Friday, 24 August 2018

حلال جانور کے اعضاء ممنوعہ

حلال جانور کے اعضاء ممنوعہ
قربانی کرتے وقت چند چیزوں کی طرف خصوصاً توجہ
جانور کو ذبح کیا جاتا ہے تو اس کی چاروں رگیں کٹنے کے بعد بھی بہت دیر تک جانور زندہ رہتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کے پیر کھول دئے جائیں تو وہ اٹھ کر کھڑا  بھی ہوسکتا ہے اور بے قابو  بھی ہوسکتا ہے۔اس کا دل، دماغ اور پھیپھڑے (اعضاء رئیسہ) اور جسم کے اعضاء کام کرتے رہتے ہیں اور اس کی روح نکلنے میں پندرہ سے بیس منٹ لگ جاتے ہیں۔ اس دوران گو دماغ کو خون اور آکسیجن نہیں ملتی لیکن وہ مرتا نہیں ہے اور اپنا کام کرتا رہتا ہے اور اس کی وجہ سے دل اور پھیپھڑے اور دیگر اعضاءبھی اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔دماغ ہی کے کام کرنے کی وجہ سے عضلات میں تشنج  ہوتا ہے اور جانور تڑپتا ہے جس کی وجہ سے عضلا ت (گوشت) سے سارا خون نچڑ کر دل کی طرف بہتا ہے اور دل مسلسل اسے باہر پھینکتا رہتا ہے۔ یہ فاسد خون ہوتا ہے جو آکسیجن سے عاری ہوتا ہے۔ پھیپھڑے بھی کام کرتے رہتے ہیں اور جانور شروع میں گہری گہری سانسیں لیتا ہے۔ پھر یہ سانسیں دھیرے دھیرے کمزور ہونا شروع ہوتی ہیں اور آخر میں جانور کی سانس طویل اور گہری ہو جاتی ہے جسے میڈیکل اصطلاح میں gasping کہتے ہیں۔ایسی دو تین سانسیں لینے کے بعد جانور کی روح نکل جاتی ہے اور وہ مردہ ہو جاتا ہے۔
ہمارے قصاب برادران وقت کی بچت کیلئے یا اس ڈر سے کہ تڑپتا ہوا جانور رسی تڑا کر بے قابو نہ ہوجائے فوراً اس کا حرام مغز کاٹ دیتے ہیں جسے یہ کوڑی کرنا کہتے ہیں۔ کوڑی کرتے ہی یعنی حرام مغز کٹتے ہی دماغ سے اعضاء کا تعلق منقطع ہوجاتا ہے۔ دل اور پھیپھڑے یکلخت  اپنا کام کرنا بند کردیتےہیں۔ عضلات کا تشنج (اینٹھن) یکلخت ختم ہوجاتا ہے اور فاسد خون جسے نچڑ کر دل کی طرج بہنا چاہئے تھا عضلات یعنی گوشت ہی میں رک جاتا ہے اور یہ خون واقعی نقصان دہ ہوتا ہے۔ خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ حرام مغز کاٹ دینا بالکل ویسا ہی عمل ہے جیسے جانور کو الیکٹرک شاک دے کر مار ڈالنا۔ شاک لگتے ہی یا حرام مغز کٹتے ہی جانور کے دماغ کا تعلق تمام جسم سے یکلخت منقطع ہوجاتا ہے اور جانور ایک سکنڈ میں بالکل مردہ ہوجاتا ہے۔ شرعی حکم کے مطابق تو ہم جانور کی چاروں رگیں کاٹ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ جانور ذبح ہوگیا لیکن ہمارے قصاب بھائی اس کا حرام مغز کاٹ کر اسے موت سے پہلے ہی مارڈالتےہیں اور دم مسفوح (بہتا ہوا خون) کو جسے پوری طرح بہہ جانا چاہئے تھا روک دیتے ہیں۔ (یہ میں نے عام فہم زبان میں سمجھانے کی کوشش کی ہے ورنہ ڈاکٹر حضرات ذبیحہ کے  اس پورے جسمانی نظام سے اچھی طرح واقف ہیں)
یہ مسئلہ میں  نے تیس سال قبل مفتی سراج صاحب سے پوچھا تھا اور یہ بھی پوچھا تھا کہ اس کیلئے کیا کیا جائے کہ قصاب حضرات کوڑی کرنے سے باز آجائیں۔ مفتی صاحب نے اسے کیا قرار دیا تھا مجھے یاد نہیں لیکن فرمایا تھا کہ ایسے لوگوں کا انتظام کیا جائے جو قصاب کو اس باز رکھ سکیں۔ یہ فتویٰ عوامی آواز یا ڈسپلن میں شائع ہوا تھا لیکن نہ کوئی رد عمل سامنے آیا نہ کسی نے رائے زنی کی۔ اس معاملے میں  تیس سال قبل  ہم جتنے بے حس اور بے بس تھے اتنے ہی آج بھی ہیں۔ گذشتہ تیس سالوں سے میں اپنے قصاب کو حرام مغز کاٹنے نہیں دیتا لیکن  ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم اسے عمومی طور پر روکنے کیلئے کچھ نہیں کرسکتے۔ شریعت کی نظر میں مکروہ اور سائنس کی نظر میں نقصان دہ ذبیحہ کھانا ہمار مقدر ہوچکا ہے۔ ہم صرف اسی ذبیحے کو مکروہ ہونے سے بچاسکتے ہیں جس پر ہمار اختیار ہو ورنہ سال بھر ہم ایسا ہی مکروہ اور نقصان دہ  ذبیحہ بلکہ اس سے بھی بدتر کھانے پر مجبور ہیں۔
اس سال آپ کوشش کیجئے کہ آپ کا قصاب نہ حرام مغز کاٹنے پائے نہ دل چیرنے پائے۔قصاب حرام مغز کاٹنے پر بضد ہوگا اور آپ کی نظر چوکتے ہی کاٹ دے گا۔ اس کیلئے آپ کو قصاب بھائی کی خوشامد کرنا پڑے یا دو چار سو روپے مزید دینا پڑیں تو بھی یہ کر کے دیکھئے۔ پھر اچھی طرح مشاہدہ کیجئے کہ جانور کی روح نکلنے میں کتنا وقت لگتا ہے اور اس کا خون حرام مغز کٹے ہوئے جانور کی بہ نسبت کتنا بہتا ہے۔
..................
ذبح شدہ حلال جانور کے درج ذیل  سات اعضاء کھانے کو فقہاء نے ممنوع قرار دیا ھے:
( ۱ ) دم مسفوح: وه خون جوذبح کے وقت نکلتا ھے -
( ۲ ) ذکر: نرجانور کاعضو مخصوص -
( ۳ ) خصیتین: (فوطے / کپورے)
( ۴ ) ماده جانور کی پیشاب گاه -
( ۵ ) مثانہ: پیشاب کی تھیلی -
( ۶ ) غدود: جسم کےاندرکی گانٹھی
( ۷ ) پتہ: کلیجی میں تلخ پانی کا ظرف -
ان میں سے دم مسفوح (بہتاہوا خون) قطعا حرام ھے اور باقی چھ چیزیں مکروہ تحریمی ہیں

لما في إعلاء السنن : عن مجاهد قال: كره رسول الله صلي الله عليه وسلم من الشاة سبعا : المرارة والمثانة والغدة والحياء والذكر واﻷنثيين والدم ، وكان رسول الله صلي الله عليه وسلم يحب من الشاة مقدمها أخرجه محمد في 《كتاب اﻵثار》• قال الشيخ ظفر التهانوي : والدليل علي كراهة هذه اﻷشياء تحريما أنه ذكرفيها الدم والمرادبه المسفوح وهوحرام إجماعا •

(إعلاء السنن / كتاب الذبائح ، باب مايكره من الحيوان المذكي ج ۱۷ ص ۱۲۵ ، إدارة القرآن كراچی)

وفي البدائع : وأمابيان مايحرم أكله من أجزاء الحيوان المأكول، فالذي يحرم أكله منه سبعة : الدم المسفوح ، والذكر، واﻷنثيان ، والقبل ، والغدة ، والمثانة ، والمرارة ؛ لقوله (عزشانه ): 《ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث》 { اﻷعراف : ١٥٧ } وهذه اﻷشياء السبعة مما تستخبثه الطبائع السليمة ، فكانت محرمة • وماروي عن مجاهد - رضي الله عنه - أنه قال: كره رسول الله صلي الله عليه وسلم من الشاة الذكر ، واﻷنثيين ، والقبل ، والغدة ، والمرارة ، والمثانة ، والدم ، فالمراد منه كراهة التحريم ؛ بدليل أنه جمع بين اﻷشياء الستة وبين الدم في الكراهة والدم المسفوح محرم •

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع / كتاب الذبائح ، فصل فیمایحرم أكله من أجزاء الحيوان ، ج ۷ ص ۲۷۲ دارالکتب العلمیة بيروت ) •

وفي مجمع اﻷنهر: ويكره من الشاة الحياء -- وهو الفرج ، والخصية والمثانة والذكر والغدة والمرارة والدم المسفوح لما روي اﻷوزاعي عن واصلة بن جميلة عن مجاهد قال : كره رسول الله - صلي الله عليه وسلم - من الشاة الذكر ، واﻷنثيين ، والقبل ، والمرارة ، والمثانة ، والدم ، قال اﻹمام : الدم حرام ، وكره الستة وذلك لقوله عزوجل : 《 حرمت عليكم الميتة والدم 》 { المائدة : ٣ } فلما تناوله النص قطع بتحريمه ، وكره ماسواه ﻷنه مماتستخبثه اﻷنفس وتكرهه ، وهذا المعني سبب الكراهة لقوله تعالي : 《 ويحرم عليهم الخبائث 》 ، كما في التبيين •

(مجمع اﻷنهر في شرح ملتقي اﻷبحر / كتاب الخنثي ، قبيل كتاب الفرائض ج  ۴ ص ۴۸۹ مکتبه فقیه الامت دیوبند ، وهکذا فی الدر مع الرد/ قبیل کتاب الأضحية ج ۹ ص۴۵۱  دارالکتب العلمیة بيروت ، الفتاوي الهندية / كتاب الذبائح ، ج ۵  ص ۳۵۹ ، دارالكتب العلمية بيروت ، الفقه الحنفي في ثوبه الجديد ج ۴ ص ۱۹۵ ، دارالكتب العلمية بيروت  )
فقط والله اعلم وعلمہ
صرف یہ ناجائز ہے
باقی سب جائز، ہے مکروہ نہیں

No comments:

Post a Comment