Thursday, 2 August 2018

شادی بیاہ یا دیگر تقریبات پر لین دین کا حکم

شادی بیاہ یا دیگر تقریبات  پر لین دین کا حکم 
سوال: ہمارے معاشرے میں برصغیر کے اکثر طبقوں میں یہ رواج پایا جاتاہے کہیں مکمل رسم کی پابندی کےساتھ کہیں بغیر پابندی کے ساتھ کہ شادی بیاہ کے موقع پر یا دیگر تقریبات کے مواقع پر کچھ لینا دینا ہوتا ہے روپے پیسوں کی شکل میں یا سامان وغیرہ کی شکل میں، سوال یہ ہے کہ جو کچھ دیا جاتا ہے اس کی حیثیت کیا ہے؟ آیا وہ ہدیہ ہے جو موہوب الیہ کے قبضہ میں آکر اس کی ملک ہوجاتا ہے، یا قرضہ ہے جس کا کسی موقع پر واپس کرنا ضروری ہو؟
الجواب و باللہ التوفیق:
صورت مسئولہ میں یہ قرضہ سمجھ کر لوگ دیتے ہیں اور لیتے ہیں کیونکہ باضابطہ رجسٹر میں اندراج کیا جاتا ہے اور اس کے متعلق  بندہ نے تحقیقات بھی کیا ہے اور تجربہ لہذا اس طرح کا لین دین جائز نہیں ہے قرض کی ضرورت نہیں ہے پھر بھی لے رہے ہیں قرض مانگ نہیں رہا ہے پھر بھی دے رہے ہیں.
واللہ اعلم بالصواب
ابو حنیفہ
محمد توحید سالم قاسمی
ریاض سعودی عرب
...........
شادی کی دعوت میں جو نیوتا یا کھاج کی رقم ہوتی ہے اس کا کیا حکم ہے؟
شادی کی تقریب میں صاحبِ تقریب کو بطورِ تحفہ یا ہدیہ کوئی چیز یا نقد رقم دیناجس میں ریا، نام ونمود اور واپس لینے کی نیت نہ ہوجائز ہے،گناہ نہیں،
لیکن آج کل شادی بیاہ کے موقع پر تقریبات میں ’’نیوتہ (نندرہ)‘‘ کے نام سے جو رسم جاری ہےاس میں متعدد مفاسد پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے فقہاء نے اسے منع کیا ہے،ان میں سے کچھ مفاسد ذکرکئے جاتے ہیں۔
اس رقم کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا ہےاور دینے والے کے ہاں تقریب ہونے کی صورت میں دی ہوئی رقم کے برابر بلکہ اس سے زیادہ دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس لحاظ سے اس رقم کو تحفہ یا ہبہ نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ قرض ہے، اس کے قرض ہونے کی صورت میں متعدد مفاسد پائے جاتے ہیں
(الف)
 بلاضرورت قرض لیا جاتا ہے۔
(ب) قرض کو استطاعت کے وقت فورااداکرناچاہئےلیکن اس میں دینے والے کے ہاں تقریب ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے تو بعض اوقات لینے والے کی موت واقع ہوجاتی ہےاور یہ قرض ادائیگی کے بغیر رہ جاتا ہے۔
(ج) یہ مشروط ہوتا ہے،کیونکہ جب یہ واپس کیاجاتا ہے تولی گئی رقم سے زائد ہی واپس کیا جاتا ہےاور اگر کم یا برابر واپس کیاجائے تو برا سمجھا جاتا ہے،اور یہ واضح ہو کہ لی گئی رقم سے زائد دینے کی صورت میں یہ ’’كل قرض جر نفعا فهو ربا‘‘ کے تحت داخل ہوکر سود ہوگا اور سود کا لینا دینا حرام ہے۔
(د) یہ رقم معاشرے اور رواج کے جبر سے لی جاتی ہے،اس لئے کہ اس رسم پر عمل نہ کرنے کی صورت میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے،یا کم از کم گری ہوئی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور اس طرح کسی کی دلی خوشی کے بغیر کسی کا مال حاصل کرناشرعاًجائز نہیں۔
(ہ) اس میں ریا و نمود ہوتی ہےجو شرعاً ممنوع ہے۔ غور کیجئے تو یہ رسم عقلاً بھی درست نہیں کیونکہ شادی بیاہ خوشی کے مواقع ہیں اور ان خوشی کےمواقع میں صاحبِ تقریب اظہارِ مسرت کے طورپردعوت کا اہتمام کرتا ہے،اب اس دعوت کا عوض وصول کرنا عقلِ سلیم کے نزدیک باعثِ عار ہے،حضرت مفتی اعظم مفتی محمد شفیع صاحب قُدِّس سرہ العزیز تفسیرِ معارف القرآن میں ’’وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَا فِي أَمْوَالِ النَّاسِ‘‘ کی تفسیر میں اس رسم کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہےجوعام خاندانوں اور اہلِ قرابت میں چلتی ہے،وہ یہ ہے کہ عام طورپر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ دوسرےکودیتے ہیں اس پر نظررکھتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے وقت میں کچھ دے گابلکہ رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا خصوصاًنکاح، شادی وغیرہ کی تقریب میں جو کچھ دیالیا جاتا ہےاس کی یہی حیثیت ہوتی ہے،جس کو عرف میں’’نیوتہ‘‘کہتے ہیں،اس آیت میں ہدایت کی گئی کہ اہلِ قرابت کا جو حق ادا کرنے کا حکم پہلی آیت میں دیا گیا ہےاس کو یہ حق اس طرح دیا جائے کہ نہ ان پر احسان جتائےاور نہ کسی بدلے پر نظر رکھے،اور جس نے بدلے کی نیت سے دیاکہ ان کا مال دوسرے عزیز رشتہ دار کے مال میں شامل ہونے کے کے بعد کچھ زیادتی لیکر آئے گا تو اللہ کے نزدیک اس کا کچھ درجہ اور ثواب نہیں، قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظِ ربوٰ سے تعبیر کرکے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیاہے کہ یہ ایک صورت سود کی سی ہوگئی۔ 
(معارف القرآن:۶/۷۵۰)
ان تفصیلات کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا کہ شرعاًمذکورہ نیوتہ کے لین دین کی رقم اِن مفاسد کے ہوتے ہوئےناجائزہے،لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ اس طرح کی رسمِ بد سے اجتناب کریں۔ یہ ساری تفصیل اس وقت ہے جبکہ وہ مفاسد پائے جائیں جن کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن اگر کوئی شخص قرابت کی وجہ سے یاتعاون کرتے ہوئے ہدیہ دےاورواپس لینے کی نیت نہ ہوتووہ شرعاً ممنوع ’’نیوتہ‘‘ میں داخل نہیں، اور اس کا لینا دینا ناجائز بھی نہیں۔ لہٰذا اگر کسی دعوت میں بطورِ رسم تحفہ دینے کی پابندی کی جاتی ہواور رسم پوری نہ کرنے پر لعن وطعن کیا جاتا ہو تو اس رسم سے بچنے کیلئے دعوتِ ولیمہ میں شرکت سے معذرت کی جا سکتی ہے۔ اور اگر اس رسم بد کی ایسی پابندی نہ ہو تو اس میں شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں، تاہم خود اس رسم کا حصہ نہ بنیں۔
(مأخذہٗ، التبویب:26/1443)
واللہ اعلم بالصواب



No comments:

Post a Comment