وطنی بہن ڈاکٹر کلپنا اچاریہ کی خدمت میں؛ اول. دوم.
آخری قسط
آخری قسط
جو درخت پھل دار ہوتا ہے، اسی پر پتھر پھینکے جاتے ہیں، جس درخت پر پھل ہی نہ ہو اس کی طرف پتھر بھی نہیں آتے، اسلام کی مثال ایسی ہی ہے، اسلام وہ دین برحق ہے، جس میں روحانی سکون، زندگی کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت، توازن و اعتدال، عقل ومصلحت سے ہم آہنگی اور فطرت انسانی سے مطابقت پائی جاتی ہے؛ اسی لئے یہ دین مسجد کے احاطہ میں بند ہوکر نہیں رہا؛ بلکہ اس نے زندگی کے میدان میں بھرپور رہنمائی کا کردار ادا کیا، اور گھر سے لے کر بازار اور بزم سے لے کر رزم تک ہر جگہ وہ چراغ راہ بن کر روشنی پہنچاتا رہا ہے، اور آج بھی پہنچا رہا ہے، اس کی یہی خوبی ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں کو فتح کر لیتا ہے، اور اس سے گھبرا کر بعض معاندین اسلام پر بے جا اعتراض کرتے ہیں، اور بعض لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو کر اسلام کے بارے میں زبان درازی کرتے ہیں۔
ابھی ہفتہ دو ہفتہ پہلے ڈاکٹر کلپنا اچاریہ نے آر ایس ایس کے تربیت یافتہ لوگوں کی ایک مجلس میں بے حد تلخ وتند تقریر کی ہے، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب چلائی گئی، راقم الحروف کو جب بعض دوستوں نے یہ تقریر سنائی تو غصہ سے زیادہ رحم آیا، اور اس سے بھی زیادہ تعجب ہوا، رحم آیا ان کی ناواقفیت اور لا علمی پر، اور تعجب اس پر ہوا کہ جھوٹی اور غلط باتیں یا ایسی باتیں جن سے انسان ناواقف ہو، کو بھی اتنے یقین اور قوت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جھوٹ کے آگے سچ بولنے والے بھی بونے نظر آنے لگیں، اور اس ناواقف شخص کی خود اعتمادی ان لوگوں کو بھی پیچھے چھوڑ دے جنہوں نے حقائق کو پڑھ رکھا ہے، اور سچائیاں جن کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں، انہوں نے اسلام کے بارے میں ایسی بے سروپا باتیں کہی ہیں کہ اسلام سے واقفیت رکھنے والا ایک معمولی شخص بھی ان کو قبول کرنا تو دور، ہنسے بغیر نہ رہ سکے گا؛ لیکن چوں کہ ناواقفیت کی وجہ سے بہت سے لوگ غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں؛ اس لئے بعض نکات کے بارے میں وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے:
۱۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بار بار کہا ہے کہ مسلمان اللہ کے سوا کسی کو نہیں مانتے، لاالٰہ الا اللہ کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو نہیں پوجیں گے– ڈاکٹر صاحبہ کی اس بات سے ہمیں اتفاق ہے کہ ہمارا عبادت اور بندگی کا تعلق صرف اللہ سے ہے ، ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرسکتے؛ البتہ اس کے ساتھ ساتھ ہم تمام مذہبی پیشواؤں اور بزرگوں کا احترام کرتے ہیں، خود قرآن مجید نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ دوسری قومیں جن دیویوں دیوتاؤں کی پوجا کررہی ہیں، ان کو بُرا بھلا نہ کہو (انعام: ۱۰۸) اسی طرح دوسرے انسانوں سے–خواہ وہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں–ہمارا بھائی چارہ کا تعلق ہے؛ کیوں کہ قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں (نساء: ۱) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تمام انسان بھائی بھائی ہیں، الناس کلھم اخوۃ (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۱۵۰۸) لہٰذا اگر مسلمان ایک ہی خدا کی عبادت کرے تو اس سے ہندو بھائیوں کو یا کسی اور مذہبی گروہ کو کیا نقصان ہے؟ پھر یہ عقیدہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے، بودھ، سکھ، عیسائی اور زیادہ تر قبائلی اور خود ہندو کہلانے والوں میں آریہ سماجی، برہمو سماجی اور لنگایت وغیرہ توحید کے قائل ہیں، یہاں تک کہ بعض ہندو تو خدا کا انکار کرتے ہیں؛ مگرڈاکٹر صاحبہ کا غیظ وغضب صرف مسلمانوں پر ہے۔
یہ تو ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو جو بے حد قابل توجہ ہے اور ان پر ڈاکٹر کلپنا اور اس طرح کی سوچ رکھنے والے بھائیوں اور بہنوں کو پورے خلوص کے ساتھ غور کرنا چاہئے، یہ ہے کہ خود ہندو مذہب کی معتبر کتابوں میں بہت واضح طور پر اللہ کے ایک ہونے کی بات کہی گئی ہے، اورمورتی پوجا کی مخالفت کی گئی ہے؛ چنانچہ اتھروید 13:4:12 میں ہے:’’ وہ ایشور ایک ہے، اور حقیقت میں وہ ایک ہی ہے‘‘، رگ وید 46:164:1 میں کہا گیا ہے:’’ سچا خدا ایک ہے، اسی کو وِدوانوں(عالموں) نے الگ الگ نام سے جانا ہے‘‘، یجروید32:3 میں خدا کے بارے میں کہا گیاہے:’’ اس کی کوئی مورتی، کوئی شبیہ نہیں ہے، اس کے نام کا جپ(ذکر) کرنا ہی سب سے بڑی عبادت ہے‘‘۔
بلکہ ویدوں میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جو شخص مخلوق کی پوجا کرے گا ،وہ جہنم میں داخل کیا جائے گا؛ چنانچہ یجروید 40:9 میں ہے:
’’جو کوئی اسمبوتی(خدا کی بنائی ہوئی ایسی چیزیں،جن کا بنانا انسان کے لئے ناممکن ہو) کی پوجا کرتے ہیں، انہیں اندھیری جہنم میں داخل کیا جائے گا، اور جوکوئی سمبوتی(خدا کی بنائی ہوئی ایسی چیزیں،جن کا بنانا انسان کے لئے ممکن ہو) کی پوجا کرے گا، وہ مزید گہرے اور اندھیری جہنم میں گرایا جائے گا‘‘
اس لئے اگر میری درخواست کلپنا بہن تک پہنچ جائے تو میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ خود اپنی مذہبی کتابوںکا مطالعہ کریں، اور کچھ اپنی عقل اور فکری قوت کا استعمال کریں کہ معبود تو پرمیشور(خالق) ہوتا ہے، اسی کی پوجا کی جاتی ہے، پھر کیا انسان کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ جن مورتیوں کو اس نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، ان ہی کے سامنے سر جھکائے؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک ماں باپ جس بچہ کو پیدا کریں، وہ اسی بچہ کو اپنے باپ یا ماں کا درجہ دے دے؟ میں یہ دعوت اس لئے دے رہا ہوں کہ میں ان کے ایک مخلص ، خیر خواہ بھائی کی حیثیت سے ان کو اس دوزخ میں جانے سے بچانا چاہتا ہوں، جن کا خود ان کی کتابوں میں ذکر آیا ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ’’ ہم(یعنی بعض ہندو دانشوروں) نے اللہ کے برابرمیں ایشور کو رکھ دیا ہے، یہ تعجب کی بات ہے؛ حالاں کہ ایشور تو دیالو ہے‘‘–اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اگر ایشور کے معنیٰ سنسکرت زبان میں خدائے واحد کے ہوں تو پھر واقعی اس کو( اللہ) کے ہم معنیٰ لفظ سمجھا جا سکتا ہے؛ لیکن اہم بات یہ ہے کہ قرآن نے جس خدا کا تصور دیا ہے، بار بار اس کے دیالو اور مہربان ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، قرآن مجید کی ہر سورت بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتی ہے، اس میں ایک ہی بار نہیں،دودو بار اللہ تعالیٰ کے بے حد مہربان اور دیالو ہونے کی بات کہی گئی ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی زیادہ تر ایسی صفات کا ذکر آیا ہے، جو رحمت اور مہربانی کو بتاتی ہے، جیسے: کریم یعنی کرم فرمانے والا، رؤوف اور حنان یعنی محبت کرنے والا، مجیب یعنی بندوں کی دعاء قبول کرنے والا، لطیف یعنی مہربان، عَفُویعنی معاف کرنے والا، توّاب یعنی معافی مانگنے والوں سے درگذر کرنے والا، رزاق یعنی روزی دینے والا، وغیر ذلک، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں، وہ زیادہ تر اللہ کے رحیم وکریم ہونے کو ظاہر کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی مہربانی کی اللہ کی ناراضگی سے کیا نسبت ہے؟ اس کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اللہ تعالیٰ کی بات نقل فرمائی ہے: میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے، سبقت رحمتي غضبي( مسلم شریف، حدیث نمبر: ۶۹۷۰)
اس لئے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ اسلام نے جس خدا کا تصور پیش کیا ہے وہ دیالو نہیں ہے۔
۲۔ ڈاکٹر کلپنا کو اسلامی عبادات کے بارے میں بڑی غلط فہمی ہے، ان کا خیال ہے کہ نماز میں جہاد کی تیاری کرائی جاتء ہے، اور نمازیوں کے ساتھ تلوار ہوتی ہے،غالباََ انہوں نے مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے، اگر وہ دیکھیں تو محسوس کریں گی کہ اسلام کی تمام عبادتوں میں خدا کے سامنے جھکاؤ، بندگی ، انسانی مساوات وبرابری، تہذیب وشائستگی اور غریبوں کی خدمت کا رنگ نمایاں طور پر پایا جاتا ہے، نماز پڑھنے والا ایک غلام کی طرح ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے، کبھی کمر تک جھکتا ہے، اور کبھی زمین پر اپنی پیشانی رکھ دیتا ہے، غور کیجئے کیا جنگ وجدال کرنے والے کی یہی کیفیت ہوتی ہے؟ جنگ جوؤوں کی زبان پر اپنی بڑائی کے الفاظ ہوتے ہیں، اس کا رویہ متکبرانہ ہوتا ہے، کیا نماز میں کہیں دور دور تک بھی اس کی کوئی جھلک پائی جاتی ہے؟ نمازی نماز کی حالت میں تلوار تو کیا کوئی سامان بھی اپنے ہاتھ میں نہیں رکھ سکتا، اور کوئی حرکت بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا؛ لیکن ڈاکٹر کلپنا کو پتہ نہیں کس نے بتا دیا کہ نمازمیں تلوار چلانا سکھایا جاتا ہے، اور مسلمان ہندوؤں کے خاتمہ کے لئے نماز پڑھتا ہے۔
اصل غلطی ہماری ہے کہ ہم نے برادرون وطن کو نماز کی حقیقت نہیں سمجھائی، نماز سورہ فاتحہ سے شروع ہوتی ہے، جس کی پہلی ہی آیت میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ تمام عالم یعنی تمام انسان تو کیا تمام مخلوقات کا پالنہار ہے، اس طرح ہر مسلمان کو یہ بات یاد دلائی جاتی ہے کہ دنیا میں جتنے انسان بستے ہیں، وہ ایک خدا کے پیدا کئے ہوئے ہیں، اور یہ رشتہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے اور محبت کے جذبات کو فروغ دیتا ہے، اور نماز ختم ہوتی ہے’’السلام علیکم ورحمتہ اللہ‘‘ کے کلمہ پر، جس میں سبھوں کے لئے سلامتی اوررحمت کی دعاء کی جاتی ہے، سوچئے کہ اس عبادت کا جنگ وجدال سے کیا تعلق ہے؟
ڈاکٹر کلپنا نے پتہ نہیں کہاں سے یہ بات معلوم کر لی کہ صوم کے معنیٰ اپنے کو جنگ کے لئے تیار کرنا اور اس کا مقصد جنگ کی ریہرسل کرنا ہے؛ حالاں کہ روزے کا جنگ سے کیا تعلق، جنگ کے لئے جانے والا فوجی کھاپی کر اور قوت بخش غذائیں لے کر میدان جنگ میں نکلتا ہے؛ تاکہ وہ زیادہ طاقتور اور تنومند ہو،جب کہ روزہ دار بھوکا پیاسا رہتا ہے، روزہ کا مقصد تو اپنے نفس پر کنڑول کی صلاحیت پیدا کرنا ہے؛ اسی لئے خود قرآن نے روزہ کا مقصد بتایا ہے ’’ لعلّکم تتقون‘‘ (بقرہ: ۱۸۳) یعنی روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں کہ تم میں گناہوں سے بچنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے؛ اسی لئے روزہ کسی نہ کسی شکل میں ہر قوم میں رہا ہے، ہندو بھائیوں کے یہاں بھی بعض دنوں میں اُپاس کیا جاتا ہے،یہ بھی آپ کے مذہب کے لحاظ سے روزہ ہی کی کی ایک شکل ہے۔
ڈاکٹر کلپنا نے یہ بات بھی کہی ہے کہ روزے کی حالت میں محمدﷺ نے جنگیں کی ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خاص روزہ سے جہاد کا کوئی تعلق نہیں ہے؛ ورنہ جب بھی مسلمان جہاد کی حالت میں ہوتے، انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا جاتا؛ لیکن ایسا نہیں ہے، یہ اتفاق ہے کہ رمضان کا مہینہ جو مسلمانوں کے لئے روزے کا مہینہ ہے، اسی مہینہ میں دشمنوں نے مسلمانوں کو جنگ پر مجبور کر دیا ، جیسے: غزوۂ بدر اور فتح مکہ، بدر کی لڑائی میں اگر مسلمان حملہ آور ہوتے تو یہ لڑائی مکہ کی سرحد پر لڑی گئی ہوتی؛ لیکن ایسا نہیں ہوا، اہل مکہ نے مسلمانوں پر حملہ کیا اور مدینہ کے قریب بدر میں ان کا مقابلہ کیا گیا، اسی طرح ہجرت کے آٹھویں سال آپ ۔صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر فوج کشی کرنی پڑی؛ لیکن یہ قدم آپ نے کیوں اُٹھایا؟ یہ بات برادران وطن کو سمجھنی چاہئے ، حقیقت یہ ہے کہ ایک غیر مسلم قبیلہ نبو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف تھا، اہل مکہ کے ساتھ حدیبیہ میں جو اہل مکہ کے ساتھ مسلمانوں کی صلح ہوئی، اس میں یہ بات شامل تھی کہ اہل مکہ اور مسلمان ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے گریز کریں گے، اور دونوں کے حلیف بھی اس میں شریک سمجھیں جائیں گے؛ مگر اہل مکہ اور ان کے حلیف بنو بکر نے اس کا لحاظ نہیں رکھا، اور حالاں کہ حرم کے اندر عربوں کی قدیم روایت کے مطابق کسی بھی شخص؛ یہاں تک کہ اپنے دشمن پر بھی ہاتھ اُٹھانے کو جرم سمجھا جاتا تھا؛ مگر اہل مکہ اور ان کے حلیفوں نے بنو خزاعہ کے لوگوں کو عین مکہ میں دوڑا دوڑا کر مارا اور کئی لوگوں کو قتل کر دیا، اس بنیاد پر نبو خزاعہ نے مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے حلیف کی حیثیت سے اہل مکہ سے اس کا بدلہ لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ جنگ سے بچنا چاہتے تھے؛ اس لئے اس صورت حال میں اہل مکہ کے سامنے تین تجویزیں رکھیں، ایک یہ کہ وہ بنو خزاعہ کے قاتلوں کو حوالہ کردیں، اگر اس کے لئے تیار نہیں ہیں تو جو لوگ مارے گئے ہیں، ان کی دیت ادا کریں، اور اگر یہ دونوں باتیں منظور نہیں ہیں تو اعلان کر دیں کہ جو ناجنگ معاہدہ ہمارے درمیان ہوا تھا، ہم اسے ختم کر رہے ہیں، اہل مکہ نے پہلی دونوں باتیں قبول نہیں کیں؛ اس لئے آپ نے مجبوراََ مکہ پر فوج کشی کی، اور کوشش کی کہ خوں ریزی ہونے نہ پائے، جن لوگوں نے مسلمانوں کو تکلیفیں دی تھیں اور ہر طرح کی ایذاء پہنچائی تھی، ان سب کی عام معافی کا اعلان کر دیا گیا، غور کیجئے کہ اس میں مسلمانوں کا رویہ منصفانہ اور رحم دلانہ تھا یا ظلم اور بے رحمی کا تھا؟ اور پھر اس کا روزے سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ ایک اتفاقی بات ہے کہ جب مسلمانوں پر حملہ کیا گیا، رمضان المبارک کا مہینہ تھا، اور لوگ روزہ کی حالت میں تھے، ڈاکٹر کلپنا نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ جب رمضان کا مہینہ ختم ہو جائے تو ان کو گھات لگا کار مارو، یہ بات نہ کہیں قرآن مجید میں آئی ہے، اور نہ حدیث میں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، اگر واقعی وہ اس مضمون کی آیت تلاش کر لیں تو یہ ہم جیسوں کے لئے ایک انکشاف ہوگا۔
................
ڈاکٹر کلپنا نے حج پر بھی گفتگو کی ہے، ان کو اعتراض ہے کہ ’’حج میں صرف مسلمان کیوں جاتے ہیں، اور دوسرے لوگ کیوں نہیں جاسکتے؟" انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ: "حج سے سیکھ کر آتے ہیں، اور یہاں دوسروں کو سکھاتے ہیں، حج کے لئے ہمارے بھائی پیسے بھیجتے ہیں." شاید ان کی مراد یہ ہے کہ: "حکومت حج میں سبسیڈی دیتی ہے، جو عوامی پیسہ ہوتا ہے، اور اس میں ہندو عوام کے پیسے بھی شامل ہوتے ہیں.‘‘ -- غور کیا جائے تو حج سے متعلق انہوں نے جو باتیں کہی ہیں، ان میں کوئی معقولیت نہیں ہے، ظاہر ہے کہ جو لوگ حج کی عبادت پر یقین رکھتے ہیں، وہی تو حج کے لئے جائیں گے، جو لوگ اللہ کو ایک نہیں مانتے، جن لوگوں کا انبیاء کرام علیہم الصلوۃوالسلام پر ایمان نہیں ہے، جو لوگ پیغمبر اسلام پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے طریقہ کے مطابق حج کیا جاتا ہے، وہ حج کے لئے کیوں جائیں گے؟ اگر کسی دوسرے ملک کا شخص کہے کہ ہم بھی تو انسان ہیں، ہم ہندوستان کی پارلیامنٹ کے رکن کیوں نہیں بن سکتے؟ تو ظاہر ہے کہ اس میں کوئی معقولیت نہیں ہوگی؛ کیوں کہ جو لوگ اس ملک کے شہری نہیں ہیں، اور جن کا اس ملک کے دستور پر یقین ہی نہیں ہے، وہ کیسے یہاں کی پارلیامنٹ کے رکن ہوسکتے ہیں؟ ہندو بھائی غور کریں کہ ان کے یہاں تو بعض مندروں میں کسی بھی غیر برہمن کا داخلہ نہیں ہوسکتا، بعض میں دلتوں کا داخلہ نہیں ہو سکتا، بعض میں غیر ہندو کا نہیں ہوسکتا اور بعض میں خواتین کا نہیں ہوسکتا، حد تو یہ ہے کہ ملک کے بعض صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کو بھی ان مندروں میں داخلہ کی اجازت نہیں ملی؛ لیکن مسلمانوں نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا کہ ہم آپ کی مندروں میں کیوں نہیں جاسکتے؟ اس لئے کہ جب ہم اس مذہب پر یقین نہیں رکھتے تو ہمیں اس کے مقدس مقدمات میں جانے پر اصرار کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مسلمان حج سے سیکھ کر آتے ہیں، اور دوسروں کو سکھاتے ہیں---یقیناََ مسلمان حج میں بہت کچھ سیکھتے ہیں؛ لیکن وہ نفرت نہیں سیکھتے، محبت سیکھتے ہیں، سیاہ و سفید، ما لدارو غریب، حکمران و محکوم، تعلیم یافتہ اور جاہل، الگ الگ زبانیں بولنے والے اور الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے دنیا کے کونے کونے سے حج کے لئے پہنچتے ہیں، نہ ان میں کوئی بڑا سمجھا جاتا ہے نہ چھوٹا، حج کے ہر عمل میں ہرشخص کی شرکت ہوتی ہے، اور انسانی مساوات کا ایسا منظر سامنے آتا ہے کہ شاید ہی دنیا میں کہیں اس کی مثال مل سکے، اور کیوں نہ ہو؛ کہ حج ہی کے اجتماع میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: کسی گورے کو کسی کالے پر، اور کسی عربی کو غیر عربی پر رنگ ونسل کی وجہ سے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر: ۱۶) یہ سبق مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں واپس ہوکر برادران مذہب اور برادران وطن کو دیتے ہیں، اور ہندو بھائیوں کو تو اس پیغام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اگر آپ اپنے مسلمان بھائیوں سے یہ سبق سیکھ لیں تو ملک کا کتنا بھلا ہوجائے!
آپ کی کتابِ شریعت ’’منوسمرتی‘‘ میں پیدائشی طور پر انسانی تفریق اور ذات پات کی بنیاد پر اونچ نیچ کی جو تعلیم دی گئی ہے، شاید ہی پیدائشی نابرابری اور انسان اور انسان کے درمیان تفریق کی ایسی کوئی اور مثال ملتی ہو، جیسے منوجی فرماتے ہیں: شودر کی لڑکی کو اپنے پلنگ پر بٹھانے سے برہمن نرک (دوزخ) میں جاتا ہے۔ (17:3) برہمن کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ شودر کے سامنے وید نہ پڑھے، (99:4) اور نہ شودر کا کھانا کھائے، (211:4) جو شودر کو دھرم کی تعلیم دے گا، وہ بھی اس شودر کے ساتھ جہنم میں جائے گا، (17:3) منو جی کی تعلیمات میں ہے: اگر برہمن بھولے سے شودر کا کھانا کھالے تو تین دن تک روزہ رکھے، اور اگر عمداََ کھالے تو اس کا وہی کفارہ ادا کرنا چاہئے، جو حیض، پاخانہ یا پیشاب پینے اور کھانے والے کے لئے مقرر ہے، (322:4)--- یہ تو چند معمولی نمونے ہیں؛ ورنہ منو سمرتی میں ایسے ایسے اقتباسات موجود ہیں کہ ان کا ذکر کرنا بھی گراں گزرتا ہے، یقیناََ حج میں انسانی مساوات کا جو سبق ملتا ہے، وہ ایسی بات ہے، جس کو ہمارے ملک میں عام کرنے اور ملک کے تمام شہریوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک حج سبسڈی کی بات ہے تو ایسی سہولتیں ہر مذہبی گروہ کے لئے مہیا کی جاتی ہیں، کنبھ کے میلوں اور ہندو بھائیوں کی مختلف یاتراؤں پر اتنی بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے کہ حج سبسڈی تو شاید اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہو، اس طرح کی رعایت عیسائی بھائیوں کے لئے بھی بیت اللحم (فلسطین) کے سفر کے لئے دی جاتی ہے؛ اور یہ ایک معقول بات ہے؛ کیوں کہ ہر طبقہ کے لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں، اور ہم تمام ہندوستانی بھائی بھائی ہیں، ہمیں ایک دوسرے کو سہولت پہنچاکر خوش ہونا چاہئے نہ کہ ناراض، ملک کے عوام کو بلاامتیازِ مذہب وملت سہولت پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے؛ لیکن اگر غور کیجئے تو مسلمانوں کو دی جانے والی سبسڈی کی حیثیت ایک خوب صورت دھوکہ سے زیادہ نہیں ہے، پہلے سفر حج کے لئے پانی جہاز کی سہولت تھی، جس میں کم اخراجات آتے تھے، حکومت نے اسے ختم کردیا، اس کے بعد سبسڈی کا سلسلہ شروع ہوا؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اگر عام مسافروں کے لئے زمانہ حج میں ہوائی جہاز کا کرایہ چوبیس پچیس ہزار ہوتا ہے تو حاجیوں کے لئے پینتالیس پچاس ہزار، حج کمیٹی کو حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بولی لگوائے، اور جو ائیرلائنز سستا ٹکٹ فراہم کرے، اس سے اپنے حاجیوں کو بھیجے؛ بلکہ وہ پابند ہے کہ ایک طرف سے ائیر انڈیا اور دوسری طرف سے سعودی ائیر لائنز ہی کا ٹکٹ حاصل کرے، ائیر انڈیا کی پابندی تو حکومت کی طرف سے ہے؛ لیکن سعودی ائیر لائنز کی پابندی بھی ہندوستان اور سعودی عرب کی ہوائی کمپنی کے باہمی معاہدے کی بنیاد پر ہے، اگر حج کمیٹی ائیر لائنز کے انتخاب میں آزاد ہوتی تو حکومت جتنی سبسڈی دیتی ہے، اس سے بھی کم رقم میں حجاج کا سفر ہوتا، پھر بھی مسلمانوں پر سبسڈی کا احسان رکھنا کیسی ناانصافی کی بات ہے؟
ڈاکٹر کلپنا نے اپنی اس تقریر میں خاص طور پر جہاد کی بات کہی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ چودہ سو سال سے جنہوں نے صرف قتل عام کیا ہے، ان کو ہم دھارمک کہتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کا ایک ہی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ جب تک ایک بھی کافر زندہ ہے، اللہ کا کام رکے گا نہیں، یعنی جہاد جاری رہے گا، وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اسلام میں ہر کافر واجب القتل ہے، یہ اللہ کا حکم ہے، اور جو اللہ اور جبرئیل کو نہ مانے وہ کافر ہے----- ڈاکٹر کلپنا کی یہ ساری باتیں خلاف واقعہ اور غلط فہمی پر مبنی ہیں، جہاد کا مقصد کافروں کو ختم کرنا نہیں ہے؛ بلکہ ظلم کو روکنا ہے، مسلمانوں کو اُسی وقت جہاد کی اجازت دی گئی ہے، جب ظلم کیا جاتا ہو، اور انہی لوگوں سے جہاد کرنے کو کہا گیا ہے، جو ظلم ڈھاتے ہوں؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اُذن للذین یقاتَلون بأنھم ظُلموا (الحج: ۳۹)
جن سے جنگ وجدال کی جارہی ہے، ان کو جہاد کی اجازت دی گئی؛ کیوں کہ ان کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے۔
جو لوگ کفر پر قائم ہیں؛ لیکن وہ معاشرہ میں امن وامان کے ساتھ رہتے ہیں، دوسروں پر ظلم نہیں کرتے اور انہیں گھر بدر نہیں کرتے، ان کے ساتھ جنگ کا نہیں، حسن سلوک کا حکم ہے:
لاینھا کم اللّہ عن الذ ین لم یقاتلوکم في الدین ولم یخرجوکم من دیا رکم أن تبروھم وتقسطوا إلیھم إن اللّہ یحب المقسطین (الممتحنہ: ۸)
جو لوگ تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کرتے، اور نہ انہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے، اللہ تعالیٰ تم کو ان کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف برتنے سے نہیں روکتے، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔
قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے کہ جو تم سے جنگ کرے، ان ہی سے جنگ کرنے کی اجازت ہے اور اس میں بھی زیادتی کرنے کی گنجائش نہیں ہے:
قاتلوا في سبیل اللّہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا إن اللّہ لا یحب المعتدین (بقرہ: ۱۹۱)
اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے جنگ کرو، جو تم سے جنگ کر رہے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔
جو غیر مسلم مسلمانوں سے بر سر جنگ نہ ہوں، اس کی زندگی اتنی ہی قابل احترام ہے، جتنی ایک مسلمان کی؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من قتل معاھداََ لم یرح رائحۃ الجنۃ، وأن ریحھا یوجد من مسیرۃ أربعین عاما۔( بخاری عن عبد اللہ بن عمرو، حدیث نمبر: ۳۱۶۶)
جس نے کسی معاہد(وہ غیر مسلم جس سے پُرامن زندگی گزارنے کا معاہدہ ہو) کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا؛ حالاں کہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلہ سے محسوس کی جا سکتی ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی بات فرمائی کہ غیر مسلموں کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح ہیں:
دماء ھم کدماء نا وأموالھم کأموالنا (نصب الرایہ: ۴؍۳۶۹)
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص کسی انسان کو ناحق قتل کر ڈالے؛ چاہے وہ کسی مذہب کو ماننے والا ہو، گویا وہ پوری انسانیت کا قاتل ہے:
من قتل نفساََبغیر نفس أو فساد في الأرض فکأنما قتل الناس جمیعا (مائدہ: ۳۲)
اس لئے یہ سمجھنا کہ ہر کافر اسلام کی نظر میں واجب القتل ہے، بالکل غلط ہے، جہاد ظالموں سے ہے نہ کہ کافروں سے، اگرخود مسلمان ظلم کریں تو ان سے بھی جہاد کا حکم ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں اس کی مثالیں موجود ہیں، اور اگر غیر مسلم امن وامان اور انصاف کے ساتھ رہیں تو ان سے بھی جہاد جائز نہیں ہے، پس جہاد کی بنیاد ظلم ہے نہ کہ کفر۔
.................
ظالم کو ظلم سے روکنے کے لئے ہر مذہب میں جہاد کی اجازت دی گئی ہے، ہندو مذہبی تاریخ میں کورؤوں اور پانڈؤوں کی جنگ مشہور ہے، جس میں بے شمار لوگ تہ تیغ کر دیے گئے، شری رام جی نے راون سے جنگ کی، شیواور وشنو کے ماننے والوں کے درمیان ایسی بھیانک جنگ ہوئی ،جس نے ڈھیر سارے لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، رامائن، مہابھارت اور گیتا جنگ کے قصوں سے پُر ہیں، ہندو مذہب کی سب سے معتبر اور قدیم کتاب چار’’ ویدیں ‘‘ہیں، ان ویدوں میں جنگ کی ترغیب، دشمنوں کو نقصان پہنچانے کی تمنائیں اور جنگ میں اپنی کامیابی اور دشمن کو نیست ونابود کرنے کی دعائیں جگہ جگہ موجود ہیں؛ چنانچہ رِگ وید کا ایک منتر ہے:’’ تیر کمان کی مدد سے ہم مویشی حاصل کریں، تیر کمان کی مدد سے ہم لڑائی جیتیں، تیر کمان کی مدد سے اپنی گھمسان کی لڑائیوں میں فتح مند ہوں، تیر کمان دشمنوں کو غمگین کرتی ہے، اس سے مسلح ہو کر ہم تمام ممالک فتح کریں‘‘۔ 4 -1 :75:6) ) رِگ وید ہی میں ہے: ’’مجھ کو اپنے ہم سروں میں سانڈ بنا، مجھ کو اپنے حریفوں کا فتح کرنے والا بنا، مجھ کو اپنے دشمن کا قتل کرنے والا بااختیار حکمراں، مویشیوں کا مالک بنا‘‘، (1:165:10) یجروید میں آگ کے دیوتا سے اس طرح دعاء کی گئی ہے: ’’اے آگ ! تو جس کے شعلے تیز ہورہے ہیں، ہمارے آگے آگے پھیل جا، ہمارے دشمنوں کو جلا دے، اے بھڑکتی ہوئی آگ! جس نے ہمارے ساتھ بدی کی ہے تو اسکو سوکھی لکڑی کی طرح بالکل بھسم کر دے، اے اگنی! اُٹھ ، ان لوگوں کو بھگا دے، جو ہمارے خلاف لڑتے ہیں، اپنی آسمانی طاقت کا مظاہرہ کر‘‘ ۔(13-12:13) سام وید میں ایک منتر میں جنگ پر اُکساتے ہوئے کہا جاتا ہے: ’’اے بہادر! اے مال غنیمت لوٹنے والے! تو آدمی کی گاڑی کو تیز چلا، اے فاتح! ایک مشتعل جہاز کی طرح بے دین دسیوں کو جلا دے‘‘ ۔ (3:20:3:6) اتھرویدد میں کہا گیا ہے:’’ اے اگنی! تو یا تو دھانوں (غیر آریہ دشمنوں) کو یہاں باندھ کر لا اور پھر اپنی کڑک سے ان کے سروں کو پاش پاش کر دے‘‘ ۔ (7:7:1)
ہندو مذہبی مآخذ کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہاں ذات پات کی بنیاد پر اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے جنگ کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، ویدوں میں کثرت سے غیر آریہ اور نچلی ذات کے لوگوں کو تباہ وبرباد کر دینے کی ترغیب دی گئی ہے، اور ان سے جنگ کا حکم دیا گیا ہے، اسلام نے کبھی ذات پات کی بنیاد پر جہاد کی اجازت نہیں دی؛ بلکہ ظالموں کے پنجۂ ظلم کو تھامنے کے لئے جہاد کا حکم دیا ہے۔
ڈاکٹر کلپنا نے یہ بات بھی کہی ہے کہ’’ مسلمانوں کو ہمارے وجود ہی سے اختلاف ہے‘‘،— حالاں کہ ایسا نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو جبراََ غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی اجازت ہوتی؛ لیکن قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے کہ دین کے معاملے میں کسی جبر کی گنجائش نہیں ہے: لا إکراہ في الدین قد تبین الرشد من الغي (بقرہ: ۲۵۶) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا: أفأنت تکرہ الناس حتیٰ یکونوا مؤمنین ( یونس: ۹۹) کیا آپ لوگوں کو اس بات پر مجبور کردیں گے کہ وہ ایمان لائیں؟
قرآن مجید کی نظر میں اگرچہ دین ِحق توحید ہے؛ لیکن اس نے مختلف مذاہب اور مذہبی گروہوں کے وجود کو تسلیم کیا ہے؛ چنانچہ فرمایا گیا:
ولو شاء ربک لجعل الناس أمۃ واحدۃ ولا یزالون مختلفین (ہود: ۱۱۸-۱۱۹)
اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا؛ لیکن ان میں برابر اختلاف باقی رہے گا۔
اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا گیا:
ولو شاء اللہ لجعلکم أمۃ واحدۃ، (مائدہ:۴۸)
اگر اللہ چاہتا تو تم لوگوں کو ایک امت بنا دیتا۔
ڈاکٹر کلپنا کو مساجد اورمدارس کے بارے میں بھی فکر ہے کہ مسجدوں اور مدرسوں میں کیا ہو رہا ہے؟ کاش، وہ آر ایس ایس کے کیمپوں کی فکر کرتیں، جہاںماردھار کی تربیت دی جاتی ہے، آر ایس ایس کے اسکولوں کا جائزہ لیتیں، جہاں بالکل بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی تاریخ پڑھائی جاتی ہے، اورمعصوم بچوں کے ذہن میں نفرت کا زہر اُنڈیلا جاتا ہے، مسجدوں اورمدرسوں کے دروازے تو کھلے ہوئے ہیں،کوئی بھی شخص اور کسی بھی وقت وہاں جا کر دیکھ سکتا ہے، مسجد میں سوائے عبادت کے کوئی اور عمل نہیں ہوتا، خدا کی عبادت سے انسان کے اندر تواضع اور جھکاؤ پیدا ہوتا ہے، اور دوسرے انسانوں کے ساتھ حُسن سلوک اور بہتر رویہ کا سبق ملتا ہے، مدرسوں میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، آپ ان کے مضامین دیکھئے، اور صبح سے شام تک اساتذہ اور طلبہ کی جو مشغولیات ہوتی ہیں، انہیں ملاحظہ کیجئے، ان میں کہیں کوئی ایسا عمل نہیں پایا جاتا، جو دوسروں کے خلاف نفرت کے جذبات کو اُبھارنے والا ہو۔
انہوں نے ایک بات یہ بھی کہی ہے کہ اسلام میں ہماری ماؤں اور بہنوں کے ساتھ دُراچار( زیادتی) کے لئے کہا گیا ہے—-یہ کھلی ہوئی افتراء پردازی ہے، اسلام میں بلا امتیازِ مذہب عورتوں کی عزت وآبرو کے احترم کی تعلیم دی گئی ہے،مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں (نور: ۳۱) اس میں مسلمان اور غیر مسلم عورت کا کوئی فرق نہیں ہے، شریعت میں جو سزا کسی مسلمان عورت کی بے آبرو ئی کی ہے وہی سزا ایک غیرمسلم عورت کی آبروریزی کی بھی ہے، اور خواتین کا اس قدر لحاظ رکھا گیا ہے کہ عین حالت جنگ میں بھی عورتوں پر ہاتھ اُٹھانے سے منع فرمایا گیا ہے۔
اس بات پر بڑا افسوس ہوا کہ اسلام کی مذہبی تعلیمات کے بارے میں تو ڈاکٹر کلپنا کی معلومات بہت کم ہیں ہی؛ لیکن کم سے کم ہندوستان کی تاریخ سے تو ان کو واقف ہونا چاہئے تھا؛ لیکن اس میں بھی ان کے بے بنیاد دعووں سے سچائی کو شرمسار ہونا پڑتا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ سارا ہندوستان آزادی کے لئے جوجھ رہا تھا اور مسلمان خلافت کے لئے، یعنی مسلمانوں نے آزادی کی لڑائی میں حصہ نہیں لیا، خلافت کے لئے کوشش کرتے رہے—-غور کیا جائے تو انیسویں صدی کے ختم تک آزادی کی لڑائی میں تشدد کا رنگ غالب رہا، جس میں لوگوں کا بہت زیادہ جانی ومالی نقصان ہوا، اس مرحلہ میں زیادہ تر مسلمانوں نے قربانیاں دیں، بیسویں صدی شروع ہونے کے بعد زیادہ تر پُر امن کوششیں ہوئیں، اور اس میں غیر مسلم بھائیوں کی بھی بڑی تعداد ملتی ہے، اگر ڈاکٹر کلپنا نے کم سے کم ڈاکٹر تارا چند ہی کی ’’تاریخ آزادی ٔ ہند‘‘ پڑھ لی ہوتی تو ایسی بے سروپا بات نہیں کہتیں، اور رہ گیا خلافت آندولن تو یہ تو صرف چند سال رہا، اور یہ بھی آزادی کی لڑائی کا ہی حصہ تھا، دوسری جنگ آزادی میں اتحادی قوتوں کی قیادت برطانیہ کے ہاتھ میں تھی، اور اس کے مقابلہ جرمن، جاپان اور تُرکی بڑی طاقتیں تھیں؛ اس لئے ہندوستان کے لوگوں کو فطری طور پر اِن ملکوں سے محبت تھی اور وہ امید رکھتے تھے کہ اِن ملکوں کی مدد سے انہیں آزادی حاصل ہو سکے گی؛ اس لئے اگر ان کو کوئی بھی ایسا موقع مل جاتا، جس میں برطانیہ کے خلاف ہندوستان کے باشندوں کو جمع کیا جا سکے تو وہ اس سے فائدہ اُٹھاتے تھے، خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں چوں کہ برطانیہ کا بنیادی کردار تھا، اس پسِ منظر میں تحریک خلافت شروع ہوئی؛ اسی لئے تحریک خلافت میںمسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی شامل ہوئے، اور مہاتما گاندھی جی تو اس تحریک میں قائدانہ رول ادا کر رہے تھے؛ اس لئے یہ کہنا کہ مسلمان جنگ آزادی کو چھوڑ کر تحریک خلافت کے پیچھے پڑے ہوئے تھے، مجاہدین آزادی کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا۔
ڈاکٹر کلپنا نے یہ بھی کہا ہے کہ مسلمان چاہتے تھے کہ ایک خلیفہ بٹھائیں اور اسی کا راج چلے،— لیکن انہوں نے غور نہیں کیا کہ مسلمان خلیفہ کس خطہ کے لئے چاہتے تھے؟ انہوں نے ہندوستان کے لئے ایسا نہیں چاہا، تُرکی (جس میں اس وقت بیش تر اسلامی ممالک شامل تھے) میں خلافت کا احیاء چاہتے تھے؛ تاکہ انگریزوں کا زور توڑا جاسکے، اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی برائی کی بات نہیں ہے، کسی بھی ملک میں حکمراں تو ایک ہی ہوگا، اور اسی حکمراں کے تحت پورا نظام حکومت چلے گا، اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟ البتہ ان کو سمجھنا چاہئے کہ خلیفہ کسے کہتے ہیں؟ خلیفہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کا نائب ہو کر اپنی رعایا کے درمیان پورے عدل وانصاف سے حکومت قائم کرے، اور اپنا حکم نہ چلائے؛ بلکہ اللہ کے حکم کو نافذ کرے، یہ نظام انسان کو ڈکٹیٹر بننے سے روکتا ہے، آمریت سے بچاتا ہے،اور یہ تصور پیدا کرتا ہے کہ حکمراں بھی اپنی رعایا کے سامنے جوابدہ ہے ؛ اسی لئے گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ اگر ہندوستان کو سوراج حاصل ہو تو اس کو ابوبکر وعمر (رضی اللہ عنہما) کے طرز حکومت کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا چاہئے، ایسے ہی حکمراں کو خلیفہ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر کلپنا نے بعض وہ باتیں بھی نقل کی ہیں، جو صرف آر ایس ایس کے لوگوں کا پروپیگنڈہ ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، جیسے مالابار میں ہندؤوں کا مارا جانا، عورتوں کے ساتھ زیادتی، دودھ پیتے بچوں کا قتل، اولاََ تو یہ سب سنگھ پریوار کے گھڑے ہوئے افسانے ہیں؛ لیکن اگر کچھ مسلمانوں نے ایسا کیا بھی ہو، تو چند شریر لوگوں کے عمل کی ذمہ داری پوری قوم پر عائد نہیں کی جاسکتی، اور نہ مذہب کواس کا قصور وارقرار دیا جا سکتا ہے، اسلامی نقطۂ نظر سے ایسی حرکت کا ارتکاب بالکل غلط ہے، اور ایسا کرنے والا دنیا وآخرت میں سنگین سزا کا مستحق ہے؛ لیکن آرایس ایس تو ۱۹۴۷ء کے فسادات اور بھاگلپور، مرادآباد، جمشیدپور او رگجرات کے دنگوں میں اس کا کئی گنا مظالم ڈھا چکی ہے، تو کیا آر ایس ایس کی غیر انسانی حرکتوں کا تمام ہندؤوں کو قصور وار قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، یہ کچھ بدمعاش اور انسان نما درندوں کا کام ہوتا ہے، ان کی وجہ سے پوری قوم کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اخیر میں ایک درخواست غیر مسلم بھائیوں سے ہے کہ وہ ٹھنڈے دل سے خالی الذہن ہو کر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں، اگر آدمی پہلے سے سیاہ عینک پہنے ہوا ہو تو اس کو دھوپ کی روشنی بھی سیاہ نظر آئے گی؛ اس لئے خالی الذہن ہو کر مذہب کا مطالعہ کرنا چاہئے؛ تاکہ حقیقت پسندی کے ساتھ مذہب کو سمجھا جا سکے، ہمیں یقین ہے کہ ڈاکٹر کلپنا اور اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ اگر کھلے ذہن کے ساتھ قرآن وحدیث اور سیرت نبوی کا مطالعہ کریں گے تو محسوس کریں گے کہ اسلام ایک دین رحمت ہے، اور اس نے ہندوستان کو بہت کچھ دیا ہے۔
دوسری درخواست مسلمانوں سے ہے کہ ہم نے اپنے کاروبار ، تجارت اور شخصیت کا تعارف تو برادران وطن سے خوب کرایا ہے، معاشی، سماجی اور سیاسی فائدے بھی اُٹھائے ہیں؛ لیکن اسلام کا تعارف کرانے کی کوئی سنجیدہ اور منظم کوشش نہیں کی، اس غفلت کا نتیجہ ہے کہ جس قوم کو لوگوں کی محبت کا مرکز ہونا چاہئے تھا، وہ نفرت وملامت کا ہدف بنی ہوئی ہے، اب بھی وقت ہے کہ ہم اس بارے میں سوچیں اور غیر مسلم بھائیوں تک اسلام کی صحیح تصویر پہنچائیں، ورنہ وقت جوں جوں گزرتا جائے گا، نفرت کی چنگاری شعلہ اور شعلہ سے آتش فشاں بنتی جائے گی، اور اس کا انجام دینا میں بھی تباہی کی شکل میں ظاہر ہوگا اور آخرت میں بھی جوابدہی ومحرومی کی شکل میں
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)
۱۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بار بار کہا ہے کہ مسلمان اللہ کے سوا کسی کو نہیں مانتے، لاالٰہ الا اللہ کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو نہیں پوجیں گے– ڈاکٹر صاحبہ کی اس بات سے ہمیں اتفاق ہے کہ ہمارا عبادت اور بندگی کا تعلق صرف اللہ سے ہے ، ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرسکتے؛ البتہ اس کے ساتھ ساتھ ہم تمام مذہبی پیشواؤں اور بزرگوں کا احترام کرتے ہیں، خود قرآن مجید نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ دوسری قومیں جن دیویوں دیوتاؤں کی پوجا کررہی ہیں، ان کو بُرا بھلا نہ کہو (انعام: ۱۰۸) اسی طرح دوسرے انسانوں سے–خواہ وہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں–ہمارا بھائی چارہ کا تعلق ہے؛ کیوں کہ قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں (نساء: ۱) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تمام انسان بھائی بھائی ہیں، الناس کلھم اخوۃ (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۱۵۰۸) لہٰذا اگر مسلمان ایک ہی خدا کی عبادت کرے تو اس سے ہندو بھائیوں کو یا کسی اور مذہبی گروہ کو کیا نقصان ہے؟ پھر یہ عقیدہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے، بودھ، سکھ، عیسائی اور زیادہ تر قبائلی اور خود ہندو کہلانے والوں میں آریہ سماجی، برہمو سماجی اور لنگایت وغیرہ توحید کے قائل ہیں، یہاں تک کہ بعض ہندو تو خدا کا انکار کرتے ہیں؛ مگرڈاکٹر صاحبہ کا غیظ وغضب صرف مسلمانوں پر ہے۔
یہ تو ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو جو بے حد قابل توجہ ہے اور ان پر ڈاکٹر کلپنا اور اس طرح کی سوچ رکھنے والے بھائیوں اور بہنوں کو پورے خلوص کے ساتھ غور کرنا چاہئے، یہ ہے کہ خود ہندو مذہب کی معتبر کتابوں میں بہت واضح طور پر اللہ کے ایک ہونے کی بات کہی گئی ہے، اورمورتی پوجا کی مخالفت کی گئی ہے؛ چنانچہ اتھروید 13:4:12 میں ہے:’’ وہ ایشور ایک ہے، اور حقیقت میں وہ ایک ہی ہے‘‘، رگ وید 46:164:1 میں کہا گیا ہے:’’ سچا خدا ایک ہے، اسی کو وِدوانوں(عالموں) نے الگ الگ نام سے جانا ہے‘‘، یجروید32:3 میں خدا کے بارے میں کہا گیاہے:’’ اس کی کوئی مورتی، کوئی شبیہ نہیں ہے، اس کے نام کا جپ(ذکر) کرنا ہی سب سے بڑی عبادت ہے‘‘۔
بلکہ ویدوں میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جو شخص مخلوق کی پوجا کرے گا ،وہ جہنم میں داخل کیا جائے گا؛ چنانچہ یجروید 40:9 میں ہے:
’’جو کوئی اسمبوتی(خدا کی بنائی ہوئی ایسی چیزیں،جن کا بنانا انسان کے لئے ناممکن ہو) کی پوجا کرتے ہیں، انہیں اندھیری جہنم میں داخل کیا جائے گا، اور جوکوئی سمبوتی(خدا کی بنائی ہوئی ایسی چیزیں،جن کا بنانا انسان کے لئے ممکن ہو) کی پوجا کرے گا، وہ مزید گہرے اور اندھیری جہنم میں گرایا جائے گا‘‘
اس لئے اگر میری درخواست کلپنا بہن تک پہنچ جائے تو میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ خود اپنی مذہبی کتابوںکا مطالعہ کریں، اور کچھ اپنی عقل اور فکری قوت کا استعمال کریں کہ معبود تو پرمیشور(خالق) ہوتا ہے، اسی کی پوجا کی جاتی ہے، پھر کیا انسان کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ جن مورتیوں کو اس نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، ان ہی کے سامنے سر جھکائے؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک ماں باپ جس بچہ کو پیدا کریں، وہ اسی بچہ کو اپنے باپ یا ماں کا درجہ دے دے؟ میں یہ دعوت اس لئے دے رہا ہوں کہ میں ان کے ایک مخلص ، خیر خواہ بھائی کی حیثیت سے ان کو اس دوزخ میں جانے سے بچانا چاہتا ہوں، جن کا خود ان کی کتابوں میں ذکر آیا ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ’’ ہم(یعنی بعض ہندو دانشوروں) نے اللہ کے برابرمیں ایشور کو رکھ دیا ہے، یہ تعجب کی بات ہے؛ حالاں کہ ایشور تو دیالو ہے‘‘–اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اگر ایشور کے معنیٰ سنسکرت زبان میں خدائے واحد کے ہوں تو پھر واقعی اس کو( اللہ) کے ہم معنیٰ لفظ سمجھا جا سکتا ہے؛ لیکن اہم بات یہ ہے کہ قرآن نے جس خدا کا تصور دیا ہے، بار بار اس کے دیالو اور مہربان ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، قرآن مجید کی ہر سورت بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتی ہے، اس میں ایک ہی بار نہیں،دودو بار اللہ تعالیٰ کے بے حد مہربان اور دیالو ہونے کی بات کہی گئی ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی زیادہ تر ایسی صفات کا ذکر آیا ہے، جو رحمت اور مہربانی کو بتاتی ہے، جیسے: کریم یعنی کرم فرمانے والا، رؤوف اور حنان یعنی محبت کرنے والا، مجیب یعنی بندوں کی دعاء قبول کرنے والا، لطیف یعنی مہربان، عَفُویعنی معاف کرنے والا، توّاب یعنی معافی مانگنے والوں سے درگذر کرنے والا، رزاق یعنی روزی دینے والا، وغیر ذلک، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں، وہ زیادہ تر اللہ کے رحیم وکریم ہونے کو ظاہر کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی مہربانی کی اللہ کی ناراضگی سے کیا نسبت ہے؟ اس کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اللہ تعالیٰ کی بات نقل فرمائی ہے: میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے، سبقت رحمتي غضبي( مسلم شریف، حدیث نمبر: ۶۹۷۰)
اس لئے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ اسلام نے جس خدا کا تصور پیش کیا ہے وہ دیالو نہیں ہے۔
۲۔ ڈاکٹر کلپنا کو اسلامی عبادات کے بارے میں بڑی غلط فہمی ہے، ان کا خیال ہے کہ نماز میں جہاد کی تیاری کرائی جاتء ہے، اور نمازیوں کے ساتھ تلوار ہوتی ہے،غالباََ انہوں نے مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے، اگر وہ دیکھیں تو محسوس کریں گی کہ اسلام کی تمام عبادتوں میں خدا کے سامنے جھکاؤ، بندگی ، انسانی مساوات وبرابری، تہذیب وشائستگی اور غریبوں کی خدمت کا رنگ نمایاں طور پر پایا جاتا ہے، نماز پڑھنے والا ایک غلام کی طرح ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے، کبھی کمر تک جھکتا ہے، اور کبھی زمین پر اپنی پیشانی رکھ دیتا ہے، غور کیجئے کیا جنگ وجدال کرنے والے کی یہی کیفیت ہوتی ہے؟ جنگ جوؤوں کی زبان پر اپنی بڑائی کے الفاظ ہوتے ہیں، اس کا رویہ متکبرانہ ہوتا ہے، کیا نماز میں کہیں دور دور تک بھی اس کی کوئی جھلک پائی جاتی ہے؟ نمازی نماز کی حالت میں تلوار تو کیا کوئی سامان بھی اپنے ہاتھ میں نہیں رکھ سکتا، اور کوئی حرکت بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا؛ لیکن ڈاکٹر کلپنا کو پتہ نہیں کس نے بتا دیا کہ نمازمیں تلوار چلانا سکھایا جاتا ہے، اور مسلمان ہندوؤں کے خاتمہ کے لئے نماز پڑھتا ہے۔
اصل غلطی ہماری ہے کہ ہم نے برادرون وطن کو نماز کی حقیقت نہیں سمجھائی، نماز سورہ فاتحہ سے شروع ہوتی ہے، جس کی پہلی ہی آیت میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ تمام عالم یعنی تمام انسان تو کیا تمام مخلوقات کا پالنہار ہے، اس طرح ہر مسلمان کو یہ بات یاد دلائی جاتی ہے کہ دنیا میں جتنے انسان بستے ہیں، وہ ایک خدا کے پیدا کئے ہوئے ہیں، اور یہ رشتہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے اور محبت کے جذبات کو فروغ دیتا ہے، اور نماز ختم ہوتی ہے’’السلام علیکم ورحمتہ اللہ‘‘ کے کلمہ پر، جس میں سبھوں کے لئے سلامتی اوررحمت کی دعاء کی جاتی ہے، سوچئے کہ اس عبادت کا جنگ وجدال سے کیا تعلق ہے؟
ڈاکٹر کلپنا نے پتہ نہیں کہاں سے یہ بات معلوم کر لی کہ صوم کے معنیٰ اپنے کو جنگ کے لئے تیار کرنا اور اس کا مقصد جنگ کی ریہرسل کرنا ہے؛ حالاں کہ روزے کا جنگ سے کیا تعلق، جنگ کے لئے جانے والا فوجی کھاپی کر اور قوت بخش غذائیں لے کر میدان جنگ میں نکلتا ہے؛ تاکہ وہ زیادہ طاقتور اور تنومند ہو،جب کہ روزہ دار بھوکا پیاسا رہتا ہے، روزہ کا مقصد تو اپنے نفس پر کنڑول کی صلاحیت پیدا کرنا ہے؛ اسی لئے خود قرآن نے روزہ کا مقصد بتایا ہے ’’ لعلّکم تتقون‘‘ (بقرہ: ۱۸۳) یعنی روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں کہ تم میں گناہوں سے بچنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے؛ اسی لئے روزہ کسی نہ کسی شکل میں ہر قوم میں رہا ہے، ہندو بھائیوں کے یہاں بھی بعض دنوں میں اُپاس کیا جاتا ہے،یہ بھی آپ کے مذہب کے لحاظ سے روزہ ہی کی کی ایک شکل ہے۔
ڈاکٹر کلپنا نے یہ بات بھی کہی ہے کہ روزے کی حالت میں محمدﷺ نے جنگیں کی ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خاص روزہ سے جہاد کا کوئی تعلق نہیں ہے؛ ورنہ جب بھی مسلمان جہاد کی حالت میں ہوتے، انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا جاتا؛ لیکن ایسا نہیں ہے، یہ اتفاق ہے کہ رمضان کا مہینہ جو مسلمانوں کے لئے روزے کا مہینہ ہے، اسی مہینہ میں دشمنوں نے مسلمانوں کو جنگ پر مجبور کر دیا ، جیسے: غزوۂ بدر اور فتح مکہ، بدر کی لڑائی میں اگر مسلمان حملہ آور ہوتے تو یہ لڑائی مکہ کی سرحد پر لڑی گئی ہوتی؛ لیکن ایسا نہیں ہوا، اہل مکہ نے مسلمانوں پر حملہ کیا اور مدینہ کے قریب بدر میں ان کا مقابلہ کیا گیا، اسی طرح ہجرت کے آٹھویں سال آپ ۔صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر فوج کشی کرنی پڑی؛ لیکن یہ قدم آپ نے کیوں اُٹھایا؟ یہ بات برادران وطن کو سمجھنی چاہئے ، حقیقت یہ ہے کہ ایک غیر مسلم قبیلہ نبو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف تھا، اہل مکہ کے ساتھ حدیبیہ میں جو اہل مکہ کے ساتھ مسلمانوں کی صلح ہوئی، اس میں یہ بات شامل تھی کہ اہل مکہ اور مسلمان ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے گریز کریں گے، اور دونوں کے حلیف بھی اس میں شریک سمجھیں جائیں گے؛ مگر اہل مکہ اور ان کے حلیف بنو بکر نے اس کا لحاظ نہیں رکھا، اور حالاں کہ حرم کے اندر عربوں کی قدیم روایت کے مطابق کسی بھی شخص؛ یہاں تک کہ اپنے دشمن پر بھی ہاتھ اُٹھانے کو جرم سمجھا جاتا تھا؛ مگر اہل مکہ اور ان کے حلیفوں نے بنو خزاعہ کے لوگوں کو عین مکہ میں دوڑا دوڑا کر مارا اور کئی لوگوں کو قتل کر دیا، اس بنیاد پر نبو خزاعہ نے مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے حلیف کی حیثیت سے اہل مکہ سے اس کا بدلہ لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ جنگ سے بچنا چاہتے تھے؛ اس لئے اس صورت حال میں اہل مکہ کے سامنے تین تجویزیں رکھیں، ایک یہ کہ وہ بنو خزاعہ کے قاتلوں کو حوالہ کردیں، اگر اس کے لئے تیار نہیں ہیں تو جو لوگ مارے گئے ہیں، ان کی دیت ادا کریں، اور اگر یہ دونوں باتیں منظور نہیں ہیں تو اعلان کر دیں کہ جو ناجنگ معاہدہ ہمارے درمیان ہوا تھا، ہم اسے ختم کر رہے ہیں، اہل مکہ نے پہلی دونوں باتیں قبول نہیں کیں؛ اس لئے آپ نے مجبوراََ مکہ پر فوج کشی کی، اور کوشش کی کہ خوں ریزی ہونے نہ پائے، جن لوگوں نے مسلمانوں کو تکلیفیں دی تھیں اور ہر طرح کی ایذاء پہنچائی تھی، ان سب کی عام معافی کا اعلان کر دیا گیا، غور کیجئے کہ اس میں مسلمانوں کا رویہ منصفانہ اور رحم دلانہ تھا یا ظلم اور بے رحمی کا تھا؟ اور پھر اس کا روزے سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ ایک اتفاقی بات ہے کہ جب مسلمانوں پر حملہ کیا گیا، رمضان المبارک کا مہینہ تھا، اور لوگ روزہ کی حالت میں تھے، ڈاکٹر کلپنا نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ جب رمضان کا مہینہ ختم ہو جائے تو ان کو گھات لگا کار مارو، یہ بات نہ کہیں قرآن مجید میں آئی ہے، اور نہ حدیث میں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، اگر واقعی وہ اس مضمون کی آیت تلاش کر لیں تو یہ ہم جیسوں کے لئے ایک انکشاف ہوگا۔
................
ڈاکٹر کلپنا نے حج پر بھی گفتگو کی ہے، ان کو اعتراض ہے کہ ’’حج میں صرف مسلمان کیوں جاتے ہیں، اور دوسرے لوگ کیوں نہیں جاسکتے؟" انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ: "حج سے سیکھ کر آتے ہیں، اور یہاں دوسروں کو سکھاتے ہیں، حج کے لئے ہمارے بھائی پیسے بھیجتے ہیں." شاید ان کی مراد یہ ہے کہ: "حکومت حج میں سبسیڈی دیتی ہے، جو عوامی پیسہ ہوتا ہے، اور اس میں ہندو عوام کے پیسے بھی شامل ہوتے ہیں.‘‘ -- غور کیا جائے تو حج سے متعلق انہوں نے جو باتیں کہی ہیں، ان میں کوئی معقولیت نہیں ہے، ظاہر ہے کہ جو لوگ حج کی عبادت پر یقین رکھتے ہیں، وہی تو حج کے لئے جائیں گے، جو لوگ اللہ کو ایک نہیں مانتے، جن لوگوں کا انبیاء کرام علیہم الصلوۃوالسلام پر ایمان نہیں ہے، جو لوگ پیغمبر اسلام پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے طریقہ کے مطابق حج کیا جاتا ہے، وہ حج کے لئے کیوں جائیں گے؟ اگر کسی دوسرے ملک کا شخص کہے کہ ہم بھی تو انسان ہیں، ہم ہندوستان کی پارلیامنٹ کے رکن کیوں نہیں بن سکتے؟ تو ظاہر ہے کہ اس میں کوئی معقولیت نہیں ہوگی؛ کیوں کہ جو لوگ اس ملک کے شہری نہیں ہیں، اور جن کا اس ملک کے دستور پر یقین ہی نہیں ہے، وہ کیسے یہاں کی پارلیامنٹ کے رکن ہوسکتے ہیں؟ ہندو بھائی غور کریں کہ ان کے یہاں تو بعض مندروں میں کسی بھی غیر برہمن کا داخلہ نہیں ہوسکتا، بعض میں دلتوں کا داخلہ نہیں ہو سکتا، بعض میں غیر ہندو کا نہیں ہوسکتا اور بعض میں خواتین کا نہیں ہوسکتا، حد تو یہ ہے کہ ملک کے بعض صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کو بھی ان مندروں میں داخلہ کی اجازت نہیں ملی؛ لیکن مسلمانوں نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا کہ ہم آپ کی مندروں میں کیوں نہیں جاسکتے؟ اس لئے کہ جب ہم اس مذہب پر یقین نہیں رکھتے تو ہمیں اس کے مقدس مقدمات میں جانے پر اصرار کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مسلمان حج سے سیکھ کر آتے ہیں، اور دوسروں کو سکھاتے ہیں---یقیناََ مسلمان حج میں بہت کچھ سیکھتے ہیں؛ لیکن وہ نفرت نہیں سیکھتے، محبت سیکھتے ہیں، سیاہ و سفید، ما لدارو غریب، حکمران و محکوم، تعلیم یافتہ اور جاہل، الگ الگ زبانیں بولنے والے اور الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے دنیا کے کونے کونے سے حج کے لئے پہنچتے ہیں، نہ ان میں کوئی بڑا سمجھا جاتا ہے نہ چھوٹا، حج کے ہر عمل میں ہرشخص کی شرکت ہوتی ہے، اور انسانی مساوات کا ایسا منظر سامنے آتا ہے کہ شاید ہی دنیا میں کہیں اس کی مثال مل سکے، اور کیوں نہ ہو؛ کہ حج ہی کے اجتماع میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: کسی گورے کو کسی کالے پر، اور کسی عربی کو غیر عربی پر رنگ ونسل کی وجہ سے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر: ۱۶) یہ سبق مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں واپس ہوکر برادران مذہب اور برادران وطن کو دیتے ہیں، اور ہندو بھائیوں کو تو اس پیغام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اگر آپ اپنے مسلمان بھائیوں سے یہ سبق سیکھ لیں تو ملک کا کتنا بھلا ہوجائے!
آپ کی کتابِ شریعت ’’منوسمرتی‘‘ میں پیدائشی طور پر انسانی تفریق اور ذات پات کی بنیاد پر اونچ نیچ کی جو تعلیم دی گئی ہے، شاید ہی پیدائشی نابرابری اور انسان اور انسان کے درمیان تفریق کی ایسی کوئی اور مثال ملتی ہو، جیسے منوجی فرماتے ہیں: شودر کی لڑکی کو اپنے پلنگ پر بٹھانے سے برہمن نرک (دوزخ) میں جاتا ہے۔ (17:3) برہمن کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ شودر کے سامنے وید نہ پڑھے، (99:4) اور نہ شودر کا کھانا کھائے، (211:4) جو شودر کو دھرم کی تعلیم دے گا، وہ بھی اس شودر کے ساتھ جہنم میں جائے گا، (17:3) منو جی کی تعلیمات میں ہے: اگر برہمن بھولے سے شودر کا کھانا کھالے تو تین دن تک روزہ رکھے، اور اگر عمداََ کھالے تو اس کا وہی کفارہ ادا کرنا چاہئے، جو حیض، پاخانہ یا پیشاب پینے اور کھانے والے کے لئے مقرر ہے، (322:4)--- یہ تو چند معمولی نمونے ہیں؛ ورنہ منو سمرتی میں ایسے ایسے اقتباسات موجود ہیں کہ ان کا ذکر کرنا بھی گراں گزرتا ہے، یقیناََ حج میں انسانی مساوات کا جو سبق ملتا ہے، وہ ایسی بات ہے، جس کو ہمارے ملک میں عام کرنے اور ملک کے تمام شہریوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک حج سبسڈی کی بات ہے تو ایسی سہولتیں ہر مذہبی گروہ کے لئے مہیا کی جاتی ہیں، کنبھ کے میلوں اور ہندو بھائیوں کی مختلف یاتراؤں پر اتنی بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے کہ حج سبسڈی تو شاید اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہو، اس طرح کی رعایت عیسائی بھائیوں کے لئے بھی بیت اللحم (فلسطین) کے سفر کے لئے دی جاتی ہے؛ اور یہ ایک معقول بات ہے؛ کیوں کہ ہر طبقہ کے لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں، اور ہم تمام ہندوستانی بھائی بھائی ہیں، ہمیں ایک دوسرے کو سہولت پہنچاکر خوش ہونا چاہئے نہ کہ ناراض، ملک کے عوام کو بلاامتیازِ مذہب وملت سہولت پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے؛ لیکن اگر غور کیجئے تو مسلمانوں کو دی جانے والی سبسڈی کی حیثیت ایک خوب صورت دھوکہ سے زیادہ نہیں ہے، پہلے سفر حج کے لئے پانی جہاز کی سہولت تھی، جس میں کم اخراجات آتے تھے، حکومت نے اسے ختم کردیا، اس کے بعد سبسڈی کا سلسلہ شروع ہوا؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اگر عام مسافروں کے لئے زمانہ حج میں ہوائی جہاز کا کرایہ چوبیس پچیس ہزار ہوتا ہے تو حاجیوں کے لئے پینتالیس پچاس ہزار، حج کمیٹی کو حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بولی لگوائے، اور جو ائیرلائنز سستا ٹکٹ فراہم کرے، اس سے اپنے حاجیوں کو بھیجے؛ بلکہ وہ پابند ہے کہ ایک طرف سے ائیر انڈیا اور دوسری طرف سے سعودی ائیر لائنز ہی کا ٹکٹ حاصل کرے، ائیر انڈیا کی پابندی تو حکومت کی طرف سے ہے؛ لیکن سعودی ائیر لائنز کی پابندی بھی ہندوستان اور سعودی عرب کی ہوائی کمپنی کے باہمی معاہدے کی بنیاد پر ہے، اگر حج کمیٹی ائیر لائنز کے انتخاب میں آزاد ہوتی تو حکومت جتنی سبسڈی دیتی ہے، اس سے بھی کم رقم میں حجاج کا سفر ہوتا، پھر بھی مسلمانوں پر سبسڈی کا احسان رکھنا کیسی ناانصافی کی بات ہے؟
ڈاکٹر کلپنا نے اپنی اس تقریر میں خاص طور پر جہاد کی بات کہی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ چودہ سو سال سے جنہوں نے صرف قتل عام کیا ہے، ان کو ہم دھارمک کہتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کا ایک ہی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ جب تک ایک بھی کافر زندہ ہے، اللہ کا کام رکے گا نہیں، یعنی جہاد جاری رہے گا، وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اسلام میں ہر کافر واجب القتل ہے، یہ اللہ کا حکم ہے، اور جو اللہ اور جبرئیل کو نہ مانے وہ کافر ہے----- ڈاکٹر کلپنا کی یہ ساری باتیں خلاف واقعہ اور غلط فہمی پر مبنی ہیں، جہاد کا مقصد کافروں کو ختم کرنا نہیں ہے؛ بلکہ ظلم کو روکنا ہے، مسلمانوں کو اُسی وقت جہاد کی اجازت دی گئی ہے، جب ظلم کیا جاتا ہو، اور انہی لوگوں سے جہاد کرنے کو کہا گیا ہے، جو ظلم ڈھاتے ہوں؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اُذن للذین یقاتَلون بأنھم ظُلموا (الحج: ۳۹)
جن سے جنگ وجدال کی جارہی ہے، ان کو جہاد کی اجازت دی گئی؛ کیوں کہ ان کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے۔
جو لوگ کفر پر قائم ہیں؛ لیکن وہ معاشرہ میں امن وامان کے ساتھ رہتے ہیں، دوسروں پر ظلم نہیں کرتے اور انہیں گھر بدر نہیں کرتے، ان کے ساتھ جنگ کا نہیں، حسن سلوک کا حکم ہے:
لاینھا کم اللّہ عن الذ ین لم یقاتلوکم في الدین ولم یخرجوکم من دیا رکم أن تبروھم وتقسطوا إلیھم إن اللّہ یحب المقسطین (الممتحنہ: ۸)
جو لوگ تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کرتے، اور نہ انہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے، اللہ تعالیٰ تم کو ان کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف برتنے سے نہیں روکتے، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔
قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے کہ جو تم سے جنگ کرے، ان ہی سے جنگ کرنے کی اجازت ہے اور اس میں بھی زیادتی کرنے کی گنجائش نہیں ہے:
قاتلوا في سبیل اللّہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا إن اللّہ لا یحب المعتدین (بقرہ: ۱۹۱)
اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے جنگ کرو، جو تم سے جنگ کر رہے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔
جو غیر مسلم مسلمانوں سے بر سر جنگ نہ ہوں، اس کی زندگی اتنی ہی قابل احترام ہے، جتنی ایک مسلمان کی؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من قتل معاھداََ لم یرح رائحۃ الجنۃ، وأن ریحھا یوجد من مسیرۃ أربعین عاما۔( بخاری عن عبد اللہ بن عمرو، حدیث نمبر: ۳۱۶۶)
جس نے کسی معاہد(وہ غیر مسلم جس سے پُرامن زندگی گزارنے کا معاہدہ ہو) کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا؛ حالاں کہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلہ سے محسوس کی جا سکتی ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی بات فرمائی کہ غیر مسلموں کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح ہیں:
دماء ھم کدماء نا وأموالھم کأموالنا (نصب الرایہ: ۴؍۳۶۹)
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص کسی انسان کو ناحق قتل کر ڈالے؛ چاہے وہ کسی مذہب کو ماننے والا ہو، گویا وہ پوری انسانیت کا قاتل ہے:
من قتل نفساََبغیر نفس أو فساد في الأرض فکأنما قتل الناس جمیعا (مائدہ: ۳۲)
اس لئے یہ سمجھنا کہ ہر کافر اسلام کی نظر میں واجب القتل ہے، بالکل غلط ہے، جہاد ظالموں سے ہے نہ کہ کافروں سے، اگرخود مسلمان ظلم کریں تو ان سے بھی جہاد کا حکم ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں اس کی مثالیں موجود ہیں، اور اگر غیر مسلم امن وامان اور انصاف کے ساتھ رہیں تو ان سے بھی جہاد جائز نہیں ہے، پس جہاد کی بنیاد ظلم ہے نہ کہ کفر۔
.................
ظالم کو ظلم سے روکنے کے لئے ہر مذہب میں جہاد کی اجازت دی گئی ہے، ہندو مذہبی تاریخ میں کورؤوں اور پانڈؤوں کی جنگ مشہور ہے، جس میں بے شمار لوگ تہ تیغ کر دیے گئے، شری رام جی نے راون سے جنگ کی، شیواور وشنو کے ماننے والوں کے درمیان ایسی بھیانک جنگ ہوئی ،جس نے ڈھیر سارے لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، رامائن، مہابھارت اور گیتا جنگ کے قصوں سے پُر ہیں، ہندو مذہب کی سب سے معتبر اور قدیم کتاب چار’’ ویدیں ‘‘ہیں، ان ویدوں میں جنگ کی ترغیب، دشمنوں کو نقصان پہنچانے کی تمنائیں اور جنگ میں اپنی کامیابی اور دشمن کو نیست ونابود کرنے کی دعائیں جگہ جگہ موجود ہیں؛ چنانچہ رِگ وید کا ایک منتر ہے:’’ تیر کمان کی مدد سے ہم مویشی حاصل کریں، تیر کمان کی مدد سے ہم لڑائی جیتیں، تیر کمان کی مدد سے اپنی گھمسان کی لڑائیوں میں فتح مند ہوں، تیر کمان دشمنوں کو غمگین کرتی ہے، اس سے مسلح ہو کر ہم تمام ممالک فتح کریں‘‘۔ 4 -1 :75:6) ) رِگ وید ہی میں ہے: ’’مجھ کو اپنے ہم سروں میں سانڈ بنا، مجھ کو اپنے حریفوں کا فتح کرنے والا بنا، مجھ کو اپنے دشمن کا قتل کرنے والا بااختیار حکمراں، مویشیوں کا مالک بنا‘‘، (1:165:10) یجروید میں آگ کے دیوتا سے اس طرح دعاء کی گئی ہے: ’’اے آگ ! تو جس کے شعلے تیز ہورہے ہیں، ہمارے آگے آگے پھیل جا، ہمارے دشمنوں کو جلا دے، اے بھڑکتی ہوئی آگ! جس نے ہمارے ساتھ بدی کی ہے تو اسکو سوکھی لکڑی کی طرح بالکل بھسم کر دے، اے اگنی! اُٹھ ، ان لوگوں کو بھگا دے، جو ہمارے خلاف لڑتے ہیں، اپنی آسمانی طاقت کا مظاہرہ کر‘‘ ۔(13-12:13) سام وید میں ایک منتر میں جنگ پر اُکساتے ہوئے کہا جاتا ہے: ’’اے بہادر! اے مال غنیمت لوٹنے والے! تو آدمی کی گاڑی کو تیز چلا، اے فاتح! ایک مشتعل جہاز کی طرح بے دین دسیوں کو جلا دے‘‘ ۔ (3:20:3:6) اتھرویدد میں کہا گیا ہے:’’ اے اگنی! تو یا تو دھانوں (غیر آریہ دشمنوں) کو یہاں باندھ کر لا اور پھر اپنی کڑک سے ان کے سروں کو پاش پاش کر دے‘‘ ۔ (7:7:1)
ہندو مذہبی مآخذ کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہاں ذات پات کی بنیاد پر اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے جنگ کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، ویدوں میں کثرت سے غیر آریہ اور نچلی ذات کے لوگوں کو تباہ وبرباد کر دینے کی ترغیب دی گئی ہے، اور ان سے جنگ کا حکم دیا گیا ہے، اسلام نے کبھی ذات پات کی بنیاد پر جہاد کی اجازت نہیں دی؛ بلکہ ظالموں کے پنجۂ ظلم کو تھامنے کے لئے جہاد کا حکم دیا ہے۔
ڈاکٹر کلپنا نے یہ بات بھی کہی ہے کہ’’ مسلمانوں کو ہمارے وجود ہی سے اختلاف ہے‘‘،— حالاں کہ ایسا نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو جبراََ غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی اجازت ہوتی؛ لیکن قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے کہ دین کے معاملے میں کسی جبر کی گنجائش نہیں ہے: لا إکراہ في الدین قد تبین الرشد من الغي (بقرہ: ۲۵۶) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا: أفأنت تکرہ الناس حتیٰ یکونوا مؤمنین ( یونس: ۹۹) کیا آپ لوگوں کو اس بات پر مجبور کردیں گے کہ وہ ایمان لائیں؟
قرآن مجید کی نظر میں اگرچہ دین ِحق توحید ہے؛ لیکن اس نے مختلف مذاہب اور مذہبی گروہوں کے وجود کو تسلیم کیا ہے؛ چنانچہ فرمایا گیا:
ولو شاء ربک لجعل الناس أمۃ واحدۃ ولا یزالون مختلفین (ہود: ۱۱۸-۱۱۹)
اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا؛ لیکن ان میں برابر اختلاف باقی رہے گا۔
اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا گیا:
ولو شاء اللہ لجعلکم أمۃ واحدۃ، (مائدہ:۴۸)
اگر اللہ چاہتا تو تم لوگوں کو ایک امت بنا دیتا۔
ڈاکٹر کلپنا کو مساجد اورمدارس کے بارے میں بھی فکر ہے کہ مسجدوں اور مدرسوں میں کیا ہو رہا ہے؟ کاش، وہ آر ایس ایس کے کیمپوں کی فکر کرتیں، جہاںماردھار کی تربیت دی جاتی ہے، آر ایس ایس کے اسکولوں کا جائزہ لیتیں، جہاں بالکل بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی تاریخ پڑھائی جاتی ہے، اورمعصوم بچوں کے ذہن میں نفرت کا زہر اُنڈیلا جاتا ہے، مسجدوں اورمدرسوں کے دروازے تو کھلے ہوئے ہیں،کوئی بھی شخص اور کسی بھی وقت وہاں جا کر دیکھ سکتا ہے، مسجد میں سوائے عبادت کے کوئی اور عمل نہیں ہوتا، خدا کی عبادت سے انسان کے اندر تواضع اور جھکاؤ پیدا ہوتا ہے، اور دوسرے انسانوں کے ساتھ حُسن سلوک اور بہتر رویہ کا سبق ملتا ہے، مدرسوں میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، آپ ان کے مضامین دیکھئے، اور صبح سے شام تک اساتذہ اور طلبہ کی جو مشغولیات ہوتی ہیں، انہیں ملاحظہ کیجئے، ان میں کہیں کوئی ایسا عمل نہیں پایا جاتا، جو دوسروں کے خلاف نفرت کے جذبات کو اُبھارنے والا ہو۔
انہوں نے ایک بات یہ بھی کہی ہے کہ اسلام میں ہماری ماؤں اور بہنوں کے ساتھ دُراچار( زیادتی) کے لئے کہا گیا ہے—-یہ کھلی ہوئی افتراء پردازی ہے، اسلام میں بلا امتیازِ مذہب عورتوں کی عزت وآبرو کے احترم کی تعلیم دی گئی ہے،مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں (نور: ۳۱) اس میں مسلمان اور غیر مسلم عورت کا کوئی فرق نہیں ہے، شریعت میں جو سزا کسی مسلمان عورت کی بے آبرو ئی کی ہے وہی سزا ایک غیرمسلم عورت کی آبروریزی کی بھی ہے، اور خواتین کا اس قدر لحاظ رکھا گیا ہے کہ عین حالت جنگ میں بھی عورتوں پر ہاتھ اُٹھانے سے منع فرمایا گیا ہے۔
اس بات پر بڑا افسوس ہوا کہ اسلام کی مذہبی تعلیمات کے بارے میں تو ڈاکٹر کلپنا کی معلومات بہت کم ہیں ہی؛ لیکن کم سے کم ہندوستان کی تاریخ سے تو ان کو واقف ہونا چاہئے تھا؛ لیکن اس میں بھی ان کے بے بنیاد دعووں سے سچائی کو شرمسار ہونا پڑتا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ سارا ہندوستان آزادی کے لئے جوجھ رہا تھا اور مسلمان خلافت کے لئے، یعنی مسلمانوں نے آزادی کی لڑائی میں حصہ نہیں لیا، خلافت کے لئے کوشش کرتے رہے—-غور کیا جائے تو انیسویں صدی کے ختم تک آزادی کی لڑائی میں تشدد کا رنگ غالب رہا، جس میں لوگوں کا بہت زیادہ جانی ومالی نقصان ہوا، اس مرحلہ میں زیادہ تر مسلمانوں نے قربانیاں دیں، بیسویں صدی شروع ہونے کے بعد زیادہ تر پُر امن کوششیں ہوئیں، اور اس میں غیر مسلم بھائیوں کی بھی بڑی تعداد ملتی ہے، اگر ڈاکٹر کلپنا نے کم سے کم ڈاکٹر تارا چند ہی کی ’’تاریخ آزادی ٔ ہند‘‘ پڑھ لی ہوتی تو ایسی بے سروپا بات نہیں کہتیں، اور رہ گیا خلافت آندولن تو یہ تو صرف چند سال رہا، اور یہ بھی آزادی کی لڑائی کا ہی حصہ تھا، دوسری جنگ آزادی میں اتحادی قوتوں کی قیادت برطانیہ کے ہاتھ میں تھی، اور اس کے مقابلہ جرمن، جاپان اور تُرکی بڑی طاقتیں تھیں؛ اس لئے ہندوستان کے لوگوں کو فطری طور پر اِن ملکوں سے محبت تھی اور وہ امید رکھتے تھے کہ اِن ملکوں کی مدد سے انہیں آزادی حاصل ہو سکے گی؛ اس لئے اگر ان کو کوئی بھی ایسا موقع مل جاتا، جس میں برطانیہ کے خلاف ہندوستان کے باشندوں کو جمع کیا جا سکے تو وہ اس سے فائدہ اُٹھاتے تھے، خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں چوں کہ برطانیہ کا بنیادی کردار تھا، اس پسِ منظر میں تحریک خلافت شروع ہوئی؛ اسی لئے تحریک خلافت میںمسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی شامل ہوئے، اور مہاتما گاندھی جی تو اس تحریک میں قائدانہ رول ادا کر رہے تھے؛ اس لئے یہ کہنا کہ مسلمان جنگ آزادی کو چھوڑ کر تحریک خلافت کے پیچھے پڑے ہوئے تھے، مجاہدین آزادی کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا۔
ڈاکٹر کلپنا نے یہ بھی کہا ہے کہ مسلمان چاہتے تھے کہ ایک خلیفہ بٹھائیں اور اسی کا راج چلے،— لیکن انہوں نے غور نہیں کیا کہ مسلمان خلیفہ کس خطہ کے لئے چاہتے تھے؟ انہوں نے ہندوستان کے لئے ایسا نہیں چاہا، تُرکی (جس میں اس وقت بیش تر اسلامی ممالک شامل تھے) میں خلافت کا احیاء چاہتے تھے؛ تاکہ انگریزوں کا زور توڑا جاسکے، اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی برائی کی بات نہیں ہے، کسی بھی ملک میں حکمراں تو ایک ہی ہوگا، اور اسی حکمراں کے تحت پورا نظام حکومت چلے گا، اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟ البتہ ان کو سمجھنا چاہئے کہ خلیفہ کسے کہتے ہیں؟ خلیفہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کا نائب ہو کر اپنی رعایا کے درمیان پورے عدل وانصاف سے حکومت قائم کرے، اور اپنا حکم نہ چلائے؛ بلکہ اللہ کے حکم کو نافذ کرے، یہ نظام انسان کو ڈکٹیٹر بننے سے روکتا ہے، آمریت سے بچاتا ہے،اور یہ تصور پیدا کرتا ہے کہ حکمراں بھی اپنی رعایا کے سامنے جوابدہ ہے ؛ اسی لئے گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ اگر ہندوستان کو سوراج حاصل ہو تو اس کو ابوبکر وعمر (رضی اللہ عنہما) کے طرز حکومت کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا چاہئے، ایسے ہی حکمراں کو خلیفہ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر کلپنا نے بعض وہ باتیں بھی نقل کی ہیں، جو صرف آر ایس ایس کے لوگوں کا پروپیگنڈہ ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، جیسے مالابار میں ہندؤوں کا مارا جانا، عورتوں کے ساتھ زیادتی، دودھ پیتے بچوں کا قتل، اولاََ تو یہ سب سنگھ پریوار کے گھڑے ہوئے افسانے ہیں؛ لیکن اگر کچھ مسلمانوں نے ایسا کیا بھی ہو، تو چند شریر لوگوں کے عمل کی ذمہ داری پوری قوم پر عائد نہیں کی جاسکتی، اور نہ مذہب کواس کا قصور وارقرار دیا جا سکتا ہے، اسلامی نقطۂ نظر سے ایسی حرکت کا ارتکاب بالکل غلط ہے، اور ایسا کرنے والا دنیا وآخرت میں سنگین سزا کا مستحق ہے؛ لیکن آرایس ایس تو ۱۹۴۷ء کے فسادات اور بھاگلپور، مرادآباد، جمشیدپور او رگجرات کے دنگوں میں اس کا کئی گنا مظالم ڈھا چکی ہے، تو کیا آر ایس ایس کی غیر انسانی حرکتوں کا تمام ہندؤوں کو قصور وار قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، یہ کچھ بدمعاش اور انسان نما درندوں کا کام ہوتا ہے، ان کی وجہ سے پوری قوم کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اخیر میں ایک درخواست غیر مسلم بھائیوں سے ہے کہ وہ ٹھنڈے دل سے خالی الذہن ہو کر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں، اگر آدمی پہلے سے سیاہ عینک پہنے ہوا ہو تو اس کو دھوپ کی روشنی بھی سیاہ نظر آئے گی؛ اس لئے خالی الذہن ہو کر مذہب کا مطالعہ کرنا چاہئے؛ تاکہ حقیقت پسندی کے ساتھ مذہب کو سمجھا جا سکے، ہمیں یقین ہے کہ ڈاکٹر کلپنا اور اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ اگر کھلے ذہن کے ساتھ قرآن وحدیث اور سیرت نبوی کا مطالعہ کریں گے تو محسوس کریں گے کہ اسلام ایک دین رحمت ہے، اور اس نے ہندوستان کو بہت کچھ دیا ہے۔
دوسری درخواست مسلمانوں سے ہے کہ ہم نے اپنے کاروبار ، تجارت اور شخصیت کا تعارف تو برادران وطن سے خوب کرایا ہے، معاشی، سماجی اور سیاسی فائدے بھی اُٹھائے ہیں؛ لیکن اسلام کا تعارف کرانے کی کوئی سنجیدہ اور منظم کوشش نہیں کی، اس غفلت کا نتیجہ ہے کہ جس قوم کو لوگوں کی محبت کا مرکز ہونا چاہئے تھا، وہ نفرت وملامت کا ہدف بنی ہوئی ہے، اب بھی وقت ہے کہ ہم اس بارے میں سوچیں اور غیر مسلم بھائیوں تک اسلام کی صحیح تصویر پہنچائیں، ورنہ وقت جوں جوں گزرتا جائے گا، نفرت کی چنگاری شعلہ اور شعلہ سے آتش فشاں بنتی جائے گی، اور اس کا انجام دینا میں بھی تباہی کی شکل میں ظاہر ہوگا اور آخرت میں بھی جوابدہی ومحرومی کی شکل میں
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)
No comments:
Post a Comment