آبادی میں آجانے والی عیدگاہوں کا حکم
سوال:
عیدین کی نماز کہاں پڑھنا چاہئے؟
بقرعید کے موقع پر اکثر مساجد میں عیدالاضحی کی نماز ہوتی ہے اس کا کیا حکم ہے؟ ان مساجد میں کن لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟
اسی طرح اگرعیدگاہیں آبادی میں آجائیں تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
مساجد میں عیدالاضحیٰ کے انعقاد پر ذمہ دارانِ مسجد سے متعلق بھی شرعی حکم کی تفصیل فرمائیں۔
(المستفتی: مومن مصدق، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق:
نمازِ عیدین کیلئے مسنون یہی ہے کہ (جباّنہ) صحراء وجنگل میں آبادی سے باہر جاکر ادا کی جائے۔(١)
بقرعید کے موقع پر اکثر مساجد میں عیدالاضحی کی نماز ہوتی ہے اس کا کیا حکم ہے؟ ان مساجد میں کن لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟
اسی طرح اگرعیدگاہیں آبادی میں آجائیں تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
مساجد میں عیدالاضحیٰ کے انعقاد پر ذمہ دارانِ مسجد سے متعلق بھی شرعی حکم کی تفصیل فرمائیں۔
(المستفتی: مومن مصدق، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق:
نمازِ عیدین کیلئے مسنون یہی ہے کہ (جباّنہ) صحراء وجنگل میں آبادی سے باہر جاکر ادا کی جائے۔(١)
معذور اور بیمار افراد کے لئے مسجد میں عیدین کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے، بلاعذر شرعی مسجد میں عیدین کی نماز ادا کرنا خلافِ سنت ہے۔ (٢)
البتہ ایسی عیدگاہیں جو آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے بستی اور شہر کے اندر آگئی ہیں، وہ بحکم جباّنہ یعنی صحراء نہیں رہیں، لہذا شہر سے باہر جاکر نمازِ عیدین پڑھنے سے ہی سنت پر عمل کا ثواب ملے گا۔(٣)
اس لئے کہ آبادی سے باہر میدان اور صحراء میں نمازِ عیدین پڑھنے کا اصل مقصد شوکتِ اسلام کا اظہار کرنا ہے، اور جب عیدگاہ آبادی کے اندر آجائے تو مقصد فوت ہوجانے کی وجہ سے اب ایسی عیدگاہوں میں نماز پڑھنے کے حکم میں ویسی تاکید نہیں ہوگی، بلکہ یہ حکم صرف افضل اور غیر افضل کا ہوگا، اور ایسی عیدگاہوں میں نماز پڑھنے کی افضیلت اس وجہ سے بھی ہوگی کہ نماز کے لیے زیادہ قدم چلنا نیکیوں میں اضافہ اور گناہوں کے معاف ہونے کا سبب ہے، جیسا کہ احادیث مبارکہ میں ملتا ہے۔
لہٰذا افضل اور بہتر یہی ہے کہ مساجد میں نمازِ عیدالاضحٰی کا انعقاد کرنے کی بجائے متعینہ عیدگاہوں میں ہی نماز ادا کی جائے۔
تاہم ایسے شہروں میں مساجد میں نمازِ عیدالاضحٰی کا انعقاد کرنے والے ذمہ داران اور مصلیان پر تارکِ سنت اور گناہ گار ہونے کا حکم لگانا بھی درست نہیں ہے، شریعتِ کاملہ و مکملہ نے جہاں لچک رکھی ہے ایسی جگہوں پرسختی کا مظاہرہ کرنا فقہیانہ بصیرت کے خلاف ہے، چنانچہ اس موضوع پر اکابر علماء کے مطبوعہ فتاوی میں ایسے متعدد فتاوی دیکھنے کو ملیں گے۔
لہٰذا افضل اور بہتر یہی ہے کہ مساجد میں نمازِ عیدالاضحٰی کا انعقاد کرنے کی بجائے متعینہ عیدگاہوں میں ہی نماز ادا کی جائے۔
تاہم ایسے شہروں میں مساجد میں نمازِ عیدالاضحٰی کا انعقاد کرنے والے ذمہ داران اور مصلیان پر تارکِ سنت اور گناہ گار ہونے کا حکم لگانا بھی درست نہیں ہے، شریعتِ کاملہ و مکملہ نے جہاں لچک رکھی ہے ایسی جگہوں پرسختی کا مظاہرہ کرنا فقہیانہ بصیرت کے خلاف ہے، چنانچہ اس موضوع پر اکابر علماء کے مطبوعہ فتاوی میں ایسے متعدد فتاوی دیکھنے کو ملیں گے۔
مزید تشفی کے لئے دیکھیں:
ایضاح المسائل ص:۳۴، فتاوی دارالعلوم ۵؍۲۰۸، امداد الفتاوی ۱؍۶۴۳، کتاب النوازل، فتاوی قاسمیہ، المسائل المھمۃ فی ما ابتلت بہ العامۃ۔
ایضاح المسائل ص:۳۴، فتاوی دارالعلوم ۵؍۲۰۸، امداد الفتاوی ۱؍۶۴۳، کتاب النوازل، فتاوی قاسمیہ، المسائل المھمۃ فی ما ابتلت بہ العامۃ۔
١) عن عليؓ: الخروج إلی الجبانۃ في العیدین من السنۃ۔ (المعجم الأوسط، دار الفکر بیروت ۳؍۱۱۶، رقم: ۴۰۴۰)
الخروج إلی الصحراء لصلاۃ العید وإن ذلک أفضل من صلاتہا فی المسجد لمواظبۃ النبی ﷺ علی ذلک مع فضل مسجدہ ۔ (۲/۵۸۱ ، دارالسلام الریاض، فتح الباری)
٢) وفیہ: البروز إلی المصلی والخروج إلیہ، ولایصلي في المسجد إلا عن ضرورۃ، وروي ابن زیاد عن مالک قال: السنۃ الخروج إلی الجبانۃ۔(عمدۃ القاری،کتاب العیدین، باب الخروج إلی المصلی قدیم ۶؍۲۸۱، جدید زکریا دیوبند ۵؍۱۷۱، فتاوی محمودیہ قدیم ۷؍۲۱۶، جدید ڈابھیل ۸؍۴۰۵)
٣) وإن کان یسعہم المسجد الجامع عند عامۃ المشائخ ہو الصحیح، وفی المغرب : الجبّانۃ المصلَّی العام فی الصحراء ۔(۲/۲۷۸، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین، الفتاوی الہندیۃ: ۱/۱۵۰، الباب السـابع فی صلاۃ العیدین، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح :ص۵۳۱، کتاب الصلاۃ ، باب العیدین،بحرالرائق)
عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيِّ الْمُجْمِرِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوئَهُ ثُمَّ خَرَجَ عَامِدًا إِلَی الصَّلَاةِ فَإِنَّهُ فِي صَلَاةٍ مَا دَامَ يَعْمِدُ إِلَی الصَّلَاةِ وَإِنَّهُ يُکْتَبُ لَهُ بِإِحْدَی خُطْوَتَيْهِ حَسَنَةٌ وَيُمْحَی عَنْهُ بِالْأُخْرَی سَيِّئَةٌ فَإِذَا سَمِعَ أَحَدُکُمْ الْإِقَامَةَ فَلَا يَسْعَ فَإِنَّ أَعْظَمَکُمْ أَجْرًا أَبْعَدُکُمْ دَارًا قَالُوا لِمَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ مِنْ أَجْلِ کَثْرَةِ الْخُطَا. ( مؤطا امام مالک)
فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ذی الحجہ 1439
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ذی الحجہ 1439
No comments:
Post a Comment