ہاں میں اٹل بہاری واجپئی ہوں۔۔۔!
جی ہاں! میں اٹل بہاری واجپئی ہوں، ملک کا دسواں وزیر اعظم، بی جے پی کا بانی اور بلندیوں پر پہنچانے والا قدآور معتدل لیڈر، ہندوستانی سیاست میں کانگریس کا پشتینی راج ختم کرنے والا رہنما، آر ایس ایس سے متاثر انسان، ہندوستان میں ہندو تہذیب کو اونچائی پر لے جانے والا قائد ہوں۔ میں ہندوستان کے مردم خیز صوبہ بہار کا رہنے والا نہیں ہوں؛ بلکہ بہاری میرے نام کا حصہ ہے، لوگ بہاری سے مجھے واقعی بہار کا باشندہ سمجھنے لگتے ہیں، میری پیدائش ۲۵؍دسمبر ۱۹۲۴کو مدھیہ پردیش کے گوالیار ضلع کے شندے چھاؤنی میں ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔ حقیقتاً میرا خاندان یوپی کے آگرہ ضلع کا رہنے والا تھا۔ میرے والد پنڈت کرشن بہاری واجپائی ٹیچر تھے جنہوں نے دادا محترم شیام لال واجپائی کے حکم پر آگرہ سے گوالیار کے لئے رخت سفر باندھا اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ میری والدہ کا نام کرشنا دیوی واجپئی تھا۔ میرے والد ایک کامیاب ٹیچر تھے۔ میری ابتدائی تعلیم سرسوتی اسکول گوالیار میں ہوئی اور اس کے بعد میں نے وکٹوریہ کالج گوالیار سے گریجویشن کیا، مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے میں کانپور آگیا اور وہاں کے ڈی اے وی کالج سے لا میں گریجویشن کیا اور پھر لکھنؤ سے صحافت اور سیاست میں حصہ لیا۔ میری قابلیت کے مدنظر مجھے ہندوستان کے بڑے بڑے ایوارڈوں سے نوازا جاچکا ہے جن میں بھارت رتن، پدم بھوشن سمیت دیگر اہم ترین ایوارڈ شامل ہیں۔ میں نے گاندھی جی کے ساتھ ہندوستان چھوڑو تحریک میں بھی حصہ لیا تھا اور گرفتار بھی ہوا تھا۔ ہاں میں وہی اٹل بہاری واجپائی ہوں جو بھارتیہ جن سنگھ پارٹی کے بانیوں میں سے ایک تھا، میں ۱۹۶۸ سے ۱۹۷۳ تک جن سنگھ کا صدر رہا ۔ پھر میں نے آپسی اختلاف ہونے کے بعد جن سنگھ چھوڑکر ۱۹۸۰ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ میں دس بار لوک سبھا کا ممبر منتخب ہوا۔ میں تین بار وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہا۔ میں نے اکیلے بی جے پی پارٹی کی بنیاد ڈالی تھی، میں اپنے مشن میں منہمک رہا، عزم مصمم کے ذریعے آگے بڑھتا رہا اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب میری پارٹی کی صرف ایک ہی سیٹ لوک سبھا میں ہوا کرتی تھی لیکن ۱۹۹۶ میں ایک سیٹ دو سیٹ سے بڑھاکر میں نے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچایا۔ اور دوسری بار ۱۹۹۸ میں اکثریت سے بی جے پی کی حکومت بنوائی۔ میں اکیلا ہی جانب منزل چلا تھا اپنے ارادے میں پختہ تھا اور آج ایک آدمی کے ذریعے شروع کی گئی پارٹی پورے ہندوستان کے سفید وسیاہ کی مالک ہے۔ مرکز میں بی جے پی کی اکثریت والی حکومت ہے اور ہندوستان کی ریاستوں میں بھی اسی کی حکومت قائم ہے۔ میں وہ واحد لیڈر ہوں جو اترپردیش، دہلی، مدھیہ پردیش اور گجرات سے ممبر پارلیمنٹ رہ چکا ہوں۔ ہاں میں وہی اٹل بہاری واجپئی ہوں جو شاعر بھی تھا، صحافی بھی تھا، سیاسی لیڈر بھی تھا، میں کئی اخباروں کا ایڈیٹر بھی رہ چکا ہوں اور کئی نظموں کا خالق ہوں اور کئی کتابوں کا مصنف بھی۔ مجھے ہندی سے جنون کی حد تک عشق تھا میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں پہلی بار ہندی میں بھی خطاب کرچکا ہوں۔ میں اچھا مقرر بھی تھا میری شعلہ بیانی کا اندازہ اس تقریر سے آپ بخوبی لگاسکتے ہیں جب بابری مسجد کی شہادت سے ایک دن قبل میں نے کارسیکوں کے عظیم الشان اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: "وہاں نوکیلے پتھر ہیں اسے سمتل (ہموار )کرنا پڑے گا." اور کارسیوکوں نے وہ کردکھایا۔ ہندوستانی سیاست میں لوگ باگ مجھے اچھی شبیہ اور آر ایس ایس میں رہتے ہوئے سیکولر تصور کرتے ہیں وہ دھوکہ کھاگئے ہیں۔ واقعی میں سیکولر نہیں تھا، لیکن موجودہ سیکولر کا مکھوٹا پہننے والوں سے تو اچھا ہی تھا۔ میں آر ایس سے سے نوجوانی میں ہی منسلک ہوگیا تھا، میں نے پوری زندگی شادی نہیں کی؛ لیکن میں نے دو بیٹیاں گود لیں، جن کا نام نمتا اور نندتا ہے۔ میں کٹر ہندو تو کے درمیان ایک نرم لہجے اور اچھی شبیہ والا انسان تھا۔ انسان ہونے کے ناطے مجھ میں کئی خامیاں بھی تھیں اور خوبیاں بھی؛ لیکن آر ایس ایس سے منسلک ہونے کی وجہ سے میری خامیاں خوبیوں پر غالب آگئیں۔ ہاں میں وہی اٹل بہاری ہوں جس نے ہند، پاک تعلقات کو بہتر بنانے کی پیش رفت کی۔ میں مسئلہ کشمیر انسانیت اور جمہوریت پر حل کرنا چاہتا تھا.
میں پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہاں تھا۔ میں موجودہ وزیراعظم کی طرح چھپن انچ کا سینہ دکھانے کی دھمکی دے کر بریانی کھانے والا انسان نہیں تھا؛ بلکہ ضرورت پڑی تو کارگل کا میدان بھی گرم کیا اور ضرورت پڑی تو صدائے سرحد نام سے دہلی سے لاہور تک امن کی بس چلائی، دونوں ملکوں کے باشندوں کو جوڑنے کی کوشش کی۔ میں نے ملک کی خاطر اور ملک کی ترقی کی خاطر کئی سارے کام کئے۔ کئی ساری اسکیموں کو لانچ کیا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا. میں نے جو وعدہ کیا اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کی، میں موجودہ حکمراں کی طرح جملے باز نہیں تھا؛ بلکہ اپنے مشن کو مکمل کرنے پر یقین رکھنے والا انسان تھا۔ ملک کے عوام کو دھوکہ میں رکھنے والا انسا ن نہیں تھا؛ بلکہ ان سے کئے گئے وعدے کو پورا کرنے والا ایک رہنما تھا۔ ہاں میں وہی اٹل بہاری واجپائی ہوں جس نے نریندر مودی کو ۲۰۰۲ کے گجرات فسادات پر راج دھرم نبھانے کی صلاح دی تھی اور فسادات کی سخت مذمت کی تھی۔ میں نے ۲۰۰۵ میں سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی۔ میں عمر کے آخری پڑاؤ میں بستر مرگ پر طویل عرصے تک پڑارہا اور ۹۳؍ سال کی عمر میں میرے طویل سیاسی کیریئر کا خاتمہ ۱۶؍ اگست کو ایمس اسپتال میں ہوا اور یوں میرا گوالیار سے راج گھاٹ تک سفر مکمل ہوا.....!
.... منکووووووول....
نازش ہما قاسمی
9322244439
میں پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہاں تھا۔ میں موجودہ وزیراعظم کی طرح چھپن انچ کا سینہ دکھانے کی دھمکی دے کر بریانی کھانے والا انسان نہیں تھا؛ بلکہ ضرورت پڑی تو کارگل کا میدان بھی گرم کیا اور ضرورت پڑی تو صدائے سرحد نام سے دہلی سے لاہور تک امن کی بس چلائی، دونوں ملکوں کے باشندوں کو جوڑنے کی کوشش کی۔ میں نے ملک کی خاطر اور ملک کی ترقی کی خاطر کئی سارے کام کئے۔ کئی ساری اسکیموں کو لانچ کیا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا. میں نے جو وعدہ کیا اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کی، میں موجودہ حکمراں کی طرح جملے باز نہیں تھا؛ بلکہ اپنے مشن کو مکمل کرنے پر یقین رکھنے والا انسان تھا۔ ملک کے عوام کو دھوکہ میں رکھنے والا انسا ن نہیں تھا؛ بلکہ ان سے کئے گئے وعدے کو پورا کرنے والا ایک رہنما تھا۔ ہاں میں وہی اٹل بہاری واجپائی ہوں جس نے نریندر مودی کو ۲۰۰۲ کے گجرات فسادات پر راج دھرم نبھانے کی صلاح دی تھی اور فسادات کی سخت مذمت کی تھی۔ میں نے ۲۰۰۵ میں سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی۔ میں عمر کے آخری پڑاؤ میں بستر مرگ پر طویل عرصے تک پڑارہا اور ۹۳؍ سال کی عمر میں میرے طویل سیاسی کیریئر کا خاتمہ ۱۶؍ اگست کو ایمس اسپتال میں ہوا اور یوں میرا گوالیار سے راج گھاٹ تک سفر مکمل ہوا.....!
.... منکووووووول....
نازش ہما قاسمی
9322244439
No comments:
Post a Comment