Saturday 4 August 2018

حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے کسی مرحوم کی طرف سے قربانی؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم
یا اپنے کسی مرحوم کی طرف سے قربانی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس صاحب استطاعت بندہ کے پاس گنجائش ہو وہ اپنے مرحوم بزرگوں کی طرف سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرے،  یہ عمل بہت ہی مبارک ہے، ان سب کو اس کا ثواب اِن شآء اللہ پہنچے گا ۔۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دو بھیڑ ذبح فرمائے ہیں
ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی ان تمام امتیوں کی طرف سے جہنوں نے توحید کا اقرار کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دین پہنچادینے کی گواہی دی۔
25315 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوأَيْنِ قَالَ فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
مسند أحمد
3122 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ [ص: 1044] بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سنن إبن ماجة
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی اتنی پسند تھی کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنے کی باضابطہ وصیت فرمائی یعنی تاکیدی حکم فرمایا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بلا ناغہ دو بھیڑ ذبح فرماتے تھے ایک اپنی طرف سے اور ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ۔وہ فرماتے کہ پہر میں کبھی ناغہ نہ کیا۔
2790 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ حَنَشٍ قَالَ رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ مَا هَذَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ
سنن ابي داؤد۔
بَاب الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّت
1495 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ فَقِيلَ لَهُ فَقَالَ أَمَرَنِي بِهِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُضَحَّى عَنْ الْمَيِّتِ وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُضَحَّى عَنْهُ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَنْهُ وَلَا يُضَحَّى عَنْهُ وَإِنْ ضَحَّى فَلَا يَأْكُلُ [ص: 72] مِنْهَا شَيْئًا وَيَتَصَدَّقُ بِهَا كُلِّهَا قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ شَرِيكٍ قُلْتُ لَهُ أَبُو الْحَسْنَاءِ مَا اسْمُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ قَالَ مُسْلِمٌ اسْمُهُ الْحَسَنُ
سنن الترمذي ۔بَاب مَا جَاءَ فِي الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّتِ
أمرَني رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أَن أُضحِّيَ عنهُ ، فأَنا أضحِّي عنهُ أبدًا
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 2/152
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
أمرَني رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أن أضحِّيَ عنهُ بِكَبشينِ ، فأَنا أُحبُّ أن أفعلَهُ وقالَ مُحمَّدُ بنُ عُبَيْدٍ المحاربيُّ في حديثِهِ : ضحَّى عنهُ بِكَبشينِ واحدٌ ، عنِ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، والآخرُ عنهُ . فقيلَ لَهُ : فقالَ : إنَّهُ أمرَني فلا أدعُهُ أبدًا
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 2/316
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
یہ تمام احادیث اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے کسی مرحوم شخص کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور ان کے نام سے قربانی کرنے سے انہیں ثواب پہنچے گا ۔امام ابودائود وغیرہ نے باضابطہ میت کی طرف سے قربانی کئے جانے کا باب قائم فرمایا یے اور اس کے تحت انہیں احادیث سے استدلال فرمایا یے ۔۔۔ائمہ متبوعین میں  حنفیہ مالکیہ اور حنابلہ کا یہی مذہب ہے ۔شافعیہ کے یہاں کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
حضرت علی کی روایت کے راوی شریک اور ابو الحسناء  کے بارے میں بعض ائمہ جرح وتعدیل نے جو کلام کیا ہے اس سے کچھ لوگ ، سادہ لوحوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنا ضعیف روایت سے ثابت ہے لہذا وہ ناقابل اعتبار ہے
اس سلسلہ میں یہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ علامہ ابن حجر نے ابوالحسناء کو مجہول، اور ذہبی نے غیر معروف کہا ہے۔ لہذا یہ حدیث ضعیف ہوگئی۔ الخ .....
تو اس کی حقیقیت یہ ہے کہ
علامہ دولابی "الکنی" 151/1
میں فرماتے ہیں
حدثنا العباس بن محمد عن یحی بن معین قال: ابوالحسناء: روی عنہ شریک و الحسن بن صالح۔ کوفی۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحدیث وروایت کرنے والے  تو آپ کو بیشمار ملیں گے، مگر فن رجال کے جاننے والوں کی تعداد بہت کم ملے گی، یحییٰ بن معین اس فن کے امام ہی نہیں؛ بلکہ امام الائمہ سمجھے جاتے ہیں، ان کے عہد میں اس فن کے متعدد ائمہ تھے، مثلاً احمد بن حنبل، ابن مدینی، سعید القطان، ابن مہدی وغیرہ؛ مگرابن معین کوان سب بزرگوں میں ایک خاص امتیاز حاصل تھا۔
راوی کی عقل وفہم، خدا ترسی
قوت فہم حافظہ  مبلغ علم
قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کی جو تفصیلی خداداد صلاحیت ابن معین کو حاصل تھی وہ انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی تھی۔
فن اسماء الرجال کے اتنے بڑے امام ابن معین نے ابو الحسناء پہ کوئی جرح نہیں فرمایا۔ اتنے بڑے امام الجرح والتعدیل کا  سکوت فرمانااورجرح نہ کرنا
بجائے خود دلیل ہے کہ ابو الحسناء معروف  اور ثقہ راوی ہیں۔ ان کی تعدیل کے بعد اب
ذھبی کا  اس راوی کے بارے میں لایعرف کہنا غیر مقبول ہے۔
بھلا جس راوی سے دو دو ثقہ راوی (شریک ۔اور حسن بن صالح) روایت  کریں کیا وہ مجہول رہ سکتا ہے؟ لہذا ابن حجر کا  انہیں مجہول کہنا بھی ناقابل احتجاج ہے۔
ابن معین کی اس تعدیل کے بعد علامہ ہیتمی کا  مجمع الزوائد میں
فیہ ابو الحسناء ولا یعرف روی عنہ غیر شریک۔ 23/4
کی تردید بھی ہوگئی۔
أمَرَني رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أنْ أُضَحِّيَ عنه بِكَبْشَيْنِ فَأَنَا أُحِبُّ أنْ أَفْعَلَهُ، وقال المحَارِبِيُّ في حديثِهِ ضَحَّى عنه بكبشينِ واحدٍ عنِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم والآخرِ عنه فقيل له فقال إنه أمَرَني فلَا أدَعُهُ أَبَدًا
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: الهيثمي- المصدر: مجمع الزوائد- الصفحة أو الرقم: 26-4
خلاصة حكم المحدث: فيه أبو الحسنا ولا يعرف روي عنه غير شريك۔
یہاں ثابت کردیا گیا کہ ابو الحسناء سے شریک کے علاوہ حسن بن صالح نے بھی روایت کی ہے اور وہ دونوں ثقہ ہیں۔
امام ابو داود نے اس روایت پہ سکوت فرمایا ہے ۔حدیث کے علل مخفیہ کے اتنے بڑے امام جس روایت پہ سکوت فرمائیں وہ قابل حجت ہوتی ہے
رأيت عليا يضحي بكبشين فقلت له ما هذا فقال إن رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم أوصاني أن أضحي عنه فأنا أضحي عنه
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: أبو داود - المصدر: سنن أبي داود - الصفحة أو الرقم: 2790
خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
حافظ عسقلانی نے بھی تخریج مشکوة میں اسے حسن کہا ہے
إنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أوصاني أن أضحِّيَ عنهُ فأنا أضحِّي عنهُ
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 2/129
خلاصة حكم المحدث: [حسن كما قال في المقدمة]
مسند احمد میں یہی روایت صحیح سند کے ساتھ آئی ہے
أمرَني رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أَن أُضحِّيَ عنهُ ، فأَنا أضحِّي عنهُ أبدًا
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 2/152
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
امام حاکم نے بھی صحیح سند کے ساتھ حضرت علی والی روایت نقل فرمائی ہے۔حاکم کی تصحیح کے بعد بھی اب کچھ باقی رہ جاتا ہے کیا؟ 
عائشہ، ابو ھریرہ، جابر اور ابو رافع رضی اللہ عنہم اجمعین کی روایت سے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مذکورہ روایت کی تائید ہوتی ہے۔
25315 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوأَيْنِ قَالَ فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
مسند أحمد
پہر سوچنے کی بات ہے کہ جب میت کی طرف سے حج، صدقہ اور خیرات جیسی عبادات انجام دی جاسکتی ہیں تو قربانی کیوں نہیں؟؟؟؟
حدیث کے لفظ  "امرنی" غور طلب ہی  نہیں ،بلکہ اس بابت نص صریح ہے کہ میت کی طرف سے قربانی جائز ہے ۔عدم جواز کی سوائے تاویلات کے کوئی صریح دلیل نہیں۔
في ’’اعلاء السنن‘‘: روي عن علي رضي اللہ عنہ قال: ’’أمرني رسول اللہ ﷺ أن أضحيّ عنہ فأنا أضحِي عنہ أبدا‘‘ ۔ (۱۷/۲۹۶، باب ما جاء الأضحیۃ عن المیت ، السنن لأبي داود : ص۳۸۵، باب الأضحیۃ عن المیت)
في ’’بدائع الصنائع‘‘: إن الموت لا یمنع التقرب عن المیت بدلیل أنہ یجوز أن یتصدق عنہ ویحج عنہ وقد صح أن رسول اللہ ﷺ ضحی بکبشین أحدہما عن نفسہ والآخرعمن لا یذبح من أمتہ فدل ان المیت یجوز أن یتقرب عنہ ، فإذا ذبح عنہ صار نصیبہ للقربۃ فلا یمنع جواز ذبح الباقین ۔ (۴/۲۱۰، مجمع الأنہر : ۴/۱۷۳، فتاوی قاضیخان :۴/۳۳۳، باب فیما یجوز الضحایا وما لا یجوز، مکتبہ حقانیہ)
(فتاوی محمودیہ:۱۷/۲۲۶)
علامہ شمس الحق عظیم آبادی
کتنی مبنی بر حقیقت بات کہ گئے ! ملاحظہ فرمائیے!
( عن حنش ): بفتح الحاء المهملة وبالنون المفتوحة والشين المعجمة [ ص: 384 ] ( أوصاني أن أضحي عنه ): أي بعد موته إما بكبشين على منوال حياته أو بكبشين أحدهما عنه والآخر عن نفسي.
قال القاري في المرقاة: وفي رواية صححها الحاكم أنه كان يضحي بكبشين عن النبي صلى الله عليه وسلم وبكبشين عن نفسه وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرني أن أضحي عنه أبدا فأنا أضحي عنه أبدا قال الترمذي في جامعه : قد رخص بعض أهل العلم أن يضحى عن الميت ولم ير بعضهم أن يضحى عنه وقال عبد الله بن المبارك أحب إلي أن يتصدق عنه ولا يضحى، وإن ضحى فلا يأكل منها شيئا ويتصدق بها كلها انتهى.
وهكذا في شرح السنة للإمام البغوي .
قال في غنية الألمعي : قول بعض أهل العلم الذي رخص في الأضحية عن الأموات مطابق للأدلة ، وقول من منعها ليس فيه حجة فلا يقبل كلامه إلا بدليل أقوى منه ولا دليل عليه .
والثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يضحي عن أمته ممن شهد له بالتوحيد وشهد له بالبلاغ وعن نفسه وأهل بيته ، ولا يخفى أن أمته صلى الله عليه وسلم ممن شهد له بالتوحيد وشهد له بالبلاغ كان كثير منهم موجودا زمن النبي صلى الله عليه وسلم ، وكثير منهم توفوا في عهده صلى الله عليه وسلم فالأموات والأحياء كلهم من أمته صلى الله عليه وسلم دخلوا في أضحية النبي صلى الله عليه وسلم .
والكبش الواحد كما كان للأحياء من أمته كذلك للأموات من أمته صلى الله عليه وسلم بلا تفرقة .
وهذا الحديث أخرجه الأئمة من حديث جماعات من الصحابة عائشة وجابر وأبي طلحة وأنس وأبي هريرة وأبي رافع وحذيفة عند مسلم والدارمي وأبي داود وابن ماجه وأحمد والحاكم وغيرهم .
ولم ينقل عن النبي صلى الله عليه وسلم أن الأضحية التي ضحى بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نفسه وأهل بيته وعن أمته الأحياء والأموات تصدق بجميعها أو تصدق بجزء معين بقدر حصة الأموات بل قال أبو رافع " إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، كان إذا ضحى اشترى كبشين سمينين أقرنين أملحين ، فإذا صلى وخطب الناس ، أتى بأحدهما وهو قائم في مصلاه فذبحه بنفسه بالمدية ثم يقول : اللهم هذا عن أمتي جميعا من شهد لك بالتوحيد وشهد لي بالبلاغ ، ثم يؤتى بالآخر فيذبحه بنفسه ويقول هذا عن محمد وآل محمد فيطعمهما جميعا المساكين ويأكل هو وأهله منهما ، فمكثنا سنين ليس الرجل من بني هاشم يضحي قد كفاه الله المؤنة برسول الله صلى الله عليه وسلم والغرم رواه أحمد وكان دأبه صلى الله عليه وسلم دائما الأكل بنفسه وبأهله من لحوم الأضحية وتصدقها للمساكين وأمر أمته بذلك ولم يحفظ عنه خلافه.
خلاصہ کلام یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا  اپنی تمام امتی کی طرف سے قربانی کرنا جس میں آپ کی وفات یافتہ متعدد ازواج مطہرات کے علاوہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی تھے۔ اور پھر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس عمل کی  وصیت کرنا بتاتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنی امتی کی طرف سے قربانی کرنا کتنا محبوب عمل ہے ۔۔۔۔
اتنی کھلی بین ثبوتوں کے بعد اب کسی کا  یہ کہنا کہ:
"کیا حضور نے کبھی اپنی وفات یافتہ ازواج کی طرف سے قربانی فرمائی ہے؟؟؟ "
دریدہ دہنی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟؟؟؟
سند حدیث کے تعلق سے جو شبہات کے گرد اڑائے گئے تھے وہ کافور ہوگئے ۔۔۔۔اب ثابت یہ ہوا کہ صاحب استطاعت احباب ہرسال اپنی طرف سے بھی، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے بھی، اہل بیت رسول  کی طرف سے بھی مستقل جانور یا کم ازکم ساتویں حصہ میں شریک ہوکے ضرور قربانی کریں
بہت بڑے اجر وثواب کا باعث ہے۔
یہاں مسئلہ ضرور ملحوظ رہے کہ اگر میت نے اپنی طرف سے  قربانی کی وصیت کررکھی ہو اور اس کے لئے ثلث مال چھوڑ گیا ہو تو میت کے ثلث مال سے کی جانے والی قربانی کا مکمل گوشت واجب التصدق یے۔
اگر وصیت تو کی ہو لیکن مال نہ چھوڑا ہو
یا رشتہ دار اپنے نام سے قربانی کرکے صرف ثواب میت کو پہونچانا چاہے تو آخر کی ان دونوں صورتوں میں گوشت خود بھی لگاسکتا ہے۔ عام گوشتوں کی طرح اس کا حکم ہوگا۔
اس ذیل میں یاد رکھے جانے کے قابل یہ بات بھی ہے کہ اپنے نام سے  قربانی کرکے متعدد اموات کو ثواب  میں شریک کیا جاسکتا یے
لیکن میت کی طرف سے ان کے نام سے قربانی کرنا چاہیں تو ایک میت کی طرف  سے ایک چھوٹا جانور ضروری یے۔
چھوٹے جانور میں قربانی کی نیت سے ایک سے زائد ناموں کی گنجائش نہیں ہے۔ خواہ ایک فیملی کے متعدد لوگ ہوں یا الگ الگ فیملی کے۔ ادائی سنت کے لئے ایک سے زیادہ کی شرکت جائز نہیں ۔ہاں ثواب میں شرکت کے لئے تعددکی گنجائش ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی طرف سے کی جانے والی قربانی اسی قبیل سے تھی۔۔۔۔
3122 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ [ص: 1044] بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سنن إبن ماجة 
قوله: (موجوءين) تثنية موجوء اسم مفعول من وجأ مهموز اللام وروي بالإثبات للهمزة وقلبها ياء ، ثم قلب الواو ياء وإدغامها فيها كرمي ، أي : منزوعتين قد نزع عرق الأنثيين منهما وذلك أسمن لهما (عن محمد وآل محمد) استدل به من يقول الشاة الواحدة تكفي لأهل البيت في أداء السنة ومن لا يقول به يحمل الحديث على الاشتراك في الثواب كيف وقد ضحى عن تمام الأمة بالشاة الواحدة وهي لا تكفي عن أهل البيوت المتعددة بالاتفاق، وفي الزوائد: في إسناده عبد الله بن محمد مختلف فيه .
حاشية السندي على إبن ماجة
حضرات مالکیہ کا رجحان یہ ہے کہ ایک چھوٹے جانور میں ایک خانوادہ کے متعدد لوگوں کی شرکت ہوسکتی ہے جبکہ مختلف گھرانے کے لوگ ان کے یہاں بھی ایک چھوٹے جانور میں شریک نہیں ہوسکتے
ائمہ ثلاثہ کے یہاں کسی طرح سے بھی تعدد جائز نہیں جواز کے قائلین یہ حدیث پیش  تو فرمادیتے ہیں! لیکن  انہیں اس پہ غور کرنے کی یا تو فرصت نہیں ملتی یا شاید غور وتدبر کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں!
کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی تمام کلمہ گو امتی کی طرف سے ایک دنبہ ذبح فرمایا
آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ساری امت ایک خاندان سے ہیں یا مختلف خاندان سے ؟؟؟ مختلف خانوادے کے کے متعدد لوگوں کے لئے ایک بھیڑ تو تمہارے یہاں بھی جائز نہیں
تو پھر یہاں ایسا کیوں ہوا ؟؟؟
اصلیت یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ قربانی ایصال ثواب کے لئے تھی نہ کہ ادائی سنت کے لئے!
اور ایصال ثواب کے لئے ایک جانور میں متعدد لوگوں کی شرکت ہمارے یہاں بھی جائز ہے .واللہ اعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمي
  مركز البحوث الإسلامية العالمي
muftishakeelahmad@gmail.com


No comments:

Post a Comment