: نبوی لباس میں ٹوپی کا جہاں تذکرہ ملتا ہے تو ایسی ٹوپی کا ملتا ہے جو سر سے چپٹی ہوئی، اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے بھی اسی وصف کی ٹوپی کا استعمال ثابت ہے، صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ٹوپیاں سرسے لگی ہوئی ہوتی تھیں۔
          عمامہ: حضور علیہ الصلوٰة والسلام پگڑی اور عمامہ استعمال فرماتے تھے اور دونوں شانوں کے درمیان اس کاشملہ لٹکایا کرتے تھے البتہ کبھی دائیں اور بائیں جانب بھی ڈال لیتے تھے اور کبھی تھوڑی کے نیچے لپیٹ لیا کرتے تھے، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ کے نیچے ٹوپی ضرور استعمال فرماتے تھے اور یہ ارشاد فرماتے تھے کہ: ہم میں اور مشرکین میں یہی فرق اورامتیاز ہے کہ ہم پگڑی کے نیچے ٹوپیاں استعمال کرتے ہیں اور وہ نہیں کرتے (ابوداؤد شریف کتاب اللباس) حدیث شریف میں یہ بھی آیا ہے کہ نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: حق تعالیٰ شانہ نے غزوئہ بدر اورحنین میں میری امداد کے لیے جو فرشتے اتارے وہ عمامے باندھے ہوئے تھے۔
          لنگی: ہادیِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کپڑے ٹخنوں سے اوپر رہتے تھے اور بالخصوص تہہ بند نصف پنڈلی تک ہوتا تھا۔
          پائیجامہ: حدیث پاک میں ہے کہ نبی دوجہاں  صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ کے بازار میں پائیجامہ بکتا ہوا دیکھا، دیکھ کر پسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ: اس میں ازارکی بہ نسبت ستر زیادہ ہے، آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم سے پائیجامہ خریدنا بھی ثابت ہے؛ البتہ استعمال کرنا ثابت نہیں ہے۔ (سیرت مصطفی ج۳ ص۲۸۱ وفتاویٰ دارالعلوم ج۱۶، ص۱۵۵)
          موزے: محبوبِ رب العالمین سے موزے استعمال کرنا بھی ثابت ہے اور آپ موزوں پر مسح فرماتے تھے۔
          خِرقہ: لباسِ نبوی میں خرقہ یعنی کملی کا تذکرہ بھی بکثرت ملتا ہے؛ بلکہ خرقہ تو تمام انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کا لباس رہا ہے روایت ہے:
          قال ابن مسعود: کانَتِ الأنْبِیَاءُ یَرْکَبُوْنَ الحُمُرَ ویَلْبَسُونَ الصُّوفَ ویَحْتَلِبُوْنَ الشَّاةَ (رواہُ الطیالسی)
(حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: حضرات انبیاء علیہم الصلوة والسلام گدھوں کی سواری فرماتے تھے، اون پہنا کرتے تھے اور بکریوں کا دودھ پیتے تھے)
          وعنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کان علی موسیٰ یوم کَلَّمہ ربُّہ کساءُ صوفٍ وکمةُ صوفٍ وجبةُ صوفٍ وسراویلُ صوفٍ وکان نَعْلاَہُ مِنْ حِمَارٍ مَیّتٍ رواہ الترمذی وقال غریب والحاکم صححہ علی شرط البخاری (سیرتِ مصطفی ج۳، ص۲۸۳ بحوالہ زرقانی)
(اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس روز حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرتِ حق جل شانہ سے شرفِ ہم کلامی حاصل ہوا اُس روز ان کا کمبل اون کا تھا، ان کی ٹوپی، جبہ اور پائیجامہ سب اون کے تھے اور جوتے مردار گدھے کی کھال کے تھے)
           حضرت مولانا شبیراحمد عثمانی صاحب رحمة اللہ علیہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: حق تعالیٰ شانہ نے اپنے حبیب کو یٰأیُّہَا الْمُزَمِّلُ سے خطاب کرکے ایک پوری سورتِ مبارکہ خرقہ پوش دُرویشوں کے لیے نازل فرمائی جس میں ان کے لیے بہت سے شرائط ولوازم ذکر فرمائے ہیں۔ (ترجمہ شیخ الہند تفسیر سورة المزمل)
شیطانی حملہ:
          انسانیت کا دشمن اور حضرت آدم اور اولادِ آدم کا ابدی مخالف لعین مردود کا سب سے پہلے جو انسان اور مٹی کے پُتلے پر حملہ ہوا اُس کا اثر بد اور بُرا انجام ننگا اور برہنہ ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا کہ جنت الفردوس اور بہشت بریں میں ابوالبشر اور خلیفة اللہ فی الارض حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا بڑے سکون ووقار کے ساتھ رہ رہے تھے؛ لیکن انسانیت اور بشریت سے ابدی حسد رکھنے والا ملعون اس کو پسند کہاں کرسکتا تھا؛ چنانچہ اس نے وساوس اور تصرفات کرکے دونوں کو بہکانا شروع کیا اور زوجین اغواءِ شیطانی کا شکار ہوگئے کہ خدا کی نافرمانی سرزد ہوئی جس کے نتیجہ میں دونوں ننگے ہوگئے اور قابلِ شرم اعضا کھل گئے جن کو درختوں کے پتوں سے چھپاتے پھرتے تھے؛ کیوں کہ اِن اعضا کا دوسروں کے سامنے کھولنا یا کھل جانا انتہائی ذلت ورُسوائی اور نہایت بے حیائی کی علامت ہے اور مختلف النوع شروفساد کا مقدمہ ہے۔
          فائدہ: بعض خودساختہ دانشوروں اور فلاسفروں کا یہ کہنا کہ: انسان ابتداءً ننگا پھرا کرتا تھا، پھر ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد اُس نے لباس ایجاد کیا یہ سرتاپا بے اصل اور نادانی وجہالت ہے؛ کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کے مذکورہ واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سترپوشی اور لباس انسان کی فطری خواہش اور پیدائشی ضرورت ہے جو روزِ اوّل ہی سے انسان کے ساتھ ساتھ ہے۔
دورِ حاضر کی حالتِ زار:
          عصرِ حاضر فتنہ وفساد، اخلاقی پستی وتباہی، اسلامی اور مذہبی اقدار و روایات کی پامالی اور بے راہ روی وغلط کاری کا ہے، آج کل جہاں اور بہت سی خرابیاں اور خرافات نسلِ انسانی کی پستی کا سبب ہیں وہیں سترپوشی اور لباس میں بھی انسانیت، حیوانیت سے ہم آہنگ ہے، شیطان اور اس کی ذریت اولادِ آدم اور بناتِ حوَّا کو برہنہ یا نیم برہنہ کرکے انسانیت کو شرمسار کرنے پر پوری طاقت وقوت صرف کررہی ہے، کبھی تہذیب و شائستگی اور ترقی وخوشحالی کے نام سے بناتِ حوا کو برہنہ یا نیم برہنہ حالت میں گلی، کوچوں، سڑکوں اور چوراہوں میں لے آتے ہیں اور کبھی آزادیِ نسواں کا دلفریب اور خوش نما نعرہ دے کر پارکوں، نائٹ کلبوں، ہوٹلوں، کھیلوں کے میدانوں اور فلمی ڈراموں میں عورتوں اور خاص طور پر نوعمر بچیوں کو ننگا نچاتے ہیں، کبھی اس شیطانی مشن کو ترقی کا لبادہ اڑھادیا جاتا ہے تو کبھی روشن خیالی سے موسوم کیا جاتا ہے؛ لیکن یہ انسان اور وہ بھی دین ومذہب کا پاسبان اس طاغوتی چال اور شیطانی جال کے دامِ فریب میں بڑی آسانی سے پھنس جاتا ہے، آج مغربی تہذیب وتمدن، بود وباش اور کاٹ چھانٹ کو نوجوان نسل خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں دوڑکر اختیار کررہے ہیں، نوجوان لڑکیوں نے ان کی نقل کرتے ہوئے اپنے مستور جسم اور باپردہ بدن کو برملا کھول ڈالا، سرسے اوڑھنی اور دوپٹہ بالکل غائب ہوگیا، باقی لباس بھی یا توپورے جسم کے لیے ساتر اور چھپانے والا ہی نہیں ہے دونوں ہاتھ اوپر تک کھلے ہوئے ہیں، دونوں پاؤں رانوں تک کھلے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ پیٹ اور پیٹھ بھی کھل گئے ہیں اور یا بہت زیادہ باریک لباس ہے، جس سے جسم چھپتا ہی نہیں؛ بلکہ صاف نظر آتا ہے ایسے لباس کا مقصد سترپوشی نہیں محض زینت ہوتی ہے اور اگر لباس میں مذکورہ دونوں کمی نہ ہوں تو تیسری کمی اور نقص یہ ہے کہ وہ اتنا چست اورٹائٹ ہوتا ہے کہ جس سے بدن کا نشیب وفراز خوب ظاہر ہوتا ہے، ایسا لباس جس میں مذکورہ تینوں باتوں میں سے کوئی بھی ہو اس کو پہننے والی عورتوں پر اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے؛ لہٰذا نبی کی لعنت اور بددعاء سے بچنے کے لیے مذکورہ لباس کو استعمال نہ کریں۔
          یہی حال نوجوان لڑکوں کا ہے کہ مغربی اقوام کے ساتھ قدم بہ قدم اور شانہ بہ شانہ چلنے کی ہوڑ اور ہوس میں ہمارے نوجوان اپنی تہذیب، اپنا خاندانی تمدن اور اسلامی روایات کو بالائے طاق رکھ کر ایسا لباس زیب تن کرتے ہیں جو جسمانی خدوخال کو چھپانے کے بجائے اور زیادہ نمایاں کرتا ہے؛ حالاں کہ دوسری قوموں سے مرعوب ہوکر ان کی تہذیب، اُن کا طرز اپنانا تشبہ میں آتا ہے جس پر احادیث میں سخت ترین وعیدیں آئی ہیں کہ جو انسان دنیا میں جس قوم کی شباہت اختیار کرے گا وہ کل قیامت میں انہی کے ساتھ اُٹھایا جائے گا اور اس کا حشر انھیں کے ساتھ ہوگا، اللہ تعالیٰ شانہ تمام امت کی حفاظت فرمائے، آمین۔
فریضہٴ سترپوشی:
          مذہبِ اسلام اور شریعت محمدی نے تمام شیطانی راستے اور دجالی شرور وفتن کے دروازوں کی طرح اس راستے اور دروازہ کو بھی بند کرنے کے لیے ایمان کے بعد سترپوشی کو فرض قرار دیا، نماز، روزہ اور تمام ارکانِ اسلام بعدمیں لباس پہلے فرض وواجب ہے۔
لباس کے آداب:
          (۱) نیا لباس پہنتے وقت اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد بیان کرے (دعاء پڑھے) خلیفہ ثانی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص نیا لباس پہنے تو اس کو چاہیے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ دعاء پڑھے: الحمدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِيْ مَا أُوَارِيْ بِہ عَوْرَتِيْ وَأتَجَمَّلُ بِہ فِيْ حَیَاتِی․ (اللہ تعالیٰ کا شکر واحسان ہے جس نے ایسا لباس عطا فرمایا جس سے میرا بدن بھی چھپ جاتاہے اور میری زندگی میں زیبائش بھی حاصل ہوتی ہے) (معارف القرآن ج۳، ص۵۳۴ و ۵۳۵)
          (۲) نیا لباس بنانے کے وقت پُرانا لباس فقراء اور مساکین پر صدقہ کردے؛ کیوں کہ حضرت نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص نیا لباس پہننے کے بعد پرانا جوڑا غریب ومسکین کو صدقہ کردے وہ اپنی موت وحیات کے ہرحال میں اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری اور پناہ میں آگیا۔ (ابن کثیر عن مسند احمد بہ حوالہ معارف القرآن ج۳/۵۳۵)
          (۳) ایسا لباس ہرگز استعمال نہ کیا جائے جس سے تکبر اور غرور ٹپکتا ہو؛ کیوں کہ کسی بھی انسان کو تکبر اور گھمنڈ زیبا نہیں اور اگر کوئی نادان اور بے وقوف اپنی حماقت کا ثبوت دیتے ہوئے غرور کا ارتکاب کرتاہے تو حدیث ہے کُلْ مَا شِئْتَ وَالْبَسْ مَا شِئْتَ مَا أخْطَأَتْکَ اثْنَتَانِ: سَرَفٌ أوْ مَخْیَلَةٌ (صحیح البخاری ج۲، ص۸۶۰)
ترجمہ: جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پہنو (البتہ) دو چیزیں تمھیں خطا اور گناہ میں مبتلا نہ کردیں: 
(۱) فضول خرچی 
(۲) تکبر اور گھمنڈ۔
          (۴) لباس اختیار کرنے میں تنعم و اسراف سے اجتناب کرے ؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے انَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ (بنی اسرائیل آیت ۲۷) فضول خرچی اور اسراف کرنے والے شیطانوں کے چیلے ہیں۔
          (۵) دشمنانِ اسلام یہود ونصاریٰ اور کفار ومشرکین کے لباس سے اجتنابِ کلی ہونا چاہیے؛ کیوں کہ اُس کو اختیار کرنے میں اُن کی مشابہت ہوگی جس سے بڑی شدومد کے ساتھ باز رکھا گیا اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ (مسند احمد ابن حنبل ج۲ ص۵۰) جو بندئہ خدا کسی جماعت اور قوم کی شباہت اپنائے گا وہ اسی میں سے ہے یعنی قیامت میں اُسی قوم کے ساتھ اٹھے گا۔
          (۶) تہہ بند یا اس کی جگہ استعمال ہونے والا کوئی بھی کپڑا (پائیجامہ وغیرہ) نصف پنڈلی تک ہو یا کم از کم ٹخنوں سے اوپر ہو؛ کیوں کہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانے پر بڑی سخت وعید ہے ارشادِ نبوی ہے: مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الازَارِ فِي النَّارِ (بخاری شریف) ٹخنوں کا جو حصہ ازار کے نیچے رہے گا وہ حصہ جہنم میں جائے گا۔
          (۷) ریشمی کپڑا مردوں کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اس سے بچنا چاہیے، حدیث نبوی ہے: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انَّمَا یَلْبَسُ الْحَرِیْرَ فِي الدُّنْیَا مَنْ لاَ خَلاَقَ لَہ فِي الْآخِرَةِ (بخاری ومسلم) فرمایا جو شخص دنیا ہی میں ریشم کا کپڑا پہنے گا کل قیامت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
          (۸) خالص سُرخ اور زرد لباس مردوں کے لیے غیرمناسب اورمکروہ ہے، فتاویٰ شامی میں ہے کُرِہَ لُبْسُ المُعَصْفَرِ وَالْمُزَعْفَرِ الْأَحْمَرِ وَالْأصْفَرِ لِلرِّجَالِ (فتاویٰ دارالعلوم، ج۱۶، ص۱۴۷ بحوالہ الدرالمختار مع رد المحتار)
          (۹) مرد عورتوں کا لباس اور عورتیں مردوں کا لباس استعمال نہ کریں؛ کیوں کہ ایساکرنے والے نبی کی بددعاء کے مستحق ہوں گے حدیث ہے لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُتَخَنِّثِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالْمُتَرَجّلاَتِ مِنَ النِّسَاءِ وَقَالَ أخْرِجُوْہُمْ مِنْ بُیُوْتِکُمْ (بخاری شریف رقم الحدیث ۵۵۴۷) اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی شباہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی اور فرمایاکہ: اے مسلمانو! تم ایسے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال دو۔
          (۱۰) ایسا لباس جو جسم اور بدن سے چپکا ہوا ہو اور بہت زیادہ چست ہو ایسے لباس سے مردوں اور عورتوں دونوں کو بچنا چاہیے بالخصوص عورتوں کو؛ کیوں کہ حدیث پاک میں ایسے لباس والی عورتوں کو لباس سے عاری اور برہنہ کہا گیا ہے جن کے لیے دوزخ کی وعید ہے نِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ (مسلم شریف رقم ۲۱۲۸) دوزخ میں ایسے ایسے لوگ جائیں گے جن میں وہ عورتیں بھی ہیں جو کپڑا پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی۔
          (۱۱) اتنا باریک لباس جس میں جسم کے اعضاء نظر آتے ہوں عورتوں کے لیے ایسا لباس بالکل جائز نہیں، اور مردوں کو لنگی یا پائیجامہ ایسا پہننا جائز نہیں البتہ دوسرے کپڑے باریک ہوں تو مضائقہ نہیں کیوں کہ مردوں کا ستر صرف تہہ بند یا پائیجامہ سے چھپ جاتا ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم، ج۱۶، ص۱۴۸)
          (۱۲) مرد اور عورت ہمیشہ ایسا لباس وملبوس استعمال کریں جو ان کی جنس کے اعتبار سے خوبصورتی اور زینت کا سبب بنے اور ایسا لباس ہرگز اختیار نہ کریں جس میں بے ہودگی اورحماقت ٹپکتی ہو؛ کیوں کہ ارشادِ باری تعالیٰ یٰبَنِي آدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی فرماتے ہیں: اس آیت میں لباس کو زینت سے تعبیر فرمایا جس سے ایک مسئلہ یہ بھی نکلتا ہے کہ نماز میں افضل اور اولیٰ یہ ہے کہ صرف سترپوشی پر کفایت نہ کی جائے؛ بلکہ اپنی وسعت کے مطابق زینت اختیار کی جائے۔ نواسہٴ رسول حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ نماز کے وقت اپنا سب سے بہتر لباس پہنتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ: اللہ تعالیٰ جمال کو پسند فرماتے ہیں؛ اس لیے میں اپنے رب کے لیے زینت وجمال اختیار کرتا ہوں پھر یہ آیت کریمہ تلاوت فرماتے۔ (معارف القرآن ج۳، ص۵۷۳)
          اور خود رب کائنات نے لباس کو سترپوشی کا ذریعہ اور سبب بتاتے ہوئے آرائش اور زینت فرمایا ہے، ارشاد باری ہے یٰبَنِیْ آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْآتِکُمْ وَرِیْشًا (سورة الاعراف آیت۳۱)
مسائل:
          (۱) مرد کا ستر جس کو ہرحالت میں چھپانا فرض ہے، ناف سے گھٹنوں کے نیچے تک ہے، اس حصہٴ بدن میں اسے کوئی عضو حالتِ نماز میں کھل جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے اور عام حالت میں کھل جائے تو گناہ ہوگا۔ (معارف القرآن ج۳ ص۵۴۴)
          (۲) عورت کا تمام بدن ستر ہے؛ البتہ چہرہ، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم ستر سے مستثنیٰ ہیں، یعنی حالت نماز میں یا عام حالت میں ضرورت سے ان کو کھول دیا جائے تو نماز درست ہوگی اور کوئی گناہ بھی نہیں ہوگا؛ لیکن یہ مطلب نہیں کہ چہرہ وغیرہ کھول کر عورت غیرمحرموں کے سامنے بے روک ٹوک نکلے اس کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔(فتاویٰ دارالعلوم ، ج۱۶، ص۱۸۶)
          فائدہ: حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس گھر میں عورت ننگے سر ہو اُس گھر میں نیکی اور فرشتے نہیں آتے۔ (معارف القرآن ج۳ ص۵۴۴)
          (۳) ایسا لباس زیب تن کرکے نماز پڑھنا مکروہ ہے جسے پہن کر انسان اپنے دوستوں اور عوام کے سامنے جانے میں عار اور شرم محسوس کرتاہو جیسے صرف بنیان پہن کر نماز پڑھنا (معارف القرآن ج۳ ص۵۴۴)
          (۴) نماز میں پردہ اور ستر پوشی کے علاوہ زینت اختیار کرنے کا بھی حکم ہے پس ننگے سر نماز پڑھنا، مونڈھے یا کہنیاں کھول کر نماز پڑھنا مکروہے ہے۔ (معارف القرآن ج۳ ص۵۴۴)
          (۵) کوٹ پتلون پہن کر اگرچہ نماز ہوجاتی ہے، مگر تشبہ بالکفار کی وجہ سے ان کا پہننا مکروہ وممنوع ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم، ج۱۶، ص۱۵۴)
          (۶) جس علاقہ میں جس لباس کا رواج ہو عورتوں کو اس کے پہننے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے؛ البتہ کوئی بھی لباس ہو یہ ضروری ہے کہ کشف عورت اس میں نہ ہو اور عورتوں کے لیے افضل وہ لباس ہے جس میں ستر (پردہ) زیادہ ہو جیسے کرتا، پاجامہ اور اوڑھنی۔ (فتاویٰ دارالعلوم، ج۱۶، ص۱۵۸)
          (۷) سرپرٹوپی کی جگہ کوئی چھوٹا سا رومال یا کپڑا باندھ کر نماز پڑھنا مکروہ اور بے ادبی ہے۔ (معارف القرآن ج۳ ص۵۴۴)
          (۸) جس لباس میں واجب الستر اعضاء کا حجم اور بناوٹ نظر آتی ہو، مرد اور عورت دونوں کے لیے حرام ہے اور اس کی طرف دیکھنا بھی حرام ہے،اور مروجہ لباس میں اس قباحت کے علاوہ کفار کے ساتھ مشابہت بھی ہے، اس لیے جائز نہیں۔ (احسن الفتاویٰ، ج۸، ص۸۲ کتاب الخطر والاباحة)
***

Monday, 30 July 2018

ہاروت وماروت کی معصیت سے متعلق قصہ من گھڑت وبے بنیاد ہے

ہاروت وماروت کی معصیت سے متعلق  قصہ من گھڑت وبے بنیاد ہے
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
مزاج عالی!
ہاروت ماروت کون تھے؟
انسان تھے یا فرشتے؟
ان کے بارے میں جو مشہور ہے کہ انسانی خواہشات کے ساتھ اتارے گئے تھے اور ایک عورت کے فتنہ میں  پڑ کر زنا کاری وشراب نوشی کا ارتکاب کر بیٹھے تھے اور وہ اس وقت دنیا کے کسی کنویں میں بطور سزا سر نگوں لٹکے ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ
تو اس واقعہ کی صحت وصداقت کے بارے میں آپ کی کیا تحقیق ہے؟
امید ہے کہ تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں گے
فقط
ابو طالب رحمانی ،نزیل حرم مکی
29 جولائی 2018

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
جمہور علماء ومفسرین کا خیال ہے کہ ہاروت و ماروت یہ دونوں  آسمانی فرشتے تھے جو شہر بابل میں بصورت انسان رہتے تھے، وہ علم سحر سے الہامی طور پر  واقف تھے، تاکہ اس فن کے ذریعہ اصلاح خلق کا فریضہ انجام دے سکیں یعنی لوگوں کو سحر وکہانت سے بچاسکیں، جو کوئی سحر سیکھنے کا طالب ان کے پاس جاتا اول تو وہ اس کو منع کرتے کہ اس میں ایمان جانے کا خطرہ ہے اس پر بھی اگر وہ باز نہ آتا تو اس کو سکھا دیتے اللہ تعالیٰ کو ان کے ذریعہ بندوں کی آزمائش منظور تھی جیسا کہ خوبصورت انسانی شکل میں فرشتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو آزمایا تھا۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 102۔ تفسیر جلالین صفحہ 17)
یہ تفسیر آیت میں "وما أنزل على الملكين" میں "الملک" کو بفتح اللام پڑھنے کی صورت میں کی گئی ہے، اور اس لفظ کی یہی مشہور قرات بھی ہے (تفسیرکبیر)۔
لیکن دوسری قرأت "ملک" (بکسر اللام) کی بھی صحابہ وتابعین ہی کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، ابن عباس، ضحاک، حسن بصری کی یہی روایت ہے۔ قرأ الحسن بکسر اللام وھو مروی ایضا عن الضحاک وابن عباس (رض) (تفسیرکبیر) چناچہ اسی دوسری قرأت کی بنا پر بعض مفسرین اسی طرف چلے گئے ہیں کہ یہ دونوں اصلا فرشتے نہ تھے، بشر تھے اور بادشاہ تھے، اور انہیں جو دوسری روایتوں میں فرشتے کہا گیا ہے، تو وہ محض مجازا ہے، یعنی ان کے صفات ملکوتی کی بنا پر۔ قیل رجلان سمیا ملکین باعتبار صلاحھما (تفسیر بیضاوی) لیکن جمہور کا قول وہی قرأت مشہور کی بنا پر ان کے فرشتہ ہونے کا ہے۔ ذھب کثیر من السلف الی انھما کان ملکین من السماء وانھما انزلا الی الارض (ابن کثیر)
بابل جس قدیم ملک کا نام ہے۔ وہ موجودہ نقشہ اور جغرافیہ میں ملک عراق کہلاتا ہے۔ ملک کے پایہ تخت کا بھی یہی نام تھا۔ شہر بابل دریائے فرات کے کنارے واقع تھا۔ موجودہ بغداد سے کوئی 60 میل سمت جنوب میں۔ تقریبا وہیں جہاں آج ہلہ کی آبادی ہے، شہربہت بڑا تھا۔ رقبہ میلوں کا تھا۔ ملک اپنے عروج کے زمانہ میں بڑا سرسبز، شاداب، خوشحال، مہذب ومتمدن رہ چکا ہے، نہروں، پانی کے نلوں، شاہی قصروایوان، زبردست قلعوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ دجلہ وفرات دو دو مشہور دریا اس کے علاقہ کو سیراب کررہے تھے۔ سلطنت کے عروج کا زمانہ تخمینی طور پر 3000  قبل مسیح ہے جہاں بابلیوں کی سلطنت تھی،
اس ملک کی ایک خاص شہرت علوم سحر، عملیات سفلی اور جنتر منتر کے لحاظ سے تھی، جنہیں آج انگریزی میں Occult Science (علم نیز نجات) کہتے ہیں۔ اسی ملک کا ایک دوسرا قدیم نام کا لڈیا (کلدانیہ) ہے اور انگریزی میں آج تک لفظ کالڈین (کلدانی) ساحر کا مرادف چلا آرہا ہے، یہودونصاری کے صحیفوں میں اس ملک کی عظمت کا ذکر بھی  کثرت سے آیا ہے۔ اور اس کی بدعملیوں، تباہ کاریوں کا بھی۔ اس شہر کے لوگوں کے دین بابلی کا جزواعظم سحروکہانت، جنترمنتر ٹونے ٹوٹکے تھے۔” ۔ (انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس، جلد 2 صفحہ 1 16
مستفاد: تفسیر ماجدی)
اسی شہر بابل میں خدا کے تکوینی نظام کے تحت ہاروت وماروت نامی  دو فرشتوں کا نزول انسانی شکل میں ہوا۔
یہ دونوں فرشتے ”ھاروت وماروت“ ایک غرض خاص کے ساتھ انسانوں کے درمیان رہنے بسنے کیلیے بھیجے گئے تھے،
لہذا ان کی شکل وشباہت، رنگ وروپ، جسم و قالب انسانوں ہی کا ہونا چاہئے، اور ان کی عادتیں اور ان کے جذبات بھی بالکل بشری ہونی چاہئیں۔
ان کے متعلق بعض روایات میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں اولا تو وہ ثابت وصحیح نہیں ہیں  لیکن بالفرض صحیح ہوں بھی، تو جب کسی خاص مصلحت سے کسی فرشتہ کو پیکر انسانی اور جذبات بشری دے دیئے گئے، تو اگر کسی وقت وہ ملکوتی الاصل انسان بشری جذبات سے مغلوب بھی ہوجائے، تو اس میں کوئی استحالہ نہ شرعی ہے نہ عقلی۔ (تفسیر ماجدی)
ہاروت وماروت سے متعلق واقعہ
ابن حبان (717 ـ موارد) و مسند أحمد: (2 / 134 و رقم 6178 - طبع شاكر)
و عبد بن حميد: "المنتخب" (ق 86 / 1) و ابن أبي الدنيا: "العقوبات"
(ق 75 / 2) و البزار: ( 2938 ـ الكشف ) و ابن السني: "عمل اليوم و الليلة"
(651)  میں "زهير بن محمد" کی طریق سے عن موسى بن جبير عن نافع مولى ابن عمر عن

عبد الله بن عمر
یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ابن عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
" إِنَّ آدَم عَلَيْهِ السَّلَام لَمَّا أَهَبَطَهُ اللَّهُ إِلَى الْأَرْض قَالَتْ الْمَلَائِكَة أَيْ رَبّ " أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِك الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِك وَنُقَدِّسُ لَك قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ " قَالُوا رَبّنَا نَحْنُ أَطْوَعُ لَك مِنْ بَنِي آدَم قَالَ اللَّه تَعَالَى لِلْمَلَائِكَةِ هَلُمُّوا مَلَكَيْنِ مِنْ الْمَلَائِكَة حَتَّى يُهْبَط بِهِمَا إِلَى الْأَرْض فَنَنْظُر كَيْف يَعْمَلَانِ قَالُوا رَبّنَا هَارُوت وَمَارُوت فَأُهْبِطَا إِلَى الْأَرْض وَمُثِّلَتْ لَهُمَا الزُّهَرَة اِمْرَأَةً مِنْ أَحْسَن الْبَشَر فَجَاءَتْهُمَا فَسَأَلَاهَا نَفْسهَا فَقَالَتْ لَا وَاَللَّه حَتَّى تَتَكَلَّمَا بِهَذِهِ الْكَلِمَة مِنْ الْإِشْرَاك فَقَالَا وَاَللَّه لَا نُشْرِك بِاَللَّهِ شَيْئًا أَبَدًا فَذَهَبَتْ عَنْهُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بِصَبِيٍّ تَحْمِلهُ فَسَأَلَاهَا نَفْسهَا فَقَالَتْ لَا وَاَللَّه حَتَّى تَقْتُلَا هَذَا الصَّبِيّ فَقَالَا لَا وَاَللَّه لَا نَقْتُلهُ أَبَدًا فَذَهَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحٍ خَمْر تَحْمِلهُ فَسَأَلَاهَا نَفْسهَا فَقَالَتْ لَا وَاَللَّه حَتَّى تَشْرَبَا هَذَا الْخَمْر فَشَرِبَا فَسَكِرَا فَوَقَعَا عَلَيْهَا وَقَتَلَا الصَّبِيّ فَلَمَّا أَفَاقَا قَالَتْ الْمَرْأَة وَاَللَّه مَا تَرَكْتُمَا شَيْئًا أَبَيْتُمَاهُ عَلَيَّ إِلَّا قَدْ فَعَلْتُمَاهُ حِين سَكِرْتُمَا فَخُيِّرَا بَيْن عَذَاب الدُّنْيَا وَعَذَاب الْآخِرَة فَاخْتَارَا عَذَاب الدُّنْيَا . وَهَكَذَا رَوَاهُ أَبُو حَاتِم بْن حِبَّان فِي صَحِيحه عَنْ الْحَسَن عَنْ سُفْيَان عَنْ أَبِي بَكْر بْن أَبِي شَيْبَة عَنْ يَحْيَى بْن بُكَيْر - بِهِ وَهَذَا حَدِيث غَرِيب مِنْ هَذَا الْوَجْه وَرِجَاله كُلّهمْ ثِقَات مِنْ رِجَال الصَّحِيحَيْنِ إِلَّا مُوسَى بْن جُبَيْر هَذَا وَهُوَ الْأَنْصَارِيّ السُّلَمِيّ مَوْلَاهُمْ الْمَدِينِيّ الْحَذَّاء وَرُوِيَ عَنْ اِبْن عَبَّاس وَأَبِي أُمَامَة بْن سَهْل بْن حُنَيْف وَنَافِع وَعَبْد اللَّه بْن كَعْب بْن مَالِك وَرَوَى عَنْهُ اِبْنه عَبْد السَّلَام وَبَكْر بْن مُضَر وَزُهَيْر بْن مُحَمَّد وَسَعِيد بْن سَلَمَة وَعَبْد اللَّه بْن لَهِيعَة وَعَمْرو بْن الْحَرْث وَيَحْيَى بْن أَيُّوب وَرَوَى لَهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَهْ وَذَكَرَهُ اِبْن أَبِي حَاتِم فِي كِتَاب الْجَرْح وَالتَّعْدِيل وَلَمْ يَحْكِ شَيْئًا مِنْ هَذَا وَلَا هَذَا فَهُوَ مَسْتُور الْحَال وَقَدْ تَفَرَّدَ بِهِ عَنْ نَافِع مَوْلَى اِبْن عُمَر عَنْ اِبْن عُمَر رَضِيَ اللَّه عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيّ - صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَرُوِيَ لَهُ مُتَابَع مِنْ وَجْه آخَر عَنْ نَافِع كَمَا قَالَ اِبْن مَرْدَوَيْهِ حَدَّثَنَا دُعْلُج بْن أَحْمَد حَدَّثَنَا هِشَام بْن عَلِيّ بْن هِشَام حَدَّثَنَا عَبْد اللَّه بْن رَجَاء حَدَّثَنَا سَعِيد بْن سَلَمَة حَدَّثَنَا مُوسَى بْن سَرْجِس عَنْ نَافِع عَنْ اِبْن عُمَر سَمِعَ النَّبِيّ - صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُول فَذَكَرَهُ بِطُولِهِ .
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سماعت فرمایا ہے کہ آنخضرت نے فرمایا آدم علیہ السلام جس وقت زمین پر اتارے گئے تو ملائکہ نے اللہ تعالٰی سے عرض کیا کہ اے پرودگار زمین پر ایسا شخص خلیفہ بنارہا ہے جو فساد برپا کرے گا خونزریزی کا مرتکب ہوگا اور ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرنے والے ہیں اس لئے یہ مرتبہ حاصل کرنے کا زیادہ حق ہمیں ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا بلا شبہ مجھے وہ کچھ معلوم ہے جس کا علم تمھیں نہیں ہے۔ فرشتوں نے عرض کیا یا الٰہی بنی آدم سے بڑھ کر تیرے اطاعت گزار ہم ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا تم میں دو فرشتے آجائیں ہم دیکھیں گے کہ وہ کس طرح کے عمل کریں گے عرض کیا کہ ہاروت و ماروت دونوں پیش خدمت ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کو فرمایا کہ تم زمین پر چلے جاؤ اور اللہ نے ان کے پاس بڑی خوبصورت عورت کی شکل میں زہرہ ستارے کو بنا بھیجا۔ وہ دونوں اس کے پاس آگئے اور زہرہ ستارے کو ان کی رفاقت کرنے کو کہا لیکن اس نے تسلیم نہ کیا اور ان سے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا جب تک کہ تم شرک کی یہ بات نہ کہوگے۔ ان دونوں نے جواب دیا، واللہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ہرگز نہیں قرار دیں گے پس وہ عورت اٹھی اور وہاں سے رخصت ہو گئی پھر جس وقت وہ لوٹ کر آئی تو ایک بچہ بھی اپنے ساتھ اٹھایا ہوا تھا۔ انھوں سے اس عورت سے پھر وہی سوال کیا تو اس نے کہا واللہ یہ نہ ہوگا جب تک یہ بچہ تم قتل نہ کردو۔ انھوں نے اس کو کہا کہ واللہ ہم اس کو کبھی قتل نہیں کریں گے اسکے بعد وہ شراب کا کاسہ لئے ہوئے واپس آئی اور ان دونوں فرشتوں نے اس کو دیکھا اور پھر پہلے والا سوال اس سے کیا عورت کہنے لگی واللہ ایسا نہیں ہوگا جب تک تم اس شراب کو نہ پیوگے پس انھوں نے وہ شراب نوش کی پھر نشے کی کیفیت میں انھوں نے اس کے ساتھ جماع بھی کرلیا اور بچہ بھی قتل کردیا۔ جس وقت وہ نشہ ختم ہوگیا تو ان کو عورت نے بتایا کہ تم نے ایسا فعل نہ کردہ نہیں چھوڑا جو کرنے سے تم انکار کرتے رہے تھے۔ تم نے وہ تمام کام نشہ میں ہی کرلئے۔
پھر ان کو حکم فرمایا گیا کہ تم دنیا کے اندر عذاب یا آخرت کے عذاب ان دونوں میں سے کوئی ایک اختیار کرلو تو انھوں نے دنیاوی عذاب اختیار کرلیا۔
تفسیر بن کثیر، سورہ البقرہ 102)
روایت کا حال
بعض مفسرین و محدثین کو اس روایت کو نقل کرنے میں سخت دھوکہ ہوا ہے اور وہ اسرائیلی روایات سے اپنی کتابوں میں یہ روایت اگرچہ نقل کردئیے ہیں
لیکن محدثین اور محققین تفسیر نے اس روایت کی صحت سے بالکل انکار کیاہے۔ اور متکلمین نے اس کی درایت سے انکار کیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ قصہ بالکل گڑھا ہوا اور لغومردود ہے۔ ان  میں قاضی عیاض، امام رازی، شہاب الدین عراقی وغیرہم شامل ہیں۔
اعلم ان ھذہ الروایۃ فاسدۃ مردودۃ غیر مقبولۃ (تفسیرکبیر) وھذا کلہ لایصح منہ شیء (البحر المحیط) ونص الشھاب العراقی علی ان من اعتقد فی ھاروت وماروت انھما ملکان یعذبان علی خطیھما مع الزھرۃ فھو کافر باللہ تعالیٰ (روح البیان)
قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی نے تفسیر مظہری ج1 ص 185 پہ ، اور امام رازی نے تفسیر کبیر ج 3 ص 219 پہ شرح وبسط سے کلام کرکے اس کا رد کیا ہے
قال ابن أبي حاتم في
"العلل" (2 / 69 ـ 70): سألت أبي عن هذا الحديث؟ فقال: هذا حديث منكر .
قلت: و مما يؤيد بطلان رفع الحديث من طريق ابن عمر أن سعيد بن جبير و مجاهدا
روياه عن ابن عمر موقوفا عليه كما في "الدر المنثور" للسيوطي (1 / 97 ـ 98)
امام ابن کثیر کہتے ہیں:
وكل ما عدا ظاهر القرآن في حال هذين الملَكين: فهو من الإسرائيليات ، يردها ما ثبت من عصمة الملائكة ، على وجه العموم ، دون ورود استثناء لهذا لأصل العام: ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ * لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ * يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ) الأنبياء/26-28 .
وقال ابن كثير – رحمه الله - :
وقد روي في قصة "هاروت وماروت" عن جماعة من التابعين، كمجاهد ، والسدي ، والحسن البصري، وقتادة، وأبي العالية، والزهري، والربيع بن أنس، ومقاتل بن حيان، وغيرهم، وقصها خلق من المفسرين ، من المتقدمين والمتأخرين، وحاصلها راجع في تفصيلها إلى أخبار بني إسرائيل، إذ ليس فيها حديث مرفوع صحيح متصل الإسناد إلى الصادق المصدوق المعصوم الذي لا ينطق عن الهوى، وظاهر سياق القرآن: إجمال القصة من غير بسط ، ولا إطناب فيها ، فنحن نؤمن بما ورد في القرآن ، على ما أراده الله تعالى ، والله أعلم بحقيقة الحال .
"تفسير ابن كثير" (1 / 360) .
امام قرطبی لکھتے ہیں:
حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، کعب احبار، سدی اور کلبی سے اس کا معنی مروی ہے۔ جب اولاد آدم میں فساد زیادہ ہوگیا تھا۔۔۔۔ یہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھا۔۔۔۔ ملائکہ نے انہیں عار دلائی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر تم ان کی جگہ ہوتے اور تم میں ان عناصر کی ترکیب ہوتی جو ترکیب ان میں ہے تو تم بھی ان جیسے اعمال کرتے۔ فرشتوں نے کہا: تیری ذات پاک ہے ہمارے لئے تو یہ مناسب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم اپنے اعلیٰ فرشتوں میں سے دو فرشتوں کا انتخاب کرو۔ انہوں نے ہاروت وماروت کو چنا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں اتارا اور ان میں شہوات کا عنصر رکھ دیا، ان پر ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ ایک عورت کے عشق میں مبتلا ہوگئے اس عورت کا نام نبطی زبان میں (بیدخت) فارسی میں ناھیل اور عربی میں زہرہ تھا، وہ ان کے پاس جھگڑا لے کر آئی اور ان دونوں فرشتوں نے اس سے خواہش پوری کرنی چاہی تو اس نے انکار کیا، مگر یہ کہ وہ دونوں اس کے دین میں داخل ہوجائیں، شراب پئیں اور اس نفس کو قتل کریں جس کو اللہ نے حرام کیا ہے۔ انہوں نے اس کی شرائط قبول کرلیں اور انہوں نے شراب پی۔ وہ جب اس کے پاس گئے تو انہیں ایک شخص نے دیکھ لیا انہوں نے اسے قتل کردیا۔ ان فرشتوں سے اس عورت نے اس اسم کے بارے پوچھا جس کے ذریعے وہ آسمان پر چڑھ جاتے تھے۔ وہ بھی انہوں نے اسے سکھا دیا۔ اس نے وہ کلمہ پڑھا اور اوپر چڑھ گئی۔ اسے ایک ستارہ کی شکل میں مسخ کردیا۔
سالم نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت عبداللہ روایت کیا ہے کہ مجھے کعب الحبر نے بتایا کہ ان دونوں فرشتوں نے اپنا دن مکمل نہ کیا حتیٰ کہ انہوں نے وہ سب کام کر دئیے جو اللہ تعالیٰ نے حرام کیے تھے۔ اس حدیث کے علاوہ میں ہے۔ ان فرشتوں کو دنیا کے عذاب اور آخرت کے عذاب میں اختیار دیا گیا تو انہوں نے دنیا کا عذاب اختیار کیا۔ انہیں بابل میں ایک سرنگ میں عذاب دیا جارہا ہے۔ بعض نے کہا: بابل سے مراد بابل عراق میں ہے۔ بعض نے کہا: بابل نہاوند ہے، عطا سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر جب زہرہ ستارہ اور سہیل ستارہ کو دیکھتے تو انہیں برا بھلا کہتے اور فرماتے: سہیل یمن میں عشر وصول کرتا تھا اور لوگوں پر ظلم کرتا تھا اور زہرہ ہاروت وماروت کی دوت تھی۔
ہم کہتے ہیں: یہ سب حضرت ابن عمر وغیرہ سے بعید اور ضعیف ہے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس قلو کو ان فرشتوں کے متعلق اصول رد کرتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی وحی پر امین ہیں اس کے رسولوں کے سفیر ہیں لا یعصون اللہ ما امرھم ویفعلون ما یؤمرون۔ (التحریم) (نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جس کا اس نے انہیں حکم دیا ہے اور فوراً بجا لاتے ہیں جو حکم نہیں فرمایا جاتا ہے) بل عبادٌ مکرمون۔ لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون۔ (الانبیاء) (بلکہ وہ تو (اس کے) معزز بندے ہیں نہیں سبقت کرتے اس سے بات کرنے میں اور وہ اس کے حکم پر کاربند ہیں) یسبحون الیل والنھارلا یفترون۔ (الانبیاء) وہ اس کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں رات دن اور وہ اکتاتے نہیں)
رہی عقل تو وہ فرشتوں کے معصیت میں واقع ہونے کا انکار نہیں کرتی۔ عقلاً ان سے اس کا خلاف پایا جاسکتا ہے جن کا انہیں مکلف کیا گیا ہے ان میں شہوات پیدا کی جاسکتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے۔ اسی وجہ سے انبیاء، اولیاء، فضلا، علماء کا خوف تھا لیکن اس جائز کے وقوع کا ادراک نہیں ہو سکتا مگر نقل کے ساتھ۔ اور وہ نقل صحیح نہیں ہے ایک اور چیز جو اس واقعہ کی عدم صحت پر دلالت کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو پیدا فرمایا اور ان کواکب کو پیدا فرمایا جب آسمان کو پیدا فرمایا۔ حدیث میں ہے: جب آسمان کو پیدا کیا گیا تو اس میں سات گردش کرنے والے ستارے پیدا کئے: زحل، مشتری، بہرام، عطارد، زہرہ، سورج اور چاند۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کل فی فلکٍ یسبحون۔ (الانبیاء) کا یہی معنی ہے اس سے ثابت ہوا کہ زہرہ اور سہیل یہ آدم کی تخلیق سے پہلے موجود تھے پھر فرشتوں کا یہ قول جو نقل کیا گیا ہے کہ "ہمارے لئے یہ مناسب نہیں" باعث عار ہے، تو ہمیں آزمانے پر قادر نہیں یہ کفر ہے ہم اللہ تعالیٰ کی اس سے پناہ مانگتے ہیں اور معزز فرشتوں کی طرف ایسی نسبت کرنے سے پناہ مانگتے ہیں ہم ان کی پاکیزگی اور طہارت بیان کرتے ہیں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے اور جو کچھ مفسرین نے نقل کیا ہے اس سے فرشتے پاک ہیں : سبحان ربک رب العزۃ عما
یصفون۔
تفسير قرطبي
البقرة :102
یہ روایت من گھڑت کیوں ہے؟ 
روایت موضوع ومن گھڑت ہے
کیونکہ یہ اسلام کے بنیادی اصول کے خلاف ہے
کیونکہ فرشتہ کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ
وہ اس سے آگے بڑھ کر بات نہیں کرسکتے، اور وہ اسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں، 021:027
یعنی فرشتے ادب، خشوع وتعبد میں  اللہ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں۔
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ
اس کو معلوم ہے جو ان کے آگے ہے اور پیچھے اور وہ سفارش نہیں کرتے مگر اس کی جس سے اللہ راضی ہو اور وہ اس کی ہیبت سے ڈرتے ہیں ۔021:028
وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے،  اور وہ شفاعت بھی نہیں کرسکتے (کسی کی) بجز اس کے کہ جس کیلئے (اللہ کی) مرضی ہو اور وہ (سب) اس کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں،
یعنی فرشتوں کو یہ بھی یقین ہے کہ اللہ سب کے اگلے پچھلے احوال خوب جانتا ہے، اس لئے اس کا جو اور جب حکم ہوگا حکمت کے موافق ہی ہوگا، اس لئے چون وچرا کی گنجائش ہی نہیں۔
اس آیت میں ان کے ادب و اطاعت گزاری، اور ان کی مغلوبیت ومحکومیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے 
لہذا ان کی عصمت صدور گناہ کے منافی ہے
نیز جب فرشتے بابل کے کنویں میں اوندھے منہ لٹکے ہوئے ہیں تو پھر انہیں لوگوں کو سحر سکھانے کا موقع کب ملا ؟؟
حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں اور بھی دیگر دلائل سے اس واقعہ کے بطلان کو ثابت کیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ من گھڑت، بے بنیاد اور موضوع روایت ہے
یہودیوں کی کتابوں سے نقل در نقل ہوتے تفسیری کتابوں میں منقول ہوگئے ہیں
محدثین نے روایتا اور متکلمین نے درایتا پورے شد ومد کے ساتھ اس کی تردید کی ہے
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
29 جولائی 2018