Tuesday 7 August 2018

اسلامی قانونِ وراثت؛ غیر منصفانہ تقسیم کی خطرناکیاں

اسلامی قانونِ وراثت؛ غیر منصفانہ تقسیم کی خطرناکیاں
۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی بھی مذہب یا قوم میں میراث کی تقسیم کے حوالے سے اعتدال و انصاف نہیں ہے، کہیں افراط ہے تو کہیں تفریط !بعض قوموں کے یہاں عورتیں اور بچوں کو حصے ہی نہیں دیئے جاتے
جبکہ بعض کے یہاں عورت کو مرد کے برابر حصہ دیدیا جاتا ہے ،تو کہیں طاقت ور کمزور کا حصہ ہضم کئے بیٹھا ہے
اسلام نے اپنے دیگر احکام شرع کی بہ نسبت میراث کے احکام بالکل واضح اور دو ٹوک انداز میں تفصیل کے ساتھ قرآن کریم میں  بیان کردیئے ہیں
اتنی تفصیل دیگر کسی بھی حکم کے بابت نہیں آئی ہے
چونکہ مال کہتے ہی اس کو ہیں جدھرانسان کا دل مائل ہو
مال کی محبت طبعی اور فطری ہے، اسی لئے مرنے والے کے چھوڑے ہوئے مال کی تقسیم کے بارے میں اسلام نے واشگاف انداز میں احکام دیئے ہیں۔
مرنے والا جو کچھ چھوڑ کر مرے اس میں بالترتیب چار حقوق وابستہ ہوتے ہیں:
۱۔ مرحوم کے کفن و دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں، اگر کوئی دوسرا شخص اپنی طرف سے کفن و دفن کا انتظام کر دے تو ترکہ سے یہ رقم نہیں لی جائے گی۔
۲۔ مرحوم کے ذمہ کسی کا کوئی قرض واجب الادا ہو تو اس کو ادا کیا جائے، چاہے قرضوں کی ادائیگی میں سارا مال خرچ کرنا پڑجائے۔ اسی طرح اگر مرحوم نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو اور بیوی نے خوش دلی سے معاف بھی نہ کیا ہو تو یہ بھی قرضہ ہے، اسے ادا کرنا ضروری ہے اور بیوی کو یہ مہر میراث کے علاوہ ملے گا، مہر کا بیوی کے میراث کے حصہ سے کوئی تعلق نہیں، مہر الگ دیا جائے گا اور میراث کا حصہ الگ دیا جائے گا۔
۳۔ تیسرا حق ’’وصیت‘‘ ہے، یعنی قرضوں کی ادائی کے بعد دیکھا جائے گا کہ مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال و جائیداد کے ایک تہائی (۱/۳) حصے کی حد تک ان وصیتوں کو پورا کیا جاے گا اور اگر وصیت تہائی مال سے زیادہ کی ہو تو ایک تہائی کی حد تک وصیت پورا کرنا ورثاء پر ضروری ہے، اس سے زیادہ وارثوں کے اختیار میں ہے، چاہے پورا کریں یا نہ کریں۔ البتہ مرحوم کی ناجائز وصیتوں کوپورا کرنا جائز نہیں۔
۴۔ وصیت پوری کرنے کے بعد جو کچھ مال باقی بچے اس کو شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق تمام ورثاء میں بلا تاخیر تقسیم کر دیا جانا ضروری ہے ۔
قرآن کے بتائے ہوئے قانون میراث کے مطابق وراثت تقسیم نہ کرنا آئین خداوندی کو پامال کردینا ہے ، جس پر ہمیشگی کے عذاب جہنم کی وعید سنائی گئی ہے:
وَ مَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَ لَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۔ (النساء: ۱۴)
ترجمہ: اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا اُسے اﷲ تعالیٰ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسا عذاب ہو گا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ (آسان ترجمہ قرآن)
عن سعید بن زید قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من اخذ شبرا من الارض ظلما فانہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع ارضین (مشکوٰۃ المصابیح، ۱۶۳/۲)
ترجمہ: حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ظلماً کسی کی زمین ایک بالشت بھی لی تو یہ زمین قیامت کے دن سات زمینوں تک اس کی گردن میں طوق بنا کر ڈالی جائے گی۔
عن انس قال قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: من قطع میراث وارثہ قطع اللّٰہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ۱۹۷/۲)
ترجمہ: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی وارث کو میراث سے محروم کردیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت میں اس کے حصے سے محروم فرمائیں گے۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ وسلّم: من کانت لہ مظلمۃ لاخیہ من عرضہ او شئی فلیتحﷲ منہ الیوم قبل ان لا یکون دینار و لا درہم ان کان لہ عمل صالح أخذ منہ بقدر مظلمتہ وان لم تکن لہ حسنات اخذ من سیئات صاحبہ فحمل علیہ۔ (صحیح البخاری، ۲۸۹/۱)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہے تو آج ہی اس کو معاف کروالے، اس دن کے آنے سے پہلے پہلے جس دن نہ درہم ہوں گے، نہ دینار، (بلکہ اس دن یہ ہو گا کہ) اگر ظالم کے پاس کوئی نیک عمل ہوگا تو اس نے اپنے بھائی پر جتنا ظلم کیا ہوگا اس کے بقدر نیکیاں مظلوم بھائی کو دے دی جائیں گی اور اگر ظالم کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو پھر مظلوم کے گناہ اس ظلم کے برابر ظالم کے اوپر ڈال دیے جائیں گے۔۔
میراث کو قرآن مجید کے احکام کے مطابق تقسیم کرنا وارثوں پر فرضِ عین ہے اور دوسروں رشتہ داروں اور برادری اور خاندان کے بزرگوں پر فرض کفایہ ہے۔
قانون وراثت کے مطابق میراث تقسیم نہ کرنا اور کچھ لوگوں کا میراث پہ قبضہ جمائے بیٹھے رہنا کافرانہ، یہودانہ اور مجرمانہ عمل ہے، جو حرام ہے اور مستوجب جہنم گناہ کبیرہ ہے
قرآن مجید میں اسے کافروں کا فعل اور کردار بتایا گیا ہے۔ ارشاد ہے: ’’اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کی محبت میں پوری طرح گرفتار ہو‘‘۔ (الفجر: 20-19)
اگر والد کے ساتھ کوئی بیٹا کام دھندہ میں معاونت کرتا تھا تو اس کی وجہ سے وہ تمام میراث کا تن تنہا مالک نہیں بن جاتا، اگر والد نے محنت یا خدمت کے پیش نظر ہمت افزائی کے طور پر اپنی زندگی میں بعض بیٹوں کو کچھ دیدیا ہو تو یہ امر آخر ہے جو ہدیہ اور گفٹ کے حکم میں ہے
لیکن اگر ایسا نہ ہو تو والد کی وفات کے بعد ایک سوئی میں بھی سارے ورثاء حسب حصص حقدار ہونگے ۔
شریعتِ مطہرہ کے مطابق تقسیم میراث کی برکتیں اور رحمتیں اور اجروثواب بہت زیادہ ہے:
1۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور ایسے بندے سے اللہ محبت کرتا ہے۔
2۔ میراث کے شرعی حکم پر عمل کرنے والا جنت کا حق دار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے بہت بڑی کامیابی بیان فرمایا ہے۔
3۔ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی اور اس دن کے عذاب سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
4۔ ایسے شخص کا مال حلال ہونے کی وجہ سے مالی عبادتیں قبول ہوتی ہیں جو آخرت کے دن بڑا سرمایہ ہوگا۔
5۔ جن عزیز و اقربا اور عورتوں کو میراث میں سے حصہ ملتا ہے وہ اس کے لئے دل سے دعائیں کرتے ہیں اور محروموں کوجب حق ملتا ہے تو وہ ایسے شخص کے ہمدرد بن جاتے ہیں۔
میراث تقسیم نہ کرنے اور مستحقین کو محروم رکھنے کے درج ذیل خطرناک پہلو ہیں:
1۔ میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنا اور دیگر وارثوں کا حق مارنا کفار، یہود ونصاریٰ اور ہندوؤں کا طریقہ ہے۔
2۔ میراث کا شرعی طریقے پر تقسیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی نافرمانی ہے۔ یہ صریح فسق ہے، لہٰذا ایسا شخص فاسق ہے، خاص طور پر برسہابرس اس رویے پر اصرار کرنا اور توبہ نہ کرنا تو اور بڑا گناہ اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔
3۔ میراث کے حقداروں کا مال کھا جانا یا کسی ایک وارث کی طرف سے تمام میراث پر قبضہ کرلینا بہت بڑا ظلم ہے، اگر کوئی دنیا میں ادا نہیں کرے گا تو آخرت میں لازماً دینا ہو گا۔
4۔ ایسا مال جس میں میراث کا مال شامل ہو اس سے خیرات و صدقہ اور تقرب کے طور پر انفاق کرنا، حج و عمرہ کرنا اگرچہ فتویٰ کے لحاظ سے جائز ہے اور اس سے حج کا فریضہ ادا ہوجائے گا لیکن ثواب حاصل نہیں ہو گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ پاک و طیب مال قبول کرتا ہے۔
5۔ جو میراث کا مال کھا جاتا ہے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
6۔ میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والا دوزخ میں داخل ہوگا۔
7۔ میراث مستحقین کو نہ دینے والا بندوں کے حقوق ضائع کرنے کا مجرم ہے۔
وراثت میں جتنے لوگوں کا شرعا حق بنتا ہے تمام حق دار لوگوں، عورتوں، بیٹیوں، بہنوں، ماں اور بیویوں کے لئے ضروری ہے کہ  اپنے حق کا نہ صرف مطالبہ کریں، بلکہ آگے بڑھ کر زوردار تقاضا کرکے اپنا حق وصول کریں، ورنہ فرضِ عین پہ ترک عمل کا گناہ انہیں بھی ہوگا۔
واللہ اعلم 
شكيل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي
muftishakeelahmad@gmail.com

رابطہ نمبر:
+5978836887

No comments:

Post a Comment