Tuesday, 7 August 2018

دیوبند اور ندوہ؛ امت کی مشترکہ میراث

دیوبند اور ندوہ؛ امت کی مشترکہ میراث
کچھ دن پہلے راقم نے "دیوبند ماڈل امید کی اکلوتی کرن" کے نام سے ایک مضمون لکھا تھا، باوجودیکہ اس میں اس بات کی صراحت تھی کی میرا ارادہ ہرگز کسی دوسرے ادارے کی تنقیص نہیں ہے بلکہ ایک ادارے: دیوبند کی ہمہ جہتی اور عالمگیریت کا اظہار ہے، کچھ ندوی احباب نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور ردوقدح کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہماری علما برادری میں یہ ایک عام مرض ہے کہ اولا تو ہم تقسیم در تقسیم ہوکر چند ہزار رہ گئے پھر قاسمی و ندوی کی ایک اور تقسیم کا شکار ہوگئے حالانکہ یہ محض ایک تعارفی نسبت ہے اور خدا جانے کیوں چلی ہے۔ نسبت تو اپنے قبیلے خاندان یا علاقے کی طرف ہونی چاہیے، مصر کے باشندے ازہر سے فارغ ہوکر بھی ازہری نہیں لکھتے ہمارا ہندوستانی طالب علم وہاں ٹہل کر آتا ہے اور ازہری ہوجاتا ہے علیگڑھ جاکر علیگ اور جامعہ ملیہ جاکر جامعی لکھنے لگتا ہے(یہ ایک رائے ہے اس سے اختلاف ممکن ہے)، بہر حال مسئلہ یہ ہے کہ میں بہت سے قاسمی حضرات کو دیکھتا ہوں کہ ندوہ کا نام آتے ہی ان کی پیشانی پر بل پڑجاتے ہیں، یہی حال کچھ ندوی حضرات کا ہے کہ دیوبند کا نام آیا اور ان کی زبان ہوشمند کا جنازہ تیار ہوا۔ پہلے تو میں قاسمی حضرات سے گزارش کروں گا کہ ندوہ اگر کچھ نہ کرتا صرف عالم جلیل علامہ سیدسلیمان ندوی اور مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہما اللہ ہی پیدا کردیتا تو بھی امت اس ادارے کا قرض ادا نہیں کرسکتی تھی۔ ثانی الذکر نے عالمی سطح پر جو خدمات انجام دی ہیں وہ اکابرین ہند میں سے کسی کے حصے میں نہیں  آئیں۔ وہ عظمت کی جس چوٹی پر پہنچے تھے وہاں پہنچ کر انسان اکثر یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے، مگر حضرت کی تواضع اخلاص اور للہیت آج بھی ضرب المثل ہیں۔ اسی طرح میں ندوی احباب سے گزارش کروں گا کہ وہ اس پہلو پر بھی غور کریں کہ علامہ سیدسلیمان ندوی جیسے جبل علم کچھ سوچ کر ہی اکابر دیوبند کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور آخر کار حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا تھا۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی سوانح ان کے اکابر دیوبند کے ساتھ تعلق کے تذکرہ کے بغیر ادھوری رہے گی۔ آج بھی آپ کے اساتذہ میں فضلائے دیوبند کا نام بھی آتا ہے، حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی حضرت شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید ہیں۔ یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ان اداروں کے رشتے بہت پرانے ہیں، یہ دونوں ہی مسلمانان ہند کے ماضی اور حال کی تعلیمی واصلاحی قیادت کے ذمے دار ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی رہیں گے۔ ہم جو ابنائے دیوبند وابناے ندوہ کہلاتے ہیں اگر ایک دوسرے پر صرف اسی لئے تیر برساتے رہیں کہ ہمارا نصاب تعلیم مختلف ہے تو دراصل ہم ان دونوں مؤقر اداروں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ماضی میں غلطیاں دونوں طرف سے ہوئی ہیں اور اب دل ارجمند اور زبان ہوشمند ہونے کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ان غلطیوں کو نہ دہرائیں، ایک دوسرے کا احترام کریں اور ان اداروں کو امت مسلمہ کا مشترکہ اثاثہ سمجھیں۔ فقط و السلام
.............
ديوبند ماڈل: امید کی اکلوتی کرن 
اگر آپ ترکی سے آگے یونان یا بلغاریہ کی طرف بڑھیں اور وہاں سے یوروپ میں، بستی دربستی اور قریہ در قریہ ہوتے ہوے بحراٹلانٹک تک آئیں اور پھر سمندر عبور کرکے امریکہ اور کناڈا کی بھی اسی طرح سیر کرلیں، تو آپ لازماً اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ روئے زمین کا اتنا بڑا خطہ اپنی مختلف زبانوں اور متعدد ثقافتی ورثے کے باوجود ایک ایسی تہذیبی اکائی میں مربوط ہے جس کو ہم مغربی تہذیب کا نام دیتے ہیں۔ اگر اسی طرح کا سفر آپ مشرق کی جانب بھی کریں، تو سب سے پہلے ترکی تہذیب، پھر عربی تہذیب ،فارسی تہذیب، چینی وہندوستانی تہذیب اور پھر ملایا تہذیب آپ کا استقبال کریں گی اور ان مشرقی ممالک میں بھی آپ کو مغربی تہذیب کی جلوہ افروزیاں جابجا نظر آئیں گی۔ خالص اسلامی تہذیب تو شاید اب کتابوں میں بھی آپ کومشکل سے ملے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مغربی ممالک میں اختلاف کے باوجود اس قدر یکسانیت اور مسلم ممالک میں کلمہ طیبہ کے نام پر اتحاد کے باوجود اس قدر شدید تہذیبی اختلاف کیوں ہے؟ کسی بھی تہذیب کے پیچھے در اصل کچھ ایسے علمی یا مذہبی نظریات ہوتے ہیں جن سے وہ تہذیب روشنی حاصل کرتی ہے اور ان نظریات کو اقدار بنا کر ترقی کرتی ہے۔ یہ نظریات خواہ مذہبی ہوں یا علمی اور فلسفی، اقوام عالم میں ان کا نشو ونما تعلیم ہی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ لہذا تعلیمی نظام اگر یکساں اور مربوط ہے تو تہذیب بھی یکساں ہوگی اور اگر نظامہاے تعلیم الگ الگ ہیں تو ان پر استوار تہذیبیں بھی الگ الگ ہوں گی۔
مسلم دنیا کا المیہ یہ ہے کہ عرصئہ دراز سےہمارے ماہرین تعلیم اپنے مقاصد کی تعیین نہیں کرپائے۔ تعلیمی سفر تو جاری ہے مگر سمت کا تعین بہت کم لوگوں نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقیدے جیسی مضبوط اور مشترکہ بنیاد کے باوجود اختلاف اتنا شدید ہے کہ مختلف نظریات کے حامل افراد میں گفت وشنیدکی بھی گنجائش نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر کسی نظام تعلیم کو عالم اسلام کے لیے "ماڈل" قرار دینے کی خاطر، ہم عالمی سطح پرموجود مختلف اسلامی نظامہاے تعلیم کا جائزہ لیں، تو محض دو نام ذہن کے پردے پر نمودار ہوتے ہیں: جامع ازہر اور دیوبند۔ ان تعلیمی نظاموں میں جو فرق ہے، اس کو کچھ یوں تعبیر کرسکتے ہیں کہ جامع ازہر ایک تعلیم گاہ ہے اور دار العلوم دیوبند ایک تحریک ۔ یہی وجہ ہے کہ جامع ازہرجس کی عمر دار العلوم دیوبند سے تقریبا ایک ہزار برس زائد ہے، اس کے اثرات دیوبند کے مقابلے میں اتنے ہی محدود ہیں۔ حالاں کہ جامع ازہر کی ہزار سالہ تاریخ ایسے آفتاب وماہتاب کے تذکروں سے پُر ہے، جن کے بغیر نہ حدیث کی تاریخ مکمل ہوگی اور نہی فقہ کی، لیکن اگر آپ مصر سے نکل کرشام وعراق ہی آجائیں، لسانی اور ثقافتی یکسانیت کے باوجود جامع ازہر کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان ممالک میں "ازہر "سے استفادہ کرنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اب آئیے دیوبند پر نظر ڈالیے! یہ مرکز علم جس طرح مغربی اترپردیش کے ایک قصبے میں موجود ہے، اسی طرح سہارنپور میں بھی ہے، مراد آباد میں بھی ہے، گجرات ومہاراشٹر میں بھی ہے، بل کہ ہندوستان کے ہر صوبے میں موجود ہے۔ بیرون ہند: پاکستان وبنگلہ دیش میں، ایران وافغانستان میں، ملیشیا وانڈونیشیا میں،برطانیہ، اسپین، فرانس، جرمنی، ساؤتھ افریقہ، کناڈا اور امریکہ میں ایک نہیں کئی کئی مراکز علم، دیوبند کی شکل میں آپ کو ملیں گے۔ ان میں بہت سے مدارس ایسے ہیں جن کا نصاب تعلیم دارالعلوم دیوبند کے موجودہ نصاب سے کچھ مختلف ہے مگر ان کا انتساب بھی اسی عظیم تحریک کی طرف ہے۔
یہ تو عالمی سطح پر منظر نامہ ٹھہرا۔ اب آئیے ملکی سطح پر جائزہ لیں، تو مسلمانوں کی تعلیم کے تین قابل ذکر نظام سامنے آتے ہیں: دیوبند، ندوہ اور علیگڑھ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علیگڑھ کا آغاز بحیثیت تحریک کے ہوا تھا، لیکن آج وہ ایک بڑا تعلیمی ادارہ ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں ابنائے علیگڑھ ڈیڑھ سو سال میں بھی کوئی دوسرا علیگڑھ قائم نہیں کرپائے۔ ندوہ کو بھی ایک تحریک کا نام دیا گیا ،ہرچند کے اس تحریک کے کچھ اثرات ملکی سطح پر نظر آتے ہیں مگر عالمی سطح پر ندوۃ العلماء بحیثیت تحریک کے متعارف نہیں ہے۔ یہاں ہرگز کسی ادارے کی تنقیص مقصود نہیں ہے بل کہ محض یہ بتانا ہے کہ جو ادارہ تحریک بن کر ابھرا اس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے گئے، اور بقیہ نظام ہائے تعلیم اداروں کے حد تک محدود رہے۔ لہٰذا امت مسلمہ اگر تہذیبی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے تو نمونے کے طور پر اس کے سامنے صرف "دیوبند ماڈل" ہے، جس کو اختیار کرکے مسلم دنیا اسلامی تہذیب کو زندہ وجاوید کرسکتی ہے۔
دیوبند ماڈل کے اثرات کتنے عالمگیر ہیں اس میں تو شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن کیا واقعی یہ ماڈل زمانے کے ساتھ چلنے اور عصری چیلنجوں کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کا جواب آپ کو صرف اس شخصیت کے یہاں ملے گا جس نے یہ ماڈل مرتب کیا ہے اور اس کے بال وپر درست کرکے دنیا کے سامنے اس کو پیش کیا ہے۔ تحریک دیوبند میں اس مقام کے اکیلے حق دار حجۃ الاسلام امام قاسم نانوتویؒ ہیں۔دیوبند ماڈل کو اگر سمجھنا ہے تو حضرتؒ کی کتابوں اور تحریروں کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ آپ کی تحریریں یوں تو تقابلی ادیان اور فرق باطلہ جیسے حسّاس موضوعات پر ہیں، مگر ان میں قدیم وجدید موضوعات پر جابجا ایسے گوہر آبدار ہیں، جن کو پڑھ کر اندازا ہوتا ہے کہ آپ اپنے وقت سے کہیں آگے تھے۔ آپؒ زمانے کے چیلنجوں کو نہ صرف سمجھتے تھے بل کہ ان کا حل پیش کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے۔
حضرتؒ کی اس آفاقیت کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے ۔نور (لائٹ) کے متعلق سے سترہویں صدی میں، مغربی تہذیب کی ساخت میں اہم کردار ادا کرنے والے ایک اہم فلسفی کرسچن ہیگنزنے یہ انکشاف کیا، کہ یہ ایک لہر (Wave) ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد مشہور سائنس داں اسحاق نیوٹن نے اپنی تحقیق کے ذریعہ یہ ثابت کیا کہ لائٹ، اجزا کا مجموعہ اور جوہر ہے، لہر (عرض) نہیں ہے۔ اس کے بعد آئنسٹائن نے ۱۹۰۵ء میں نظریئہ کو انٹم پیش کیا جس کی رو سے لائٹ، لہر بھی ہے اور پارٹکل کا مجموعہ بھی ۔ اسی کو انٹم تھیوری پر آج مغربی تہذیب کی پوری عمارت قائم ہے۔ حضرت نانوتویؒ (آپ کی وفات آئنسٹائن سے پہلے ہوچکی تھی)نے تقابل ادیان کے موضوع پر لکھتے ہوئے اس بحث میں بھی حصہ لیااور اپنی مشہور کتاب قبلہ نما میں نور کو" نیوٹن" کی موافقت میں "جوہر" بل کہ ذو ابعاد ثلاثہ مانا۔ "ذو ابعاد ثلاثہ" ہی کو آج کی زبان میں3 -D کہا جاتا ہے۔ لائٹ 2-D ہے یا 3-D یہ بحث بھی ماضی قریب تک چلتی رہی ہے، جب کہ حضرت نانوتویؒ نے ایک صدی سے پہلے اس کے 3 -D ہونے پر دلائل قائم فرمادیے۔ حضرت نانوتویؒ کی یہ کلامی اور سائنسی تحقیقات ضروری نہیں ہے کہ حرف آخر ہوں، لیکن ان سے اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ فکر دیوبند کے بانی، صرف دیوبند واطراف میں پیش آمدہ مسائل کا حل پیش نہیں فرمارہے تھے بل کہ ان کی نظر میں عالمی مسائل اور ان کا حل بھی تھا۔ دیوبند ماڈل کا در اصل یہی وہ دوسرا رخ ہے جس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر ارباب مدارس اس کے احیا کی کوشش کریں تو مغربی تہذیب کی صورت میں درپیش چیلنج کا صحیح تدارک ہوسکتا ہے۔ اس اہم اور مبارک کام کے لیے نہ سائنسی لیب بنانے کی ضرورت ہے اور نہی کمیسٹری کی، بل کہ کچھ منتخب طلبہ کو وہ جدید وقدیم علم کلام پڑھانے کی ضرورت ہے جس نے محمد قاسم کو حجۃ الاسلام قاسم نانوتویؒ بنایا تھا۔ اس کے لیے نہ نصاب میں تبدیلی کی ضرورت اور نہی طریق تعلیم میں، جو کچھ ہے وہ بہتر ہے اور مزید بہتر بھی ہوسکتا ہے ،البتہ اس میں اضافے کی ضرورت ہے اور وہ بھی ان خاص طلبہ کے لیے جو باصلاحیت ہوں، آفاقی فکر رکھتے ہوں اور جن میں تحریک دیوبند کا ایندھن بننے ،مشکلات کے سامنے جلنے، تپنے اور پھر کندن بننے کی استعداد ہو۔ ارباب مدارس نے اگر افراد کی ایسی کھیپ تیار کردی تودیگر تعلیم گاہوں اور دانش گاہوں سے بھی مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ماڈل کو اختیار کرکے ،دنیا کے لیے ناسور بن چکی مغربی تہذیب کے خلاف متحدہ فرنٹ قائم کیا جائے اور اس کے بیہودہ مگر مؤثر افکار کے خلاف فکری یلغار کی جائے۔ یہ معروض کوئی خام خیالی نہیں ہے ،بلکہ کچھ سنجیدہ افراد اگر حسن نیت کے ساتھ نتیجہ خیز گفتگو کا آغاز کریں، ایک خاموش انقلاب کے لیے تدریجا کوشش کریں اور چھوٹے بڑے ادارے ،ان حضرات کی پیش کردہ تجاویز کے نفاذ میں وسعت ظرفی کا مظاہرہ کریں ،تو ایک موٴثر فکری محاذ امت کو دریافت 
ہوسکتا ہے۔
یاسر ندیم الواجدی
استاذ حدیث معہد تعلیم الاسلام شکاگو امریکہ و ڈائریکٹر دارالعلوم آن لائن

No comments:

Post a Comment