Saturday, 18 August 2018

ایک بریلوی عالم کی نہایت اہم تحریر؛ ہماری ترجیحات کا غلط تعین مع چند سوالات

ایک بریلوی عالم کی نہایت اہم تحریر؛ ہماری ترجیحات کا غلط تعین مع چند سوالات

یہ ایک ایسا عنوان ہے کہ اس پر اگر لکھا جائے تو شاید زندگی ختم ہوجائے لیکن اس موضوع پر کلام مکمل نہ ہوسکے۔ لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں اس پر کچھ معروضات پیش کرتا ہوں۔
اگر ہم گزشتہ ایک  یا ڈیڑھ صدی ہی کی بات کرلیں تو معاملہ بہت کھل کر سامنے آئے گا۔  آج اہل سنت و اہل اسلام جس انداز میں  تقسیم و تذلیل سے دوچار ہیں وہ کسی  پر مخفی نہیں۔ ہمارے داخلی انتشار و اختلاف نے ہمیں کمزور و منتشر کیا تو ہمارے اعدا ء اس سے فائدہ اٹھاکر اتنے ہی مضبوط و متحد ہوگئے۔
جب ندوہ کی تحریک چلی تو ہمارے بعض علماء نے اس کے رد میں کتب لکھیں، تقاریر کیں لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ ہم ندوہ کے  برابر کوئی ادارہ قائم کریں جو مستقبل کے اہداف کا تعین کرے اور چلینجز  سے نمٹ سکے۔ امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے اس دور میں بھی مدارس کی اہمیت پر زور دیا لیکن ہماری اکثریت معیاری مدارس قائم نہ کرسکی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ندوہ ایکٌ برانڈٌ  بن کر ابھرا اور آج لوگ اپنے نام کے ساتھ ٌندویٌ بطور پہچان لگاتے ہیں۔
دار العلوم دیوبند کے خلاف ہم نے اتنی شد و مد سے لکھا اور بولا کہ ایک صدی سے زائد  وقت گزرچکا لیکن ہمارے پاس دار العلوم دیوبند کے مقابلے میں صرف ایک ادارہ ٌجامعہ اشرفیہ مبارک پورٌ ہے، دوسری طرف دیوبند برانڈ کے درجنوں مدارس ہند، پاک میں بن چکے جو  واقعی معیار میں لاثانی ہیں۔ آخر ہمارے لوگوں کو یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ صرف تقریر و تحریر کافی نہیں بلکہ مدارس و جامعات کا قیام ہی مستقبل میں ہماری بقا کا واحد ذریعہ ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہمارے اکابر کے  اختلافات قطعی اور اصولی ہیں، میں ان اصولی و قطعی معاملات میں وہی رائے رکھتا ہوں جو  اہل سنت اکابر کی ہے۔ ہمارے علما نے ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف فتوے دیے، کتب لکھیں، جلسے کئے اور بلا مبالغہ کروڑوں روپے آگ کی بھٹی میں جلا دیے۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔  ہمارے پاس ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جہاں طاہر القادری  کے تعلیمی، تحقیقی اور  سیاسی درجے کا ریسرچ سنٹر، یونیورسٹی اور  نصاب موجود ہو۔ پاکستان میں اہل سنت کے ہزاروں مدرسے کام کررہے ہیں، کسی ایک مدرسے کی سند سرکاری سطح پر قابل قبول نہیں، لیکن منہاج القرآن کی سند براہ راست سرکاری اداروں میں تسلیم کی جاتی ہے، جبکہ دیگر مدارس کی سند کو تنظیم المدارس، بورڈ اور یونیورسٹی سے ملحق و مصدقہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دار العلوم محمدیہ غوثیہ کی سند قابل قبول ہے۔   بیرونی مغربی دنیا میں انگریزی زبان میں   کسی بھی سنی مصنف یا  ادارے کو وہ پذیرائی حاصل نہ ہوئی جو طاہر القادری کی کتب کو حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے عنوانات و موضوعات حالات و مسائل سے ہم آہنگ ہیں جب کہ ہمارے زیادہ تر مصنفین کا سفر حاضر و ناظر سے شروع ہوکر  میلاد کے جواز پر ختم ہوجاتا ہے۔  جب کہ طاہر القادری نے  عقائد سے لے کر سائنس اور جدید عنوانات پر بھی درجنوں کتب لکھ ڈالیں اور وہ بھی عالمی زبانوں میں۔ ایسی صورت حال میں آپ کے مریدین تو آپ کی بات مانیں گے لیکن عالمی تناظر میں بسنے والے پڑھے  لکھے طبقے کو ہم اپنی بزرگی، عمامے اور داڑھی سے متاثر نہیں کر سکتے بلکہ وہ آپ کی علمی، تحقیقی اور سیاسی خدمات کے پیش نظر آپ کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے۔
ہمارے اعراس اور محافل میں سالانہ بلا مبالغہ اربوں روپے لگائے جاتے ہیں، صرف راولپنڈی کی ایک سالانہ محفل نعت کروڑوں میں پڑتی ہے، مزارات پر سجاوٹ، چادروں کے تحائف، لنگر،  ٹرانسپورٹ، ہدیے ، نذرانے پیر صاحبان کے فضائی ٹکٹ، ہوٹلز میں قیام، سالانہ متعدد عمرے، حرمین شریفین میں پانچ ستارہ ہوٹلز میں ان کا قیام۔۔۔۔ یہ سب کچھ مستقبل میں ہماری نسل اور  اسلام کو ہرگز فائدہ پہنچانے والا نہیں۔
اسی طرح افضلیت شیخین، مناقب مولا علی،  فضیلت امیر معاویہ، اشعری اور ماتریدی رضوان اللہ علیہم اجمعین سے  متعلقہ عناوین ایسے ہیں جس پر بلا مبالغہ سینکڑوں کتب پہلے سے موجود ہیں اور یہ تمام کتب  انتہائی معتبر ہیں۔ ا س کے باوجود ہم  انہیں عنوانات پر بار بار کاپی پیسٹ کے ذریعے کتب لکھے جا رہے ہیں۔ جب کہ موجودہ حالات  کچھ اور تقاضا کر رہے ہیں۔
حالات چیخ چیخ کر ہم سے تقاضا کر  رہے کہ ہم  قرآن مقدس کے سائنسی پہلو، حدیث شریف میں موجود سیاسی و سماجی، معاشرتی و  فلاحی فرامین کو سامنے لائیں جب کہ ہماری کئی کتب کے عنوانات آج بھی قبر کے بچھو، گنجے سانپ، پہلی رات کی دلہن، عماے کی رنگت، چادر کی لمبائی، ایک دوسرے کی نقاب کشائی، خنجر بر گردن فلاں وغیرہ وغیرہ ہیں۔
رفع یدین کے جواز و عدم جواز، اونچی آواز میں آمین کہنا یا نہ کہنا، طلاق، حلالہ،  ٌوترٌ  کی رکعات، تراویح کی رکعات  وغیرہ  وغیرہ۔۔۔۔ یہ عنوانات ضروری سہی لیکن اس پر بہت لکھا  جا چکا، اکابر کی  تحقیقات  ہی کو کاپی کر کے اپنے نام کے ساتھ شائع کرنے کی بجائے  نئے عنوانات پر کام کیوں نہیں ہو رہا؟ اگر آپ کو میری یہ باتیں بری ہی لگ رہی ہیں تو معروف وھابی نشریاتی ادارے ٌدار السلامٌ کی مطبوعات کی فہرست کھول کر دیکھ لیجیے، پھر اس کا  تقابل سنی مطبوعات سے کیجیے، یقینا آپ اپنا سر پیٹیں گے۔
ایک شاہ جی کے مرید دوسرے شاہ جی کے خلاف، ایک خانقاہ دوسری خانقاہ کے خلاف،  ایک تنظیم دوسری تنظیم کے خلاف سرمایہ، وقت اور  دماغ ضائع کر رہی ہے۔ کیا یہی کرنے کے کام تھے؟  جو سرمایہ آپ ان کاموں پر لگا رہے ہیں وہ   اہل سنت بچوں کی تعلیم پر کیوں نہیں لگاتے؟
ہمارے مدارس میں مروجہ درس نظامی کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیوں  نہیں کیا گیا؟ 
دیوبندی اور وھابی مدارس میں اساتذہ کی تنخواہیں ہماری نسبت بہت اچھی ہیں، ہمارے اساتذہ آج بھی پانچ سے دس ہزار پر کیوں گزارا کرہے ہیں؟
ہمارے پاس لاکھوں قاری ہیں لیکن یہ قاری تلاوت کرتے وقت ع اور ح کے علاوہ باقی حروف کے مخارج سے واقف نہیں، ان کا طرز  تلاوت  اس قدر عجیب ہوتا ہے کہ فہم رکھنے والے سامع کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جب کہ یہی قاری صاحب  نعت سناتے وقت انتہائی سریلے ہو جاتے ہیں۔  کیا تلاوت زیادہ اہم ہے یا نعت خوانی؟ دیوبندی مدرسے سے پڑھے ہوئے بچے کی قرآت اور تجوید ہم سے اچھی کیوں ہوتی ہے؟
جو کام کرنے والے لوگ ہیں ان کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کی جاتی؟
جدید مسائل اور غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لیے مدلل کتب و مواد کیوں پرنٹ نہیں کیا جا رہا ؟
اگر تبلیغی جماعت والے‘ ذاکر نائیک یا طاہر القادری انگریزی ودیگر زبانوں میں گفتگو کرکے لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف بلاتے ہیں، تو کیا اس کا جواب یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کو گالیاں دیں؟ کیا ہمیں اس درجے پر اچھے ادارے قائم نہیں کرنے  چاہیں؟
کیا حکام و معاصرین کو گالیاں دینا بہتر کام ہے یا پھر حالات کے  متقاضی تحریر، تقریر، سفارتکاری اور تعلقات و روابط  بڑھانا زیادہ مؤثر ہے؟
کیا صرف جلسے کرنا، لبیک کے نعرے لگانا، حکام کو دھمکیاں دینا انقلاب لا سکتا ہے؟  یا ہمیں اپنی بنیادیں ٹھیک کرتے ہوئے سفارتکاری، تعلق داری اور  باہمی رکھ رکھاؤ بھی سیکھنا چاہیے؟
ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ ہمارے پیروں، مشائخ اور علما کی ترجیحات غلط ہیں، ہم نے دست بوسی کروائی، نذرانے لئے، تعویذ دیے، جن نکالے، مؤکل قید کئے، جنت کے ٹکٹ بانٹے، دھمال ڈالی، رقص کیا،  عمرے کے ٹکٹ دیے لیکن۔۔۔۔۔۔۔ اپنی قوم کو جامعات و مدارس نہ دیے، تعلیم نہ دی، گالیاں سکھائیں، شدت پسند بنایا، کسی دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کا طریقہ و سلیقہ نہیں بتایا، ہر  وہ انسان  جو آپ سے اختلاف رکھے اس سے ہاتھ نہیں ملانا۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ہم یہاں تک پہنچ گئے کہ ہم  پر امن سمجھے جاتے تھے، اب ہمارے سپیکر بند، ہمارے علما فورتھ شیڈول میں، ہماری مساجد پر قبضہ۔۔۔۔
میرے معزز قارئین، آپ کو میرے سوالات و تحریر سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن آپ حقائق سے نظر چرا کر مزید ایک جرم کا ارتکاب کریں گے!!!
محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دِکھلا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دےایک
از: افتخار الحسن رضوی

No comments:

Post a Comment