Saturday 18 August 2018

یوم عرفہ اور اس دن کا روزہ سعودی رویت کے اعتبار سے ہوگا؟

یوم عرفہ اور اس دن کا روزہ سعودی رویت کے اعتبار سے  ہوگا؟
نو (9) ذی الحجہ کو ’’یومِ عرفہ‘‘ کہنے کی وجہ اور پاکستان میں یوم عرفہ اور اس دن کا روزہ سعودی رویت کے اعتبار سے  ہوگا یا پاکستان کی اپنی رویت کے اعتبار سے ہوگا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدًا ومصلّياً

نو (۹) ذی الحجہ کو ’’یومِ عرفہ‘‘ کہنے کی فقہاء نے تین وجوہات بیان کی ہیں:

۱۔ حضرت ابراہیم  کو آٹھ (۸) ذی الحجہ کی رات خواب میں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، تو ان کو اس خواب کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے یا نہ ہونےمیں کچھ تردد ہوا، پھر نو (۹) ذی الحجہ کو دوبارہ یہی خواب نظر آیا تو ان کو یقین ہوگیا کہ یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہے، چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ معرفت اور یقین نو (۹) ذی الحجہ کو حاصل ہوا تھا، اسی وجہ سے نو (۹) ذی الحجہ کو ’’یومِ عرفہ‘‘ کہتے ہیں۔

۲۔ نو ذی الحجہ کو حضرت جبرائیل نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام مناسکِ حج سکھلائے تھے، مناسکِ حج کی معرفت کی مناسبت سے نو (۹) ذی الحجہ کو ’’یومِ عرفہ‘‘ کہتے ہیں۔

۳۔ نو (۹) ذی الحجہ کو حج کرنے والے حضرات چونکہ میدانِ عرفات میں وقوف کیلئے جاتے ہیں، تو اس مناسبت سے نو (۹) ذی الحجہ کو ’’یومِ عرفہ بھی کہہ دیتے ہیں۔

مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ تسمیہ کے اعتبار سے ’’یومِ عرفہ‘‘ کو صرف وقوفِ عرفہ کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں ہے، بلکہ یہ (۹) ذی الحجہ کامختلف وجوہات کی بنا پر دوسرا نام ہے، لہٰذا یہ ہر ملک میں اپنی تاریخ کے اعتبار سے ہوگا، یعنی پاکستان میں جس دن نو (۹) ذی الحجہ ہوگی وہی دن ’’یومِ عرفہ‘‘ کہلائیگا چاہے چاہے اس دن سعودی عرب میں یومِ عرفہ نہ ہوں۔

نیز یہ بھی  واضح رہے کہ مذکورہ مسئلہ کا دارومدار ا س بات پر ہے کہ سعودی عرب کی رؤیت پاکستا ن کے حق میں معتبر ہے یا نہیں؟ تو اس بارے میں احناف کا راجح قو ل یہ ہے کہ بلاد ِبعیدہ جن کےطلوع وغروب میں کافی فرق پایا جاتا ہے ان کی رؤیت ایک دوسرے کے حق میں معتبر نہیں ہے اور سعودی عرب اور پاکستان کے مطلع میں کا فی فرق ہونا بار بار کے مشاہدہ سے ثابت ہے  لہذا  جس طرح نمازوں کے اوقات، تہجد اور سحر و افطار وغیرہ میں  ہر ملک  کا اپنا وقت معتبر ہے، سعودی عرب کے نمازوں کے اوقات کو پاکستان میں نمازوں کے لئے معیار قرار نہیں دیا جاسکتا، اس طرح عید، روزہ اور قربانی میں بھی ہر ملک کی اپنی  رؤیت کا اعتبار ہے، اور عرفہ کے روزہ کے بارے میں بھی ہر ملک کی اپنی  رؤیت معتبر ہے، لہذا جس دن پاکستان کے حساب سے ذی الحجہ کی نویں تاریخ ہوگی وہی پاکستان میں ’’یوم عرفہ‘‘ کہلائیگا اور اسی دن عرفہ کا روزہ رکھنا مستحب ہوگا، اگر چہ اس دن مکہ مکرمہ میں عید کا دن ہو۔ (مأخذہ التبویب: 39/360 ونظیرہ فی معارف القرآن: 794/8 تحت تفسیر سورة القدر )
=================
البناية شرح الهداية - (4 / 211)
وإنما سمي يوم عرفة لأن جبريل - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - علم إبراهيم - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - المناسك كلها يوم عرفة، فقال: أعرفت في أي موضع تطوف؟ وفي أي موضع تسعى؟ وفي أي موضع تقف؟ وفي أي موضع تنحر وترمي؟ فقال: عرفت فسمي يوم عرفة
=================
تبيين الحقائق وحاشية الشلبي - (2 / 23)
قَوْلُهُ أَيْ تَفَكَّرَ أَنَّ مَا رَآهُ مِنْ اللَّهِ) أَيْ أَمْ مِنْ الشَّيْطَانِ فَمِنْ ذَلِكَ سُمِّيَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ فَلَمَّا رَأَى اللَّيْلَةَ الثَّانِيَةَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ اللَّهِ فَمِنْ ثَمَّ سُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ فَلَمَّا رَأَى اللَّيْلَةَ الثَّالِثَةَ هَمَّ بِنَحْرِهِ فَسُمِّيَ يَوْمَ النَّحْرِ كَذَلِكَ فِي الْكَشَّافِ
=================
العناية شرح الهداية - (3 / 452)
فَلَمَّا أَمْسَى رَأَى مِثْلَ ذَلِكَ ، فَعَرَفَ أَنَّهُ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى ، فَمِنْ ثَمَّ سُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ.... وَإِنَّمَا سُمِّيَ يَوْمُ عَرَفَةَ بِهِ لِأَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَّمَ إبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا يَوْمَ عَرَفَةَ فَقَالَ لَهُ : أَعَرَفْت فِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَطُوفُ ؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَسْعَى ؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَقِفُ ؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَنْحَرُ وَتَرْمِي ؟ فَقَالَ عَرَفْت ، فَسُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ وَسُمِّيَ يَوْمُ الْأَضْحَى بِهِ لِأَنَّ النَّاسَ يُضَحُّونَ فِيهِ بِقَرَابِينِهِمْ .
=================
تفسير البغوي - (7 / 48)
أمر في المنام أن يذبحه، وذلك أنه رأى ليلة التروية كأن قائلا يقول له: إن الله يأمرك بذبح ابنك هذا، فلما أصبح روي في نفسه أي: فكر من الصباح إلى الرواح، أمن الله هذا الحلم أم من الشيطان؟ فمن ثم سمي يوم التروية فلما أمسى رأى في المنام ثانيًا، فلما أصبح عرف أن ذلك من الله عز وجل، فمن ثم سمي يوم عرفة.
=================

عرفہ کا روزہ : ایک تحقیقی جائزہ


احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ایک طرف حجاج کے لئے وقوف عرفات کا دن ہےجس دن اللہ تعالی عرفات میں وقوف کرنے والوں پر فخر کرتاہے اور کثرت سے انہیں جہنم سے رستگاری دیتا ہے تود وسری طرف عام مسلمانوں کے لئے اس دن روزہ رکھنے کا حکم ملاہے جو ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔


چنانچہ ابوقتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صیام عرفہ کےبارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

يُكفِّرُ السنةَ الماضيةَ والباقيةَ(صحيح مسلم:1162)

ترجمہ: یہ گذرے ہوئے اورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے ۔


اس روزے سے متعلق آج سے پہلے کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا مگر آج گلوبلائزیشن (میڈیاکی وجہ سے ایک گھرآنگن )کی وجہ سے لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیداہوگیا کہ عرفہ کا روزہ کب رکھاجائے؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ روزہ سعودی عرب کے حساب سے وقوف عرفات والے دن رکھنا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ ہرملک والا اپنے یہاں کی تاریخ سے 9/ذی الحجہ کا روزہ رکھے گا۔اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ روزہ کے سلسلہ اسلامی احکام کیا ہیں تب آپ خود بات واضح ہوجائے گی ۔


ایک بنیادی بات :

اس سے قبل کہ روزہ سے متعلق اسلامی ضابطہ کودیکھا جائے پہلے ایک بنیادی بات یہ جان لیں کہ یوم عرفہ دن کو کہتے ہیں اور وقوف عرفات حاجیوں کے میدان عرفات میں ٹھہرنے کو کہتے ہیں گویا یوم عرفہ اور وقوف عرفات دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ یوم عرفہ دن اور تاریخ کو کہتے ہیں جو قمری حساب سے نو ذوالحجہ کو کہتے ہیں جبکہ وقوف عرفات کا تعلق میدان عرفات سے ہے ۔ان دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ کچھ لوگ یوم عرفہ کو یوم عرفات کہتے ہیں جوکہ سراسر مبنی برغلط ہے۔


روزہ سے متعلق اسلام کے دو اہم قاعدے ہیں ۔

اسلام میں روزہ سے متعلق کئی قواعد وضوابط ہیں مگر ان میں دواہم ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔


پہلا قاعدہ : رویت ہلال کا ہے یعنی روزہ رکھنے میں چاند دیکھنے کا اعتبار ہوگاجسے عربی میں قمری نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔

بخاری شریف میں آپ ﷺ کا حکم ہے ۔

صوموا لرؤيَتِهِ وأفطِروا لرؤيتِهِ ، فإنْ غبِّيَ عليكم فأكملوا عدةَ شعبانَ ثلاثينَ(صحيح البخاري:1909)

ترجمہ: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے تیس دن پورے کر لو۔

یہ حدیث روزہ سے متعلق عام ہے خواہ کوئی بھی روزہ ہو اس میں یہی حکم لگے گا یعنی روزہ میں اپنے اپنے ملک کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ اسی وجہ سے دیکھتے ہیں کہ رمضان كا روزہ رکھنے کے لئے چاند دیکھا جاتا ہے نہ کہ سعودی عرب کواوراسی طرح جب افطارکیاجاتاہے تو اس وقت بھی سورج ہی ڈوبنے کا انتظار کیاجاتا ہے ۔


دوسرا قاعدہ : اختلاف مطالع کا ہے ۔

ایک شہر کی رویت قریبی ان تمام شہر والوں کے لئے کافی ہوگی جن کا مطلع ایک ہو۔ مطلع کے اختلاف سے ایک شہر کی رویت دوسرے شہر کے لئے نہیں مانی جائے گی ۔ دلیل :

أنَّ أمَّ الفضلِ بنتَ الحارثِ بعثَتْه إلى معاويةَ بالشامِ . قال : فقدمتُ الشامَ . فقضيتُ حاجتَها . واستهلَّ عليَّ رمضانُ وأنا بالشامِ . فرأيتُ الهلالَ ليلةَ الجمعةِ . ثم قدمتُ المدينةَ في آخرِ الشهرِ . فسألني عبدُ اللهِ بنُ عباسٍ رضي اللهُ عنهما . ثم ذكر الهلالَ فقال : متى رأيتُم الهلالَ فقلتُ : رأيناه ليلةَ الجمعةِ . فقال : أنت رأيتَه ؟ فقلتُ : نعم . ورأه الناسُ . وصاموا وصام معاويةُ . فقال : لكنا رأيناه ليلةَ السَّبتِ . فلا تزال نصومُ حتى نكمل ثلاثينَ . أو نراه . فقلتُ : أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ (صحيح مسلم:1087)

ترجمہ : حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاںمیری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں۔

آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے میں نے کہا سبحان اللہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام نےچاند دیکھا۔ کیا آپ کو کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر گز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔


یہ حدیث مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد وغیرہ میں موجود ہے ، اس حدیث پہ محدثین کے ابواب سے بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔

صحیح مسلم کا باب : باب بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ

ترمذی کا باب : باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ

نسائی کا باب: باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ


ان دونوں اصولوں کی روشنی میں عرفہ کا روزہ بھی اپنے ملک کے حساب سے 9/ذی الحجہ کو رکھا جائے گا۔ یہی بات دلائل کی رو سے ثابت ہوتی ہے۔


اگر روزے سے متعلق رویت ہلال کا حکم نکال دیا جائے تو روزہ بے معنی ہوجائے گا ، ایک دن کا بھی کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے ، نہ سحری کھاسکتا اور نہ ہی افطار کرسکتاہے ۔ ایسے ہی اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کرنے سے مسلمانوں کے روزے ،نماز،قربانی، عیدیں اور دیگر عبادات کی انجام دہی مشکل ہوجائے گی ۔


عرفہ کے روزہ سے متعلق اشکالات کا جواب

پہلا اشکال :جن لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں تاریخ کا ذکر نہیں ہے بلکہ عرفہ کا لفظ آیا ہے اور عرفہ کا تعلق عرفات میں وقوف کرنے سے ہے اس لئے حاجی کے وقوف عرفات کے دن ہی پوری دنیا کے مسلمان عرفہ کا روزہ رکھیں گے۔

یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔

پہلی وجہ : قاعدے کی رو سے روزہ میں رویت ہلال اور اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا جس کا ذکر اوپرہوچکا ہے ، عرفہ کے روزہ کو اس قاعدے سے نکالنے کے لئے واضح نص چاہئے جوکہ موجود نہیں ۔


دوسری وجہ : مناسک حج میں حج کی نسبت سے بہت سارے نام رکھے گئے ہیں ان سب پر عمومی قاعدہ ہی لگے گا الا یہ کہ خاص وجہ ہو۔ مثلا "ایام تشریق "حج کی قربانی کی وجہ سے نام رکھا گیا ہے اور اسے حاجیوں کے لئے کھانے پینے اور قربانی کرنے کا دن بتلایا گیا ہے اور ہم سب کو معلوم ہے حاجیوں کے ایام تشریق اور دنیا کے دوسرے ملک والوں کے ایام تشریق الگ الگ ہیں۔ جب سعودی میں قربانی کا چوتھا دن ختم ہوجاتا ہے تو دیگر بہت سارے ممالک میں ایک دن ابھی باقی ہوتا ہے ۔ اسی "ایام تشریق" سے ہم استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قربانی چار دن ہے اور اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے ۔

قربانی کی نسبت بھی ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور آپ ﷺ نے اس نسبت سے یوم النحر /عیدالاضحی کو قربانی کرنے کا حکم دیاہے ۔ یہ قربانی ہرملک والا اپنے یہاں کے قمری مہینے کے حساب سے دس ذی الحجہ کو کرے گا۔ گویا عرفہ ایک نسبت ہے جہاں تک اس دن روزہ رکھنے کا معاملہ ہے تو روزے میں عمومی قاعدہ ہی لاگو ہوگا۔


تیسری وجہ: اگر عرفہ کے روزہ سے متعلق بعض حدیث میں تاریخ نہیں آئی تو کوئی حرج نہیں ، دوسری حدیث میں نبی ﷺ سے تاریخ کے ساتھ 9/ذی الحجہ تک روزہ رکھنا ثابت ہے ۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے :

أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ وخَميس(صحيح أبي داود:2437)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔

اس حدیث میں عرفہ کا روزہ بھی داخل ہے جوکہ تاریخ کے ساتھ ثابت ہے،اس سے عرفہ کے روزہ کی اس ناحیہ سے تائید ہوتی ہے کہ اسے نوذو الحجہ کو رکھاجائے گا ۔


چوتھی وجہ : اگر عرفات میں وقوف سے متعلق روزہ ہوتا تو عرفہ نہیں عرفات کا ذکر ہوتااور اوپر فرق واضح کیا گیا ہے کہ یوم عرفہ الگ ہے اور وقوف عرفات الگ ہے۔


پانچویں وجہ : اگر یہ وقوف عرفات کی وجہ سے ہوتا تو حاجیوں کے لئے بھی یہ روزہ مشروع ہوتا مگر یہ حاجیوں کے لئے مشروع نہیں ہے ۔


چھٹی وجہ : وقوف عرفات کا ایک وقت متعین ہے جو کہ تقریبا زوال کے بعد سے مغرب کے وقت تک ہے ۔یہ وقت روزہ کے واسطےسعودی والوں کے لئے بھی کافی نہیں ہے کیونکہ روزے میں صبح صادق کے وقت سحری اور نیت کرنا پھر غروب شمس پہ افطار کرنا ہے۔گویا روزے میں وقوف کا اعتبار ہوا ہی نہیں اس میں تو نظام شمسی وقمری کا اعتبار ہوا۔ اس بناپر بھی نسبت کا ہی اندازہ لگاسکتے ہیں وقوف کا نہیں۔


ساتویں وجہ : سعودی والوں کے لئے بھی عرفہ نو ذی الحجہ ہی ہے ، وہ روزہ رکھتے ہوئے عرفات کے وقوف کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ قمری تاریخ کے حساب سے نوذی الحجہ کو رکھتے ہیں ۔ اس کی دلیل حجاج کرام سے ہی ملتی ہے ، وہ لوگ قمری تاریخ کے حساب سے آٹھ ذی الحجہ (یوم الترویہ )سے حج شروع کرتے ہیں ، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے کہ ذی الحجہ کی سات تاریخ ہو اور حاجی منی جائے یا آٹھ تاریخ ہو اور حاجی عرفات چلاجائے ۔ مناسک حج میں بھی یوم الترویہ اور یوم عرفہ تاریخ کے طور پر ہی ہے کیونکہ اسلامی عبادات میں رویت ہلال کا بڑا دخل ہے ۔ اسی چیز کی طرف قرآن میں رہنمائی کی گئی ہے ۔

اللہ کا فرمان ہے : يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ." (سورة البقرة: 189)

ترجمہ: لوگ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہو یہ لوگوں کے لئے اوقات اور حج کی تعیین کا ذریعہ ہے۔


دوسرا اشکال :

قائلین وقوف عرفات کا ایک اشکال یہ ہے کہ احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت واردہے اور عرفہ وقوف عرفات پہ ہے اس لئے عرفات کے وقوف پہ ہی پوری دنیا میں یہ روزہ رکھا جائے گا۔


یہ بات صحیح ہے کہ یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر عرفہ کے روزہ سے متعلق یہ کہنا کہ اس کی فضیلت کی وجہ سے وقوف عرفات پر ہی روزہ رکھنا ہے غلط استدلال ہے ۔ اللہ تعالی نے یوم عرفہ کو حجاج کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے باعث فضیلت بنایا ہے ۔ حاجیوں کو وقوف عرفات کا ثواب ملتا ہے جبکہ دنیاوالوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے ۔اور اس بات پہ حیران ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یوم عرفہ تو ایک دن ہے پھرسب کو اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے کیسے فضیلت ہوگی ؟تب تو کئی ایام ہوجائیں گے ۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ اللہ تعالی نے لیلۃ القدر ایک بنائی ہے مگرسارے مسلمانوں کے لئے اپنے اپنے حساب سے فضیلت ملتی ہے ۔ سعودی میں ایک دن پہلے شب قدر ، ہندوپاک میں ایک دن بعد شب قدر ، مراکش ولیبیا میں سعودی سے ایک دن پہلے،رات ایک ہی ہے اور ثواب کی امید ہرملک والے اپنے اپنے ملک کے حساب سے شب قدر میں بیدار ہوکر رکھتے ہیں۔


تیسرا اشکال :بعض لوگ ترمذی کی ایک روایت سے دلیل پکڑتے ہیں ۔

الصَّومُ يومَ تَصومونَ ، والفِطرُ يومَ تُفطِرونَ ، والأضحَى يومَ تُضحُّونَ(صحيح الترمذي:697)

ترجمہ: روزہ اس دن رکھا جائے جس دن لوگ روزہ رکھتے ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ بھی اسی دن منائی جائے جب لوگ مناتے ہیں۔


اس حدیث کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جس دن عرفہ کا روزہ سعودی عرب میں رکھا جاتا ہے اس دن سب لوگ رکھیں ۔ اس میں اتحاد ہے۔


اگر اس حدیث سے ایسا ہی مسئلہ استنباط کیاجائے جبکہ اس میں لفظ عرفہ ذکر ہی نہیں اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک ساتھ رمضان کا روزہ رکھیں بلکہ ایک ساتھ سحری کھائیں، ایک ہی ساتھ افطار کریں ، ایک ہی ساتھ اور ایک ہی وقت میں عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں پڑھیں ۔ ظاہر ہی بات ہے وقوف عرفات پہ روزہ رکھنے کے قائلین بھی اس بات کو نہیں مانیں گے تو پھر عرفہ کے روزہ پرہی پوری دنیا کا اتحاد کیوں ؟


اس حدیث کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ روزہ اور عید ، جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ معتبرہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔


چوتھا اشکال :ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ پہلے کےلوگ نہیں جان پاتے تھے کہ وقوف عرفات کب ہے اس لئے اپنے ملک کے حساب سے نوذو الحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھےتو لاعلمی کی وجہ سےوہ معذور تھے اب زمانہ ترقی کرگیا ہےاور وقوف عرفات سب کو معلوم ہوجاتا ہے اس لئے وہ عذر ساقط ہوگیا۔


اولا: آج بھی پوری دنیا میں ہرکس وناکس کومیڈیا کی ساری خبروں کا علم نہیں ہوپاتا ، میڈیا سے جڑے لوگوں کو ہی پتہ چل پاتا ہے ۔مثلا کوئی مسلمان جیل میں قید ہے جہاں اسے موبائل،ٹی وی اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے وہ عرفہ کاروزہ رکھنا چاہتا ہے ،ترقیاتی دور میں ایسے بے سہولت قیدی مسلمان شخص کے لئے نو ذوالحجہ کے حساب سے ہی روزہ رکھنا ممکن ہے ۔


ثانیا : اسلام نے جو آقافی دین دیا ہے وہ انٹرنیٹ اور میڈیا کا محتاج نہیں ہے ۔ بطور مثال یہ کہوں کہ انٹرنیٹ اور میڈیا ختم ہوجائے تو تب آپ کیا کہیں گے کہ ابھی پھر سے لوگ معذور ہوگئے؟ ۔یا وہ گاؤں ودیہات والے جہاں میڈیا کی خبریں نہیں پہنچ پاتیں کیا وہ ابھی بھی معذور ہیں ؟ یہ تو مشینری چیز ہے چل بھی سکتی ہے اور کبھی اس کا نظام درہم برہم بھی ہوسکتا ہے ۔اس کا مشاہدہ کبھی کبھار بنکوں اور آفسوں میں ہوتاہے ۔ جب نٹ کنکشن غائب رہتا ہے تو لوگوں کی کیا درگت ہوتی ہے؟۔ لیکن اسلام کا نظام ہمیشہ بغیرمیڈیا اور انٹرنیٹ کے چلتا رہاہے اور قیامت تک چلتا رہے گا۔ دنیا والوں کو بغیر انٹرنیٹ کے نظام شمسی اور نظام قمری سے رمضان کا روزہ ، ایام بیض ، عاشواء اور عرفہ کا روزہ معلوم ہوتا رہے گا۔


پانچواں اشکال : اگرصوم یوم عرفہ کا مطلب ہر ملک والے کے لئے اپنےاپنے ملک کے حساب سے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھنا مان لیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ صوم عرفہ ایک نہیں متعدد ہے ،اس وقت صوم یوم عرفہ نہیں بلکہ صوم ایام عرفہ ہوجائے گا جبکہ حدیث میں صوم یوم عرفہ آیا ہوا ہے۔


اس بات کا جواب اوپربھی گزرچکا ہے کہ شب قدر ایک ہے مگر ہرملک والے اپنے اپنے یہاں کے حساب سے اس ایک رات کوتلاش کرتے ہیں، یہ رات کہیں سعودی عرب سے پہلے آتی ہے تو کہیں اس کے بعد ، اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ شب قدر متعدد ہے جبکہ قرآن وحدیث میں لیلۃ القدر یعنی قدر کی ایک رات کا لفظ آیا ہے ۔


قائلین صیام عرفات کے ساتھ چند محاکمہ

(1)جب ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ بعض ممالک لیبیا ، تیونس اور مراکش وغیرہ میں سعودی سے پہلے عید ہوجاتی ہے ، اس صورت میں وقوف عرفات ان کے یہاں عید کا دن ہوتا ہے وہ کیسے روزہ رکھیں ؟ عید کے دن روزہ منع ہے ۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:

نهى النبيُّ صلى الله عليه وسلم عن صومِ يومِ الفطرِ والنحرِ( صحيح البخاري:1991)

ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اورعیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ۔

تو جواب دیتے ہیں ایسے لوگوں سے روزہ ساقط ہوجاتاہے ۔ روزہ سے متعلق اصول واحکام واضح ہیں انہیں بالائے طاق رکھ کر بغیر ثبوت کے روزہ ساقط کرواکر لوگوں کو بڑے اجر سے محروم کردینا بڑی ناانصافی اور فہم نصوص میں قصورکا باعث ہے۔


(2)جب ان سے کہاجائے کہ آج سے سوسال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ رکھتے تھے کہ نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو یقینا وہ اپنے ملک کے حساب سے رکھتے ہوں گے( اس کا انکار کرنے کی کسی کو ہمت نہیں)تو جواب دیتے ہیں کہ اس وقت پتہ نہیں چل پاتا تھا اس لئے وہ معذور تھے ۔


یہ جواب کچھ ہضم نہیں ہوپاتا۔اس جواب کو مان لینے سے یہ ماننا پڑے گا کہ قرون اولی سے لیکر آج تک کسی نے عرفہ کا روزہ صحیح نہیں رکھاسوائے عرب والوں کے جبکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ سب کے لئے یکساں دستور پیش کرتا ہے خواہ وہ سعودی عرب كا ہو یا دوسرے ملک کااور اسلام پر عمل کرنے کےلئے کسی میڈیا کی بھی ضرورت نہیں۔


صوم عرفہ کو سمجھنے میں معاون تین اہم نکتے :

پہلانکتہ: اس میں کسی کواختلاف نہیں ہے کہ ستر اسی سال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے نوذوالحجہ کوہی رکھتے تھے اور سلف کے یہاں صوم عرفہ نو ذوالحجہ کے روزہ کو ہی کہاجاتا ہے ،کوئی دوسری رائے نہیں ملتی ہے ۔ وقوف عرفات پہ پوری دنیاوالوں کو روزہ رکھنے والا موقف جدید ذہن کی اپج ہے ،سلف سے اس نظریہ کی تائیدنہیں ہوتی ۔ جب سلف کی فہم صوم عرفہ سے مراد نوذوالحجہ کا روزہ ہے اور ان کا تعامل بھی اس پہ رہا ہے تو اس موقف سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ اگر سلف کے یہاں صوم عرفہ حاجیوں کے میدان عرفات میں وقوف سے متعلق ہوتا تو یقینا وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے حاجیوں کے وقوف عرفات جاننے کی کوشش کرتے کیونکہ شریعت کا مسئلہ ہے ۔ ان کا صوم عرفہ کے لئے وقوف عرفات نہ تلاش کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صوم عرفہ سے مراد نو ذوالحجہ کا روز ہ ہے اور کتاب وسنت کے نصوص کوسمجھنے کے لئےسلف کی فہم مقدم ہے۔


دوسرانکتہ :بعض ممالک میں سعودی عرب کے حساب سے دن ورات کا فرق پایاجاتا ہے یعنی سعودی عرب میں دن ہوتا ہے تو وہاں رات ہوتی ہے ۔ مثلا کیلی فورنیا سے سعودی عرب دس گھنٹے آگے ہے ،اگر سعودی عرب میں رات ہوگی تو وہاں دن اور وہاں دن ہوگا تو سعودی عرب میں رات ہوگی ۔ اسی طرح نیوزی لینڈ سعودی عرب سے نو گھنٹے آگے ہے ،یہاں بھی دونوں ملکوںمیں دن ورات کا فرق ہے ۔ اس طرح بہت سے ممالک ہیں جنہیں ٹائیم زون کے ذریعہ دیکھاجاسکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جن ممالک میں وقوف عرفات رات میں پایا جاتا ہے وہ لوگ رات میں ہی روزہ رکھ لیں؟۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ روزہ دن میں رکھا جاتا ہے تب عرفات والے کہیں گے کہ رات گزارکرروزہ رکھ لیں ۔ پھر آپ کا دعوی وقوف عرفات کہاں چلا گیا؟جب وقوف عرفات نہیں تو پھر وہ روزہ نہیں ۔ اذا فات الشرط فات المشروط(جب شرط فوت ہوجائے تو مشروط بھی ختم ہوجائے گا)۔ نیز سعودی عرب سے دن ورات کے فرق کے ساتھ آگے چلنے والوں کے یہاں دن کو عید ہوگی اور عید کے دن روزہ ممنوع ہے ۔


تیسرا نکتہ: قائلین صوم عرفات جن ممالک والوں کے لئے عید کے دن روزہ ساقط ہونے کا حکم لگاتے ہیں ، اس پہلو پر قرآن وحدیث کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کے مسئلہ میں پورے ملک والوں سے کبھی بھی حکم ساقط نہیں ہوگاجیساکہ احادیث سے معلوم ہے کہ بیماری، ضعیفی ،سفر، حیض ونفاس ، حمل ورضاعت وغیرہ کی وجہ سے روزہ چھوڑا جاسکتا ہے ، یہ صرف چند قسم کے معذور لوگ ہیں مگر کبھی بھی کوئی روزہ پورے ملک والوں سے ساقط نہیں ہوگا ۔


صوم عرفہ کے نام پہ دوروزے رکھنا:

صوم عرفہ کے متعلق دو قسم کے نظرئے پائے جانے کی وجہ سے عام لوگوں میں کافی خلجان پیدا ہوگیا ہے،اس سبب بعض علماء لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ دو روزہ رکھ لیا جائے تاکہ کوئی تردد باقی نہ رہے ،ایک اپنے ملک کے حساب سے اور ایک سعودی کے حساب سے ۔ یہ نظریہ بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ عرفہ کا ایک ہی روزہ ہےاس کے نام پہ دو رکھنا کیسے درست ہوگا ۔ کوئی پہلا روزہ رکھے گا تو نیت صوم عرفہ کی کرے گا اور دوسرا روزہ رکھے تو بھی نیت صوم عرفہ کی کرے گا یہاں ایک شخص کی طرف سے ایک روزہ کے بدلے دو نیت اور دو الگ الگ روزہ رکھنا پایا جاتا ہے جوکہ سنت کی مخالفت ہے ۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ روزہ رکھنے والے کو اپنے روزہ میں شک ہے اس لئے احتیاطا دوسرا روزہ بھی رکھ رہا ہے ۔ روزہ میں شک کرنا یا شک والے دن روزہ رکھنا دونوں ایک ہی بات معلوم ہوتی ہے اور بخاری شریف میں شک والے دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جب ہمارے پاس سلف کی فہم اور ان کا تعامل بغیر اختلاف کے موجود ہے تو پھر بلاشک عرفہ کا ایک روزہ اپنے ملک کے حساب سے نو ذوالحجہ کو رکھنا چاہئے ۔ 


اشکالات کا حل:عرفہ کا روزہ نہ کہ عرفات کا روزہ

وقوف عرفات پہ عرفہ کا روزہ ماننے سے بہت سے اشکالات پیدا ہوتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا مثلا


٭ یہ بات صحیح ہے کہ سوسال پہلے لوگ اپنےملک کے حساب سے نوذوالحجہ کا ہی روزہ رکھتے تھے مگر وقوف عرفات نہ جان سکنے کی وجہ سے معذور تھے ،اب وہ عذر باقی نہ رہا۔اس بات سے لازم آتا ہے کہ ان سب میں سے کسی نے صحیح روزہ نہیں رکھا سوائے وقوف عرفات کا علم رکھنے والے کے ۔ اس سے ان لوگوں بشمول سلف صالحین کی فہم حدیث اور عمل میں تنقیص کا پہلو نکلتا ہے۔ 


٭وقوف عرفات جس ملک میں عید کے دن ہوان لوگوں سے عرفہ کا روزہ ساقط ہے۔ یہ بغیر دلیل کے سقوط ہے جسے کبھی تسلیم نہیں کیاجاسکتاہے۔


٭ جہاں وقوف عرفات رات میں پڑجائے وہ لوگ رات گزارکر روزہ رکھ لیں ۔ جب عرفہ کے روزہ کی فضیلت میدان عرفات میں حاجیوں کے وقوف سے معلق ہے تو پھر رات گزارکر روزہ رکھنے والوں کو وہ فضیلت نصیب نہیں ہوگی یعنی روزہ رکھ کے بھی ثواب نہیں ملے گا۔


٭ وقوف عرفات پہ روزہ ماننا برقی روابط سے حجاج کرام کا عرفات میں وقوف معلوم کرنے پرمنحصر ہے اور آج بھی یہ برقی سہولت سب جگہ اورسب کو میسر نہیں مثلا جیل میں قیدوہ مسلمان جس کے پاس یہ سہولت نہیں وہ یہ روزہ نہیں سکتا ۔ 


وقوف عرفات پہ عرفہ کا روزہ ماننے سے اس قسم کے بہت سارے اشکالات پیدا ہوتے ہیں جن کا تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں ہے ،اور اس موقف سے بہت سارے ملک کے لوگ یہ روزہ اور اس کی فضیلت سے محروم ہورہے ہیں بلکہ یہ کہیں کہ جس ملک میں عید سعودی عرب سے ایک دن پہلے ہوتی ہے وہ ملک والے قیامت تک عرفہ کا روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان کے یہاں ہمیشہ وقوف عرفات عید کے دن ہوا کرے گا اور عید کے دن روزہ رکھنے سے نبی ﷺ نے منع فرمایاہے جبکہ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے نوذوالحجہ کا ماننے سے کوئی اشکال نہیں پیدا ہوتا ہے ،ہوبہو سلف کے عملی نمونہ کو اپنانا ہے۔ اس لئےاس تحقیقی مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہر ملک والااپنے اپنے ملک کے حساب سے عرفہ کا روزہ نوذوالحجہ کو رکھے گا۔

No comments:

Post a Comment