Sunday, 12 August 2018

مذہبی رواداری؛ امرناتھ یاترا کے دوران مسلمانوں کا انہیں پھل پیش کرنا؟

مذہبی رواداری؛ امرناتھ یاترا کے دوران مسلمانوں کا انہیں پھل پیش کرنا؟ 
---------------------------------
----------------------------------
سوال: السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ مفتی صاحب ایک ہندوانہ تہوار ہے اسکے تعلق سے مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی آپکی. ایک ہندوانہ رسم ہے کہ جولائی کے مہینہ میں تمام ہندو لوگ ہریدوار جاتے ہیں اور اسکو گنگا اسنان کہتے ہیں اور وہ تمام حضرات لال کپڑوں میں پیدل جاتے ہیں جیسا کہ انکی ویڈیو فیس بک پر بھی آرہی ہے تو اب جبکہ وہ پیدل چل رہے ہیں تو کچھ ہندو لوگ اپنی سعادت سمجھ کر انکی مفت میں خدمت کرتے ہیں راستوں میں کھانے پینے اور پھلوں کے ذریعے تو کیا کسی مسلمان کا اس کھانے کو اور پھل وغیرہ کو کھانا جائز ہے یا نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ مُسلمانوں کا اسی طرح بطور محبت و بھائی چارگی انکی خدمت کرنا کیسا ہے؟ کیا اس عمل سے انکے مذھب میں مشارکت تو لازم نہیں آئگی؟ جواب مرحمت فرمائیے
المستفتی نورالحسن پرتاپ گڑھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
مذہب، مسلک، رنگ، نسل زبان وتہذیب کی تفریق کے بغیر تمام ہی انسانوں کے ساتھ محبت، مودت، نرمی، مہربانی شرافت، اخلاق وانسانیت  کے ساتھ پیش آنا، دکھ درد میں کام آنا اسلام کی تعلیم وہدایت ہے اور اس کا امتیاز بھی۔
"من لم یرحم الناس لایرحمہ اللہ"
"جو لوگوں پر رحم نہ کرے' اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرے گا" اور یہ روایت بخاری میں ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے.
''5667 حدثنا عمر بن حفص حدثنا أبي حدثنا الأعمش قال حدثني زيد بن وهب قال سمعت جرير بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من لا يرحم لا يرحم
صحيح البخاري"

''جو رحم نہ کرے گا اس پر رحم نہ کیا جاوے گا۔
صحیح  مسلم میں اس طرح آئی ہے۔
"4283 2319 حدثنا زهير بن حرب وإسحق بن إبراهيم كلاهما عن جرير ح وحدثنا إسحق بن إبراهيم وعلي بن خشرم قالا أخبرنا عيسى بن يونس ح وحدثنا أبو كريب محمد بن العلاء حدثنا أبو معاوية ح وحدثنا أبو سعيد الأشج حدثنا حفص يعني ابن غياث كلهم عن الأعمش عن زيد بن وهب وأبي ظبيان عن جرير بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من لا يرحم الناس لا يرحمه الله عز وجل وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا وكيع وعبد الله بن نمير عن إسمعيل عن قيس عن جرير عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وابن أبي عمر وأحمد بن عبدة قالوا حدثنا سفيان عن عمرو عن نافع بن جبير عن جرير عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل حديث الأعمش۔صحيح مسلم۔
(جو لوگوں پہ رحم نہیں کرےگا اللہ عزوجل بھی اس پہ رحم نہیں کرےگا۔)"
ترمذی میں اس طرح ہے
"1922 حدثنا محمد بن بشار حدثنا يحيى بن سعيد عن إسمعيل بن أبي خالد حدثنا قيس حدثنا جرير بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من لا يرحم الناس لا يرحمه الله قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح قال وفي الباب عن عبد الرحمن بن عوف وأبي سعيد وابن عمر وأبي هريرة وعبد الله بن عمرو"
سنن الترمذي
مسند احمد میں اس طرح آئی ہے:
18683 حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن سليمان قال سمعت أبا ظبيان يحدث عن جرير قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من لم يرحم الناس لم يرحمه الله عز وجل .مسند أحمد۔
"طبرانی کی روایت میں اس طرح آیا ہے 'من لا یرحم من فی الارض لا یرحمہ من فی السماء: 
یعنی جو شخص رحم نہیں کرتا تمام ان لوگوں پر جو کہ زمین میں رہتے ہیں ۔تو رحم نہیں کرے گا' اس پر وہ ذات جو کہ آسمان میں ہے'۔
مشہورمحدث علامہ ابن بطال فرماتے ہیں' کہ اس میں تمام مخلوق کے ساتھ رحمت و شفقت کا معاملہ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اس میں مومن کافر اور مملوک وغیر مملوک جانور سب داخل ہیں' جناب رسول ۖ کو اللہ تعالیٰ نے تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے' اور آپ ۖ نے یہی رحمت کا پیغام پورے عالم کے لئے سنایا' دین اسلام میں غیر مسلم اقوام کے حقوق کا تحفظ بدرجہ اتم موجود ہے' اور تمام اقوام عالم کی بھلائی اسی میں ہے' کیونکہ ہر کسی کے ساتھ عدل و انصاف ' کسی کے ساتھ ظلم نہ کرنا'قیام امن اور حقوق کا تحفظ دین اسلام کے اصل الاصول ہیں۔
اسلام کے اس اعلی ترین اخلاقی ورواداری اصول و تعلیم کی تصریح قرآن کریم میں اس طرح ہے
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
060: 008

ترجمہ: 
”جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں جلاوطن کیا اللہ ان کے ساتھ حسن سلوک اور منصفانہ برتاؤ کرنے سے تمہیں منع نہیں کرتا۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے، اللہ تو تمہیں صرف ان لوگوں سے تعلق محبت رکھنے سے روکتا ہے، جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگیں لڑیں اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور ان جلاوطن کرنے والوں کی مدد کی، جو لوگ ایسے کافروں سے تعلق محبت قائم کریں تو وہی لوگ ظالم ہیں“۔
ان نصوص سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر غیر مسلموں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسرپیکار ہے تو تمام غیرمسلموں کو بلاتمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیں ایسا کرنا حکمت وانصاف کے خلاف ہوگا۔
دیگر مذاہب والوں کے ساتھ تعاون اور عدم تعاون کا اسلامی اصول یہی ہے کہ ان کے ساتھ مشترک سماجی وملکی مسائل ومعاملات میں، جن میں شرعی نقطئہ نظر سے اشتراک وتعاون کرنے میں کوئی ممانعت نہ ہو ان میں ساتھ دینا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں اس طرح کے متعدد نمونے ملتے ہیں ۔ صرف ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
في ’’صحیح البخاري‘‘: عن أنس رضي اللہ عنہ قال : کان غلام یہودي یخدم النبي ﷺ فمرض، فأتاہ النبي ﷺ یعودہ فقعد عند رأسہ فقال لہ : ’’ أسلم ‘‘ فنظر إلی أبیہ وہو عندہ فقال لہ: أطِع أبا القاسم - ﷺ - فأسلم ، فخرج النبي ﷺ وہو یقول : ’’ الحمد للہ الذي أنقذہ من النار‘‘ ۔ (۱/۱۸۱، کتاب الجنائز ، باب إذا أسلم الصبي فمات ہل یصلی علیہ وہل یعرض علی الصبي الإسلام ، الرقم :۱۳۵۶)
و في ’’البحر الرائق‘‘: قال رحمہ اللہ: (وعیادتہ) یعني تجوز عیادۃ الذمي المریض لما روي أن یہودیا مرض بجوار النبي ﷺ فقال : قوموا بنا نعود جارنا الیہودي فقاموا ودخل النبي ﷺ وقعد عند رأسہ وقال لہ : قل ’’أشہد أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ فنظر المریض إلی أبیہ فقال: أجبہ، فنطق بالشہادۃ ، فقال ﷺ : ’’ الحمد للہ الذي أنقذ بي نسمۃ من النار ‘‘ الحدیث ۔ ولأن العیادۃ نوع من البر وہي من محاسن الإسلام فلا بأس بہا ۔
(۸/۳۷۴، کتاب الکراہیۃ)
وفي ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ولا بأس بعیادۃ الیہود والنصاری ، لما روي أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاد یہودیا فقال لہ : ’’ قل لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ، فنظر إلی أبیہ فقال لہ أبوہ : أجب محمدا ، فأسلم ، ثم مات ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ الحمد للہ الذي أنقذ بي نسمۃ من النار‘‘ ولأن عیادۃ الجار قضاء حق الجوار ، وأنہ مندوب إلیہ ، قال اللہ تبارک وتعالی : {والجار الجنب} من غیر فصل مع ما في العیادۃ من الدعوۃ إلی الإیمان رجاء الإیمان فکیف یکون مکروہا ۔ (۶/۵۰۹، ۵۱۰، کتاب الاستحسان ، الدر المختار مع الشامیۃ :۹/۵۵۶، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع ، الہدایۃ :۴/۴۵۸، کتاب الکراہیۃ)
یہ انسانیت کی خدمت ہے ۔اور اسلام کی خاموش دعوت بھی۔
لیکن ان کے ساتھ  رواداری اور خیر خواہی بالکل عام بھی نہیں ہے! ، بلکہ اس کے بھی حدود و قیود ہیں۔ان کے مذہبی  ودینی امور میں اشتراک وتعاون تعلیمات اسلام کے خلاف ہے۔ جسے ہمارا مذہب ناجائز وحرام کہتا ہے۔
کنز العمال میں ہے
ما في ’’کنز العمال‘‘ : ’’من کثر سواد قوم فہو منہم ، ومن رضي عمل قوم کان شریکا في عملہ‘‘ ۔ (۹/۱۱، الرقم :۲۴۷۳۰ ، نصب الرایۃ للزیلعي :۵/۱۰۲، کتاب الجنایات ، باب ما یوجب القصاص وما لا یوجبہ ، الحدیث التاسع)
حضرات فقہاء اسلام کے خیالات کچھ اس طرح ہیں:
في ’’مجمع الأنہر‘‘: ویکفر بخروجہ إلی نیروز المجوس ، والموافقۃ معہم فیما یفعلونہ في ذلک الیوم وبشرائہ یوم نیروز شیئًا لم یکن یشتریہ قبل ذلک تعظیما للنیروز لا للأکل والشرب وبإہدائہ ذلک الیوم للمشرکین ولو بیضۃ تعظیما لذلک الیوم ۔
(۲/۵۱۳، کتاب السیر والجہاد، قبیل باب البغاۃ ، البحر الرائق :۵/۲۰۸، کتاب السیر ، باب أحکام المرتدین، الفتاوی الہندیۃ :۲/۲۷۶، ۲۷۷، کتاب السیر ، مطلب موجبات الکفر أنواع،
غور کیا جاسکتا ہے کہ جب مجوسیوں کے تہوار کے دن معمولی اور حقیر سی چیز "انڈا" خرید کر انہیں دینا منع ہے تو امرناتھ یاتریوں کے لئے ان کے یاترا کے ایام میں پہلوں کے تحائف لے کے  کھڑے رہنا کیونکر جائز ہوسکتا ہے؟؟؟؟؟
مذہبی رواداری اور خدمت انسانیت کے اور بھی دیگر مواقع ہیں ۔وہاں بھی انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے! لیکن خاص برادران وطن کے تہوار کے ایام میں اس طرح  تعاون پیش کرنا "مذہبی اشتراک وتعاون" کا شائبہ پیش کرتا ہے اس لئے یہ جائز نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص اس موقع سے انہیں دینے کے لئے فروٹس خرید چکا ہو تو چونکہ کسی غیر اللہ کی تعظیم اور عبادت کے لئے یہ پہل نہیں خریدے گئے ہیں اس لئے یہ پہل "ما اھل لغیر اللہ" میں داخل نہیں، اسے دوسرے مصارف میں خرچ کرسکتا ہے۔
ایسے موقع سے مسلمانوں کا ایسی چیزوں کی تجارت کرنا بھی جائز نہ ہوگا جو صرف ان کی پوجا پاٹ میں استعمال ہوتی ہوں۔ ہاں جو چیزیں پوجا کے ساتھ خاص نہ ہوں پوجا کے علاوہ عام لوگ  دیگر ضروریات میں بھی اسے استعمال کرتے ہوں تو مسلمانوں کے لئے ایسی چیزوں کی خرید وفروخت جائز ہوگی۔ اب ممنوع اور غلط جگہوں پہ استعمال کرنے والے پہ اس کا گناہ ہوگا بیچنے والے پہ نہیں۔
إن ما قامتالمعصیۃ بعینہ یکرہ بیعہ تحریمًا وإلا تنزیہًا۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء وغیرہ ۹؍۵۶۱ زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی (S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2018/08/blog-post_98.html

No comments:

Post a Comment