Saturday, 11 August 2018

ہم نے پہلے ایمان سیکھا پھر اس کے بعد قرآن سیکھا، کیا یہ بات درست ہے؟

ہم نے پہلے ایمان سیکھا پھر اس کے بعد قرآن سیکھا، کیا یہ بات درست ہے؟
سوال: ہمارے تبلیغی بھائی اپنی تقریروں میں اکثر یہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کی ہم نے پہلے ایمان سیکھا پھر اسکے بعد قرآن سیکھا، کیا یہ بات درست ہے؟ انسے اس بات کا حوالہ مانگو تو وہ غصہ کرتے ہیں اس لئے آپ بتائے کیہ یہ بات کس مستند کتاب میں ہے؟ اور قرآن کے بغیر ایمان کو کیسے اور کہاں سے سیکھا جائے؟
جواب: امام بخاری رحمہ اللہ کی التاریخ الکبیر (۲/۲۲۱) میں ہے: 
عن جندب قال: کنا علی عہد النبي صلی اللہ علیہ وسلم غلماناًا حزاورة تعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن ثم تعلمنا القرآن ازددنا بہ إیمانا، اور حافظ ابن البر رحمہ اللہ کی التمہید (۱۴:۱۳۳) میں ہے: قال حذیفة بن الیمان: تعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، وسیأتي قوم في آخر الزمان یتعلمون القرآن قبل الإیمان.
(۴) ضروریات ایمان واسلام قرآن سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے کہ اس کے لیے قرآن کو چھوڑنا پڑے اور قرآن سیکھنے کا مطلب حفظ قرآن ہے، قرآنی احکام ومطالب کا سیکھنا مراد نہیں ہے کیونکہ صحابہٴ کرام احکام ومطالب قرآن جاننے اور سیکھنے کو حفظ قرآن پر مقدم رکھتے تھے 
قال ابن عبد البر في التمہید (۱۴: ۱۳۳): وکان الصحابة رضي اللہ عنہم وہم الذین خوطبوا بہذا الخطاب لم یکن منہم من حفظ القرآن کلہ ویکملہ علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلا قلیل منہم أبي بن کعب وزید بن ثابت ومعاذ بن جبل وأبوزید الأنصاري وعبد اللہ بن مسعود، وکلہم کان یقف علی معانیہ ومعاني ما حفظ منہ ویعرف تأویلہ ویحفظ أحکامہ، وربما عرف العارف منہم أحکاما من القرآن کثیرة وہو لم یحفظ سورہا، قال حذیفة بن الیمان... اھ 
اور ایمان اور ضروریات ایمان کا علم مستند ومعتبر علمائے کرام سے سیکھا جائے اور اخلاص اور ایقان کے لیے متبع شریعت وسنت اور صاحب نسبت بزرگوں کے پاس جایا جائے اور ان سے اصلاحی تعلق قائم کیا جائے اور تبلیغی جماعت میں وقت لگایا جائے۔

No comments:

Post a Comment