مہر، مہر مثل اور مہر فاطمی کی مقدار؟
مہر کی کم سے کم مقدار
مہر کی کم سے کم مقدار ۱۰ ؍ درہم کے بقدر چاندی ہے ۔
( اور ۱۰ ؍ درہم کا وزن ۳ ؍ تولہ ساڑھے سات ماشہ ہے ، اور موجودہ اوزان کے بموجب اُس کی مقدار ۳۰ ؍ گرام ۶۱۸ ؍ ملی گرام ہوتی ہے ۔
(مستفاد : ایضاح المسائل ۱۲۹)
والدلیل علی ما قلنا
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لا مہر دون عشرۃ دراہم ۔ ( السنن الکبریٰ للبیہقي ۷ ؍ ۴۱۴ رقم : ۱۴۳۸۳ ، سنن الدار قطني ۳ ؍ ۱۷۳ رقم : ۳۵۶۰ )
وأقل المہر عشرۃ دراہم ۔ ( الہدایۃ ۲ ؍ ۳۴۵ ، الدر المختار مع الشامي ۴ ؍ ۲۳۰ زکریا ، البحر الرائق ۳ ؍ ۱۴۲ ، شامي ۳ ؍ ۱۰۱ کراچی )
وأقل المہر عشرۃ دراہم مضروبۃ أو غیر مضروبۃ ۔ ( الفتاویٰ الہندیۃ ۱ ؍ ۳۰۲ )
وأما بیان أدنی المقدار الذي یصلح مہرًا ، فأدناہ عشرۃ دراہم أو ما قیمتہ عشرۃ دراہم ، وہٰذا عندنا ۔ ( بدائع الصنائع ۲ ؍ ۵۶۱ ، البنایۃ ۵ ؍ ۱۳۱ ، فتح القدیر ۳ ؍ ۳۰۵ زکریا ، ۳ ؍ ۳۱۷ بیروت )
*مہرِ فاطمی اور اُس کی مقدار*
’’ مہرِ فاطمی ‘‘ اُس مہر کو کہا جاتا ہے جو نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاتونِ جنت سیدتنا حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگر صاحب زادیوں اور اکثر ازواجِ مطہرات کا مقرر فرمایا ، اُس کی مقدار ۵۰۰ ؍ درہم چاندی ہے ، جس کا وزن موجودہ حساب سے ۱ ؍ کلو ۵۳۰ ؍ گرام ۹۰۰ ؍ ملی گرام ہوتا ہے ۔
والدلیل علی ما قلنا
عن محمد بن إبراہیم قال : کان صداق بنات رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونسائہ خمس مائۃ درہم اثنتي عشرۃ أوقیۃً ونصفًا ۔ ( الطبقات الکبریٰ لابن مسعود ۸ ؍ ۱۸ ، انوار نبوت ۶۵۱ )
ما أصدق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم امراۃ من نسائہ ولا أصدقت امراۃ من بناتہ أکثر من ثنتي عشرۃ أوقیۃ ۔ ( رواہ أبوداؤد عن أبي الجعفاء السلمي ۱ ؍ ۲۸۷ ، سنن الترمذي ۱ ؍ ۲۱۱ ) ن صداق فاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا کان أربع مائۃ مثقال فضۃٍ ۔ ( مرقاۃ المفاتیح / باب الصداق ۳ ؍ ۴۴۷ ، بحوالہ : فتاویٰ محمودیہ ۱۷ ؍ ۲۶۹ میرٹھ ، ۱۲ ؍ ۲۸ ڈابھیل ، احسن الفتاویٰ ۵ ؍ ۳۱ ، جواہر الفقہ ۱ ؍ ۴۲۴ کراچی )
تنبیہ:
مہر شرعِ محمدی یا شرعِ پیغمبری
عوام میں جو مہر شرعِ محمدی یا شرعِ پیغمبری کے نام سے مہر مقرر کرنے کا رواج ہے ، اس اصطلاح کی شرعاً کوئی اصل نہیں ہے
(امداد الفتاویٰ ۲ ؍ ۲۹۵)
بلکہ اُس میں عوام کے عرف کا اعتبار ہے، اگر کسی جگہ یہ لفظ ’’مہر فاطمی‘‘ کے لئے استعمال کیا جاتا ہو تو اُس سے ’’مہر فاطمی‘‘ مراد لیا جائے گا ۔ (فتاویٰ محمودیہ ۱۷ ؍ ۲۷۲ میرٹھ)
اور اگر کسی جگہ مہر کی کم سے کم مقدار کے لئے یا کسی بھی مقدار کے لئے یہ الفاظ مقرر ہوں، تو اُسی کو مراد لیا جائے گا ۔
(مستفاد: ایضاح المسائل ۱۲۹ ، فتاویٰ محمودیہ ۱۷ ؍ ۲۷۳ میرٹھ)
الغرض اِس میں عوام اوربرادری کے عرف کا اعتبار کیا جائے گا ۔
تنبیہ : - بہتر یہ ہے کہ جو بھی مراد لیا جائے تو اُس کو نکاح کے وقت کھول کر بیان کردیا جائے؛ تاکہ بعد میں کوئی نزاع نہ ہو ۔
مہر مثل کی تعریف:
مہر مثل کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی بہنوں یا پھوپھیوں یا چچا زاد بہنوں (جو عمر اورحسن وجمال وغیرہ میں اس عورت کے ہم پلہ ہوں) کا جو مہر مقرر کیا گیا ہے، وہی اس عورت کا مہر مثل ہوگا ۔ واضح رہے کہ مہر مثل کی تعیین میں ددھیالی رشتہ کی عورتوں کا اعتبار ہے ، ننہیالی رشتہ کی عورتوں مثلاً ماں اور خالہ وغیرہ کا اعتبار نہیں ہے ۔
والدلیل علی ما قلنا
ومہر مثلہا یعتبر بأخواتہا وعماتہا وبنات أعمامہا لقول ابن مسعود : لہا مہر مثل نسائہا لا وکس فیہ ولا شطط ، وہن أقارب الأب ؛ ولأن الإنسان من جنس قوم أبیہ ۔ ولا یعتبر بأمہا وخالتہا إذا لم تکونا من قبیلتہا ۔ ویعتبر في مہر المثل أن تتساوي المرأتان في السن والجمال والمال والعقل والدین والبلد والعصر ؛ لأن مہر المثل یختلف باختلاف ہٰذہ الأوصاف ۔ ( الہدایۃ ۲ ؍ ۳۵۴ ، فتح القدیر ۳ ؍ ۳۶۸ بیروت ، عنایۃ مع الفتح ۳ ؍ ۳۶۷ ، البنایۃ ۵ ؍ ۱۸۳ )
ومہر مثلہا اللغوي : أي مہر امرأۃ تماثلہا من قوم أبیہا لا أمہا وقت العقد سنًا وجمالاً ومالاً وبلدًا وعصرًا وعقلاً ودینًا وبکارۃً وثیوبۃً وعفۃً وعلمًا وأدبًا وکمال خلق وعدم ولد ۔ ( تنویر الأبصار مع الدر المختار علی رد المحتار ۴ ؍ ۲۸۱-۲۸۳ زکریا ، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۴ ؍ ۱۶۱ رقم : ۵۸۳۸ زکریا ، الموسوعۃ الفقہیۃ ۳۹ ؍ ۱۵۳ کویت )
واللہ اعلم بالصواب
مستفاد:-کتاب المسائل، جلد نمبر چہارم
#نقلہ_عطاءالرحمن_بڑودوی
No comments:
Post a Comment