روہنگیا نسل کشی پر اقوام متحدہ کی مہر
بالآخر اقوام متحدہ کی جانب سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کارروائی پر کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے اعلی ترین فوجی افسران سے ’روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی‘ اور ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے حوالے سے تفتیش کی جانی چاہیے۔روہنگیا بحران کیسے شروع ہوااور یہ بحران تادم تحریر کن ادوار سے گزر چکا ہے، اس پر روشنی ڈالنے سے قبل واضح کردیں کہ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ 100 سے زائد تفصیلی انٹرویوز پر مبنی ہے اور عالمی ادارے کی جانب سے میانمار کے حکام کے خلاف اب تک روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں کی گئی سب سے کڑی تنقید ہے۔
اس رپورٹ میں میانمار کی فوج کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی جنگی حکمت عملی ’مستقل طور پر سیکورٹی خدشات سے غیر متناسب حد تک بڑھ کر جارحانہ تھی۔‘ اس رپورٹ میں فوج کے چھ اعلی افسران کے نام دیے گئے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان پر مقدمہ چلنا چاہیے۔اس رپورٹ میں امن کا نوبل انعام جیتنے والی میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو بھی نہیں بخشا گیا ان پر سخت تنقید کی گئی تھی اور کہا گیا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔اس رپورٹ میں تجویزپیش کی گئی کہ یہ معاملہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں بھیجا جائے۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ میانمار کی حکومت کی جانب سے مسلسل یہ موقف اختیار کیا جاتا رہا ہے کہ فوجی کارروائی شدت پسندوں کے خلاف کی جاتی ہے۔ لیکن اس دعوی کے برعکس اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی تفتیش کے مطابق جو جرائم مرتکب ہوئے ہیں، وہ’اس لیے اتنے حیران کن ہیں کہ ان کی بڑے پیمانے پر نفی کی جاتی رہی ہے، ان جرائم کو معمول کی کارروائی سمجھا گیا ہے اور بلادریغ کیا گیا ہے۔ 'فوجی کارروائیاں، چاہے وہ کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہوں، ایسا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کہ اندھا دھند لوگوں کو قتل کیا جائے، خواتین کا گینگ آبروریزی کیا جائے، بچوں پر حملہ کیا جائے یا گاو ¿ںکو نذر آتش کردیاجائے۔‘
اقوام متحدہ نے کیا لگائے ہیں الزامات؟
اقوام متحدہ کا خود مختار بین الاقوامی فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے میانمار مارچ 2017 میں قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ ملک کی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مبینہ مظالم کی تفتیش کر سکے۔ اس مشن نے اپنا کام میانمار کی حکومت کی اس کارروائی سے پہلے شروع کیا تھا جب اس نے رخائن میں روہنگیا شدت پسندوں کی جانب سے کیے گئے حملوں کے جواب میں آپریشن شروع کیا۔ حکومت کے اس آپریشن کے بعد سے اب تک سات لاکھ روہنگیا مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالات اس نہج پر 'دہائیوں سے درپیش صورتحال' کے بعد پہنچے ہیں اور’خاص منصوبہ بندی، اور پیدائش سے لے کر موت تک کیے جانے والا جبر‘ اس کی بڑی وجہ ہیں۔ رپورٹ میں کچن، شان اور رخائن میں ہونے والے جرائم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں قتل و غارت، قید، اذیت، آبروریزی، جنسی قیدی اور دیگر ایسے جرائم شامل ہیں جو کہ’بلاشبہ بین الاقوامی قوانین کے تحت گھناو ¿نے ترین جرائم میں تصور کیے جاتے ہیں۔‘
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ تفتیش سے یہ معلوم ہوا ہے کہ: ”ریاست رخائن میں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالے جانے کا سلسلہ اسی طرز کا ہے جیسا اور مقامات پر نسل کشی کرنے کے حوالے سے ہوتا ہے۔“اقوام متحدہ نے واضح کیا کہ رپورٹ کی تیاری میں انھیں میانمار جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن انھوں نے عینی شاہدین سے انٹرویو کیے جبکہ سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے بھی مدد لی۔اقوام متحدہ کے مشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ تفصیلی رپورٹ اگلے ماہ کی 18 تاریخ کو شائع کریں گے۔واضح رہے کہ ماضی میں اقوام متحدہ نے میانمار کی فوجی کارروائیوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ”ان کی کارروائیاں نسل کشی کی بالکل کتابی تشریح کی مانند ہیں۔“
کیسے شروع ہواروہنگیا بحران؟
آج لاکھوں روہنگیا کی اپنے گھروں سے بےدخلی کو دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلتا پناہ گزینوں کا بحران قرار دیا جا رہا ہے۔لیکن کیا یہ رپورٹ یکلخت وجود میں آگئی؟ اس کے لئے واقعات کی ترتیب پر غور کرنا ضروری ہے۔
اہم واقعات کی ٹائم لائن:
24 اگست 2017
مقام شمالی رخائن، برما
تفصیلات ایک روہنگیا تنظیم اراکان روہنگیا سالویشن آرمی نے شمالی رخائن صوبے میں میانمار کی سرحدی پولیس پر حملہ کیا، جس میں 11 اہلکار مارے گئے۔ میانمار کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس رات پولیس کے 20 کیمپوں پر بیک وقت حملہ کیا گیا۔
25 اگست 2017
مقام کوکس بازار
تفصیلات ہزاروں روہنگیا پناہ گزینوں نے کوکس بازار کے اکھیا اور تیکناف علاقوں میں پناہ لی۔ انھوں نے بتایا کہ میانمار کی فوج لوگوں کو قتل کر رہی ہے۔
26 اگست 2017
مقام بنگلہ دیش
تفصیلات بنگلہ دیش نے میانمار کے ڈھاکہ میں سفیر کو وزارتِ خارجہ میں طلب کر کے بحران پر تشویش ظاہر کی۔ اسی دن بنگلہ دیش کی سرحدی فوج نے بنگلہ دیش میں داخل ہونے والے متعدد روہنگیا پناہ گزینوں کو گرفتار کر لیا۔ اس وقت ہزاروں روہنگیا سرحد کے اس پار پھنس کر رہ گئے۔
31 اگست 2017
مقام بنگلہ دیش
تفصیلات اقوامِ متحدہ کے مطابق 27 ہزار کے قریب روہنگیا ایک ہفتے کے اندر اندر بنگلہ دیش پہنچ گئے
3 ستمبر 2017
مقام تفصیلات میانمار کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی یانگ ہی لی نے رخائن کی صورتِ حال کو 'ہولناک‘ قرار دیا۔ لی نے میانمار کی رہنما آنگ سان سو چی پر بھی تنقید کی
5 ستمبر 2017
مقام تفصیلات میانمار کی رہنما آنگ سان سو چی نے ترک صدر اردوغان سے فون پر بات کرنے کے بعد کہا کہ رخائن کی صورتِ حال کو میڈیا توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے۔ اسی دن انڈونیشیا کی وزیرِ خارجہ روہنگیا کے مسئلے پر بات کرنے کے لیے میانمار سے ہوتی ہوئی بنگلہ دیش پہنچیں۔
6 ستمبر 2017
مقام تفصیلات اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے سلامتی کونسل کو خط لکھ کر روہنگیا بحران پر تشویش کا اظہار کیا۔
7 ستمبر 2017
مقام تفصیلات ترک خاتونِ اول اور وزیرِ خارجہ نے کوکس بازار پہنچ کر روہنگیا کیمپوں کا معائنہ کیا۔
11 ستمبر 2017
مقام تفصیلات اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے روہنگیا کے استحصال کو 'نسل کشی کی نصابی مثال‘ قرار دیا
12 ستمبر 2017
مقام کوکس بازار
تفصیلات بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے کوکس بازار میں اکھیا کے پناہ گزین کیمپ کا دورہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انھیں پناہ دے رکھی ہے۔
13 ستمبر 2017
مقام کوکس بازار
تفصیلات 40 کے قریب سفارت کاروں اور تنظیموں کے نمائندوں نے بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ کے زیرِ اہتمام کوکس بازار کا دورہ کیا۔ اس کا مقصد میانمار حکومت پر زور ڈالنا تھا کہ وہ پناہ گزینوں کو واپس وطن جانے دے۔ اس وفد میں امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، روس، چین اور انڈیا کے سفیر شامل تھے۔
21 ستمبر 2017
مقام تفصیلات بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے روہنگیا بحران کے حل کے لیے پانچ نکاتی سفارشات پیش کیں۔ ان میں روہنگیا کا قتلِ عام روکنا، ان کی واپسی، اور ریاست رخائن میں ان کے گھروں کی تعمیرِ نو شامل تھے۔
27 ستمبر 2017
مقام تفصیلات اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے مطابق بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد پانچ لاکھ ہو گئی۔
28 ستمبر 2017
مقام نیویارک
تفصیلات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے آٹھ برسوں بعد روہنگیا کے بحران کا جائزہ لیا۔ اجلاس میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے میانمار پر تنقید کی۔
6 نومبر 2017
مقام نیویارک
تفصیلات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بیان جاری کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ روہنگیا بحران ختم کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ نے میانمار کی حکومت پر زور دیا کہ وہ روہنگیا پر ظلم و ستم اور نسلی تفریق ختم کرے۔ چین نے بھی اس بیان کی تائید کی۔
18 نومبر 2017
مقام ڈھاکہ
تفصیلات چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے ڈھاکہ کا دورہ کر کے بنگلہ دیش کے وزیرِ خارجہ محمود علی سے روہنگیا کے بحران پر بات کی۔
23 نومبر 2017
مقام نیپیادو
تفصیلات بنگلہ دیش اور میانمار نے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے جس میں کہا گیا تھا کہ روہنگیا کو واپس وطن میں آباد ہونے دیا جائے گا۔ میانمار نے کہا کہ وہ شناخت کی تصدیق کے بعد ایسا کرے گا۔ فیصلہ ہوا کہ میانمار ہر روز 300 پناہ گزینوں کو واپس لے گا۔ حکام کے مطابق یہ عمل اگلے دو برسوں میں مکمل ہو گا۔
30 نومبر 2017
مقام ڈھاکہ
تفصیلات پوپ فرانسس نے ڈھاکہ کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر انھوں نے ڈھاکہ کے ایک چرچ میں روہنگیا بحران کے بارے میں بات کی۔ اس سے قبل انھوں نے میانمار کے دورے کے دوران لفظ روہنگیا استعمال نہیں کیا تھا۔
16 فروری 2018
مقام ڈھاکہ
تفصیلات بنگلہ حکومت نے برمی حکومت کو آٹھ ہزار روہنگیا کی فہرست فراہم کی جنھیں واپس میانمار بھیجا جانا تھا۔ بعد میں میانمار نے فہرست میں سے صرف 374 لوگوں کو قبول کرنے پر رضامندی دی۔
29 اپریل 2018
مقام بنگلہ دیش
تفصیلات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک وفد نے روہنگیا کیمپوں کا دورہ کیا۔ سلامتی کونسل نے کہا کہ یہ بحران جلد حل نہیں کیا جا سکتا۔ وفد میں شامل روسی نمائندے نے کہا کہ روہنگیا بحران کا کوئی جادوئی حل نہیں ہے۔
2 جولائی 2018
مقام کوکس بازار
تفصیلات اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش اور ورلڈ بینک کے صدر جم ینگ نے کوکس بازار کا دورہ کیا۔ گوتیرش نے کہا: 'روہنگیا انصاف چاہتے ہیں اور بحفاظت وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ان کا دل روہنگیا کی حالتِ زار دیکھ کر ٹوٹ گیا ہے۔
A UN report has said top military figures in Myanmar must be investigated for genocide in Rakhine state and crimes against humanity in other areas.
The report, based on hundreds of interviews, is the strongest condemnation from the UN so far of violence against Rohingya Muslims.
It says the army's tactics are "grossly disproportionate to actual security threats". Myanmar rejected the report.
At least 700,000 Rohingya fled violence in the country in the past 12 months.
The report names six senior military figures it believes should go on trial and sharply criticises Myanmar's de facto leader, Nobel Peace Prize laureate Aung San Suu Kyi, for failing to intervene to stop attacks.
It calls for the case to be referred to the International Criminal Court (ICC).
The government has consistently said its operations targeted militant or insurgent threats but the report says the crimes documented are "shocking for the level of denial, normalcy and impunity that is attached to them".
"Military necessity would never justify killing indiscriminately, gang raping women, assaulting children, and burning entire villages," the report says.
The UN mission did not have access to Myanmar for its report but says it relied on such sources as eyewitness interviews, satellite imagery, photographs and videos.
Harder to dismiss now
Jonathan Head, BBC South East Asia correspondent
Genocide is the most serious charge that can be made against a government and is rarely proposed by UN investigators.
That this report finds sufficient evidence to warrant investigation and prosecution of the senior commanders in the Myanmar armed forces is a searing indictment which will be impossible for members of the international community to ignore.
However taking Myanmar to the ICC, as recommended by the report, is difficult. It is not a signatory to the Rome Statute that established the court, so a referral to the ICC would need the backing of the permanent five Security Council members - and China is unlikely to agree.
The report suggests, instead, the establishment of a special independent body by the UN, as happened with Syria, to conduct an investigation in support of war crimes and genocide prosecutions.
The government of Myanmar has until now rejected numerous investigations alleging massive atrocities by its military. This one will be much harder to dismiss.
What crimes does the UN allege?
The UN's Independent International Fact-Finding Mission on Myanmar was set up in March 2017 to investigate widespread allegations of human rights abuses in Myanmar, particularly in Rakhine state.
It began its work before the military started a large-scale operation in Rakhine in August of last year, after deadly attacks by Rohingya militants.
The situation was a "catastrophe looming for decades", the report argues, and the result of "severe, systemic and institutionalised oppression from birth to death".
Crimes documented in Kachin, Shan and Rakhine include murder, imprisonment, torture, rape, sexual slavery, persecution and enslavement that "undoubtedly amount to the gravest crimes under international law".
In Rakhine state, the report also found elements of extermination and deportation "similar in nature, gravity and scope to those that have allowed genocide intent to be established in other contexts".
Who is blamed for the attacks?
The UN mission names army officials who, it says, bear the greatest responsibility. They include Commander-in-Chief Min Aung Hlaing and his deputy.
The military is described as being virtually above the law.
Under the constitution, civilian authorities have little control over the military but the document says that "through their acts and omissions, the civilian authorities have contributed to the commission of atrocity crimes".
Aung Sang Suu Kyi, the report finds, "has not used her de facto position as Head of Government, nor her moral authority, to stem or prevent the unfolding events in Rakhine".
The report says that some abuses were also committed by armed ethnic groups in Kachin and Shan state, and by the Arakan Rohingya Salvation Army (Arsa) in Rakhine.
The mission said it would release a more detailed report on 18 September.
Myanmar's Permanent Representative to the UN, U Hau Do Suan, told BBC Burmese: "As we did not accept the idea of a fact-finding mission from the beginning, we reject their report.
"The human rights abuses are one-sided accusations against us. This is designed at putting pressure on us by the international organisations. Their report is based on one-sided information from the people who fled to Bangladesh and the opposition groups."
How did the situation reach crisis point?
The Rohingya are one of many ethnic minorities in Myanmar and make up the largest percentage of the country's Muslims. The government, however, sees them as illegal immigrants from neighbouring Bangladesh and denies them citizenship.
The military launched its latest crackdown after militants from Arsa attacked police posts in August 2017, killing several policemen.
According to the medical charity MSF, at least 6,700 Rohingya, including at least 730 children under the age of five, were killed in the first month after the violence broke out.
The army exonerated itself in an investigation in 2017.
Rights groups like Amnesty International have long called for top officials to be tried for crimes against humanity over the Rohingya crisis.
How is the world responding to the report?
The UK Foreign Office said the "appalling" violations against the Rohingya must be punished.
"There cannot and must not be impunity for such acts," said Minister of State for Asia Mark Field.
EU spokeswoman Maja Kocijancic told reporters: "We have made clear very consistently those responsible for alleged serious and systemic human rights violations must be held to account."
Facebook has removed 18 Facebook accounts, one Instagram account and 52 Facebook pages linked to the Myanmar military, as part of its work to "prevent the spread of hate and misinformation" on its networks.
Myanmar Rohingya:
What you need to know about the crisis
The plight of hundreds of thousands of Rohingya people is said to be the world's fastest growing refugee crisis. Risking death by sea or on foot, nearly 700,000 have fled the destruction of their homes and persecution in the northern Rakhine province of Myanmar (Burma) for neighbouring Bangladesh since August 2017. According to reports, the United Nations described the military offensive in Rakhine, which provoked the exodus, as a "textbook example of ethnic cleansing". Myanmar's military says it is fighting Rohingya militants and denies targeting civilians.
Who are the Rohingya?
The Rohingya, who numbered around one million in Myanmar at the start of 2017, are one of the many ethnic minorities in the country. Rohingya Muslims represent the largest percentage of Muslims in Myanmar, with the majority living in Rakhine state.
They have their own language and culture and say they are descendants of Arab traders and other groups who have been in the region for generations.
But the government of Myanmar, a predominantly Buddhist country, denies the Rohingya citizenship and even excluded them from the 2014 census, refusing to recognise them as a people.
It sees them as illegal immigrants from Bangladesh.
Since the 1970s, Rohingya have migrated across the region in significant numbers. Estimates of their numbers are often much higher than official figures.
In the last few years, before the latest crisis, thousands of Rohingya were making perilous journeys out of Myanmar to escape communal violence or alleged abuses by the security forces.
Why are they fleeing?
The latest exodus began on 25 August 2017 after Rohingya Arsa militants launched deadly attacks on more than 30 police posts.
Rohingyas arriving in an area known as Cox's Bazaar - a district in Bangladesh - say they fled after troops, backed by local Buddhist mobs, responded by burning their villages and attacking and killing civilians.
At least 6,700 Rohingya, including at least 730 children under the age of five, were killed in the month after the violence broke out, according to Medecins Sans Frontieres (MSF).
Amnesty International says the Myanmar military also raped and abused Rohingya women and girls.
The government, which puts the number of dead at 400, claims that "clearance operations" against the militants ended on 5 September, but BBC correspondents have seen evidence that they continued after that date.
At least 288 villages were partially or totally destroyed by fire in northern Rakhine state after August 2017, according to analysis of satellite imagery by Human Rights Watch.
The imagery shows many areas where Rohingya villages were reduced to smouldering rubble, while nearby ethnic Rakhine villages were left intact.
Rakhine: What sparked latest violence?
Who are the Rohingya group behind attacks?
Human Rights Watch say most damage occurred in Maungdaw Township, between 25 August and 25 September 2017 - with many villages destroyed after 5 September, when Myanmar's de facto leader, Aung San Suu Kyi, said security force operations had ended.
What is the scale of the crisis?
Media captionWatch: Drone footage from the DEC shows the extent of sprawling camps on the Bangladesh border
The UN says the Rohingya's situation is the "world's fastest growing refugee crisis".
Before August, there were already around 307,500 Rohingya refugees living in camps, makeshift settlements and with host communities, according to the UNHCR. A further 687,000 are estimated to have arrived since August 2017.
Most Rohingya refugees reaching Bangladesh - men, women and children with barely any belongings - have sought shelter in these areas, setting up camp wherever possible in the difficult terrain and with little access to aid, safe drinking water, food, shelter or healthcare.
The largest refugee camp is Kutupalong but limited space means spontaneous settlements have sprung up in the surrounding countryside and nearby Balukhali as refugees keep arriving.
While numbers in the Kutupalong refugee camp have reduced from a high of 22,241 to 13,900, the number living in makeshift or spontaneous settlements outside the camp has climbed from 99,495 to more than 604,000.
Most other refugee sites have also continued to expanded - as of mid-April 2018, there were 781,000 refugees living in nine camps and settlements.
There are also around 117, 000 people staying outside the camps in host communities.
What is being done by the international community?
The need for aid is overwhelming. With the monsoon season approaching, work has begun to re-locate some refugees from the camps most at risk of flooding or landslides and in other sites, work has been taking place to improve drainage channels and strengthen shelters.
About 70% of the one million refugees are now receiving food aid, according to the Inter Sector Coordination Group report from mid-April 2018.
Large-scale vaccination programmes have been launched to try to minimise the risk of disease. By mid-January 2018, 315,000 children under 15 years of age had received a five-in-one vaccination, including cover for diptheria, tetanus and whooping cough.
47,639 temporary emergency latrines have been built Bangladesh military
There has been widespread condemnation of the Myanmar government's actions but talk of sanctions has been more muted:
The UN's human rights chief Zeid Ra'ad al-Hussein has said an act of genocide against Rohingya Muslims by state forces in Myanmar cannot be ruled out
The US urged Myanmar's troops to "respect the rule of law, stop the violence and end the displacement of civilians from all communities"
China says the international community "should support the efforts of Myanmar in safeguarding the stability of its national development"
Bangladesh plans to build more shelters in the Cox's Bazaar area but also wants to limit their travel to allocated areas
Myanmar urged displaced people to find refuge in temporary camps set up in Rakhine state. In November Bangladesh signed a deal with Myanmar to return hundreds of thousands of Rohingya refugees, but few details have been released
The UK has pledged £59m in aid to support those fleeing to Bangladesh. UK Prime Minister Theresa May also said the military action in Rakhine had to stop. The UK has suspended training courses for the Myanmar military
No comments:
Post a Comment