حج بدل میں قربانی کس کے ذمہ واجب ہے؟
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ حضرات مفتیان کرام ایک مسئلہ معلوم کرنا ہےکہ ایک شخص حج بدل کررہا ہے اور وہ حج تمتع کر رہا ہے تو وہ عمرہ اور قربانی کس کے نام سے کرےگا
سرفراز عالم قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
حج کی تینوں اقسام (تمتع، قران اور افراد) میں حج بدل کیا جاسکتا ہے
حج بدل میں قربانی اُس شخص کی جانب سے ہوگی جس کی جانب سے حج کی ادائیگی کی جارہی ہے۔
البتہ بعض اختلافی مسائل سے بچنے کے لئے حج بدل میں حج افراد کرنے میں احتیاط زیادہ ہے، لیکن حج تمتع یا حج قران بھی حج بدل میں جائز ہے۔
اگر مامور کو حج تمتع یا قرآن کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا
تو دم تمتع و عمرہ آمر کی طرف سے ہی ادا ہوگا
اگر حج تمتع کا حکم نہیں دیا گیا تھا
مامور نے اپنے من سے تمتع کی نیت کرکے احرام باندھ لیا تو اب دم تمتع وقران مامور کے ذمہ ہوگا بھیجنے والے کے ذمہ نہیں
اگر مامور صاحب نصاب ہو
اور کم از کم پندرہ دن کا قیام مکہ میں ہوچکا ہو تو اس کے ذمہ دم اضحیہ واجب ہے
خواہ مکہ میں کرائے
یا اپنے وطن میں کسی کو حکم دیدے
حج بدل میں اصولا حج افراد کیا جاتا ہے
جس میں حج والی قربانی واجب نہیں ہوتی
ہاں اگر آمر بھیجے تو حج افراد کے لئے! لیکن مامور کو تمتع وقران کی اجازت بھی (نہ کہ حکم ) دیدے
تب مامور تمتع وقران بھی اپنی جانب سے کرسکتا ہے
ہے۔
اب عمرہ تمتع وقران مامور کا ذاتی ہوگا اور دم تمتع وقران بھی اس کے ذمہ آئے گا
ودم القرآن والتمتع والجنایة علی الحاج إن إذن لہ الأمر بالقرآن والتمتع (در مختار مع الشامی: ۴/۳۲، ط: زکریا) والنظر: التاتارخانیة (۳/۶۵،ط:زکریا) ۔
آمر کی طرف سے تمتع وقران کا حکم نہ ملا ہو تو اب مامور حج افراد کرے
بلا اس کے حکم کے تمتع وقران کرے گا تو قربانی کے اخراجات اسے خود برداشت کرنا ہوگا
اب بھیجنے والے کی ذمہ داری نہیں
واللہ اعلم
شكيل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي
muftishakeelahmad@gmail.com
سرفراز عالم قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
حج کی تینوں اقسام (تمتع، قران اور افراد) میں حج بدل کیا جاسکتا ہے
حج بدل میں قربانی اُس شخص کی جانب سے ہوگی جس کی جانب سے حج کی ادائیگی کی جارہی ہے۔
البتہ بعض اختلافی مسائل سے بچنے کے لئے حج بدل میں حج افراد کرنے میں احتیاط زیادہ ہے، لیکن حج تمتع یا حج قران بھی حج بدل میں جائز ہے۔
اگر مامور کو حج تمتع یا قرآن کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا
تو دم تمتع و عمرہ آمر کی طرف سے ہی ادا ہوگا
اگر حج تمتع کا حکم نہیں دیا گیا تھا
مامور نے اپنے من سے تمتع کی نیت کرکے احرام باندھ لیا تو اب دم تمتع وقران مامور کے ذمہ ہوگا بھیجنے والے کے ذمہ نہیں
اگر مامور صاحب نصاب ہو
اور کم از کم پندرہ دن کا قیام مکہ میں ہوچکا ہو تو اس کے ذمہ دم اضحیہ واجب ہے
خواہ مکہ میں کرائے
یا اپنے وطن میں کسی کو حکم دیدے
حج بدل میں اصولا حج افراد کیا جاتا ہے
جس میں حج والی قربانی واجب نہیں ہوتی
ہاں اگر آمر بھیجے تو حج افراد کے لئے! لیکن مامور کو تمتع وقران کی اجازت بھی (نہ کہ حکم ) دیدے
تب مامور تمتع وقران بھی اپنی جانب سے کرسکتا ہے
ہے۔
اب عمرہ تمتع وقران مامور کا ذاتی ہوگا اور دم تمتع وقران بھی اس کے ذمہ آئے گا
ودم القرآن والتمتع والجنایة علی الحاج إن إذن لہ الأمر بالقرآن والتمتع (در مختار مع الشامی: ۴/۳۲، ط: زکریا) والنظر: التاتارخانیة (۳/۶۵،ط:زکریا) ۔
آمر کی طرف سے تمتع وقران کا حکم نہ ملا ہو تو اب مامور حج افراد کرے
بلا اس کے حکم کے تمتع وقران کرے گا تو قربانی کے اخراجات اسے خود برداشت کرنا ہوگا
اب بھیجنے والے کی ذمہ داری نہیں
واللہ اعلم
شكيل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي
muftishakeelahmad@gmail.com
رابطہ نمبر:
+5978836887
+5978836887
No comments:
Post a Comment