Thursday, 9 August 2018

آسام این آرسی: مودی و شاہ آگ سے کھیل رہے ہیں؟ Amit Shah & Modi are playing with a fire

آسام این آرسی: مودی و شاہ آگ سے کھیل رہے ہیں؟
میں آپ کو35 سال قبل آسام کے نیلی میں ہونے والے قتلِ عام کی کہانیاں نہیں سناؤں گا، کہ وہ ہماری قومی سیاسی کہانیوں کا حصہ بن چکی ہیں، البتہ میں آپ کو آسام ہی کے چند غیر مانوس مقامات کھوئراباری (Khoirabari) گوہ پور
(Gohpur) اور سپاجھار (Sipajhar) کی کہانیاں سناتا ہوں، فی الحال، جبکہ قومی سطح پر آسام میں قومی شہری رجسٹریشن (این آر سی) کے معاملے پر نہایت ہی پولرائزنگ مباحثے ہورہے ہیں، برہم پتر ندی کے شمالی کنارے پر واقع ان مقامات اور وہاں رونما ہونے والے حادثات کو ایک بار ضرور یاد کرلینا چاہیے۔
1983ء میں وادیِ برہم پتر میں ہونے والے قتلِ عام میں لگ بھگ سات ہزار لوگ مارے گئے تھے، ان میں سے تین ہزارسے کچھ زائد تو وہ مسلمان تھے جنھیں 18 فروری کی صبح کوچند گھنٹوں کے اندر مارکر دریاے نیلی میں بہادیا گیا تھا، جبکہ باقی مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے تھے، ان میں سے بھی زیادہ تر مسلمان ہی تھے اور مذکورہ بالا تین مقامات پر جو قتلِ عام ہوا، اس میں مارنے والے بھی ہندو تھے اور مرنے والے بھی ہندو ہی تھے۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا یقینی ہے کہ اگر لوگوں میں غصہ ’باہری‘ (مسلمانوں) کے خلاف تھا، 
تو پھر ہندو ہندووں ہی کو کیوں ماررہے تھے؟ بہت سی دوسری چیزوں کی طرح شمال مشرقی ہندوستان کا یہ بھی ایک پیچیدہ پہلو ہے، ہم اس کی تہوں میں نہیں جانا چاہتے۔ قابلِ ذکریہ ہے کہ جو لوگ مارنے والے تھے، وہ آسامی بولنے والے تھے اور وہ جن کو ماررہے تھے، وہ بنگالی بولنے والے تھے، لسانی و نسلی منافرت فرقہ وارانہ فساد کی مانند خوں آشام ہوگئی تھی جہاں ایک طبقے کے لوگوں میں دو اسباب پائے جارہے تھے، یعنی وہ بنگالی بھی تھے اور مسلمان بھی، تو وہاں بھی کہانی صاف تھی کہ آسامی ہندووں نے انھیں قتل کیا، ہر شخص کا ہاتھ دوسرے کی گردن پر تھا، اِن دنوں بی جے پی اور سپریم کورٹ نے اُسی خطرناک کاک ٹیل کو ہوادے دی ہے۔
چارملین لوگ این آرسی کے فائنل ڈرافٹ میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں اور ان کے بارے میں بی جے پی حکمراں پارٹی کی حیثیت سے کچھ بات کررہی ہے اور بحیثیت سیاسی پارٹی کے کچھ بات کررہی ہے؛ چنانچہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ یہ ایک عارضی ڈرافٹ ہے اور کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ نے اندراج سے رہ جانے والے چالیس لاکھ لوگوں کو صاف طورپر ’گھس پیٹھیا‘ قرار دیا ہے، اب اگر آپ کا نام اس لسٹ میں نہیں ہے، تو کیسا محسوس کریں گے؟ یقینی طور پر آپ کو ایسا لگے گاکہ آپ کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے۔
اس کے بعد آسام کے وزیر خزانہ (حقیقتاً وزیر اعلیٰ) ہیمنت بسوا شرما نے کہا کہ ان میں سے ایک تہائی ہندو ہیں اور بی جے پی کے پاس اس مسئلے کا بھی ممکنہ حل پہلے سے موجود ہے اور وہ ہے سٹیزن شپ کا نیا متوقع قانون، جس کے تحت حکومت پڑوسی ممالک سے آنے والے ہندووں اور سکھوں کو ہندوستان میں بسانا چاہتی ہے، ویسے اگر یہ قانون پاس بھی ہوگیا، تو یہ دیکھنے لائق ہوگا کہ اصل آسامی باشندے اس پر کس قسم کے ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں، ابھی آپ نے پڑھاکہ 1983ء میں انھوں نے بنگالی ہندووں اور مسلمانوں کو اپنے یہاں برداشت نہیں کیا، تو دوسرے ملک کے لوگوں کو اپنی زمین وہ کیسے دے سکتے ہیں؟ چنانچہ سابق وزیر اعلیٰ، آسام گن پریشد کے چیئرمین اور بی جے پی کے اتحادی پرفل کمار مہنت نے پہلے ہی اس متوقع قانون سے اپنا عدمِ اتفاق ظاہر کردیا ہے۔ تمام قیاسات و امکانات اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ آخری اور حتمی لسٹ میں بھی کم ازکم پانچ لاکھ ایسے لوگ بچ جائیں گے، جن کا نام اندراج ہونے سے رہ جائے گا اوراس طرح کے کاموں میں ایسا ہونا یقینی ہے، اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔
گوہاٹی ہائی کورٹ نے اپنی ’دیدہ وری‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے آسامی النسل طبقے کے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا کہ گرام پنچایت کے ذریعے لوگوں کو جو شہریت کے سرٹیفکیٹس دیے جاتے ہیں، انھیں تسلیم نہ کیا جائے، اب کوئی یہ بتائے کہ یہ بے چارے غریب اور دیہاتوں میں رہنے والے لاکھوں لوگ آدھار کارڈ سے پہلے کے زمانے کا کوئی دوسرا شناخت نامہ کہاں سے لائیں گے؟ ریاستی حکومت نے بھی کورٹ کے اس غیر معقول فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کی، گویا یہ مذاق کی انتہا ہے۔ کسی دوسرے بندے نے اس معاملے پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کوتو خارج کردیا، مگر ساتھ ہی اسے یہ ہدایت دے دی کہ ہائی کورٹ اس سلسلے میں کوئی دستور اور اصول بنائے کہ سٹیزن شپ کے حوالے سے کونسا پنچایت سرٹیفکٹ قابلِ قبول ہوگا، اس معاملے میں کنفیوژن برقرارہی تھا کہ سپریم کورٹ نے این آرسی تیار کرنے کا بھی حکم دے دیا، پنچایت سرٹیفکٹ کے سلسلے میں اگر معقول نقطۂ نظر اختیار کیا جاتا ہے، تو کوئی بھی ’باہری‘ باقی نہیں رہے گا اور بی جے پی ایسا کبھی نہیں چاہے گی۔
ّٖسپریم کورٹ نے 1985ء میں راجیو گاندھی اور آسام 
اسٹوڈینٹ یونین؍ آسام گن پریشد کے مابین ہونے والے امن معاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے اقدام کیا ہے، جس کے مطابق 25 مارچ 1971ء کی تاریخ آسام میں شہریت کے لیے حدِ فاصل ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص مذکورہ تاریخ سے پہلے آسام میں آیا ہو، وہ قانونی شہری مانا جائے گا، اس کی بنیاد اندرا۔ مجیب معاہدے پر تھی، جس کے مطابق بنگلہ دیش ہندوستان میں پناہ گزیں اپنے تقریباً ایک کروڑ شہریوں کو واپس لینے پر آمادہ ہوگیا تھا، ان میں سے اسی (80) فیصد تو صرف ہندو تھے، اندرا گاندھی کا موقف یہ تھا کہ ہندو ؍مسلم سارے بنگلہ دیشی اپنے ملک بھیجے جائیں۔ 33 سال قبل 1985ء میں اسی معاہدے کو پیشِ نظر رکھ کر راجیوگاندھی نے آسام کے مزاحمتی گروپس سے این آرسی کا وعدہ کرتے ہوئے معاہدہ کیا تھا، مگر مختلف اسباب کی بنا پر اب تک اس کی تشکیل نہ ہوسکی اور اس دوران آسام میں دو مزید نسلیں وجود میں آچکی ہیں، کیا اب آپ انھیں ہندوستان سے باہر یا شہری حقوق سے محروم کرسکتے ہیں؟ بی جے پی کو بھی پتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔
اگر کوئی بی جے پی لیڈریہ کہتا ہے کہ اس موضوع پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، تواس سے پوچھیے کہ کیا اس نے پارٹی کے سربراہ امیت شاہ کی تقریر نہیں سنی؟جس شفافیت کے ساتھ انھوں نے2019ء کے لیے انتخابی مہم کی شروعات کی ہے، اس پر انھیں فل نمبرملنا چاہیے، چوں کہ اب لفظِ ’وکاس‘ میں وہ کشش نہیں رہ گئی کہ ووٹروں کو لبھا سکے؛ اس لیے دوسری بار حکومت میں آنے کے لیے ’نیشنلسٹ‘ پولرائزیشن ہی بی جے پی کے لیے کامیابی کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے اور آسام کا مسئلہ الیکشن تک تروتازہ رہنے والا ہے، بی جے پی لاکھوں لوگوں کو کھلے عام ’گھس پیٹھیا‘ قرار دیتی رہے گی اور تعریضاً اس کا اطلاق ملک بھر کے تمام بنگالی النسل مسلمانوں پر کرے گی۔
یہ ایشو ایسا ہے کہ اگر سیکولر اپوزیشن یا بائیں محاذ نے متاثرین کا دفاع کرنے کی کوشش کی، تو بی جے پی کی طرف سے فوری طور پر یہ الزام لگایا جائے گا کہ وہ ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک ’گھس پیٹھیوں‘ کی حمایت کررہے ہیں اور اس طرح بی جے پی انتخابی سیاست میں بھر پورمرکزیت حاصل کرسکتی  ہے۔ اس موضوع کا ذیلی مضمون یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن (جوان لاکھوں لوگوں کی حمایت کرتا ہو) مسلم دوست اور وطن دشمن ہے۔ کانگریس یقیناًبی جے پی کی اس چال ؍ جال کو دیکھ اور محسوس کررہی ہوگی، مگر اس کے پاس اس کا کوئی جواب نظر نہیں آرہا، یہ طے ہے کہ اگرآسام میں 2019ء کا الیکشن مسلمانوں کی حمایت یا مسلمانوں کی مخالفت میں ہوا، تو بی جے پی کا بیڑا پار ہے اور اس کے اثرات ملک کے دوسرے حصوں میں بھی یقیناً محسوس کیے جائیں گے؛ یہی وجہ ہے کہ آسام امیت شاہ کے لیے شکاری کتے کو کام پر لگانے والی سیٹی جیسا ہے، جس کے ذریعے وہ پورے ملک کے نام نہاد ’قوم پرستوں‘ کوسیکولر طبقہ کے خلاف برانگیختہ کرنا چاہتے ہیں۔ امیت شاہ اور بی جے پی کو اپنی انتخابی سیاست کا کامل ادراک ہے، مگر کیا وہ آسام کو جانتے ہیں؟
اس سوال کو سمجھانے کے لیے میں آپ کو35 سال پیچھے گوہاٹی کے نندن ہوٹل کے اپنے چھوٹے سے روم میں لیے چلتا ہوں، وہاں چار لوگ مجھ سے ملنے آئے، جو پاورفل، مگر متواضع لگ رہے تھے، وہ کچھ حیرت زدہ بھی تھے، ان کے سربراہ کے ایس سدرشن تھے،جو اس وقت آر ایس ایس کے ’بودھک پرمکھ‘ (فکری سربراہ) تھے اور بعد میں ’سرسنگھ چالک‘ بنے، جبکہ بقیہ تین افراد آر ایس ایس میں شمال مشرقی ہندوستان کے’ماہر‘ سمجھے جاتے تھے (وہ فی الحال بی جے پی اور آرایس ایس میں بڑے عہدوں پر فائز ہیں)، وہ میرے پاس اس لیے آئے تھے کہ میں یہ پتا لگاؤں کہ ان دنوں آسام میں ہونے والے فسادات کے دوران بنگالی ہندو کیسے مارے گئے تھے؟ آسامی ’مسلم گھس پیٹھیوں اور ہندو پناہ گزینوں میں فرق کیوں نہیں کرپائے؟‘ سدرشن نے مجھ سے پوچھا کہ:
’’انھوں نے کھوئراباری میں اتنے سارے ہندووں کو کیسے ماردیا؟‘‘
تو میں نے ان کے سامنے آسام کی ان لسانی و نسلی پیچیدگیوں کی توضیح کی، جن کی وجہ سے وہ فساد ایک ’جمہوری قتلِ عام‘ میں بدل گیا تھا۔ سدرشن نے کہا: ’’مگر ہندو توغیرمحفوظ ہیں!‘‘۔
یہ گفتگو تفصیل سے میری کتاب Assam: A Valley Divided (صفحات:121-22) میں محفوظ ہے، آرایس ایس نے اس کے بعد آسامی مزاحمت کاروں کے لیے نئے سرے سے تربیتی مہم چلائی اور جیسا کہ میں اپنے کالم Writings On The Wall میں لکھ چکا ہوں آسام میں گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو حاصل ہونے والی کامیابی اسی طویل تربیتی مہم کا نتیجہ تھا، اس وقت آسام میں سابق AASU لیڈرز، جنھوں نے بعد میں آسام گن پریشدمیں شمولیت اختیار کرلی تھی، وہ تمام بی جے پی کا حصہ ہیں اوران میں آسامی وزیر اعلیٰ اوران کے غیر معمولی پاورفل کولیگ بھی ہیں۔
مگر جیسا کہ 1983ء میں جوانی میں انھوں نے کیا تھا، اب بڑھاپے میں بھی انھیں آرایس ایس؍ بی جے پی کے اس حکم ’بنگالی مسلمانوں کو نشانہ بناؤ اور ہندووں کو قبول کرو‘ کی تعمیل کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی، بی جے پی نے آسام کو 2019ء کے الیکشن میں کامیابی کی کلید کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، نوٹ بندی کے فیصلے سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ’شاہ۔مودی‘ کی جوڑی بڑا سے بڑا رسک لے سکتی ہے، البتہ سیاسی مفاد کے لیے اقتصادی خسارے کا رسک لینا ایک چیز ہے، جبکہ اسی مقصد کے لیے پیچیدہ ترآسام میں پرانی آگ کو ہوا دینا دوسری چیز ہے، ممکن ہے کہ ماحول پرامن رہے؛ لیکن اگر ایسا نہیں رہا، تو پھر ہندو بنام مسلم، آسامی بنام بنگالی (ہندو ہو یا مسلم) ہندو بنام ہندو اور مسلم بنام مسلم خوں ریزی کا وحشت ناک سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
شیکھر گپتا (چیئرمین و ایڈیٹراِن چیف دی پرنٹ، سابق ایڈیٹران چیف روزنامہ انڈین ایکسپریس)
ترجمانی: نایاب حسن

Amit Shah & Modi are playing with a fire that doesn’t distinguish between Muslim & Hindu

SHEKHAR GUPTA
Don’t ask me to tell you a story about Rwanda. Wikipedia would tell you more than me. You might not even need me to tell you stories about the great massacre of Nellie, 35 years ago. It’s part of our political folklore now. Let me tell you, instead, about less familiar places: Khoirabari, Gohpur, and Sipajhar. These places on the north bank of the Brahmaputra must be remembered when a deeply polarising debate over the National Register of Citizens in Assam is raging.

In the killings of 1983 in the Brahmaputra Valley, about 7,000 people died. A little over 3,000 of these were Muslims slaughtered in Nellie in a few hours early on 18 February morning. The rest were scattered all over, and mostly Muslim. In the three places we mentioned, those killed were almost all Hindu. And by fellow Hindus.

Like most things in the northeast, it’s a complex story. Let’s lift the layers. The attacking Hindus were Assamese-speaking, those massacred were Bengalis. The linguistic and ethnic hatred was as vicious as the communal bloodlust. Where the two impulses got rolled into one, as in Bengali Muslim enclaves like Nellie, the story was simpler as Assamese Hindus killed Bengali Muslims. Everybody was at everybody else’s throat. The BJP, and a well-meaning Supreme Court, have stirred the same deadly cocktail.

Four million people have failed to make the cut in the final NRC draft. They’ve been described differently, depending on whether the BJP is speaking as the government or a party. Home minister Rajnath Singh says it’s only an interim first draft. Amit Shah calls them “ghuspethiyas” (infiltrators) in Parliament. How will you read this if you were on this list? You will feel targeted.

Next, the finance minister (and the real chief minister, never mind the title) of Assam, Himanta Biswa Sarma, told us that about a third of these 40 lakh are Hindus. The BJP’s solution: The new citizenship bill whereby Hindus and Sikhs from neighbouring countries would be given Indian citizenship as a norm. Even if this law passes, let’s see how the “indigenous” Assamese react to this. This, sharing space with Bengalis, Muslim or Hindu, isn’t what they wanted. Remember, they were killing them both in 1983. Prafulla Kumar Mahanta, a former chief minister, Asom Gana Parishad chief and a junior BJP ally now, has already expressed disagreement with this.

From all estimates, chances are that no more than half-a-million of these 4 million will ultimately be left out in the final tally. There’s an anomaly in the process that can’t sustain. The Gauhati High Court, in its wisdom, sanctified the “indigenous” demand that certificates granted by village panchayats be not treated as proof of citizenship. Now, what other evidence would these poorest of people bring from a pre-Aadhaar past? The state government didn’t appeal against this. It would have ended all the fun, you see. Someone else knocked at the SC’s door. It didn’t approve the high court order, but passed the buck back, asking the high court to draw up the norms for which panchayat certificates will be legitimate. It was in this confusion that the Supreme Court rail-roaded the preparation of the NRC. If any reasonable view is taken of these certificates, hardly any proven “aliens” will remain. This isn’t what the BJP would want.

The court had gone by the spirit of the 1985 Rajiv-AASU/AAGSP peace accord. It promised an NRC with 25 March 1971 as the cut-off year for determining citizenship. What this meant was, anybody who had come to India before that date would be a legitimate citizen. This was based on the Indira-Mujib Agreement, whereby Bangladesh had agreed to take back all its crore or so refugees from India. Almost 80 per cent of these were Hindu. Indira Gandhi wanted them all, Muslims and Hindu, to return.

It was in 1985, 33 years ago, when Rajiv signed the accord with Assam agitators, promising the NRC on this basis. For all the various reasons, the NRC wasn’t made until now. Two more generations have grown since. Can you deport or disenfranchise them now? Even the BJP knows it won’t happen.

If anybody from the BJP says there is no politics to it, ask them if they didn’t hear Amit Shah’s speech. He is to be given full marks for transparency as he laid out his pitch for the 2019 campaign. Since claims of “vikas” are always less tempting than their promise, “nationalist” polarisation will be the BJP’s vehicle for a second term. The issue in Assam will keep festering until then. The BJP will keep calling millions ghuspethiyas and, by implication, extend the insinuation to all Bengali-speaking Muslims in the country.

The expectation is that the “secular” opposition, pushed along by its Left-intellectual support base, would ultimately be baited into defending these, and by implication, the infiltrators. The subtext will be: They are pro-Muslim and anti-national. Congress sees the trap, but doesn’t have an answer. If 2019 is set up as a vote for or against Muslims, the BJP has it in the bag.

Assam for Amit Shah, therefore, is just a giant dog whistle to rouse the “nationalist” faithful all over the country. Amit Shah and the BJP know their electoral politics better than anybody else. But do they know Assam?

I will take you back 35 years, to my little room in Guwahati’s Nandan Hotel. My four visitors had an aura of power with humility. They were also bewildered. The leader was K.S. Sudarshan, then “Bouddhik Pramukh” (intellectual chief) of the RSS. He rose to Sarsanghachalak later.

A couple of the rest, northeast “specialists” in the RSS, now occupy key positions between the Sangh and the BJP government. The reason they had sought me out was to figure out how come so many Bengali Hindus had been killed in the Assam riots early that month. How can these Assamese not make the simple distinction between “Muslim infiltrators and Hindu refugees?” How could they kill so many Hindus in Khoirabari, Sudarshan asked. I explained the ethnic and linguistic complexities in Assam which made the massacres, in a brutal way, secular. “Kintu Hindu toh arakshit hai,” (but the Hindu is unprotected), Sudarshan said.

That conversation is recorded in my 1984 Assam: A Valley Divided, (page 121-22). The RSS then launched a patient campaign to re-educate Assamese agitators. The last assembly election, as I wrote in my ‘Writings On The Wall’, was the trophy of its success. The BJP in Assam now consists almost entirely of former AASU and later AGP converts, including the chief minister and his more powerful colleague.

But like they did in their youth in 1983, they will again struggle to deliver on the NRC on RSS/BJP terms: Target Bengali Muslims, embrace the Hindus. The BJP has decided to use Assam as its key to 2019. As demonetisation showed us, the Shah-Modi duo can take big risks. Risking economic damage for political benefit, however, is one thing, stoking old fires in complicated Assam is another. It’s possible that things will remain calm, but if they don’t, it will again be Hindu against Muslim, Assamese against Bengali (Hindu or Muslim), Hindu against Hindu and Muslim against Muslim.
4 August, 2018



No comments:

Post a Comment