اگر اب بھی نہ جاگے تو؛ ملت اسلامیہ تاریخ کے نازک موڑ پر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہوش اڑادینے والے واقعات:۔
۱) آج یوم عرفہ ہے اور کل انشاء اللہ عیدالأضحی کا دن، ظاہر بات ہے کہ عید کی شادمانی اور گھروالوں کے ساتھ پرُسکون ماحول میں عید منانے اور قربانی کے تصور ہی سے اس عظیم نعمت کے حصول پر اللہ رب العزت کا پیشگی شکراداکرتے ہوئے جسم کا رواں رواں سجدہ ریز ہ ہورہا ہے، لیکن فجر بعد کچھ دیر آرام کے بعد جب آنکھ کھلتی ہے تو برادرِ گرامی مولانا شمس الدین صاحب بجلی قاسمی (جنرل سکریٹری جمعیت العلماء کرناٹک) کے ایک فون سے ہوش اڑادینے والے ایک واقعہ کو سن کر یہ سب خوشی کافور ہوجاتی ہے، مولانا بڑے درد سے بتارہے تھے کہ میں دو ہفتہ قبل دہلی میں جمعیت کی میٹنگ میں حاضر تھا جس میں ملت کے صاحب بصیرت علماء ودانشوران بالخصوص مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتھم، حضرت مولانا قاری عثمان صاحب دامت برکاتھم، حضرت مولانا محمود مدنی صاحب دامت برکاتھم اور حضرت مولانا سلمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم وغیر ھم موجود تھے، وہاں پردورانِ میٹنگ یہ روح فرسا خبر سننے کو ملی کہ پچھلے ایک سال میں صرف دہلی وآس پاس میں پانچ سو سے زائد مسلم بچیاں غیرمسلموں کے ساتھ بیاہ کرکے اپنے گھروں سے نکل گئیں، بالفاظ دیگر انھوں نے اپنے گھروالوں کے ساتھ اپنے دین کو بھی الوداع کہہ دیا۔
۲) اسی عیدالفظر کے معاً بعد جموں وکشمیر کے دعوتی سفر کے دوران بھی کچھ اس طرح کی دل دہلادینے والی خبر صدیق مکرم مولانا شکیل صاحب ندوی نے سناکر مغموم کردیا کہ ملک کے مختلف شہروں کی یونیورسٹیوں و کالجس میں زیر تعلیم اور وہاں کے ہوسٹلس میں مقیم ان کے صوبہ کی آٹھ مسلم بچیاں گذشتہ چند ماہ میں اسلام سے دستبرداری کا اعلان کرکے دوسرے مذہب والے اپنے دوستوں کے گھروں کی دلہنیں بن چکی ہیں۔
۳) گذشتہ رمضان المبارک سے قبل شعبان میں کوکن میں جامعہ حسینیہ سری وردھن کے سالانہ جلسہ میں شرکت سے واپس ہوتے ہوئے ایک جگہ ساحلی خطہ میں طالبات کے تقسیمِ انعامات کے پروگرام میں حاضری کے دوران ہمارے دوست مولوی عبدالمطلب صاحب مروڑجنجیرہ نے یہ ہوش اڑادینے والی خبرِ صاعقہ اثر سنائی کہ چند ماہ قبل قریب کی بستی میں دو مسلم طالبات نے اسلام کو خیرباد کہہ کر ارتداد کی ظلمتوں میں قدم رکھا، دل دہلادینے والی اور نیند اڑادینے والی یہ خبر کیا کم تھی کہ گھر واپسی پر اخبارات کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ہمارے قریبی ضلع میں ایک مسلم طالب علم بھی اسلام جیسی عظیم نعمت کو ٹھکراکر مرتد ہوگیا۔
۴) ایک سال قبل ہی پورے ملک میں مسلم پرسنل لابورڈ کی طرف سے ملک گیر سطح پر طلاق اور آئینی قوانین کے حق میں دستخطی مہم چلائی گئی، اس کے الحمدللہ دیرپا اور مثبت نتائج سامنے آئے، ملت کی صاحب بصیرت دینی قیادت بالخصوص حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب ندوی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب دامت برکاتھم کی سرپرستی میں چلنے والی اس مہم نے ہمارے مسلم معاشرہ میں دینی بیداری میں اہم رول ادا کیا اور سائرہ بانو کے طلاق کے خلاف پچاس ہزار مسلم خواتین کے دستخطوں کے دعوے کے مقابلہ میں چارکروڑ سے زائدحقیقی دستخطی دستاویزات بورڈ کے دہلی آفس میں جمع ہوئے، لیکن دوسری طرف اس مہم کے دوران مسلم معاشرہ کے بعض منفی پہلو بھی سامنے آئے، مثلاً اندازہ ہواکہ پچاس ہزار نہ سہی دوچار ہزار مسلم خواتین اب بھی ہمارے درمیان ایسی موجود ہیں جن کے دلوں میں اسلام کے ان فطری اور عقلی قوانین کے متعلق شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں، ہمارے محترم دوست مولانا شبیر صاحب ندوی بنگلور نے انہیں دنوںیہ ہوش ربا خبر سنائی کہ شہر میں دعوتی میدان میں نمایاں خدمت انجام دینے والے ایک صاحب کی اہلیہ حسنِ اتفاق سے جو تعلیم یافتہ اور دعوتی کاموں میں ان کی دست راست بھی ہے اس نے بورڈ کی طرف سے پیش کیے گئے دستخطی کاغذات پر دستخط کرنے سے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ مجھے اسلام میں مردوں کو دیے گئے طلاق کے حق کے متعلق اطمینان نہیں اور میرا دل اس سلسلہ میں مطمئن نہیں۔
۵) دو سال پہلے کی بات ہے، جامعہ میں ہمارے استاذ محترم مولانا ناصر صاحب اکرمی نے مجھے ایک مسلم تعلیم یافتہ خاتون کا جس کادیندار گھرانہ سے تعلق ہے ایک ایسا مضمون دکھایا جس میں اس نے صاف لکھا تھا کہ بلوغ سے پہلے مسلم بچیوں کو اسکارف نہیں پہنانا چاہئے، اس کے بہت سے طبی نقصانات ہیں اور خواتین کو بلوغ کے بعد بھی پردہ کے سلسلہ میں جبر واکراہ سے کام نہیں لینا چاہئے، یہ ان کی فطری آزادی میں دخل دینے کے مترادف ہے اورکچھ ہی دنوں کے بعد اس نے ایک اخباری بیان بھی جاری کیاکہ مردوں کے لیے طلاق کے حق کے سلسلہ میں علماء کودوبارہ غور کرناچاہیے ۔
ان واقعات کے محرکات:۔
آپ ان پانچوں واقعات کا دعوتی تجزیہ کیجئے تو ان سب کا الگ الگ محرّک وسبب سامنے آئے گا، پہلے تین واقعات میں ان طالبات کے دلوں میں اسلام جیسی عظیم نعمت کی اہمیت اور شرک وکفر کی غلاظتوں وقباحتوں کا عدم احساس، دوسرے واقعہ میں اسلام کے ظاہری مظاہر سے آراستہ ہونے اور دعوتی میدان میں اپنی خدمات کے باوجود اسلامی قوانین کی برتری پر اس مسلم خاتون کا عدم اطمینان، تیسرے واقعہ میں اسلامی دانشوری اور روشن خیالی کے پردہ میں مسلم خاتون کی طرف سے اسلام کی غلط ترجمانی، ان سب نتائج کو اگر صرف ایک مختصر جملہ میں ادا کیا جاسکتا ہے تو اس کو ہم نئی نسل میں اسلام کے تئیں اعتماد کی بڑھتی کمی سے تعبیر کرسکتے ہیں جو بقول مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ امت کا اس وقت کا سب سے اہم ترین اور توجہ طلب مسئلہ ہے، گذشتہ سو سالوں میں امت کے اس فکری المیہ اور تہذیبی ارتداد کی حساسیت کا سب سے زیادہ احساس پورے عالم اسلام میں حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ ہی کو تھا، آپ کی پوری زندگی اخیر تک ذہنی ارتداد کی اسی سنگینی کے تعلق سے امت کو بیدار کرنے میں گذری ،آپ کی اسی فکرمندی اور ملت کے لئے آپ کی اسی تڑپ وکڑھن نے آپ کو مفکر اسلام کے خطاب سے موسوم کیا تھا۔
افسوس کہ نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ ملکی سطح پر بھی ہماری امت اور خود اس کی دینی قیادت کی اکثریت بھی اس المیہ کی نزاکت کو سمجھ کر اس پر توجہ دینے سے غفلت برت رہی ہے اور اس کے نتیجے تیزی سے سامنے آرہے ہیں اور ہر دن ہماری نئی نسل میں اسلام پر اعتماد کی کمی کے ہوش ربا واقعات ہمارے سامنے آرہے ہیں، ملت کے تعلیمی، سماجی، اصلاحی اور دیگر مسائل پر مشرق سے مغرب تک بیٹھکیں ہورہی ہیں مشورے اور سمینار منعقد ہورہے ہیں، لیکن اس اہم ترین اور نازک ترین المیہ پر فکرمندی کے ساتھ عالمی یا ملکی سطح پر کوئی سنجیدہ بیٹھک نہ ہونے کے برابر ہے، مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ کچھ دنوں تک امت کے تمام مسائل کو کنارے رکھ دیا جائے اور صرف اس مسئلہ پر پوری امت سرجوڑ کر بیٹھے، تب بھی فوری اس کا حل آسان نہیں، جو ذہنی ارتداد اور فکری الحاد سامنے آرہا ہے وہ درحقیقت ہمارے معاشرہ میں موجود حقیقی ارتداد والحاد کے واقعات کے دس فیصد مظاہر بھی نہیں ہیں، ورنہ ۹۰/فیصد واقعات وحقائق پر اللہ تعالی نے اب بھی اپنے کرم سے پردہ ڈال رکھا ہے، سچی بات یہ ہے کہ ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے خدانخواستہ کسی دن اگر اللہ تعالی اس کا پردہ فاش فرمادیں گے تو خود اپنے گاؤں اور خاندانوں میں اس بھیانک کردار کے حامل افراد کے متعلق جان کر اور سن کر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑجائیں گے، پیروں تلے زمین کھسک جائے گی، ہم خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجائیں گے اور گھر واپسی ہم کو آگرہ اور مظفر نگر کی بجائے خود اپنے آس پاس نظر آئے گی۔
آخر ایسا کیوں ہورہا ہے:۔
ظاہری دینی مظاہر میں اضافہ اور اخلاقی ترقی کے باوجود اندرون میں نئی نسل میں اسلام پر روز کم ہوتی اعتماد کی اس کمی کے مختلف اسباب ومحرکات ہیں ،اس کا بنیادی سبب بچپن سے اپنی اولاد کو بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے میں والدین وسرپرستوں کی کوتاہی ہے، اسی کے ساتھ برِ صغیر میں مغرب سے درآمد نئے نظام ونصابِ تعلیم اور موجودہ سوشل میڈیا کے عمل دخل نے ان کو اسلام سے عملی ہی نہیں بلکہ فکری طور پر دور کرنے میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
اس وقت ہماری امت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کے جنون اور اس کے لئے معیاری اسکولوں اور کالجس کے انتخاب نے سرپرستوں میں ایمان وشرک، حلال وحرام اور جائز وناجائز کے فرق کو مٹادیا ہے، نصابی ضروریات اور ثقافتی پروگراموں کے نام سے اپنی اولاد کو ایمان سوز حرکتوں سے روکنے پر بھی ان کا کمزور ایمان آج کامیاب نہیں ہورہا ہے، مخلوط تعلیم سے کل تک حیاسوز واقعات سامنے آرہے تھے، افسوس اب ایمان سوز واقعات کا ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کل تک کالجس اور یونیورسٹیوں میں محبت کی شادیوں کے واقعات نے ۹۰فیصد غیر مسلم طلباء کو اسلام لانے پر مجبور کردیا تھا، لیکن اب ہم روز اس کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ اب دوتہائی ہمارے بچے اور بچیاں صرف انہی شادیوں کی خاطر اپنے ایمان واسلام کو چھوڑنے میں بھی عار محسوس نہیں کررہے ہیں اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ خود ان کے والدین بھی اس شرک عظیم کی ان قباحتوں کو سمجھنے سے عاجز وغافل ہیں، تجدّد وروشن خیالی اور نام نہاد دانشوری دینی تعلیم سے اپنے بچوں کو آراستہ کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے اور اس کو والدین اپنی اولاد کے مفروضہ روشن وتابناک مستقبل کے لئے عار سمجھ رہے ہیں، دینی مدارس کا ان کے نونہالوں کا رخ کرنا تو دور کی بات خود ہمارے مسلم تعلیمی اداروں کے بعض ذمہ داران بھی اسلامی ماحول میں عصری تعلیم کے نظم میں ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہیں، اس خوف سے کہ کہیں ان پر شدت پسندی اور بنیادپرستی کا لیبل نہ لگے، ہمارے تعلیمی مراکز میں بھی وہ سب غیر اسلامی اور غیرایمانی حرکات وثقافتی سرگرمیاں انجام پارہی ہیں جن کے ارتکاب سے شریف غیر مسلم ذمہ دارانِ اسکولس وکالجس بھی اس گئے گذرے دور میں بازرہتے ہیں۔ فإلی اللّہ المشتکیٰ
اس کے تدارک کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے:۔
اس نازک مسئلہ اور ہوش اڑادینے والے المیہ کا یقینی حل تو یہ ہے کہ امت کے ہر گھر بلکہ ہر باپ کی اولاد میں ایک عالمِ دین ضرور ہوجو اپنے بھائی بہنوں اور گھروالوں کو ان میں سرایت کرتی غیرمحسوس گمراہی سے روک سکے ،حلال وحرام کی نشاندہی کرسکے، دین کے معاملات میں ان کی رہبر ی کرسکے اوراپنے پورے گھرانے اور خاندان کو ایمان وتوحید پرباقی رکھنے کی فکر کرسکے ، لیکن خود ہمارے ملک اور برصغیر میں بھی عملاً ایسا نہیں ہے، ہرخاندان میں ایک عالم سے اب بھی ۹۰ فیصد خاندان خالی ہیں اور بظاہر مستقبل میں شاید اس کا امکان بھی نہیں ہے۔
آج بھی جب کہ عالمی سطح پر دینی واسلامی بیداری کی لہر کا ہرجگہ چرچا ہے کچھ علاقوں کو مستثنی کرکے ہمارے دینی مدارس کے طلباوطالبات میں خوش حال گھرانوں کی نمائندگی بہت ہی کم ہے، محل نما گھروں میں رہنے والوں، کروڑوں کے قیمت والے، فلیٹوں میں زندگی بسر کرنے والوں، شام کو پارکوں اور مالس میں سیر سپاٹا کرنے والوں، دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ رات کو دیر تک باہر رہنے والوں اور ریستورانوں میں رات کا کھانا (ڈِنر) کھانے کی عادت والوں کے لئے ہمارے مدارس کا دینی ضابطہ کا ماحول راست نہیں آسکتااور آئندہ بھی ان سے دینی مدارس کا رخ کرنے کی امید نہیں کی جاسکتی، ایک طرف گاؤں اور شہروں کا یہ حال ہے تو دوسری طرف اپنے گھروں سے دور بڑے بڑے شہروں میں تعلیم کے لئے قیام پذیر ہمارے نونہالان ڈگریوں کے حصول کے معاً بعد اچھی کمپنیوں سے منسلک ہوجاتے ہیں، پھر وہاں کا مخلوط ماحول ان کی رہی سہی اخلاقی حالت کی کسر کو بھی پورا کردیتا ہے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ ہماری ان نوخیز نسلوں کو اخلاق سوز وایمان سوز حرکتوں سے باز رکھنے کی خاطر بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے کہاں موقع رہ جاتا ہے، لیکن ان سب کے باوجود ہم مایوس نہیں، اسلام میں ناامیدی ومایوسی کفر ہے، اللہ پاک کی کمال قدرت کا یہ عالم ہے کہ وہ سیکنڈوں سے بھی کم وقت میں دلوں کے حالات تبدیل کردیتے ہیں، ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی الحمدللہ ہمیں امید کی کرن نظر آرہی ہے، ابھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا ہے، اب بھی اس سیلاب پر بند باندھا جاسکتا ہے اور اس کو روکنے میں اللہ کی مدد سے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اس مسئلہ کی نزاکت کا ہمیں اندازہ ہو اور ہم صرف خیالی جزیروں میں پناہ لے کر یا ساحل کے خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھ جائیں۔
۱) سب سے پہلے والدین اور سرپرستوں میں اس حساّس مسئلہ اور ایمانی المیہ کے تئیں بیداری پیدا کی جائے کہ غیر محسوس طریقہ پر ہماری نئی نسل کس طرح اسلام سے دور ہوکر شرک وکفر کی دلدل میں پھنستی جارہی ہے، جمعہ کے خطبات اور جلسوں سے زیادہ اب سوشل میڈیا سے بھی ہمیں اس سلسلے میں فائدہ اٹھانا چاہئے، اس طرح کے ہوش ربا واقعات کی چھوٹی چھوٹی کلپ بناکر واٹس ایپ میں عام کی جائے اور اس پر مختصر تجزیاتی دعوتی گفتگو کے ذریعہ مثبت انداز میں حکمت کے ساتھ اس کو روکنے کی ممکنہ عملی کوششوں سے والدین وسرپرستوں کو آگاہ کیا جائے، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے الفاظ میں ان کو بتایاجائے کہ:
’’شرک وکفر صرف مندروں میں جاکر گھنٹی بجانے اور بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا نام نہیں بلکہ نماز روزوں کے ساتھ اسلام کے ابدی قوانین پر ہلکے سے شک وشبہ سے بھی صاحب ایمان ایمان سے نکل کرشرک میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘ ۔
۲) آن لائن دینی تعلیم کے جو کامیاب نظام سوشل میڈیا کے ذریعے چل رہے ہیں، گھر بیٹھے ان سے اپنے بچوں کو منسلک کریں تاکہ روزانہ آدھ یا پون گھنٹہ ہی سہی وہ گھر بیٹھے قرآنی و دینی تعلیم حاصل کریں۔
۳) بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہمارے ملک میں مسلمانوں میں تعلیمی بیداری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، تقریباً ہر شہر میں مسلمان اپنے تعلیمی اداروں کے قیام میں خود کفیل ہوگئے ہیں اور اچھے معیاری مسلم اسکولس بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ قائم ہوگئے ہیں، والدین طے کریں کہ کم از کم بارہویں تک ہر حال میں مجھے میری اولاد کو مسلم اور ملّی اسکولوں ہی میں پڑھانا ہے، چاہے اس کے لئے ایمان واخلاق کی بقا کی فکر میں کچھ قربانی دینی پڑے۔
۴) ہمارا کوئی مسلم محلہ جزوقتی مکاتب سے خالی نہ ہو، گاؤں اور شہروں میں قائم شبینہ وصباحی مکاتب میں صرف ناظرہ قرآن پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ہفتہ میں کم از کم دو تین دن ایمانیات اور فقہ اسلامی و سیرت نبوی کے اسباق کا بھی نظم کیا جائے اور طلبا کی نفسیات وضروریات کے مطابق ملک بھرمیں اس سلسلہ میں جو نصابی کتابیں اسلامیات ودینیات کی تیار ہوئی ہیں ان سے مددلی جائے۔ (اس سلسلہ میں فارغین جامعہ کے ذریعہ مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل نے بھی نرسری سے لے کر کالج تک کے طلبا کے لئے پندرہ جلدوں میں اسلامیات کے نام سے ایک جامع نصاب مرتب کیا ہے جو دس دینی مضامین پر مشتمل ہے اور گذشتہ پندرہ سالوں سے الحمدللہ ملک وبیرون ملک کے تین ہزار سے زائد اسکولوں وکالجس میں داخل نصاب ہے، یہ نصاب عربی، اردو، انگریزی ہندی، فارسی، پشتو، آسامی، نیپالی، تامل، بنگالی اور کنڑ زبانوں میں دستیاب ہے، اس سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔)
۵) مسلم اسکولوں کے ذمہ داران بھی کم از کم روزانہ ایک گھنٹہ اپنے تعلیمی اداروں میں ناظرہ قرآن کے علاوہ عقائد، سیرت اور فقہ وغیرہ کے لیے خاص رکھیں، چاہے اس کے لیے اپنے موجودہ نظام تعلیم کے اوقات میں شروع یا اخیر میں ایک آدھ گھنٹے کا اضافہ کرنا پڑے، جیسا کہ کیرلا اور گجرات کے اکثر مسلم اسکولوں میں اس پر توجہ دی گئی ہے۔
۶) مسلم کالجس اور ہائی اسکولوں میں ہفتہ میں کم از کم ایک گھنٹہ کے لیے جمعرات یا ہفتہ کے روز علماء کے محاضرات رکھے جائیں جس میں اسلام وایمان کی جزئیات اور عقائد کی باریکیوں اور حلال وحرام کی تفصیلات کے ساتھ اسلام کی برتری اور اس کے قوانین کے منطقی وعقلی ہونے پر طلبا سے خطاب کیا جائے۔
۷) جو طلبا اپنے گھروں سے دور مختلف شہروں میں زیرتعلیم ہیں مسلم اداروں کی طرف سے ان شہروں میں ہوسٹلوں کا خود نظام کیا جائے تاکہ ان کو اپنے پاس اپنی نگرانی میں رکھ کر اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ان کی اخلاقی ودینی تربیت کی جاسکے اس کے لیے ان ہوسٹلوں میں نماز باجماعت کے اہتمام کے ساتھ روزانہ ایک گھنٹے کے دروس کے ساتھ ان کی ذہن سازی کا بھی کام کیا جائے، یاد رہے کہ عیسائی مشنریوں اور قادیانیوں کی طرف سے گذشتہ کئی سال سے خاموشی سے مسلم طلبا کو دین سے دور کرنے کی غرض سے پورے ملک میں اس کا جال پھیلایا جارہا ہے۔
۸) شہروں میں پہلے سے قائم اس طرح کے مسلم ہاسٹلوں یا اقامت گاہوں کے ذمہ داران سے اجازت لے کر ہفتہ میں دو تین دن عشاء بعد یاکسی اور مناسب وقت میں ان کی دینی تعلیم کا نظم کیاجائے اور اس کے لیے اچھے معیاری علماء وعالمات کا انتخاب کیا جائے جو ان نوجوانوں وبچیوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر ان کی دینی تربیت کا فریضہ انجام دے سکیں۔
۹) اگر مسلم اسکولوں یا کالجس کے ذمہ داران اپنی سیکولر امیج کی بقا کی فکر میں اپنے یہاں زیر تعلیم طلبا کی دینی تعلیم کے لیے نظم کرنے اور اس کے لیے علماء کے تقرر پر آمادہ نہ ہوں تو ان سے کہاجائے کہ ہمارا ادارہ اپنے خرچ پر دینی تعلیم کے معلمین آپ کو فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، آپ صرف اس کے لیے اسکول شروع ہونے سے پہلے ہمیں آدھے گھنٹہ کا وقت دیں اور بچوں کو صبح میں صرف آدھ گھنٹہ جلدی لانے کا نظم کریں، ملک کے مختلف مسلم اداروں کی طرف سے تنخواہیں دے کر دوسرے مسلم اسکولوں میں اسلامیات کے معلمین فراہم کرنے کا کامیاب تجربہ الحمدللہ ملک کے مختلف شہروں کوکن، اورنگ آبا د، حیدرآباد وغیرہ میں ہورہا ہے، اب اس تجربہ کو دوسرے شہروں تک وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
۱۰) سول سروس میں مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے جو ادارے مثلاً جے پور کی کریسنٹ اکیڈمی ،دہلی کی ہمدردیونیورسٹی یا ممبئی کا حج ہاؤس وغیرہ سینکڑوں مسلم طلباکو کامیاب تربیت دے رہے ہیں وہاں زیرِ تعلیم طلبا کی دینی ذہن سازی کا کام وہاں کے مقامی علماء یا دینی اداروں کی طرف سے ابھی سے کیا جائے تاکہ مستقبل قریب میں ملک میں بڑے سرکاری مناصب پر فائز ہونے کے بعدبھی ان کی دینی شناخت باقی رہ سکے اور وہ ملک کی انتظامیہ میں بھی پہنچ کر اسلام کی صحیح ترجمانی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
۱۱) مشنری ،غیر اسلامی اور سرکاری اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبا کے لیے سنڈے کلاسس کا اچھے پیمانہ پر خودہمارے دینی مدارس میں نظم کیاجائے اس کا ہم نے سنگاپور کے اپنے گذشتہ سفر میں مشاہدہ کیا ، الحمدللہ یہ بڑا کامیاب تجربہ ہے ، یونیفارم کے ساتھ اتوار کے دن تین گھنٹے کے یہ کلاسس ہوتے ہیں جو بڑے کامیاب ہیں اور امتحانات کے بعد ا ن کو ترغیبی انعامات گولڈ میڈل وسلور میڈل وغیرہ کی شکل میں دئیے جاتے ہیں۔
۱۲) اسکولوں وکالجس کی سالانہ چھٹیوں میں مختصر مدتی ہفت روزہ ،پندرہ روزہ دینی کورسس کا نظم خود ہمارے علماء یاذمہ داران خود اپنے مدارس کی چہاردیواری میں یا شہروں میں اچھی اور پُرکشش جگہوں میں کریں، اگر ممکن ہوتو مدارس میں قیام کرواکر ان بچوں کی دینی تربیت بھی کی جائے،اس دوران ان کی دلچسپی وترغیب کے لیے کھیل کود کے مقابلے بھی رکھے جائیں اور کیمپ کے اختتام پر ان کو ایک آدھ دن کے لیے شہر سے دور تفریح کے لیے لے جاکراس دوران ان پر ہونے والی تربیتی وتعلیمی محنت کا جائزہ بھی لیاجائے۔
سب سے آسان اور فوری قابل عمل نسخہ:۔
اسلام پر بڑھتی اعتماد کی کمی میں اب ہمارے ملک میں صرف خوش حال گھرانوں کے بچے اور بچیاں نہیں رہ گئے ہیں ،اعلیٰ تعلیم کے شوق میں اسکالر شپ یادوسروں کی مدد سے تعلیم حاصل کرنے والے درمیانی یا غریب گھرانو ں کی اولاد کا بھی حال کچھ کم قابلِ تشویش نہیں ہے، تعلیم سے فراغت کے بعد شادی سے پہلے ملازمت کے نہ ملنے پر گھروں میں بے کار بیٹھے رہنا ان کے لیے گوارا ہے، لیکن ایک سالہ عا لمیت کے مختصرمدتی کورس میں داخلہ لینا ا ن کے لیے سببِ عار ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے زعم میں وہ اس کو اپنی کسرِ شان سمجھتے ہیں، اب ایسے بچوں اور بچیوں کو ہم جبرواکراہ سے دینی مدارس میں داخل نہیں کرسکتے، والدین اگر ذھناً بھی تیار ہوجائیں تو بچے آمادہ نہیں، اگر بچوں کو شوق ہوجائے تو والدین وسرپرست ان مدارس میں اپنے نونہالوں کو بھیجنا اپنی شان کے منافی سمجھ کران کو روک دیتے ہیں، ان سب محرکات کے تناظر میں ایک کامیاب، آسان اور عملی شکل جو ہوسکتی ہے وہ یہ کہ ان کو اس کے لیے ایک سالہ یا دو سالہ عا لمیت کورس کے نام سے دعوت نہ دی جائے، بلکہ صرف یہ کہاجائے کہ صرف ایک ہفتہ یا پندرہ دن یا ایک ماہ کا کورس ہے، وہ بھی صرف روزانہ ایک گھنٹہ کے لیے ،ہفتہ میں اتوار کو چھوڑ کرصرف چھ دن، اس کو آپ اپنی جاری تعلیم یا ملازمت یا گھریلویا خانگی مشغولیات کے ساتھ بھی پورا کرسکتے ہیں،مثلاً آپ کالج یا یونیورسٹی یا کمپنی کی ملازمت سے شام کو پانچ بجے فارغ ہوتے ہیں تو چھ بجے تک گھر پہنچ کر گھریلو ضروریات سے فارغ ہوکر ۶ سے ۷ یا ۷ سے ۸ یا ۸ سے۹ کا وقت دیں، ایک ہفتہ کے اس دینی کورس میں آپ کا جی لگے تو پندرہ دن کا کریں، پندرہ دن تک پسند آئے تو پھر ایک ماہ، اسی طرح سہ ماہی اورششماہی قرآنی ودینی نصاب مکمل کریں، کالجس میں زیرتعلیم یا وہاں سے فارغ طالبات یا طلبا جب اس پرُکشش قرآنی ودینی نظام میں شرکت پر آمادہ ہوجائیں تو ذمہ داران اور معلمین ومعلمات کویہ سمجھ لینا ہے کہ پہلے ہفتہ ان کو صرف سورہ فاتحہ کے ساتھ چھ سورتیں اور نماز کے پورے اذکار زبانی یاد کروانے ہیں اس کے ساتھ ایک صفحہ ناظرہ قرآن درست کروانا ہے، روزانہ پانچ مسائل بتانے ہیں، ایمانیات پر روزانہ دس منٹ بات کرنی ہے جس میں شرک وکفر کی جزئیات کو بیان کرنے کے ساتھ اللہ تعالی کی قدرتوں، کمالات واختیارات اور بے پناہ تصرفات کے مالک ہونے کو بیان کرنا ہے، پانچ منٹ سیرت نبوی کی اہم باتیں خلاصہ کے طور پر بیان کرنی ہیں اسی طرح روزانہ ان کو ایک سنت پر عمل کرنے کی ترغیب دینی ہے مثلاً پہلے دن باوضو رہنے، دوسرے دن اول وقت میں نماز پڑھنے، تیسرے دن رات کو سورہ معوذتین پڑھ کر سونے وغیرہ کی فضیلت کی روزانہ ایک سنت پر عمل کی ان کو ترغیب دینی ہے اور ہردوسرے دن اس کا جائزہ بھی لیناہے،اس پورے پس منظر میں ضروری ہے کہ ان بچوں اور بچیوں کے مزاج اورنفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو گھر کے ماحول کی طرح اس تعلیم کے دوران پُرکشش ماحول فراہم کیاجائے تاکہ ان کو وحشت نہ ہو ،ذاتی یا کرایہ کی جس عمارت میں بھی اس جزوقتی مدرسہ کا نظم ہو وہ دلکش ہو،صفائی ستھرائی کاخیال رکھا جائے، اچھے علاقہ میں اس کا محل وقوع ہو،غرض یہ کہ وہ سب اسباب ووسائل جن کے نہ ہونے سے اچھے گھرانوں کے اور عصری تعلیم یافتہ بچے اور بچیاں مدارس سے آج کل بہانہ بناکر وحشت محسوس کرتے ہیں، ہمیں اسلامی حدود میں رہتے ہوئے جائز حد تک ان سب طبعی ضروریات کا انتظام کرنا ہے، حسبِ ضرورت ان کو گھروں سے لانے لے جانے کے لیے سواریوں کا بھی نظم کرنا ہے۔
اس طرح امید ہے کہ جو نوجوان بچیاں اور بچے مدرسوں میں آنے سے کتراتے ہیں یا جن کے پاس اپنی ملازمتوں یا تعلیم میں مشغولیت کی وجہ سے مستقل اپناوقت بنیادی دینی تعلیم کے لیے فارغ کرنے کی گنجائش نہیں وہ مختصروقتی ان کورسوں سے بڑی آسانی سے فائدہ اٹھاپائیں گے،اگر کسی نے تین ماہ ،چھ ماہ یا ایک سال کا کورس مکمل بھی نہیں کیا ،صرف ایک دو ہفتہ تک ہی فائدہ اٹھایا تو کم از کم روزمرہ کے اہم دینی فرائض سے واقف ہوجائیں گے اور حرام وحلال کے تعلق سے موٹی موٹی باتیں ان شاء اللہ ان کے ذہن نشین ہوجائیں گی،الحمدللہ مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل کی طرف سے مذکورہ مختصر مدتی اس نصابی تجربہ کو عمل میں لایاگیا ہے اوراس کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیمات کے نام سے مستقل مختصر ومتوسط چالیس روزہ نصاب بھی ترتیب دیاگیاہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں، اپنے یہاں اس نظام کا تجربہ کرنے کی خواہش رکھنے والے اس سے بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
اس سلسلہ میں دینی مدارس کے ذمہ دارن کا فریضہ:۔
اگر دینی مدارس کے ذمہ داران اور علماء کے پیشِ نظریہ بات رہے کہ دینی مدارس کا م صرف مدرسہ کی چہار دیواری میں موجود طلباوطالبات کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے تک محدود نہیں بلکہ امتِ مسلمہ اور نئی نسل کی وہ بہت بڑی تعداد جو مادیت اورمغربی تہذیب سے متاثر ہوکر دینی تعلیم سے کوسوں دور ہے بلکہ اسلام پر اعتماد کی بڑھتی کمی کے ساتھ وہ غیر شعوری طور پر الحاد وارتدادکی طرف جارہی ہے ان کو ان کی جگہ رکھتے ہوئے بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کا فریضہ بھی ہمارا ہی ہے اور ہمیں ہی ان شاء اللہ حکمت وموعظت کے ساتھ شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے ترغیبی وجدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ان کو ایمان واسلام پر باقی رکھنے کی فکرکرناہے۔اس طرح مذکورہ بالا تمام ممکنہ عملی تجاویز کو روبعمل لانا بہت آسان ہوجاتا ہے ،اس کے لیے صرف اپنی فکرکو وسعت دینے اور اپنی دینی تعلیمی خدمات کے موجودہ دائرہ کو صرف تھوڑا ساوسیع کرنے کی ضرورت ہے مثلاً اب تک ہمارے مدرسہ کے پچاس لاکھ کے سالانہ بجٹ سے پانچ سو طلبا کی دینی تعلیم کا نظم ہورہاہے تو اس میں اب صرف دس فیصد اپنے اضافہ کے ساتھ سالانہ پانچ لاکھ شامل کرنے یااسی بجٹ میں اس رقم کو خاص کرنے سے ایک ہزار طلباکی بنیادی دینی تعلیم کا فریضہ مدرسہ ہی کی سرپرستی میں ہم بآسانی انجام دے سکتے ہیں،اس طرح نئی نسل میں بڑھتی اسلام پر اعتماد کی کمی کے سیلاب پرپر بند بھی باندھا جاسکتاہے اور ان شاء اللہ فکری وذہنی ارتداد کا بھی سدباب ہوسکتاہے ۔
وماعلینا الا البلاغ
شاید کہ اترجائے ترے دل میں میری بات آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
.......
پیغامِ مرشد محترم پیر طریقت حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب قاسمی نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ
......
از:۔ محمد الیاس بھٹکلی ندوی nadviacademy@hotmail.com
۱) آج یوم عرفہ ہے اور کل انشاء اللہ عیدالأضحی کا دن، ظاہر بات ہے کہ عید کی شادمانی اور گھروالوں کے ساتھ پرُسکون ماحول میں عید منانے اور قربانی کے تصور ہی سے اس عظیم نعمت کے حصول پر اللہ رب العزت کا پیشگی شکراداکرتے ہوئے جسم کا رواں رواں سجدہ ریز ہ ہورہا ہے، لیکن فجر بعد کچھ دیر آرام کے بعد جب آنکھ کھلتی ہے تو برادرِ گرامی مولانا شمس الدین صاحب بجلی قاسمی (جنرل سکریٹری جمعیت العلماء کرناٹک) کے ایک فون سے ہوش اڑادینے والے ایک واقعہ کو سن کر یہ سب خوشی کافور ہوجاتی ہے، مولانا بڑے درد سے بتارہے تھے کہ میں دو ہفتہ قبل دہلی میں جمعیت کی میٹنگ میں حاضر تھا جس میں ملت کے صاحب بصیرت علماء ودانشوران بالخصوص مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتھم، حضرت مولانا قاری عثمان صاحب دامت برکاتھم، حضرت مولانا محمود مدنی صاحب دامت برکاتھم اور حضرت مولانا سلمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم وغیر ھم موجود تھے، وہاں پردورانِ میٹنگ یہ روح فرسا خبر سننے کو ملی کہ پچھلے ایک سال میں صرف دہلی وآس پاس میں پانچ سو سے زائد مسلم بچیاں غیرمسلموں کے ساتھ بیاہ کرکے اپنے گھروں سے نکل گئیں، بالفاظ دیگر انھوں نے اپنے گھروالوں کے ساتھ اپنے دین کو بھی الوداع کہہ دیا۔
۲) اسی عیدالفظر کے معاً بعد جموں وکشمیر کے دعوتی سفر کے دوران بھی کچھ اس طرح کی دل دہلادینے والی خبر صدیق مکرم مولانا شکیل صاحب ندوی نے سناکر مغموم کردیا کہ ملک کے مختلف شہروں کی یونیورسٹیوں و کالجس میں زیر تعلیم اور وہاں کے ہوسٹلس میں مقیم ان کے صوبہ کی آٹھ مسلم بچیاں گذشتہ چند ماہ میں اسلام سے دستبرداری کا اعلان کرکے دوسرے مذہب والے اپنے دوستوں کے گھروں کی دلہنیں بن چکی ہیں۔
۳) گذشتہ رمضان المبارک سے قبل شعبان میں کوکن میں جامعہ حسینیہ سری وردھن کے سالانہ جلسہ میں شرکت سے واپس ہوتے ہوئے ایک جگہ ساحلی خطہ میں طالبات کے تقسیمِ انعامات کے پروگرام میں حاضری کے دوران ہمارے دوست مولوی عبدالمطلب صاحب مروڑجنجیرہ نے یہ ہوش اڑادینے والی خبرِ صاعقہ اثر سنائی کہ چند ماہ قبل قریب کی بستی میں دو مسلم طالبات نے اسلام کو خیرباد کہہ کر ارتداد کی ظلمتوں میں قدم رکھا، دل دہلادینے والی اور نیند اڑادینے والی یہ خبر کیا کم تھی کہ گھر واپسی پر اخبارات کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ہمارے قریبی ضلع میں ایک مسلم طالب علم بھی اسلام جیسی عظیم نعمت کو ٹھکراکر مرتد ہوگیا۔
۴) ایک سال قبل ہی پورے ملک میں مسلم پرسنل لابورڈ کی طرف سے ملک گیر سطح پر طلاق اور آئینی قوانین کے حق میں دستخطی مہم چلائی گئی، اس کے الحمدللہ دیرپا اور مثبت نتائج سامنے آئے، ملت کی صاحب بصیرت دینی قیادت بالخصوص حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب ندوی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب دامت برکاتھم کی سرپرستی میں چلنے والی اس مہم نے ہمارے مسلم معاشرہ میں دینی بیداری میں اہم رول ادا کیا اور سائرہ بانو کے طلاق کے خلاف پچاس ہزار مسلم خواتین کے دستخطوں کے دعوے کے مقابلہ میں چارکروڑ سے زائدحقیقی دستخطی دستاویزات بورڈ کے دہلی آفس میں جمع ہوئے، لیکن دوسری طرف اس مہم کے دوران مسلم معاشرہ کے بعض منفی پہلو بھی سامنے آئے، مثلاً اندازہ ہواکہ پچاس ہزار نہ سہی دوچار ہزار مسلم خواتین اب بھی ہمارے درمیان ایسی موجود ہیں جن کے دلوں میں اسلام کے ان فطری اور عقلی قوانین کے متعلق شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں، ہمارے محترم دوست مولانا شبیر صاحب ندوی بنگلور نے انہیں دنوںیہ ہوش ربا خبر سنائی کہ شہر میں دعوتی میدان میں نمایاں خدمت انجام دینے والے ایک صاحب کی اہلیہ حسنِ اتفاق سے جو تعلیم یافتہ اور دعوتی کاموں میں ان کی دست راست بھی ہے اس نے بورڈ کی طرف سے پیش کیے گئے دستخطی کاغذات پر دستخط کرنے سے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ مجھے اسلام میں مردوں کو دیے گئے طلاق کے حق کے متعلق اطمینان نہیں اور میرا دل اس سلسلہ میں مطمئن نہیں۔
۵) دو سال پہلے کی بات ہے، جامعہ میں ہمارے استاذ محترم مولانا ناصر صاحب اکرمی نے مجھے ایک مسلم تعلیم یافتہ خاتون کا جس کادیندار گھرانہ سے تعلق ہے ایک ایسا مضمون دکھایا جس میں اس نے صاف لکھا تھا کہ بلوغ سے پہلے مسلم بچیوں کو اسکارف نہیں پہنانا چاہئے، اس کے بہت سے طبی نقصانات ہیں اور خواتین کو بلوغ کے بعد بھی پردہ کے سلسلہ میں جبر واکراہ سے کام نہیں لینا چاہئے، یہ ان کی فطری آزادی میں دخل دینے کے مترادف ہے اورکچھ ہی دنوں کے بعد اس نے ایک اخباری بیان بھی جاری کیاکہ مردوں کے لیے طلاق کے حق کے سلسلہ میں علماء کودوبارہ غور کرناچاہیے ۔
ان واقعات کے محرکات:۔
آپ ان پانچوں واقعات کا دعوتی تجزیہ کیجئے تو ان سب کا الگ الگ محرّک وسبب سامنے آئے گا، پہلے تین واقعات میں ان طالبات کے دلوں میں اسلام جیسی عظیم نعمت کی اہمیت اور شرک وکفر کی غلاظتوں وقباحتوں کا عدم احساس، دوسرے واقعہ میں اسلام کے ظاہری مظاہر سے آراستہ ہونے اور دعوتی میدان میں اپنی خدمات کے باوجود اسلامی قوانین کی برتری پر اس مسلم خاتون کا عدم اطمینان، تیسرے واقعہ میں اسلامی دانشوری اور روشن خیالی کے پردہ میں مسلم خاتون کی طرف سے اسلام کی غلط ترجمانی، ان سب نتائج کو اگر صرف ایک مختصر جملہ میں ادا کیا جاسکتا ہے تو اس کو ہم نئی نسل میں اسلام کے تئیں اعتماد کی بڑھتی کمی سے تعبیر کرسکتے ہیں جو بقول مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ امت کا اس وقت کا سب سے اہم ترین اور توجہ طلب مسئلہ ہے، گذشتہ سو سالوں میں امت کے اس فکری المیہ اور تہذیبی ارتداد کی حساسیت کا سب سے زیادہ احساس پورے عالم اسلام میں حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ ہی کو تھا، آپ کی پوری زندگی اخیر تک ذہنی ارتداد کی اسی سنگینی کے تعلق سے امت کو بیدار کرنے میں گذری ،آپ کی اسی فکرمندی اور ملت کے لئے آپ کی اسی تڑپ وکڑھن نے آپ کو مفکر اسلام کے خطاب سے موسوم کیا تھا۔
افسوس کہ نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ ملکی سطح پر بھی ہماری امت اور خود اس کی دینی قیادت کی اکثریت بھی اس المیہ کی نزاکت کو سمجھ کر اس پر توجہ دینے سے غفلت برت رہی ہے اور اس کے نتیجے تیزی سے سامنے آرہے ہیں اور ہر دن ہماری نئی نسل میں اسلام پر اعتماد کی کمی کے ہوش ربا واقعات ہمارے سامنے آرہے ہیں، ملت کے تعلیمی، سماجی، اصلاحی اور دیگر مسائل پر مشرق سے مغرب تک بیٹھکیں ہورہی ہیں مشورے اور سمینار منعقد ہورہے ہیں، لیکن اس اہم ترین اور نازک ترین المیہ پر فکرمندی کے ساتھ عالمی یا ملکی سطح پر کوئی سنجیدہ بیٹھک نہ ہونے کے برابر ہے، مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ کچھ دنوں تک امت کے تمام مسائل کو کنارے رکھ دیا جائے اور صرف اس مسئلہ پر پوری امت سرجوڑ کر بیٹھے، تب بھی فوری اس کا حل آسان نہیں، جو ذہنی ارتداد اور فکری الحاد سامنے آرہا ہے وہ درحقیقت ہمارے معاشرہ میں موجود حقیقی ارتداد والحاد کے واقعات کے دس فیصد مظاہر بھی نہیں ہیں، ورنہ ۹۰/فیصد واقعات وحقائق پر اللہ تعالی نے اب بھی اپنے کرم سے پردہ ڈال رکھا ہے، سچی بات یہ ہے کہ ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے خدانخواستہ کسی دن اگر اللہ تعالی اس کا پردہ فاش فرمادیں گے تو خود اپنے گاؤں اور خاندانوں میں اس بھیانک کردار کے حامل افراد کے متعلق جان کر اور سن کر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑجائیں گے، پیروں تلے زمین کھسک جائے گی، ہم خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجائیں گے اور گھر واپسی ہم کو آگرہ اور مظفر نگر کی بجائے خود اپنے آس پاس نظر آئے گی۔
آخر ایسا کیوں ہورہا ہے:۔
ظاہری دینی مظاہر میں اضافہ اور اخلاقی ترقی کے باوجود اندرون میں نئی نسل میں اسلام پر روز کم ہوتی اعتماد کی اس کمی کے مختلف اسباب ومحرکات ہیں ،اس کا بنیادی سبب بچپن سے اپنی اولاد کو بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے میں والدین وسرپرستوں کی کوتاہی ہے، اسی کے ساتھ برِ صغیر میں مغرب سے درآمد نئے نظام ونصابِ تعلیم اور موجودہ سوشل میڈیا کے عمل دخل نے ان کو اسلام سے عملی ہی نہیں بلکہ فکری طور پر دور کرنے میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
اس وقت ہماری امت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کے جنون اور اس کے لئے معیاری اسکولوں اور کالجس کے انتخاب نے سرپرستوں میں ایمان وشرک، حلال وحرام اور جائز وناجائز کے فرق کو مٹادیا ہے، نصابی ضروریات اور ثقافتی پروگراموں کے نام سے اپنی اولاد کو ایمان سوز حرکتوں سے روکنے پر بھی ان کا کمزور ایمان آج کامیاب نہیں ہورہا ہے، مخلوط تعلیم سے کل تک حیاسوز واقعات سامنے آرہے تھے، افسوس اب ایمان سوز واقعات کا ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کل تک کالجس اور یونیورسٹیوں میں محبت کی شادیوں کے واقعات نے ۹۰فیصد غیر مسلم طلباء کو اسلام لانے پر مجبور کردیا تھا، لیکن اب ہم روز اس کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ اب دوتہائی ہمارے بچے اور بچیاں صرف انہی شادیوں کی خاطر اپنے ایمان واسلام کو چھوڑنے میں بھی عار محسوس نہیں کررہے ہیں اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ خود ان کے والدین بھی اس شرک عظیم کی ان قباحتوں کو سمجھنے سے عاجز وغافل ہیں، تجدّد وروشن خیالی اور نام نہاد دانشوری دینی تعلیم سے اپنے بچوں کو آراستہ کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے اور اس کو والدین اپنی اولاد کے مفروضہ روشن وتابناک مستقبل کے لئے عار سمجھ رہے ہیں، دینی مدارس کا ان کے نونہالوں کا رخ کرنا تو دور کی بات خود ہمارے مسلم تعلیمی اداروں کے بعض ذمہ داران بھی اسلامی ماحول میں عصری تعلیم کے نظم میں ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہیں، اس خوف سے کہ کہیں ان پر شدت پسندی اور بنیادپرستی کا لیبل نہ لگے، ہمارے تعلیمی مراکز میں بھی وہ سب غیر اسلامی اور غیرایمانی حرکات وثقافتی سرگرمیاں انجام پارہی ہیں جن کے ارتکاب سے شریف غیر مسلم ذمہ دارانِ اسکولس وکالجس بھی اس گئے گذرے دور میں بازرہتے ہیں۔ فإلی اللّہ المشتکیٰ
اس کے تدارک کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے:۔
اس نازک مسئلہ اور ہوش اڑادینے والے المیہ کا یقینی حل تو یہ ہے کہ امت کے ہر گھر بلکہ ہر باپ کی اولاد میں ایک عالمِ دین ضرور ہوجو اپنے بھائی بہنوں اور گھروالوں کو ان میں سرایت کرتی غیرمحسوس گمراہی سے روک سکے ،حلال وحرام کی نشاندہی کرسکے، دین کے معاملات میں ان کی رہبر ی کرسکے اوراپنے پورے گھرانے اور خاندان کو ایمان وتوحید پرباقی رکھنے کی فکر کرسکے ، لیکن خود ہمارے ملک اور برصغیر میں بھی عملاً ایسا نہیں ہے، ہرخاندان میں ایک عالم سے اب بھی ۹۰ فیصد خاندان خالی ہیں اور بظاہر مستقبل میں شاید اس کا امکان بھی نہیں ہے۔
آج بھی جب کہ عالمی سطح پر دینی واسلامی بیداری کی لہر کا ہرجگہ چرچا ہے کچھ علاقوں کو مستثنی کرکے ہمارے دینی مدارس کے طلباوطالبات میں خوش حال گھرانوں کی نمائندگی بہت ہی کم ہے، محل نما گھروں میں رہنے والوں، کروڑوں کے قیمت والے، فلیٹوں میں زندگی بسر کرنے والوں، شام کو پارکوں اور مالس میں سیر سپاٹا کرنے والوں، دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ رات کو دیر تک باہر رہنے والوں اور ریستورانوں میں رات کا کھانا (ڈِنر) کھانے کی عادت والوں کے لئے ہمارے مدارس کا دینی ضابطہ کا ماحول راست نہیں آسکتااور آئندہ بھی ان سے دینی مدارس کا رخ کرنے کی امید نہیں کی جاسکتی، ایک طرف گاؤں اور شہروں کا یہ حال ہے تو دوسری طرف اپنے گھروں سے دور بڑے بڑے شہروں میں تعلیم کے لئے قیام پذیر ہمارے نونہالان ڈگریوں کے حصول کے معاً بعد اچھی کمپنیوں سے منسلک ہوجاتے ہیں، پھر وہاں کا مخلوط ماحول ان کی رہی سہی اخلاقی حالت کی کسر کو بھی پورا کردیتا ہے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ ہماری ان نوخیز نسلوں کو اخلاق سوز وایمان سوز حرکتوں سے باز رکھنے کی خاطر بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے کہاں موقع رہ جاتا ہے، لیکن ان سب کے باوجود ہم مایوس نہیں، اسلام میں ناامیدی ومایوسی کفر ہے، اللہ پاک کی کمال قدرت کا یہ عالم ہے کہ وہ سیکنڈوں سے بھی کم وقت میں دلوں کے حالات تبدیل کردیتے ہیں، ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی الحمدللہ ہمیں امید کی کرن نظر آرہی ہے، ابھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا ہے، اب بھی اس سیلاب پر بند باندھا جاسکتا ہے اور اس کو روکنے میں اللہ کی مدد سے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اس مسئلہ کی نزاکت کا ہمیں اندازہ ہو اور ہم صرف خیالی جزیروں میں پناہ لے کر یا ساحل کے خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھ جائیں۔
۱) سب سے پہلے والدین اور سرپرستوں میں اس حساّس مسئلہ اور ایمانی المیہ کے تئیں بیداری پیدا کی جائے کہ غیر محسوس طریقہ پر ہماری نئی نسل کس طرح اسلام سے دور ہوکر شرک وکفر کی دلدل میں پھنستی جارہی ہے، جمعہ کے خطبات اور جلسوں سے زیادہ اب سوشل میڈیا سے بھی ہمیں اس سلسلے میں فائدہ اٹھانا چاہئے، اس طرح کے ہوش ربا واقعات کی چھوٹی چھوٹی کلپ بناکر واٹس ایپ میں عام کی جائے اور اس پر مختصر تجزیاتی دعوتی گفتگو کے ذریعہ مثبت انداز میں حکمت کے ساتھ اس کو روکنے کی ممکنہ عملی کوششوں سے والدین وسرپرستوں کو آگاہ کیا جائے، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے الفاظ میں ان کو بتایاجائے کہ:
’’شرک وکفر صرف مندروں میں جاکر گھنٹی بجانے اور بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا نام نہیں بلکہ نماز روزوں کے ساتھ اسلام کے ابدی قوانین پر ہلکے سے شک وشبہ سے بھی صاحب ایمان ایمان سے نکل کرشرک میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘ ۔
۲) آن لائن دینی تعلیم کے جو کامیاب نظام سوشل میڈیا کے ذریعے چل رہے ہیں، گھر بیٹھے ان سے اپنے بچوں کو منسلک کریں تاکہ روزانہ آدھ یا پون گھنٹہ ہی سہی وہ گھر بیٹھے قرآنی و دینی تعلیم حاصل کریں۔
۳) بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہمارے ملک میں مسلمانوں میں تعلیمی بیداری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، تقریباً ہر شہر میں مسلمان اپنے تعلیمی اداروں کے قیام میں خود کفیل ہوگئے ہیں اور اچھے معیاری مسلم اسکولس بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ قائم ہوگئے ہیں، والدین طے کریں کہ کم از کم بارہویں تک ہر حال میں مجھے میری اولاد کو مسلم اور ملّی اسکولوں ہی میں پڑھانا ہے، چاہے اس کے لئے ایمان واخلاق کی بقا کی فکر میں کچھ قربانی دینی پڑے۔
۴) ہمارا کوئی مسلم محلہ جزوقتی مکاتب سے خالی نہ ہو، گاؤں اور شہروں میں قائم شبینہ وصباحی مکاتب میں صرف ناظرہ قرآن پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ہفتہ میں کم از کم دو تین دن ایمانیات اور فقہ اسلامی و سیرت نبوی کے اسباق کا بھی نظم کیا جائے اور طلبا کی نفسیات وضروریات کے مطابق ملک بھرمیں اس سلسلہ میں جو نصابی کتابیں اسلامیات ودینیات کی تیار ہوئی ہیں ان سے مددلی جائے۔ (اس سلسلہ میں فارغین جامعہ کے ذریعہ مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل نے بھی نرسری سے لے کر کالج تک کے طلبا کے لئے پندرہ جلدوں میں اسلامیات کے نام سے ایک جامع نصاب مرتب کیا ہے جو دس دینی مضامین پر مشتمل ہے اور گذشتہ پندرہ سالوں سے الحمدللہ ملک وبیرون ملک کے تین ہزار سے زائد اسکولوں وکالجس میں داخل نصاب ہے، یہ نصاب عربی، اردو، انگریزی ہندی، فارسی، پشتو، آسامی، نیپالی، تامل، بنگالی اور کنڑ زبانوں میں دستیاب ہے، اس سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔)
۵) مسلم اسکولوں کے ذمہ داران بھی کم از کم روزانہ ایک گھنٹہ اپنے تعلیمی اداروں میں ناظرہ قرآن کے علاوہ عقائد، سیرت اور فقہ وغیرہ کے لیے خاص رکھیں، چاہے اس کے لیے اپنے موجودہ نظام تعلیم کے اوقات میں شروع یا اخیر میں ایک آدھ گھنٹے کا اضافہ کرنا پڑے، جیسا کہ کیرلا اور گجرات کے اکثر مسلم اسکولوں میں اس پر توجہ دی گئی ہے۔
۶) مسلم کالجس اور ہائی اسکولوں میں ہفتہ میں کم از کم ایک گھنٹہ کے لیے جمعرات یا ہفتہ کے روز علماء کے محاضرات رکھے جائیں جس میں اسلام وایمان کی جزئیات اور عقائد کی باریکیوں اور حلال وحرام کی تفصیلات کے ساتھ اسلام کی برتری اور اس کے قوانین کے منطقی وعقلی ہونے پر طلبا سے خطاب کیا جائے۔
۷) جو طلبا اپنے گھروں سے دور مختلف شہروں میں زیرتعلیم ہیں مسلم اداروں کی طرف سے ان شہروں میں ہوسٹلوں کا خود نظام کیا جائے تاکہ ان کو اپنے پاس اپنی نگرانی میں رکھ کر اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ان کی اخلاقی ودینی تربیت کی جاسکے اس کے لیے ان ہوسٹلوں میں نماز باجماعت کے اہتمام کے ساتھ روزانہ ایک گھنٹے کے دروس کے ساتھ ان کی ذہن سازی کا بھی کام کیا جائے، یاد رہے کہ عیسائی مشنریوں اور قادیانیوں کی طرف سے گذشتہ کئی سال سے خاموشی سے مسلم طلبا کو دین سے دور کرنے کی غرض سے پورے ملک میں اس کا جال پھیلایا جارہا ہے۔
۸) شہروں میں پہلے سے قائم اس طرح کے مسلم ہاسٹلوں یا اقامت گاہوں کے ذمہ داران سے اجازت لے کر ہفتہ میں دو تین دن عشاء بعد یاکسی اور مناسب وقت میں ان کی دینی تعلیم کا نظم کیاجائے اور اس کے لیے اچھے معیاری علماء وعالمات کا انتخاب کیا جائے جو ان نوجوانوں وبچیوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر ان کی دینی تربیت کا فریضہ انجام دے سکیں۔
۹) اگر مسلم اسکولوں یا کالجس کے ذمہ داران اپنی سیکولر امیج کی بقا کی فکر میں اپنے یہاں زیر تعلیم طلبا کی دینی تعلیم کے لیے نظم کرنے اور اس کے لیے علماء کے تقرر پر آمادہ نہ ہوں تو ان سے کہاجائے کہ ہمارا ادارہ اپنے خرچ پر دینی تعلیم کے معلمین آپ کو فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، آپ صرف اس کے لیے اسکول شروع ہونے سے پہلے ہمیں آدھے گھنٹہ کا وقت دیں اور بچوں کو صبح میں صرف آدھ گھنٹہ جلدی لانے کا نظم کریں، ملک کے مختلف مسلم اداروں کی طرف سے تنخواہیں دے کر دوسرے مسلم اسکولوں میں اسلامیات کے معلمین فراہم کرنے کا کامیاب تجربہ الحمدللہ ملک کے مختلف شہروں کوکن، اورنگ آبا د، حیدرآباد وغیرہ میں ہورہا ہے، اب اس تجربہ کو دوسرے شہروں تک وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
۱۰) سول سروس میں مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے جو ادارے مثلاً جے پور کی کریسنٹ اکیڈمی ،دہلی کی ہمدردیونیورسٹی یا ممبئی کا حج ہاؤس وغیرہ سینکڑوں مسلم طلباکو کامیاب تربیت دے رہے ہیں وہاں زیرِ تعلیم طلبا کی دینی ذہن سازی کا کام وہاں کے مقامی علماء یا دینی اداروں کی طرف سے ابھی سے کیا جائے تاکہ مستقبل قریب میں ملک میں بڑے سرکاری مناصب پر فائز ہونے کے بعدبھی ان کی دینی شناخت باقی رہ سکے اور وہ ملک کی انتظامیہ میں بھی پہنچ کر اسلام کی صحیح ترجمانی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
۱۱) مشنری ،غیر اسلامی اور سرکاری اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبا کے لیے سنڈے کلاسس کا اچھے پیمانہ پر خودہمارے دینی مدارس میں نظم کیاجائے اس کا ہم نے سنگاپور کے اپنے گذشتہ سفر میں مشاہدہ کیا ، الحمدللہ یہ بڑا کامیاب تجربہ ہے ، یونیفارم کے ساتھ اتوار کے دن تین گھنٹے کے یہ کلاسس ہوتے ہیں جو بڑے کامیاب ہیں اور امتحانات کے بعد ا ن کو ترغیبی انعامات گولڈ میڈل وسلور میڈل وغیرہ کی شکل میں دئیے جاتے ہیں۔
۱۲) اسکولوں وکالجس کی سالانہ چھٹیوں میں مختصر مدتی ہفت روزہ ،پندرہ روزہ دینی کورسس کا نظم خود ہمارے علماء یاذمہ داران خود اپنے مدارس کی چہاردیواری میں یا شہروں میں اچھی اور پُرکشش جگہوں میں کریں، اگر ممکن ہوتو مدارس میں قیام کرواکر ان بچوں کی دینی تربیت بھی کی جائے،اس دوران ان کی دلچسپی وترغیب کے لیے کھیل کود کے مقابلے بھی رکھے جائیں اور کیمپ کے اختتام پر ان کو ایک آدھ دن کے لیے شہر سے دور تفریح کے لیے لے جاکراس دوران ان پر ہونے والی تربیتی وتعلیمی محنت کا جائزہ بھی لیاجائے۔
سب سے آسان اور فوری قابل عمل نسخہ:۔
اسلام پر بڑھتی اعتماد کی کمی میں اب ہمارے ملک میں صرف خوش حال گھرانوں کے بچے اور بچیاں نہیں رہ گئے ہیں ،اعلیٰ تعلیم کے شوق میں اسکالر شپ یادوسروں کی مدد سے تعلیم حاصل کرنے والے درمیانی یا غریب گھرانو ں کی اولاد کا بھی حال کچھ کم قابلِ تشویش نہیں ہے، تعلیم سے فراغت کے بعد شادی سے پہلے ملازمت کے نہ ملنے پر گھروں میں بے کار بیٹھے رہنا ان کے لیے گوارا ہے، لیکن ایک سالہ عا لمیت کے مختصرمدتی کورس میں داخلہ لینا ا ن کے لیے سببِ عار ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے زعم میں وہ اس کو اپنی کسرِ شان سمجھتے ہیں، اب ایسے بچوں اور بچیوں کو ہم جبرواکراہ سے دینی مدارس میں داخل نہیں کرسکتے، والدین اگر ذھناً بھی تیار ہوجائیں تو بچے آمادہ نہیں، اگر بچوں کو شوق ہوجائے تو والدین وسرپرست ان مدارس میں اپنے نونہالوں کو بھیجنا اپنی شان کے منافی سمجھ کران کو روک دیتے ہیں، ان سب محرکات کے تناظر میں ایک کامیاب، آسان اور عملی شکل جو ہوسکتی ہے وہ یہ کہ ان کو اس کے لیے ایک سالہ یا دو سالہ عا لمیت کورس کے نام سے دعوت نہ دی جائے، بلکہ صرف یہ کہاجائے کہ صرف ایک ہفتہ یا پندرہ دن یا ایک ماہ کا کورس ہے، وہ بھی صرف روزانہ ایک گھنٹہ کے لیے ،ہفتہ میں اتوار کو چھوڑ کرصرف چھ دن، اس کو آپ اپنی جاری تعلیم یا ملازمت یا گھریلویا خانگی مشغولیات کے ساتھ بھی پورا کرسکتے ہیں،مثلاً آپ کالج یا یونیورسٹی یا کمپنی کی ملازمت سے شام کو پانچ بجے فارغ ہوتے ہیں تو چھ بجے تک گھر پہنچ کر گھریلو ضروریات سے فارغ ہوکر ۶ سے ۷ یا ۷ سے ۸ یا ۸ سے۹ کا وقت دیں، ایک ہفتہ کے اس دینی کورس میں آپ کا جی لگے تو پندرہ دن کا کریں، پندرہ دن تک پسند آئے تو پھر ایک ماہ، اسی طرح سہ ماہی اورششماہی قرآنی ودینی نصاب مکمل کریں، کالجس میں زیرتعلیم یا وہاں سے فارغ طالبات یا طلبا جب اس پرُکشش قرآنی ودینی نظام میں شرکت پر آمادہ ہوجائیں تو ذمہ داران اور معلمین ومعلمات کویہ سمجھ لینا ہے کہ پہلے ہفتہ ان کو صرف سورہ فاتحہ کے ساتھ چھ سورتیں اور نماز کے پورے اذکار زبانی یاد کروانے ہیں اس کے ساتھ ایک صفحہ ناظرہ قرآن درست کروانا ہے، روزانہ پانچ مسائل بتانے ہیں، ایمانیات پر روزانہ دس منٹ بات کرنی ہے جس میں شرک وکفر کی جزئیات کو بیان کرنے کے ساتھ اللہ تعالی کی قدرتوں، کمالات واختیارات اور بے پناہ تصرفات کے مالک ہونے کو بیان کرنا ہے، پانچ منٹ سیرت نبوی کی اہم باتیں خلاصہ کے طور پر بیان کرنی ہیں اسی طرح روزانہ ان کو ایک سنت پر عمل کرنے کی ترغیب دینی ہے مثلاً پہلے دن باوضو رہنے، دوسرے دن اول وقت میں نماز پڑھنے، تیسرے دن رات کو سورہ معوذتین پڑھ کر سونے وغیرہ کی فضیلت کی روزانہ ایک سنت پر عمل کی ان کو ترغیب دینی ہے اور ہردوسرے دن اس کا جائزہ بھی لیناہے،اس پورے پس منظر میں ضروری ہے کہ ان بچوں اور بچیوں کے مزاج اورنفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو گھر کے ماحول کی طرح اس تعلیم کے دوران پُرکشش ماحول فراہم کیاجائے تاکہ ان کو وحشت نہ ہو ،ذاتی یا کرایہ کی جس عمارت میں بھی اس جزوقتی مدرسہ کا نظم ہو وہ دلکش ہو،صفائی ستھرائی کاخیال رکھا جائے، اچھے علاقہ میں اس کا محل وقوع ہو،غرض یہ کہ وہ سب اسباب ووسائل جن کے نہ ہونے سے اچھے گھرانوں کے اور عصری تعلیم یافتہ بچے اور بچیاں مدارس سے آج کل بہانہ بناکر وحشت محسوس کرتے ہیں، ہمیں اسلامی حدود میں رہتے ہوئے جائز حد تک ان سب طبعی ضروریات کا انتظام کرنا ہے، حسبِ ضرورت ان کو گھروں سے لانے لے جانے کے لیے سواریوں کا بھی نظم کرنا ہے۔
اس طرح امید ہے کہ جو نوجوان بچیاں اور بچے مدرسوں میں آنے سے کتراتے ہیں یا جن کے پاس اپنی ملازمتوں یا تعلیم میں مشغولیت کی وجہ سے مستقل اپناوقت بنیادی دینی تعلیم کے لیے فارغ کرنے کی گنجائش نہیں وہ مختصروقتی ان کورسوں سے بڑی آسانی سے فائدہ اٹھاپائیں گے،اگر کسی نے تین ماہ ،چھ ماہ یا ایک سال کا کورس مکمل بھی نہیں کیا ،صرف ایک دو ہفتہ تک ہی فائدہ اٹھایا تو کم از کم روزمرہ کے اہم دینی فرائض سے واقف ہوجائیں گے اور حرام وحلال کے تعلق سے موٹی موٹی باتیں ان شاء اللہ ان کے ذہن نشین ہوجائیں گی،الحمدللہ مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل کی طرف سے مذکورہ مختصر مدتی اس نصابی تجربہ کو عمل میں لایاگیا ہے اوراس کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیمات کے نام سے مستقل مختصر ومتوسط چالیس روزہ نصاب بھی ترتیب دیاگیاہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں، اپنے یہاں اس نظام کا تجربہ کرنے کی خواہش رکھنے والے اس سے بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
اس سلسلہ میں دینی مدارس کے ذمہ دارن کا فریضہ:۔
اگر دینی مدارس کے ذمہ داران اور علماء کے پیشِ نظریہ بات رہے کہ دینی مدارس کا م صرف مدرسہ کی چہار دیواری میں موجود طلباوطالبات کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے تک محدود نہیں بلکہ امتِ مسلمہ اور نئی نسل کی وہ بہت بڑی تعداد جو مادیت اورمغربی تہذیب سے متاثر ہوکر دینی تعلیم سے کوسوں دور ہے بلکہ اسلام پر اعتماد کی بڑھتی کمی کے ساتھ وہ غیر شعوری طور پر الحاد وارتدادکی طرف جارہی ہے ان کو ان کی جگہ رکھتے ہوئے بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کا فریضہ بھی ہمارا ہی ہے اور ہمیں ہی ان شاء اللہ حکمت وموعظت کے ساتھ شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے ترغیبی وجدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ان کو ایمان واسلام پر باقی رکھنے کی فکرکرناہے۔اس طرح مذکورہ بالا تمام ممکنہ عملی تجاویز کو روبعمل لانا بہت آسان ہوجاتا ہے ،اس کے لیے صرف اپنی فکرکو وسعت دینے اور اپنی دینی تعلیمی خدمات کے موجودہ دائرہ کو صرف تھوڑا ساوسیع کرنے کی ضرورت ہے مثلاً اب تک ہمارے مدرسہ کے پچاس لاکھ کے سالانہ بجٹ سے پانچ سو طلبا کی دینی تعلیم کا نظم ہورہاہے تو اس میں اب صرف دس فیصد اپنے اضافہ کے ساتھ سالانہ پانچ لاکھ شامل کرنے یااسی بجٹ میں اس رقم کو خاص کرنے سے ایک ہزار طلباکی بنیادی دینی تعلیم کا فریضہ مدرسہ ہی کی سرپرستی میں ہم بآسانی انجام دے سکتے ہیں،اس طرح نئی نسل میں بڑھتی اسلام پر اعتماد کی کمی کے سیلاب پرپر بند بھی باندھا جاسکتاہے اور ان شاء اللہ فکری وذہنی ارتداد کا بھی سدباب ہوسکتاہے ۔
وماعلینا الا البلاغ
شاید کہ اترجائے ترے دل میں میری بات آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
.......
پیغامِ مرشد محترم پیر طریقت حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب قاسمی نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ
......
از:۔ محمد الیاس بھٹکلی ندوی nadviacademy@hotmail.com
No comments:
Post a Comment