Monday, 6 August 2018

خصی جانور کے ذبیحہ پر احادیث مطلوب ہیں

خصی جانور کے ذبیحہ پر احادیث مطلوب ہیں
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو بڑے فربہ سینگوں والے سفید خصی کردہ دبنے خریدتے۔(سنن ابن ماجہ)
ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سفید خصی کردہ دنبوں كی قربانی کی۔
(مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ مسند اسحاق ۔من راھویہ اور معجم طبرانی)
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسفید بڑے سینگوں والے خصی کردہ دنبے لائے اور ان میں ایک کو ذبح کیا فرمایا :
«بسم اللہ اللہ اکبر اللهم عن محمد وآل محمد» (مسند ابن ابي شيبه وغيره)
....
وعن جابر قال ذبح النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم الذبح کبشین اقرنین املحین موجوئین فلما وجھھما قال انی وجھت وجھی للذی فطر السمٰوٰت والارض علی ملۃ ابراھیم حنیفا وما انا من المشرکین ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للٰہ رب العٰلمین لا شریک لہ، وبذلک امرت وانا من المسلمین اللٰھم منک ولک عن محمد وامتہٖ بسم اﷲ واﷲ اکبر ثم ذبح رواہ احمد و ابوداؤد ابن ماجۃ والدارمی وفی روایۃ لاحمد وابی داؤد والترمذی ذبح بیدہٖ وقال بسم اﷲ واﷲ اکبر اللٰھم ھٰذا عنی وعمن لم یضح من امتی۔
مشکوۃ شریف
.....
حدثنا عبد الرزاق قال أخبرنا الثوري عن عبد الله بن محمد بن عقيل عن أبي سلمة عن عائشة أو عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد أن يضحي اشترى كبشين عظيمين سمينين أملحين أقرنين موجوأين فيذبح أحدهما عن أمته ممن شهد بالتوحيد وشهد له بالبلاغ وذبح الآخر عن محمد صلى الله عليه وسلم وآل محمد

ترجمہ:
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو مینڈھے خریدتے جو خوب موٹے تازے، صحت مند، سینگدار، خوب صورت اور خصی ہوتے تھے اور ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرماتے جو توحید کے اقرار پر قائم ہوئے اور اس بات کی گواہی دیتے ہوں کہ نبی ﷺ نے پیغام الٰہی پہنچا دیا اور دوسرا جانور محمد ﷺ و آل محمد ﷺ کی طرف سے قربان کرتے تھے۔
مسند احمد
.....
جس جانور کا خصیہ پیدائشی طور پر نہ ہو اس کی قربانی
سوال ]۱۰۰۳۶[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: جس بکرے کا خصیہ پیدائشی طور پر نہ ہو تو اس کی قربانی جائز ہے یا نہیں ؟ جبکہ اس کا پورا بدن صحیح سالم اور تندرست ہے؟
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
جس بکرے کا خصیہ پیدائشی طور پر نہ ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اور وہ خصی کے حکم میں ہے۔
عن جابر بن عبد اللہ قال: ذبح النبی ﷺ یوم الذبح کبشین أقرنین أملحین موجئین۔ (أبو داؤد، الضحایا، باب ما یستحب من الضحایا، النسخۃ الہندیۃ ۲/۳۸۶ دار السلام رقم: ۲۷۹۵)
ویضحی بالجماء والخصی۔ (شامی، کتاب الأضحیۃ، زکریا ۹/۴۶۷ کراچی ۶/۳۲۶، البحر الرائق کوئٹہ ۸/۱۷۶، زکریا ۸/۳۲۳، تاتارخانیۃ ۱۷/۴۲۶، رقم: ۲۷۷۱۵)
والخصی أفضل من الفحل لأنہ أطیب لحما۔ (ہندیہ، کتاب الأضحیۃ، الباب الخامس ، زکریا قدیم ۵/۳۹۹، جدید ۵/۳۴۵، تاتارخانیۃ زکریا ۱۷/۴۳۴، رقم: ۲۷۷۴۳)
وعندہم أیضا سواء کان فوات الجزء خلقۃ أو کان طاریا بقطع فجائز۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۱۹/۱۲۵)
تجوز الجماء والخصی۔ (تبیین الحقائق زکریا ۶/۴۷۹، امدادیہ ملتان ۶/۵)
فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۲؍ ذی الحجہ ۱۴۳۴ھ
(الف خاص فتویٰ نمبر: ۴۰/۱۱۳۳۰)


No comments:

Post a Comment