Monday, 6 August 2018

غبارِخاطر: حلال گوشت کا مسئلہ اور ہمارا کردار؛ حجاج و معتمرین سے چند گزارشات

غبارِخاطر: حلال گوشت کا مسئلہ اور ہمارا کردار؛ حجاج و معتمرین سے چند گزارشات
اس وقت پوری امت کو مختلف قسم کے مسائل درپیش ہیں اور ہر طرف ایک محاذ کھلا ہوا ہے، اس وقت میں مسلمانوں کا ایک دوسرے پر بلا تحقیق تبصرے کرنا کسی طور پر درست نہیں، اس وقت من حیث الامة ایک دوسرے کا سہارا بننے کی ضرورت ہے، اسی تناظر میں آج کے دور میں ہمارے حجاج کرام و معتمرین حضرات سفر پر جانے سے قبل اور دوران سفر ایک ہی مسئلہ کو موضوع سخن بنائے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ ہے:
سعودی عرب میں حلال گوشت کا مسئلہ
گویا اس موضوع پر ہر خاص و عام اگر گفتگو نہ کرے تو اس کا یہ مبارک سفر مقبول نہ بنے، اسی کے تناظر میں چند گزارشات پیش ہیں:
1- یہ بات واضح رہے کہ سعودی حکومت ایک مسلم حکومت ہے اور وہاں غیر مسلم ممالک سے آئے گوشت کی گواہی کوئی غیر مسلم نہیں دیتا بلکہ وہاں مسلم تنظیمیں یہ کام کرتی ہیں، چونکہ خبر مسلم دیانات و عبادات میں حجت ہے، اس لئے اگر وہاں کوئی مقامی ہوٹل والا اگر یہ کہتا ہے کہ یہ گوشت وطنی (حلال) ہے تو اس میں شک و شبہ کرنا درست نہیں۔
2- دوسروں پر تبصرہ کرنے اور تقوی لازم کرنے سے قبل اپنے آپ کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم خود کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں؟
3- حج و عمرہ مخصوص وقت کی عبادت ہے اور پنج وقتہ نماز روزانہ کی عبادت ہے، کیا ہم نے روز مرہ کی عبادت کی اتنی فکر کی ہے جتنی اس مخصوص وقتی عبادت کی ہم فکر کرتے ہیں؟
4- جس طرح کلهم علی الحق کے کلمہ پر امت متحد ہوئی ہے، اسی طرح سعودی عرب کے مقامی علماء کی تمام آراء کو احترام کی نظر سے دیکھا جائے تو امید ہے کہ یہ دوریاں ختم ہوجائیں گی۔
5- آج کل ایسے موضوعات کو اچھالنے کا مقصد حلال کا فروغ کم ہے اور مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے تقدس اور وہاں کے باشندوں کی عظمت کو اچھالنا زیادہ ہے، اس لئے اس مسئلے میں ہمارے اہل علم و عوام کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
مرشدی عارف باللہ حضرت واصف منظور صاحب نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی حجاج اور معتمرین سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھے گا، یہ نہیں پوچھے گا سعودی عرب والے کونسا گوشت کھلاتے رہے، ایک موقع پر فرمایا کہ جس ملک کے گوشت پر علماء کو اطمینان ہو تو کھالو اور جس پر اطمینان نہیں ہو تو چھوڑ دو اور اگر نہیں کھانا چاہتے تو نہ کھاؤ، چالیس دن گوشت نہ کھاکر موت نہیں آجاتی مگر وہاں جاکر وہاں والوں کی برائی کرنا ناپسندیدہ ہے۔
حضرت مولانا سعید احمد خان صاحب مہاجر مدنی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ تمہاری زبانیں اہل حرمین کی برائی میں استعمال نہ ہو."
آج کل ایک فضا بن گئی ہے کہ عمومی طور پر عازم حج و عمرہ اور زائر دیار نبوی کو پتہ کچھ نہیں ہوتا، بس چند باتیں سن کر ان پر اہل حرمین پر فتوے لگا کر اپنے حج و عمرہ کو ضائع کرتا ہے۔
اس لئے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر سعودی عرب میں کہیں اعتماد کے ساتھ حلال گوشت مل جائے تو کھانے میں تکلف نہ کیجئے البتہ کہیں تحقیق نہ ہو تو خدارا سعودی حکومت کی بے اکرامی کرکے اور ان کا دینی تشخص بگاڑ کر وہاں کے گوشت کو حرام کہنے سے اجتناب کریں اور احتیاط کا دامن تھام رکھیں اور ان کے بارے میں گفتگو کرنے میں محتاط رہیں، ذیل میں دو اہم بڑے اداروں کے فتاوی پیش خدمت ہیں:
١- جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتوی:
١- برازیل اور اس جیسے دیگر غیر مسلم ممالک سے درآمد کی ہوئی مرغی کے بارے میں جب یقین ہوکہ یہ شرعی اصول کے مطابق ذبح شدہ ہے تو وہ حلال ہے، ورنہ نہیں۔
٢- اسی طرح مسلم ملک میں شرعی طریقے سے ذبح شدہ مرغی بھی حلال ہے، صرف شک کی بنیاد پر وہ حرام نہیں ہوتی۔
٣- مسلم ممالک کے ہوٹلوں میں غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ کوئی حرام چیز کھانے میں استعمال نہیں کرتے، تاہم اگر کسی ہوٹل کے بارے میں یہ یقین ہوکہ وہاں حرام مرغی، گوشت یا کوئی اور حرام چیز استعمال ہورہی ہے تو اس ہوٹل میں کھانے سے اجتناب کیا جائے، 
(فتوی نمبر: 143409200066/www.banuri.edu.pk)
٢- جامعہ دارالعلوم کراچی کا فتوی:
آجکل مختلف ملکوں میں مشینی ذبیحے کے جو فارم ہیں ان سے نکلی ہوئی مرغیوں کے گوشت کو نہ مطلقا حلال کہا جاسکتا ھے نہ مطلقا حرام، جن فارموں میں شرعی شرائط کا لحاظ رکھا جاتا ہو، ان کی مرغیوں کا گوشت حلال ہے، اور جہاں یہ شرائط نہ پائی جائیں وہاں کے گوشت کو حلال نہیں کہا جاسکتا، ان شرائط کی تفصیل حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم کی کتاب احکام الذبائح میں مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
١- جانور ذبح ہونے سے پہلے بے ہوش کرنے کے دوران مر نہ جاتا ہو بلکہ وہ ذبح ہونے تک زندہ ہو۔
٢- ذبح کی نسبت معقول طریقے سے کسی انسان کی طرف کی جاسکتی ہو چاہے مسلمان ہو یا کوئی اہل کتاب یہودی یا نصرانی ہو، اور عیسائیت یا یہودیت پر قائم ہو، دہریہ اور لامذہب نہ ہو۔
٣- ذبح کرنے والے نے ہر جانور کے ذبح کرتے وقت خالص اللہ کا نام لیا ہو۔
٤- جانور کے گلے کی چار رگوں میں سے کم سے کم تین کٹی ہوں۔
٥- بسم اللہ اور ذبح کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہ ہو. (تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو "احکام الذبائح" از حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم)
لہذا جن مرغیوں کے بارے میں صراحت کے ساتھ معلوم ہو کہ یہ ان شرائط کے مطابق ذبح کی گئی ہیں ان کا کھانا جائز ہے، اور جن کے بارے میں صراحت سے معلوم ہوکہ مذکورہ شرائط کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو ان کا کھانا جائز نہیں، البتہ اگر کوئی گوشت مسلمانوں کی طرف سے حلال سرٹیفکیٹ کے ساتھ فروخت کیا جارہا ہو اور یہ تفصیل معلوم نہ ہو کہ جس فارم میں وہ ذبح کیا گیا ہے اس میں شرعی شرائط پوری ہوئی ہیں یا نہیں، تو چونکہ بکثرت غیر مسلم ممالک سے ایسا گوشت درآمد ہوتا ہے، اور بہت سی مثالیں ایسی سامنے آئی ہیں جن میں غیر ذمہ دارانہ طور پر حلال کے سرٹیفکیٹ جاری کر دیئے گئے ہیں، اس لئے احتیاط اس میں ہے کہ ایسی مرغی کے گوشت سے پرہیز کیا جائے، لیکن ایسی صورت میں حاجت کے وقت خریدار کو اسکے کھانے میں معذور قرار دینے کی گنجائش ہے، جسکی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں :
○ مسلمان ملک میں حلال کہہ کر گوشت بیچا یا کھلایا جارہا ہو تو اس میں اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہو، اور عام حالات میں یہ تحقیق ضروری نہیں ہے کہ وہ کہاں ذبح ہوا؟ اور کس نے کس طرح ذبح کیا؟ جیسا کہ مندرجہ ذیل عبارات سے معلوم ہوتا ہے:
عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل أحدكم على أخيه المسلم فلياكل من طعامه ولا يسأل
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم کسی مسلمان کے پاس جاؤ تو اس کے پاس جو کھانا ہو اس کو کھالو اور اس سے سوال نہ کرو (کہ یہ کہاں سے آیا یا کیسے آیا)
ملا علی قاری رحمہ اللہ مرقاة شرح مشکوة (١٦٧/١٠) میں لکھتے ہیں:
ولایسال فانه قد یتاذی بالسؤال و ذلک إذا لم یعلم فسقه
○ مسلمان کی خبر دیانات میں معتبر ہوتی ہے کما فی الھندیة (٣٠٨/٥):
خبرالواحد يعتبر فى الديانات كالحل و الحرمة والطهارة والنجاسة إذا كان مسلما

مذکورہ بالا اصولوں کا تقاضہ یہی ہے کہ مسلم ممالک میں حلال کہہ کر فروخت کیا جانے والا گوشت حلال ہے، البتہ چونکہ مشرقی وسطی کے ممالک میں یہ شبہ رہتا ہے کہ شائد شرعی شرائط پورے نہ کئے گئے ہوں، لہذا گوشت حلال نہیں ہونا چاہئے، لیکن درحقیقت یہ شبه الشبه ہے اور اس کی  بنیاد پر اصل قاعدے کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔
لہٰذا مسلمان ممالک میں مسلمان کے فروخت کردہ گوشت کو حلال سمجھا جائیگا تاہم پوری صورتحال واضح ہونے تک کوئی اپنے طور پر اجتناب کرنا چاہے تو بہتر ہے.
(تلخیص از فتوی دارالعلوم کراچی. رقمه: محمد سالم ٢ مئی ٢٠١٥)
اس فتوے پر دارالعلوم کراچی کے تمام اکابر کے دستخط بھی موجود ہیں، حضرت مفتی محمود اشرف صاحب مدظلہم نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے:
اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اس اسلامی ملک کی حکومت نے اپنے ملک میں حرام چیز لانے پر پابندی لگائی ہے اور اس کیلئے ایک ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے اور اس ملک کے اکثر علماء اس کو حلال سمجھ کر استعمال کرتے ہیں تو یہ شبہ اور بھی کمزور ہوجائیگا۔
واللہ اعلم بالصواب۔ (بلندیات)
٦ اگست ٢٠١٨
(١٠ جولائی ٢٠١٦ کو لکھی گئی ایک تحریر کچھ ترمیم و اضافہ کے ساتھ پیش خدمت ہے)

No comments:

Post a Comment