مرزائیوں کا کفر
1974 میں___ جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔۔ مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔ متشرع سفید داڑهی۔ قرآن کی آیتیں بهی پڑھ رہے تهے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف بهی پڑھتے۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسے میں ارکان اسمبلی کہ ذہنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تها۔ ماہ نامہ ”الحق اکوڑہ خٹک“ کے شمارہ جنوری 1975 کے صفحہ نمبر 41 پر بیان فرماتے ہیں۔۔۔
”یہ مسجلہ بہت بڑا اور مشکل تها.“
اللہ کی شان کہ پورے ایوان کی طرف سے مفتی محمود صاحب کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور مفتی صاحب نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ حوالے نوٹ کئے۔ سوالات ترتیب دیئے۔ اسی کا نتیجہ تها کہ مرزا طاہر قادیانی کے طویل بیان کے بعد جرح کا جب آغاز ہوا تو اسی ”الحق رسالے“ میں مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں کہ:
”ہمارا کام پہلے ہی دن بن گیا.“
اب سوالات مفتی صاحب کی طرف سے اور جوابات مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے آپ کی خدمت میں۔۔۔۔
__________________________
سوال۔ مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔ وہ امتی نبی تهے۔ امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کرلے۔
سوال۔ اس پر وحی آتی تهی؟
جواب۔ آتی تهی۔
سوال۔ (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟
جواب۔ بالکل نہیں۔
سوال۔ مرزا قادیانی نے لکها ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا، خواہ اس کو میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے۔ پکا کافر۔ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس عبارت سے تو ستر کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟
جواب۔ کافر تو ہیں۔ لیکن چهوٹے کافر ہیں.“ جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں ”کفردون کفر“ کی روایت درج کی ہے۔
سوال۔ آگے مرزا نے لکها ہے۔ پکا کافر؟
جواب۔ اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال۔ آگے لکها ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ حالانکہ چهوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟
جواب۔ دراصل دائرہ اسلام کے کئی کٹیگیریاں ہیں۔ اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض سے نہیں نکلا ہے۔
سوال. ایک جگہ اس نے لکها ہے کہ جہنمی بهی ہیں؟
1974 میں___ جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔۔ مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔ متشرع سفید داڑهی۔ قرآن کی آیتیں بهی پڑھ رہے تهے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف بهی پڑھتے۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسے میں ارکان اسمبلی کہ ذہنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تها۔ ماہ نامہ ”الحق اکوڑہ خٹک“ کے شمارہ جنوری 1975 کے صفحہ نمبر 41 پر بیان فرماتے ہیں۔۔۔
”یہ مسجلہ بہت بڑا اور مشکل تها.“
اللہ کی شان کہ پورے ایوان کی طرف سے مفتی محمود صاحب کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور مفتی صاحب نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ حوالے نوٹ کئے۔ سوالات ترتیب دیئے۔ اسی کا نتیجہ تها کہ مرزا طاہر قادیانی کے طویل بیان کے بعد جرح کا جب آغاز ہوا تو اسی ”الحق رسالے“ میں مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں کہ:
”ہمارا کام پہلے ہی دن بن گیا.“
اب سوالات مفتی صاحب کی طرف سے اور جوابات مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے آپ کی خدمت میں۔۔۔۔
__________________________
سوال۔ مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔ وہ امتی نبی تهے۔ امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کرلے۔
سوال۔ اس پر وحی آتی تهی؟
جواب۔ آتی تهی۔
سوال۔ (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟
جواب۔ بالکل نہیں۔
سوال۔ مرزا قادیانی نے لکها ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا، خواہ اس کو میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے۔ پکا کافر۔ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس عبارت سے تو ستر کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟
جواب۔ کافر تو ہیں۔ لیکن چهوٹے کافر ہیں.“ جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں ”کفردون کفر“ کی روایت درج کی ہے۔
سوال۔ آگے مرزا نے لکها ہے۔ پکا کافر؟
جواب۔ اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال۔ آگے لکها ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ حالانکہ چهوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟
جواب۔ دراصل دائرہ اسلام کے کئی کٹیگیریاں ہیں۔ اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض سے نہیں نکلا ہے۔
سوال. ایک جگہ اس نے لکها ہے کہ جہنمی بهی ہیں؟
(یہاں مفتی صاحب فرماتے ہیں جب قوی اسمبلی کے ممبران نے جب یہ سنا تو سب کے کان کهڑے ہوگئے کہ اچها ہم جہنمی ہیں اس سے ممبروں کو دهچکا لگا)
اسی موقع پر دوسرا سوال کیا کہ مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبر یا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہم امتی نبی تهے؟
جواب۔ نہیں تھے۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے کہا پهر تو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہیں۔ تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہو۔ تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔ اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
جواب۔ وہ فنا فی الرسول تهے۔ یہ ان کا اپنا کمال تها۔ وہ عین محمد ہوگئے تهے (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تهی)
سوال۔ مرزا غلام قادیانی نے اپنے کتابوں کے بارے میں لکها ہے۔ اسے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔ اور ان کے معارف سے نفع اٹهاتا ہے۔ مجهے قبول کرتا ہے۔ اور (میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔ مگر (ذزیتہ البغایا) بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکهی ہے۔ وہ مجهے قبول نہیں کرتے؟
جواب۔ بغایا کے معنی سرکشوں کے ہیں۔
سوال۔ بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے
”و ما کانت امک بغیا.“: سورہ مریم)
ترجمہ: ہے تیری ماں بدکارہ نہ تهی.“
جواب۔ قرآن میں بغیا ہے۔ بغایا نہیں۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔ نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بهی مذکور ہے یعنی:
”البغایا للاتی ینکحن انفسهن بغیر بینه“
(پھر جوش سےکہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بغیه کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہرگز نہیں کرکے دکهاسکتے۔!!!
(اور مرزا طاہر لاجواب ہوا یہاں)
13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گهڑی آئی تو 22 اگست 1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔ جن میں مفتی محمود صاحب، مولانا شاہ احمد نورانی صاحب، پروفیسر غفور احمد صاحب، چودھری ظہور الہی صاحب، مسٹر غلام فاروق صاحب، سردار مولا بخش سومرو صاحب اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب تهے۔ ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانون طور پر اس کا حل نکالیں۔ تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے کفر کو درج کردیا جائے۔ لیکن اس موقع پر ایک اور مناظرہ منتظر تها۔۔۔۔۔
جواب۔ نہیں تھے۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے کہا پهر تو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہیں۔ تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہو۔ تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔ اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
جواب۔ وہ فنا فی الرسول تهے۔ یہ ان کا اپنا کمال تها۔ وہ عین محمد ہوگئے تهے (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تهی)
سوال۔ مرزا غلام قادیانی نے اپنے کتابوں کے بارے میں لکها ہے۔ اسے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔ اور ان کے معارف سے نفع اٹهاتا ہے۔ مجهے قبول کرتا ہے۔ اور (میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔ مگر (ذزیتہ البغایا) بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکهی ہے۔ وہ مجهے قبول نہیں کرتے؟
جواب۔ بغایا کے معنی سرکشوں کے ہیں۔
سوال۔ بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے
”و ما کانت امک بغیا.“: سورہ مریم)
ترجمہ: ہے تیری ماں بدکارہ نہ تهی.“
جواب۔ قرآن میں بغیا ہے۔ بغایا نہیں۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔ نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بهی مذکور ہے یعنی:
”البغایا للاتی ینکحن انفسهن بغیر بینه“
(پھر جوش سےکہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بغیه کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہرگز نہیں کرکے دکهاسکتے۔!!!
(اور مرزا طاہر لاجواب ہوا یہاں)
13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گهڑی آئی تو 22 اگست 1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔ جن میں مفتی محمود صاحب، مولانا شاہ احمد نورانی صاحب، پروفیسر غفور احمد صاحب، چودھری ظہور الہی صاحب، مسٹر غلام فاروق صاحب، سردار مولا بخش سومرو صاحب اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب تهے۔ ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانون طور پر اس کا حل نکالیں۔ تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے کفر کو درج کردیا جائے۔ لیکن اس موقع پر ایک اور مناظرہ منتظر تها۔۔۔۔۔
کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح تیرہ روز تک جاری رہی۔گیارہ دن ربوہ گروپ پر اور دو دن لاہوری گروپ پر۔ ہر روز آٹھ گھنٹے جرح ہوئی۔ اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کرکے رکھ دیا۔ اس کے بعد ایک اور مناظرہ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت سے شروع ہوا کہ آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا ”حاصل مغز“ کیسے لکھا جائے؟
مسلسل بحث مباحثہ کے بعد۔۔۔۔۔۔
__________________________
22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے بہت سے اجلاس ہوئے۔ مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔ سب سے زیادہ جهگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسلے پر ہوا۔ حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو۔ اس دفعہ 106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی تهی۔ ایک بلوچستان میں۔ ایک سرحد میں، ایک دو سندھ میں اور پنجاب میں تین سیٹیں اور کچھ 6 اقلیتوں کے نام بهی لکهے ہیں۔ عیسائی، ہندو، پارسی، بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچهوت۔
مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے تهے کہ ان 6 کی قطار میں قادیانیوں کو بهی شامل کیا جائے۔ تاکہ کوئی "شبہ" باقی نہ رہے۔
اس کے لیے بهٹو حکومت تیار نہ تهی۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا: اس بات کو رہنے دو۔
مفتی محمود صاحب نے کہا: جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بهی لکھ دیں۔
پیرزادہ نے جواب دیا کہ: ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تها کہ ہمارا نام لکھا جائے۔ جب کہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں ہے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ: یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے انہیں دے رہے ہیں (کمال کا جواب)
اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک کمیٹی کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی۔ چنانچہ 6 ستمبر کو وزیراعظم بهٹو نے مفتی محمود سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا۔ لیکن یہاں بهی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔ حکومت کی کوشش تهی کہ دفعہ 106 میں ترمیم کا مسئلہ رہنے دیا جائے۔
جب کہ مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان سمجهتے تهے کہ اس کے بغیر حل ادهورا رہے گا۔
بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بهٹو صاحب نے کہا کہ میں سوچوں گا۔
عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مفتی صاحب اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ مفتی محمود صاحب اور کمیٹی نے وہاں بهی اپنے اسی موقف کو دہرایا کہ دفعہ 106 میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام لکها اور اس کی تصریح کی جائے۔
اور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکها جائے۔
پیرزادہ صاحب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔
مفتی محمود صاحب نے کہا کہ احمدی تو ہم ہیں۔ ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔پهر کہا کہ چلو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو۔
وزیر قانون نے نکتہ اٹهایا کہ آئین میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا (حالانکہ محمد علی جناح کا نام آئین میں موجود ہے) اور پهر سوچ کر بولے کہ مفتی صاحب مرزا کا نام ڈال کر کیوں آئین کو پلید کرتے ہو؟ وزیر قانون کا خیال تها شاید مفتی محمود صاحب اس حیلے سے ٹل جائیں گے۔ (لیکن مفتی تو پهر مفتی صاحب تهے)
مفتی صاحب نے جواب دیا کہ شیطان۔ابلیس۔ خنزیر اور فرعون کے نام تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔ کیا ان ناموں سے نعوذ باللہ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا ہے؟
اس موقع پر وزیر قانون پیرزادہ صاحب لاجواب ہوکر کہنے لگے:
چلو ایسا لکھ دو جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔
مفتی صاحب نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکهتا ہے۔ صرف وضاحت کے لئے ہوتا ہے۔ لہذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ۔ لاہوری گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں۔ اور پهر الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔
تاریخی فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔۔
7 ستمبر 1974 ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تها جب 1953 اور 74 کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا۔ اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔
”جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکهتا ہو۔ اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بهی معنی و مطلب یا کسی بهی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔ وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔
اور دفعہ 106 کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔۔۔۔۔
بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لئے مخصوص نشستیں ہوں گی جو عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانیوں گروہ یا لاہوری افراد (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکهتے ہیں۔ (ان کی) بلوچستان میں ایک سرحد میں ایک، پنجاب میں تین، اور سندھ میں دو سیٹیں ہوں گی، یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے۔کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بهی ووٹ نہیں آیا۔( آجاتا اگر غامدی صاحب اس وقت موجود ہوتے) اس موقع پر اس مقدمہ کے قائد مفتی محمود رحمہ اللہ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔
اس فیصلے پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔ میرے خیال میں مرزائیوں کو بهی اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہئے۔کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے۔ اور پهر فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں (ملک کے) الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں
مسلسل بحث مباحثہ کے بعد۔۔۔۔۔۔
__________________________
22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے بہت سے اجلاس ہوئے۔ مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔ سب سے زیادہ جهگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسلے پر ہوا۔ حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو۔ اس دفعہ 106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی تهی۔ ایک بلوچستان میں۔ ایک سرحد میں، ایک دو سندھ میں اور پنجاب میں تین سیٹیں اور کچھ 6 اقلیتوں کے نام بهی لکهے ہیں۔ عیسائی، ہندو، پارسی، بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچهوت۔
مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے تهے کہ ان 6 کی قطار میں قادیانیوں کو بهی شامل کیا جائے۔ تاکہ کوئی "شبہ" باقی نہ رہے۔
اس کے لیے بهٹو حکومت تیار نہ تهی۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا: اس بات کو رہنے دو۔
مفتی محمود صاحب نے کہا: جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بهی لکھ دیں۔
پیرزادہ نے جواب دیا کہ: ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تها کہ ہمارا نام لکھا جائے۔ جب کہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں ہے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ: یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے انہیں دے رہے ہیں (کمال کا جواب)
اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک کمیٹی کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی۔ چنانچہ 6 ستمبر کو وزیراعظم بهٹو نے مفتی محمود سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا۔ لیکن یہاں بهی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔ حکومت کی کوشش تهی کہ دفعہ 106 میں ترمیم کا مسئلہ رہنے دیا جائے۔
جب کہ مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان سمجهتے تهے کہ اس کے بغیر حل ادهورا رہے گا۔
بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بهٹو صاحب نے کہا کہ میں سوچوں گا۔
عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مفتی صاحب اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ مفتی محمود صاحب اور کمیٹی نے وہاں بهی اپنے اسی موقف کو دہرایا کہ دفعہ 106 میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام لکها اور اس کی تصریح کی جائے۔
اور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکها جائے۔
پیرزادہ صاحب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔
مفتی محمود صاحب نے کہا کہ احمدی تو ہم ہیں۔ ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔پهر کہا کہ چلو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو۔
وزیر قانون نے نکتہ اٹهایا کہ آئین میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا (حالانکہ محمد علی جناح کا نام آئین میں موجود ہے) اور پهر سوچ کر بولے کہ مفتی صاحب مرزا کا نام ڈال کر کیوں آئین کو پلید کرتے ہو؟ وزیر قانون کا خیال تها شاید مفتی محمود صاحب اس حیلے سے ٹل جائیں گے۔ (لیکن مفتی تو پهر مفتی صاحب تهے)
مفتی صاحب نے جواب دیا کہ شیطان۔ابلیس۔ خنزیر اور فرعون کے نام تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔ کیا ان ناموں سے نعوذ باللہ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا ہے؟
اس موقع پر وزیر قانون پیرزادہ صاحب لاجواب ہوکر کہنے لگے:
چلو ایسا لکھ دو جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔
مفتی صاحب نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکهتا ہے۔ صرف وضاحت کے لئے ہوتا ہے۔ لہذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ۔ لاہوری گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں۔ اور پهر الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔
تاریخی فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔۔
7 ستمبر 1974 ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تها جب 1953 اور 74 کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا۔ اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔
”جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکهتا ہو۔ اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بهی معنی و مطلب یا کسی بهی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔ وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔
اور دفعہ 106 کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔۔۔۔۔
بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لئے مخصوص نشستیں ہوں گی جو عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانیوں گروہ یا لاہوری افراد (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکهتے ہیں۔ (ان کی) بلوچستان میں ایک سرحد میں ایک، پنجاب میں تین، اور سندھ میں دو سیٹیں ہوں گی، یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے۔کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بهی ووٹ نہیں آیا۔( آجاتا اگر غامدی صاحب اس وقت موجود ہوتے) اس موقع پر اس مقدمہ کے قائد مفتی محمود رحمہ اللہ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔
اس فیصلے پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔ میرے خیال میں مرزائیوں کو بهی اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہئے۔کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے۔ اور پهر فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں (ملک کے) الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں
(نوٹ) احباب سے لائیک کمنٹس کی حاجت نہیں۔ بس مودبانہ درخواست ہے کہ ختم نبوت کی اس آگاہی مہم میں ساتھ دیں۔ اور اسے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں،
یہ ہمارے بڑوں کی جہدوجہد ہے۔ جسے ہم اپنی نئی نسل تک ٹکڑوں ٹکڑوں میں سہی لیکن یہ کاوشیں پہنچا پائیں۔
یہ ہمارے بڑوں کی جہدوجہد ہے۔ جسے ہم اپنی نئی نسل تک ٹکڑوں ٹکڑوں میں سہی لیکن یہ کاوشیں پہنچا پائیں۔
No comments:
Post a Comment