قعدہ اولی سے کھڑا ہوکے پھر بیٹھ جانا؟
السلام علیکم.........
امید کہ مع الخیر ہونگے .........
ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ ایک امام صاحب دوسری رکعت میں قعدہ کرنے کی بجائے سہوا کھڑے ہوگئے قیام بقدر رکن نہیں تھا کہ مقتدیان کی تنبیہ کے سبب قعدہ کی طرف لوٹ آئے پھر آخر میں سجدہ سہو کیا تو ایسی نماز کا کیا حکم ہے؟
کیا مذکورہ صورت میں سجدہ سہو واجب ہے؟
دوسرے اگر کسی نماز میں سجدہ سہو تو واجب نہیں لیکن کرلیا یہ خیال کرکے کہ سجدہ سہو واجب ہے ایسی صورت میں نماز صحیح ہوگی یا واجب الاعادہ؟
محمد زبیر ناصری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وبالله التوفيق:
فرض، واجب اور سنت موکدہ کی تین یا چار رکعت والی نماز میں اگر امام قعدہ اولی بھولے سے چھوڑ کے سیدھا کھڑا ہوجائے تو اسے مقتدی کی یاد دہانی کے بعد بھی واپس قعدے میں نہیں لوٹنا چاہئے تھا بلکہ سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلینا تھا؛
﴿ولو کان اِلی القیام أقرب لم ے عد) لأنہ کالقائم معنیً (یسجد للسہو) لأنہ ترک الواجب ۔ ھدایہ مع شرح فتح القدیر ص ۵۰۸ ج۱ ۔ دار الفکر بیروت﴾
لیکن اگر وہ مسئلہ سے ناواقفیت کی بناء پر سیدھا کھڑا ہونے کے بعد پھر قعدے میں واپس آگیا تو کیا ایسا کرنا گناہ اور موجب سجدہ سہو ہے یا اس سے نماز بھی فاسد ہوجائے گی؟
اس مسئلے میں فقہاء کے دو نقطہائے نظر ہیں:
محقق ابن الہمام اور محدث زیلعی وغیرہ نے اس صورت میں فساد نماز کا حکم لگایا ہے کیونکہ فرض قیام چھوڑ کے واجب قعود کی طرف عود کرنا لازم آیا اور ترک فرض سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، یہ حضرات نماز کے اعادہ کا حکم دیتے ہیں:
’’ثم لو عاد في موضع وجوب ، عدمہ ، قیل: الأصح أنھا تفسد لکمال الجنایۃ ، برفض الفرض لما لیس بفرض.‘‘
(فتح القدیر: ۱/۵۰۹)
جبکہ صاحب مراقی الفلاح، محشی طحطاوی اور علامہ شامی وغیرہ صحت نماز کے قائل ہیں سجدہ سہو کے ساتھ ۔:
واِن عاد بعد استتمّ قائماً اختلف التصحیح فی فساد صلاتہ ۔ ۔ ۔ وأرجحہا عدم الفساد (نور الایضاح مع المراقی ص۱۸۹ طبع مصر)
السلام علیکم.........
امید کہ مع الخیر ہونگے .........
ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ ایک امام صاحب دوسری رکعت میں قعدہ کرنے کی بجائے سہوا کھڑے ہوگئے قیام بقدر رکن نہیں تھا کہ مقتدیان کی تنبیہ کے سبب قعدہ کی طرف لوٹ آئے پھر آخر میں سجدہ سہو کیا تو ایسی نماز کا کیا حکم ہے؟
کیا مذکورہ صورت میں سجدہ سہو واجب ہے؟
دوسرے اگر کسی نماز میں سجدہ سہو تو واجب نہیں لیکن کرلیا یہ خیال کرکے کہ سجدہ سہو واجب ہے ایسی صورت میں نماز صحیح ہوگی یا واجب الاعادہ؟
محمد زبیر ناصری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وبالله التوفيق:
فرض، واجب اور سنت موکدہ کی تین یا چار رکعت والی نماز میں اگر امام قعدہ اولی بھولے سے چھوڑ کے سیدھا کھڑا ہوجائے تو اسے مقتدی کی یاد دہانی کے بعد بھی واپس قعدے میں نہیں لوٹنا چاہئے تھا بلکہ سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلینا تھا؛
﴿ولو کان اِلی القیام أقرب لم ے عد) لأنہ کالقائم معنیً (یسجد للسہو) لأنہ ترک الواجب ۔ ھدایہ مع شرح فتح القدیر ص ۵۰۸ ج۱ ۔ دار الفکر بیروت﴾
لیکن اگر وہ مسئلہ سے ناواقفیت کی بناء پر سیدھا کھڑا ہونے کے بعد پھر قعدے میں واپس آگیا تو کیا ایسا کرنا گناہ اور موجب سجدہ سہو ہے یا اس سے نماز بھی فاسد ہوجائے گی؟
اس مسئلے میں فقہاء کے دو نقطہائے نظر ہیں:
محقق ابن الہمام اور محدث زیلعی وغیرہ نے اس صورت میں فساد نماز کا حکم لگایا ہے کیونکہ فرض قیام چھوڑ کے واجب قعود کی طرف عود کرنا لازم آیا اور ترک فرض سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، یہ حضرات نماز کے اعادہ کا حکم دیتے ہیں:
’’ثم لو عاد في موضع وجوب ، عدمہ ، قیل: الأصح أنھا تفسد لکمال الجنایۃ ، برفض الفرض لما لیس بفرض.‘‘
(فتح القدیر: ۱/۵۰۹)
جبکہ صاحب مراقی الفلاح، محشی طحطاوی اور علامہ شامی وغیرہ صحت نماز کے قائل ہیں سجدہ سہو کے ساتھ ۔:
واِن عاد بعد استتمّ قائماً اختلف التصحیح فی فساد صلاتہ ۔ ۔ ۔ وأرجحہا عدم الفساد (نور الایضاح مع المراقی ص۱۸۹ طبع مصر)
﴿و قعدہ اولی سے کھڑا ہوکے پہر بیٹھ جانا؟لو قام ما جاز لہ العود لئلّا یلزم ترک الفرض وہو القیام لأجل الواجب وہو القعود الأول، شرح العنایۃ علی الھدایۃ للبابرتی ص ۵۰۸ ج۱ ۔ دار الفکر بیروت، وفی تنویر الأبصار فلو عاد اِلی القعود تفسد صلاتہ، وقیل لا وہو الأشبہ وقال اِبن عابدین واِن کان لا یحل لکنّہ بالصحّۃ لا یخلّ لما عرف أن زیادۃ ما دون الرکعۃ لا یفسد الخ ۔ رد المحتار ص۵۵۰ ج۱ ۔ کوئٹہ﴾
(البحر الرائق 178/2 ط: رشید یہ ، باب سجود السھو ، تبیین الحقائق 479/1ط: بیروت
فتاوی محمودیہ 424/10)
۲)
اگر نماز میں سجدہ سہو واجب ہوئے بغیر احتیاطاً سجدہ سہو کرلے تو اگر دونوں طرف سلام پھیرکر سجدہ سہو کیا ہوتو نماز کا اعادہ واجب نہیں، اور اگر ایک طرف سلام پھیرکر سجدہ سہو کیا ہے تو چوںکہ ایک واجب یعنی سلام ثانی ترک کردیا، جس کی وجہ تحریمہ باطل ہوگیا، لہذا اس صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہوگا‘‘۔ (مستفاد امداد الفتاویٰ ۱؍۵۴۷۔ فإن اشتغل بسجدتي السہو وصح اشتغالہ بہما تحققت الضرورۃ إلی بقاء التحریمیۃ فبقیت وإن لم یشتغل لم تحقق الضرورۃ فیعمل …السلام في الإخراج عن الصلاۃ وإبطال التحریمۃ عملہ۔ (بدائع الصنائع ۱؍۱۷۴)
واللہ اعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي
muftishakeelahmad@gmail.com
(البحر الرائق 178/2 ط: رشید یہ ، باب سجود السھو ، تبیین الحقائق 479/1ط: بیروت
فتاوی محمودیہ 424/10)
۲)
اگر نماز میں سجدہ سہو واجب ہوئے بغیر احتیاطاً سجدہ سہو کرلے تو اگر دونوں طرف سلام پھیرکر سجدہ سہو کیا ہوتو نماز کا اعادہ واجب نہیں، اور اگر ایک طرف سلام پھیرکر سجدہ سہو کیا ہے تو چوںکہ ایک واجب یعنی سلام ثانی ترک کردیا، جس کی وجہ تحریمہ باطل ہوگیا، لہذا اس صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہوگا‘‘۔ (مستفاد امداد الفتاویٰ ۱؍۵۴۷۔ فإن اشتغل بسجدتي السہو وصح اشتغالہ بہما تحققت الضرورۃ إلی بقاء التحریمیۃ فبقیت وإن لم یشتغل لم تحقق الضرورۃ فیعمل …السلام في الإخراج عن الصلاۃ وإبطال التحریمۃ عملہ۔ (بدائع الصنائع ۱؍۱۷۴)
واللہ اعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي
muftishakeelahmad@gmail.com
رابطہ نمبر:
+5978836887
+5978836887
No comments:
Post a Comment