کیا دواؤں یا پرفیوم میں الکحل کا استعمال کرنا جائز ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا دواؤں یا پرفیوم میں الکحل کا استعمال کرنا جائز ہے؟
Alcohol is permissible in medicine or perfume?
الکحل (Alcohol) ایک Chemical Composition یعنی ایک فارمولہ ہے جو ہیدروکسل Hydroxyl (-OH) سے بنتا ہے، جس میں نشہ ہوتا ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شراب (جس کو عربی میں خمر اور انگریزی میں Wine کہتے ہیں) کا پینا حرام ہے خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ پہلے شراب عموماً بعض چیزوں مثلاً انگور کو سڑاکر بنائی جاتی تھی جس کو دیسی شراب کہتے ہیں۔ اب نئی ٹکنولوجی کے ذریعہ بھی شراب تیار ہوتی ہے، جس کو انگریزی شراب کہتے ہیں۔ لیکن شرعی اعتبار سے دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ ہر وہ چیز جو نشہ پیدا کرے اس کا پینا یا اس کا کاروبار کرنا یا ایسی کمپنی کا شےئر خریدنا یا اس میں ملازمت کرنا جو شراب بناتی ہیں، سب حرام ہے۔ بعض حضرات جو شراب پینے کے عادی بن جاتے ہیں اُن کو تھوڑی مقدار میں شراب نشہ نہیں کرتی، اس کے متعلق قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے وضاحت کی ہے کہ اگر کوئی شخص پہلی مرتبہ کوئی چیز پئے اور اس سے نشہ ہو تو وہ شراب کے حکم میں ہے۔
شراب پینے کے بعض فوائد ہوسکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر شراب پینے میں نقصانات بہت زیادہ ہیں، جیساکہ ہم اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کے احوال دیکھتے ہیں جو شراب پینے کے عادی بن جاتے ہیں۔ نیز جس ذات نے انس وجن اور ساری کائنات کو پیدا کیا ہے، اس نے شراب پینے سے تمام انسانوں کو منع کیا ہے، یعنی شراب پینے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ نیز شراب پینا انسان کو ہلاک کرنے والے سات بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔
شراب پینے کے بعض فوائد ہوسکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر شراب پینے میں نقصانات بہت زیادہ ہیں، جیساکہ ہم اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کے احوال دیکھتے ہیں جو شراب پینے کے عادی بن جاتے ہیں۔ نیز جس ذات نے انس وجن اور ساری کائنات کو پیدا کیا ہے، اس نے شراب پینے سے تمام انسانوں کو منع کیا ہے، یعنی شراب پینے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ نیز شراب پینا انسان کو ہلاک کرنے والے سات بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔
اب بعض انگریزی دواؤں خاص کر Life Saving Drugs میں دواؤں کی حفاظت یا بعض بیماریوں کے علاج کے لئے نئی ٹکنولوجی کے ذریعہ تیار کردہ الکحل (Alcohol) ملایا جاتا ہے، مثلاً سانس کی زیادہ تر دواؤں میں الکحل ہوتا ہے۔ ہومیوپیتھی (Homeopathy) کی اکثر دواؤں میں بھی الکحل کا استعمال ہوتا ہے، جو پینے والی شراب سے تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح پرفیوم (Perfume ) میں بھی الکحل کا استعمال ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی دوائیں (Medicines) یا پرفیوم (Perfume) جن میں میں الکحل (Alcohol) ہوتا ہے، کیا ان کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ اگر ایسی دواؤں سے بچنا ممکن ہے جن میں الکحل ہے یعنی ان کا متبادل مارکیٹ میں موجود ہے تو استعمال نہ کریں، ورنہ ایسی دوائیں استعمال کی جاسکتی ہیں جن میں الکحل (Alcohol) موجود ہے، کیونکہ وہ مقدار میں بہت ہی کم ہوتا ہے، اور وہ پینے والے الکحل سے تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے جیساکہ ماہرین سے معلوم کیا گیا، نیز اُس کا پینا مقصود نہیں ہوتا اور نہ ہی ان سے نشہ آتا ہے۔ اسی طرح وہ الکحل (Alcohol) والی دوائیں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں جو بدن کی صفائی وغیرہ کے لئے استعمال کی جاتی ہیں مثلاً انجکشن لگانے سے قبل اور بعد میں، نیز خون نکالنے سے قبل یا بعد میں، جو سیکنڈوں میں اڑ جاتا ہے۔
ہومیوپیتھی (Homeopathy) کی اکثر دواؤں کی استقامت اور اس کی حفاظت کے لئے بھی الکحل (Alcohol) کا استعمال ہوتا ہے، لیکن وہ مقدار میں بہت ہی کم ہوتا ہے۔ ہومیوپیتھی دوائیں چند قطروں پر ہی مشتمل ہوتی ہے جو چینی، پانی اور دودھ سے بنے Pills میں ڈالی جاتی ہے ۔ اُن چند قطروں میں بہت معمولی مقدار میں وہ الکحل (Alcohol) ہوتا ہے جو پینے والے الکحل سے بہت زیادہ ہلکا ہوتا ہے، جیسا کہ ماہرین سے معلوم کیا گیا۔ اس لئے علماء کرام نے کہا کہ ہومیوپیتھی دوائیں استعمال کی جاسکتی ہیں۔
رہا معاملہ پرفیوم (Perfume) کا، تو پرفیوم کے استعمال سے بچنا ممکن ہے،لہٰذا ایسے پرفیوم کے استعمال سے بچنا ہی بہتر ہے جن میں نئی ٹکنولوجی کے ذریعہ تیار کردہ الکحل (Alcohol) ہوتا ہے، کیونکہ بغیر الکحل والے عطر بڑی مقدار میں آسانی سے ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ ہاں علماء نے تحریر کیا ہے کہ پرفیوم (Perfume) میں استعمال ہونے والے الکحل، جو Hydroxyl (-OH) سے بنتا ہے، کی حرمت واضح طور پر قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے، علماء کرام کا اجتہاد ہے، نیز الکحل والے پرفیوم (Perfume) کا استعمال بہت عام ہوگیا ہے جسے عموم بلوا کہا جاتا ہے، لہٰذا الکحل والے پرفیوم (Perfume) کا استعمال کرنا حرام تو نہیں ہے، لیکن بچا جائے تو بہتر ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی
محمد نجیب قاسمی سنبھلی
.....
الکحل کے بارے میں جب تک اِس کا یقین نہ ہوجائے کہ وہ اشیاء ثلاثہ: انگور، کشمش اور کھجور ہی سے بنا ہے، اُس وقت تک برائے علاج ایسا الکحل ملی ہوئی دواوٴں کے استعمال کی گنجائش ہے اور عام طور پر ہومیو پیتھی دواؤں میں جو الکحل استعمال ہوتا ہے، وہ انگور یا کھجور سے تیار کردہ نہیں ہوتا؛ بلکہ دیگر اَشیاء سے بنا ہوا ہوتا ہے، لہذا اِس طرح کے الکحل ملی ہوئی ہو میو پیتھی دواء کے استعمال کی گنجائش ہے۔ وإن معظم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویة والعطور وغیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ، کما ذکرنا في باب بیع الخمر من کتاب البیوع، وحینئذٍ ہناک فسحة في الأخذ بقول أبي حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالیٰ عند عموم البلویٰ، واللّٰہ سبحانہ أعلم۔ (تکملة فتح الملہم، کتاب الأشربة / حکم الکحول المسکرة ۳/۶۰۸ مکتبة دار العلوم کراچی،حاشیہ فتاوی دار العلوم: ۱۶/ ۱۲۹)
.................
سوال (۶۵۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: الکحل جو کہ انگزیری اور ہومیوپیتھک دواؤں میں کثرت سے استعمال ہوتی ہے اور پرفیوم وغیرہ میں بھی استعمال ہوتی ہے، ایسی دواؤں اور خوشبوؤں کا استعمال کرنا کیسا ہے؟ اور پرفیوم چھڑک کرایسے کپڑوں میں نماز ہوجائے گی یا نہیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
دواؤں اور پر فیوم میں عموماً جو الکحل استعمال ہوتا ہے وہ کھجور یا انگور کا نہیں ہوتا؛ بلکہ دیگر چیزوں کا بنا ہوا ہوتا ہے، اور بہت معمولی درجہ میں ہوتا ہے، جس سے نشہ وغیرہ نہیں آتا ہے؛ لہٰذا ضرورت کے وقت اُس کے استعمال کی گنجائش ہے، اُس کے کپڑے پر لگنے سے ناپاکی کا حکم بھی نہیں دیا جائے گا۔ (احسن الفتاویٰ ۸؍۴۸۸)
وأما ماہو حلال عند عامۃ العلماء فہو الطلاء، وہو المثلث ونبیذ التمر والزبیب، فہو حلال شربہ ما دون السکر لاستمراء الطعام والتداوي وللتقویٰ علی طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ لا للتلہي، والمسکر منہ حرام، وہو القدر الذي یسکر وہو قول العامۃ۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الأشربۃ / الباب الأول ۵؍۴۱۲)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر سلمان منصورپوری غفرلہ
۲۷؍۱۱؍۱۴۲۴ھ
الکحل کے بارے میں جب تک اِس کا یقین نہ ہوجائے کہ وہ اشیاء ثلاثہ: انگور، کشمش اور کھجور ہی سے بنا ہے، اُس وقت تک برائے علاج ایسا الکحل ملی ہوئی دواوٴں کے استعمال کی گنجائش ہے اور عام طور پر ہومیو پیتھی دواؤں میں جو الکحل استعمال ہوتا ہے، وہ انگور یا کھجور سے تیار کردہ نہیں ہوتا؛ بلکہ دیگر اَشیاء سے بنا ہوا ہوتا ہے، لہذا اِس طرح کے الکحل ملی ہوئی ہو میو پیتھی دواء کے استعمال کی گنجائش ہے۔ وإن معظم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویة والعطور وغیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ، کما ذکرنا في باب بیع الخمر من کتاب البیوع، وحینئذٍ ہناک فسحة في الأخذ بقول أبي حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالیٰ عند عموم البلویٰ، واللّٰہ سبحانہ أعلم۔ (تکملة فتح الملہم، کتاب الأشربة / حکم الکحول المسکرة ۳/۶۰۸ مکتبة دار العلوم کراچی،حاشیہ فتاوی دار العلوم: ۱۶/ ۱۲۹)
.................
سوال (۶۵۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: الکحل جو کہ انگزیری اور ہومیوپیتھک دواؤں میں کثرت سے استعمال ہوتی ہے اور پرفیوم وغیرہ میں بھی استعمال ہوتی ہے، ایسی دواؤں اور خوشبوؤں کا استعمال کرنا کیسا ہے؟ اور پرفیوم چھڑک کرایسے کپڑوں میں نماز ہوجائے گی یا نہیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
دواؤں اور پر فیوم میں عموماً جو الکحل استعمال ہوتا ہے وہ کھجور یا انگور کا نہیں ہوتا؛ بلکہ دیگر چیزوں کا بنا ہوا ہوتا ہے، اور بہت معمولی درجہ میں ہوتا ہے، جس سے نشہ وغیرہ نہیں آتا ہے؛ لہٰذا ضرورت کے وقت اُس کے استعمال کی گنجائش ہے، اُس کے کپڑے پر لگنے سے ناپاکی کا حکم بھی نہیں دیا جائے گا۔ (احسن الفتاویٰ ۸؍۴۸۸)
وأما ماہو حلال عند عامۃ العلماء فہو الطلاء، وہو المثلث ونبیذ التمر والزبیب، فہو حلال شربہ ما دون السکر لاستمراء الطعام والتداوي وللتقویٰ علی طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ لا للتلہي، والمسکر منہ حرام، وہو القدر الذي یسکر وہو قول العامۃ۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الأشربۃ / الباب الأول ۵؍۴۱۲)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر سلمان منصورپوری غفرلہ
۲۷؍۱۱؍۱۴۲۴ھ
No comments:
Post a Comment