لائے ہیں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے
جس طرح نبوت ورسالت کسبی نہیں کہ جو چاہے اپنی ریاضت ومحنت سے حاصل کرلے، ٹھیک اسی طرح اس کے علوم بھی کسبی نہیں بلکہ خالص عطیہ خداوندی اور موہبت ربانی ہیں۔
خدا تعالی نے علوم نبوت کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے:
"وعلمناه من لدنا علما"
ان علوم کے حاملین کا انتخاب بھی منجانب اللہ ہوتا ہے۔
من يرد الله به خيرا يفقه في الدين.
قرآن وحدیث کے علوم کی تحصیل کے لئے جن کا انتخاب ہوجائے وہ قسمت کے دھنی اور بڑے خوش نصیب ہیں۔
اس علم کی عظمت ورفعت شان کا تقاضہ ہے کہ اسے ہر چیز سے ماوراء ہوکے حاصل کیا جائے۔
کیونکہ بغیر قلبی جمعیت اور ذہنی یکسوئی کے اس علم کی تحصیل تقریبا ناممکن ہے۔ ذہنی انتشار اور ماورائے علم سے روابط و تعلقات محرومی کا باعث بنتی ہیں۔
ہمہ تن مصروف عمل ہوئے بغیر مقصد میں درک وکمال مشکل ہے۔۔۔۔
لايعطيك علم بعضه حتى تعطيه كلك.
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ سے دور طالب علمی میں بیعت کی درخواست کی تھی جسے حضرت گنگوہی نے رد فرماتے ہوئے ختم کتب وفراغت پہ موقوف فرمادیا۔
خدا تعالی نے علوم نبوت کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے:
"وعلمناه من لدنا علما"
ان علوم کے حاملین کا انتخاب بھی منجانب اللہ ہوتا ہے۔
من يرد الله به خيرا يفقه في الدين.
قرآن وحدیث کے علوم کی تحصیل کے لئے جن کا انتخاب ہوجائے وہ قسمت کے دھنی اور بڑے خوش نصیب ہیں۔
اس علم کی عظمت ورفعت شان کا تقاضہ ہے کہ اسے ہر چیز سے ماوراء ہوکے حاصل کیا جائے۔
کیونکہ بغیر قلبی جمعیت اور ذہنی یکسوئی کے اس علم کی تحصیل تقریبا ناممکن ہے۔ ذہنی انتشار اور ماورائے علم سے روابط و تعلقات محرومی کا باعث بنتی ہیں۔
ہمہ تن مصروف عمل ہوئے بغیر مقصد میں درک وکمال مشکل ہے۔۔۔۔
لايعطيك علم بعضه حتى تعطيه كلك.
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ سے دور طالب علمی میں بیعت کی درخواست کی تھی جسے حضرت گنگوہی نے رد فرماتے ہوئے ختم کتب وفراغت پہ موقوف فرمادیا۔
امام مسلم رحمہ اللہ ایک حدیث کی تلاش وجستجو میں کھجور کا پورا ٹوکرا کھاگئے اورعشق مقصد میں انہماک نے احساس تک نہ ہونے دیا اور پھر یہی "کمال جستجو" موت کا سبب بھی بنا۔
علامہ عبد الحی فرنگی محلی رحمہ اللہ دوران مطالعہ انڈی کا تیل پی گئے اور پتہ تک نہ چلا۔ شاہ عبد القادر رائے پوری رحمہ اللہ دور طالب علمی میں گھر سے آئے خطوط ایک گھڑا میں جمع کرتے رہے اور کبھی چند سطری خط پڑھنے تک کی زحمت نہ فرمائی۔
علامہ عبد الحی فرنگی محلی رحمہ اللہ دوران مطالعہ انڈی کا تیل پی گئے اور پتہ تک نہ چلا۔ شاہ عبد القادر رائے پوری رحمہ اللہ دور طالب علمی میں گھر سے آئے خطوط ایک گھڑا میں جمع کرتے رہے اور کبھی چند سطری خط پڑھنے تک کی زحمت نہ فرمائی۔
مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ دیوبند کے رہائشی ہونے کے باوجود دیوبند کی سڑکوں تک سے مکمل واقف نہ تھے۔ احاطہ مولسری اور آستانہ شیخ الہند کے سوا ساری چیزوں سے بیگانہ تھے۔۔۔
ہمارے اکابر علماء دین واسلاف کرام نے اسی امتیازی شان کے ساتھ علوم نبویہ کی تحصیل میں لگے اور پھر ایسے محقق، محدث، مفسر، متکلم، قاضی، مفتی اور مصنف ومولف امت کو ملے جن کی فکر آفاقی، نگاہ افلاکی اورپرواز لولاکی تھی۔
علوم ومعرفت کے بحر ناپیدا کنار، غور وتدبر، استنباط واستخراج کی صلاحیتوں سے مالا مال۔ عشق مقصد میں کمال جنون کا یہ عالم کہ "پانے کا خمار ہو نہ کھونے کا آزار" شوق کمال نہ خوف زوال۔
جن کی جوتیوں میں سلاطین ونواب وقت "گنج گرانمایہ" نچھاور کردینے کو فخر سمجھیں۔
جن کی تحقیق وتدقیق اور تلاش وجستجو ایسی کہ "قطرے میں دجلہ اور ذرے میں صحراء" کا گمان ہوچلے۔
پر شومی قسمت اور حالات کی ستم ظریفی کہ اب سوز عشق اور جستجوئے پیہم سے عاری طلبہ کی بعض ایسی ٹیم (افراد کی بات ہے۔ کلیات کی نہیں) "ارزاں وفراواں" نظر آتی ہے جو علم وتحقیق کو "حرز جاں" اور "ورد زبان" بنانے کی بجائے حدیث وفقہ پڑھنے والی تپائیوں کے اوٹ میں ہی فیس بک ، ٹوئیٹر ، وہاٹس ایپ اور دیگر سماجی روابط کی سائٹس کے پیچھے "مثل شمع " پگھل رہے ہیں۔
درسیات میں پختگی، خوش سے "خوش تر کی تلاش" صلاحیت ولیاقت میں استحکام، اور مطالعہ وکتب بینی میں شب گزاری کی جگہ "فیس بک پہ تبصرے، ٹوئیٹر پہ چٹ پٹے اور چٹخارے ٹوئٹ اور ٹرینڈ چلانے پہ ساری توانائیاں صرف ہورہی ہیں۔۔ اپنے درجہ میں امتیازی نمبرات وپوزیشن لانے کی جستجو کی بجائے سوشلستان میں تعارف اور تشہیر کا خطرناک رجحان پنپ رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب بعض "بونے اور کوتاہ قامت" ایسے فضلاء سے ملاقات ہوجاتی ہے جو فراغت کے بعد "روشن خیالی" کا سارا نزلہ اچانک "ڈاڑھی اور ٹوپی" ہی پہ اتار ڈالتے ہیں!
اسمارٹ موبائل کے پرستار طلبہ دین میں سوشلستان کی سیر (سیر جہاں) جنون، کافی تشویشناک بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔
ضرورت کو ضرورت کے دائرے میں رکھتے ہوئے استفادہ کی راہ تلاش کی جائے۔ جن علمائے دیوبند سے انتساب کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے دور طالب علمی میں "بیعت" تک سے منع کردیا۔ انہی کے نام لیوا آج فیس بک اور ٹوئیٹر پہ متحرک وفعال رہ کے علمی کمال کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ کیا اس صورت حال میں کبھی "اوجز"اعلاء السنن" بذل المجہود جیسا کارنامہ انجام پاسکتا ہے؟؟
ہر کام کے لئے آدمی ہے۔ اور ہر آدمی کے لئے کام ہے۔ خدارا اس تقسیم کو سمجھتے ہوئے اپنا قبلہ درست کیجئے!
پہلے لوگ کتابیں کھنگال کے فتوی دیتے تھے
پہر بھی کچھ لکھتے ہوئے دل کانپتا تھا اور کئی دیگر ماہر و مشاق مفتیوں کے دستخط لئے جاتے تھے
آج مسجد کے مؤذن اور مکتب کے حافظ جی بھی
فتوی نہیں، فتاوی پیسٹ کررہے ہیں
اردو کتب فتاوی پی ڈی ایف
یا ایپلیکیشن میں دستیاب کیا ہوئی کہ بعض لوگوں کی چاندنی ہوگئی اور مسند افتاء پہ بیٹھے حقیقی مفتیوں کے لئے درد سر اور لمحہ فکریہ!
آگے پیچھے سوچنا تو دور!
چپکائی جانے والی چیز کو پڑھنے اور اسے سمجھنے تک کی صلاحیت سے یہ لوگ کورے ہوتے ہیں
وہاٹس ایپ ، ٹیلی گرام وغیرہ
ایسے پلیٹ فارم ہیں
جن میں شخصیات کی کماحقہ شناخت ہوتی نہیں ہے
اس لئے ان سماجی روابط کی سائٹوں کے دبیز پردے کے پیچھے فتاوی اور مفتیوں کی بہار آئی ہوئی ہے
جیسے غیر مقلدین
بات بات پہ بخاری کی حدیث کا مطالبہ کردیتے ہیں
کچھ ایسا ہی اب یہاں بھی ہورہا ہے
لمحہ بھر کی تاخیر کے بغیر
“پیسٹی مُہَکِّکِین“ مکمل اردو فتاوی بعینہ چپکا ڈالتے ہیں
خدا جانے یہ سلسلہ کہاں تک منتج ہوگا؟
روضة الأطفال وناظرہ کی درسگاہوں میں بیٹھے اساتذہ جب فتوی فتوی کھیلیں گے تو وہ اپنے متعلقہ طلبہ کے ساتھ کیسا انصاف کرتے ہونگے ؟ یہ بات بتانے کی نہیں!
بہت ہی تباہ کن صورت حال پیدا ہوچکی ہے
مادر علمی کی طرف سے ملٹی میڈیا موبائل پہ پابندی کا فیصلہ بڑا ہی خوش آئند اور دور رس نتائج کا حامل اقدام ہے۔
ارباب مدارس کو اس جانب گہرے غور وفکر اور اس نئے فتنہ کے تدارک اور سد باب کی جانب موثر لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے
واللہ اعلم
شكيل منصور القاسمي
علوم ومعرفت کے بحر ناپیدا کنار، غور وتدبر، استنباط واستخراج کی صلاحیتوں سے مالا مال۔ عشق مقصد میں کمال جنون کا یہ عالم کہ "پانے کا خمار ہو نہ کھونے کا آزار" شوق کمال نہ خوف زوال۔
جن کی جوتیوں میں سلاطین ونواب وقت "گنج گرانمایہ" نچھاور کردینے کو فخر سمجھیں۔
جن کی تحقیق وتدقیق اور تلاش وجستجو ایسی کہ "قطرے میں دجلہ اور ذرے میں صحراء" کا گمان ہوچلے۔
پر شومی قسمت اور حالات کی ستم ظریفی کہ اب سوز عشق اور جستجوئے پیہم سے عاری طلبہ کی بعض ایسی ٹیم (افراد کی بات ہے۔ کلیات کی نہیں) "ارزاں وفراواں" نظر آتی ہے جو علم وتحقیق کو "حرز جاں" اور "ورد زبان" بنانے کی بجائے حدیث وفقہ پڑھنے والی تپائیوں کے اوٹ میں ہی فیس بک ، ٹوئیٹر ، وہاٹس ایپ اور دیگر سماجی روابط کی سائٹس کے پیچھے "مثل شمع " پگھل رہے ہیں۔
درسیات میں پختگی، خوش سے "خوش تر کی تلاش" صلاحیت ولیاقت میں استحکام، اور مطالعہ وکتب بینی میں شب گزاری کی جگہ "فیس بک پہ تبصرے، ٹوئیٹر پہ چٹ پٹے اور چٹخارے ٹوئٹ اور ٹرینڈ چلانے پہ ساری توانائیاں صرف ہورہی ہیں۔۔ اپنے درجہ میں امتیازی نمبرات وپوزیشن لانے کی جستجو کی بجائے سوشلستان میں تعارف اور تشہیر کا خطرناک رجحان پنپ رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب بعض "بونے اور کوتاہ قامت" ایسے فضلاء سے ملاقات ہوجاتی ہے جو فراغت کے بعد "روشن خیالی" کا سارا نزلہ اچانک "ڈاڑھی اور ٹوپی" ہی پہ اتار ڈالتے ہیں!
اسمارٹ موبائل کے پرستار طلبہ دین میں سوشلستان کی سیر (سیر جہاں) جنون، کافی تشویشناک بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔
ضرورت کو ضرورت کے دائرے میں رکھتے ہوئے استفادہ کی راہ تلاش کی جائے۔ جن علمائے دیوبند سے انتساب کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے دور طالب علمی میں "بیعت" تک سے منع کردیا۔ انہی کے نام لیوا آج فیس بک اور ٹوئیٹر پہ متحرک وفعال رہ کے علمی کمال کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ کیا اس صورت حال میں کبھی "اوجز"اعلاء السنن" بذل المجہود جیسا کارنامہ انجام پاسکتا ہے؟؟
ہر کام کے لئے آدمی ہے۔ اور ہر آدمی کے لئے کام ہے۔ خدارا اس تقسیم کو سمجھتے ہوئے اپنا قبلہ درست کیجئے!
پہلے لوگ کتابیں کھنگال کے فتوی دیتے تھے
پہر بھی کچھ لکھتے ہوئے دل کانپتا تھا اور کئی دیگر ماہر و مشاق مفتیوں کے دستخط لئے جاتے تھے
آج مسجد کے مؤذن اور مکتب کے حافظ جی بھی
فتوی نہیں، فتاوی پیسٹ کررہے ہیں
اردو کتب فتاوی پی ڈی ایف
یا ایپلیکیشن میں دستیاب کیا ہوئی کہ بعض لوگوں کی چاندنی ہوگئی اور مسند افتاء پہ بیٹھے حقیقی مفتیوں کے لئے درد سر اور لمحہ فکریہ!
آگے پیچھے سوچنا تو دور!
چپکائی جانے والی چیز کو پڑھنے اور اسے سمجھنے تک کی صلاحیت سے یہ لوگ کورے ہوتے ہیں
وہاٹس ایپ ، ٹیلی گرام وغیرہ
ایسے پلیٹ فارم ہیں
جن میں شخصیات کی کماحقہ شناخت ہوتی نہیں ہے
اس لئے ان سماجی روابط کی سائٹوں کے دبیز پردے کے پیچھے فتاوی اور مفتیوں کی بہار آئی ہوئی ہے
جیسے غیر مقلدین
بات بات پہ بخاری کی حدیث کا مطالبہ کردیتے ہیں
کچھ ایسا ہی اب یہاں بھی ہورہا ہے
لمحہ بھر کی تاخیر کے بغیر
“پیسٹی مُہَکِّکِین“ مکمل اردو فتاوی بعینہ چپکا ڈالتے ہیں
خدا جانے یہ سلسلہ کہاں تک منتج ہوگا؟
روضة الأطفال وناظرہ کی درسگاہوں میں بیٹھے اساتذہ جب فتوی فتوی کھیلیں گے تو وہ اپنے متعلقہ طلبہ کے ساتھ کیسا انصاف کرتے ہونگے ؟ یہ بات بتانے کی نہیں!
بہت ہی تباہ کن صورت حال پیدا ہوچکی ہے
مادر علمی کی طرف سے ملٹی میڈیا موبائل پہ پابندی کا فیصلہ بڑا ہی خوش آئند اور دور رس نتائج کا حامل اقدام ہے۔
ارباب مدارس کو اس جانب گہرے غور وفکر اور اس نئے فتنہ کے تدارک اور سد باب کی جانب موثر لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے
واللہ اعلم
شكيل منصور القاسمي
مركز البحوث الإسلامية العالمي
muftishakeelahmad@gmail.com
muftishakeelahmad@gmail.com
رابطہ نمبر:
+5978836887
No comments:
Post a Comment