Tuesday, 7 August 2018

بے ضرر کتے کو قتل کرنا؟

بے ضرر کتے کو قتل کرنا؟
شروع اسلام  میں  سارے کتوں کے مار ڈالنے  کا حکم ہوا تھا  پھر کالے سیاہ کتوں کو مارنے کی اجازت چھوڑکر یہ حکم منسوخ ہوگیا، بعد میں کسی بھی کتے کو جب تک وہ موذی نہ ہو مارنے سے منع کردیا گیا، حتیٰ کہ شکار، زمین، جائیداد، مکان اور جانوروں کی حفاظت و نگہبانی کے لئے انہیں پالنے کی اجازت بھی دی گئی
ترمذی شریف میں ہے:
حدثنا احمد بن منيع،‏‏‏‏ حدثنا هشيم،‏‏‏‏ اخبرنا منصور بن زاذان،‏‏‏‏ ويونس بن عبيد،‏‏‏‏ عن الحسن،‏‏‏‏ عن عبد الله بن مغفل،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "لولا ان الكلاب امة من الامم لامرت بقتلها كلها،‏‏‏‏ فاقتلوا منها كل اسود بهيم "،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ وفي الباب،‏‏‏‏ عن ابن عمر،‏‏‏‏ وجابر،‏‏‏‏ وابي رافع،‏‏‏‏ وابي ايوب،‏‏‏‏ قال ابو عيسى:‏‏‏‏ حديث عبد الله بن مغفل،‏‏‏‏ حديث حسن صحيح،‏‏‏‏ ويروى في بعض الحديث:‏‏‏‏ ان الكلب الاسود البهيم شيطان،‏‏‏‏ والكلب الاسود البهيم الذي لا يكون فيه شيء من البياض،‏‏‏‏ وقد كره بعض اهل العلم صيد الكلب الاسود البهيم.
(سنن الترمذی كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم 16- باب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْكِلاَبِ حدیث نمبر: 1486)
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تو میں تمام کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیتا، سو اب تم ان میں سے ہر کالے سیاہ کتے کو مار ڈالو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن مغفل کی حدیث حسن صحیح ہے، اس باب میں ابن عمر، جابر، ابورافع، اور ابوایوب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،- بعض احادیث میں مروی ہے کہ کالا کتا شیطان ہوتا ہے
(یہ حدیث صحیح مسلم (رقم ۱۵۷۲) میں جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے۔)
«الأسود البهيم» اس کتے کو کہتے ہیں جس میں سفیدی بالکل نہ ہو، بعض اہل علم نے کالے کتے کے کئے شکار کو مکروہ سمجھا ہے۔
جو کتا موذی نہ ہو اسے بلاوجہ مار ڈالنا جائز نہیں ہے
ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
فَصْلٌ: فَأَمَّا قَتْلُ مَا لَا يُبَاحُ إمْسَاكُهُ، فَإِنَّ الْكَلْبَ الْأَسْوَدَ الْبَهِيمَ يُبَاحُ قَتْلُهُ؛ لِأَنَّهُ شَيْطَانٌ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّامِتِ: سَأَلْت أَبَا ذَرٍّ فَقُلْت: «مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ مِنْ الْأَبْيَضِ؟ فَقَالَ: سَأَلْت رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَمَا سَأَلْتنِي، فَقَالَ: الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ قَالَ: «لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنْ الْأُمَمِ لَأَمَرْت بِقَتْلِهَا، فَاقْتُلُوا مِنْهَا كُلَّ أَسْوَدَ بَهِيمٍ» . وَيُبَاحُ قَتْلُ الْكَلْبِ الْعَقُورِ؛ لِمَا رَوَتْ عَائِشَةُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «خَمْسٌ مِنْ الدَّوَابِّ كُلُّهُنَّ فَاسِقٌ، يُقْتَلْنَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ؛ الْغُرَابُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْعَقْرَبُ وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ۔
(فتح الباري 34/4. صحيح مسلم 857/2 )
وَيُقْتَلُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْ هَذَيْنِ، وَإِنْ كَانَ مُعَلَّمًا؛ لِلْخَبَرَيْنِ. وَعَلَى قِيَاسِ الْكَلْبِ الْعَقُورِ، كُلُّ مَا آذَى النَّاسَ، وَضَرَّهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ. وَأَمْوَالِهِمْ، يُبَاحُ قَتْلُهُ؛ لِأَنَّهُ يُؤْذِي بِلَا نَفْعٍ، أَشْبَهَ الذِّئْبَ، وَمَا لَا مَضَرَّةَ فِيهِ، لَا يُبَاحُ قَتْلُهُ؛ لِمَا ذَكَرْنَا مِنْ الْخَبَرِ. وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ «أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، حَتَّى إنَّ الْمَرْأَةَ تَقْدُمُ مِنْ الْبَادِيَةِ بِكَلْبِهَا فَتَقْتُلُهُ، ثُمَّ نَهَى عَنْ قَتْلِهَا، وَقَالَ: عَلَيْكُمْ بِالْأَسْوَدِ الْبَهِيمِ ذِي الطُّفْيَتَيْنِ، فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ» رَوَاهُ مسلم. انتهى.(المغني لعبد الله بن قدامة الحنبلي ج 4ص 301)

جس کتے سے کوئی تکلیف نہ ہو اسے مار ڈالا شرعا مباح نہیں، پھر بھی اگر کوئی قتل کردے تو شرعا اس کی کوئی سزا متعین نہیں کی گئی ہے
سدھائے ہوئے اور مباح الاقتناء کتوں کو قتل کرنا حنابلہ کے نزدیک حرام ہے، قاتل ظالم وسفاک شمار ہوگا۔
ان کا مؤقف یہ ہے کہ جن کتوں سے انتفاع مباح ہے اسے رکھنا انتفاع کے حق میں  بکری اور بھیڑ کی طرح ہے، لہذا مباح الانتفاع کتے کو تلف کرنا حرام ہوگا۔
مالکیہ کے یہاں ضرر رساں کتے کو قتل کرنا واجب ہے
شافعیہ کے یہاں جن کتوں میں مباح منفعت یا ظاہری ضرر نہ ہو جیسے نہ کاٹنے والا کتا تو اسے قتل کرنا مکروہ تنزیہی ہے
حنفیہ سمیت تمام فقہی مذاہب کا اتفاق ہے کہ شکار، مویشی اور کھیتی کے کتوں کو مار ڈالنا ناجائز ہے
تاہم اگر کوئی قتل کردے تو اس پہ کوئی تاوان واجب نہیں
(مغنی المحتاج 122/2 بدائع الصنائع 42/5)
کتوں کے قتل وشکار سے متعلق احکام ذیل کی احادیث میں ملاحظہ فرمائیں:
(سنن ابی داود/ الصید ۱ (۲۸۴۵)، سنن النسائی/الصید ۱۰ (۴۲۸۵)، و ۱۴ (۴۲۹۳)، سنن ابن ماجہ/الصید ۲ (۳۲۰۴)، (تحفة الأشراف: ۹۶۴۹)، و مسند احمد (۴/۸۵، ۸۶)، و (۵/۵۴، ۵۶، ۵۷) سنن الدارمی/الصید ۳ (۲۰۵۱) (صحیح)
واللہ اعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي
muftishakeelahmad@gmail.com
رابطہ نمبر: 
+5978836887

No comments:

Post a Comment