Friday 17 August 2018

مارکیٹنگ کا اپنا کمال

مارکیٹنگ کا اپنا کمال
آج کل گاؤں میں ایک ادارے کی تادیبی کاروائی پر جو ہاہاکار اٹھی ہوئی ہے، ہر سو ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بناکر پیش کیا جارہا ہے.شرپسند عناصر کے دلوں میں سو سالہ تاریخی ادارے کے بیٹھی دهاک و دبدبہ کو خود اپنے آہنکار کے لئے بلی پر چڑهایا جارہا ہے. ادارے کے وجود کو خطرے میں ڈالا جارہا یے اور یہ سب ایک سوچی سمجھی رن نیتی  کے ساتھ  مارکیٹینگ کے اس اوصول کے تحت کیا جارہا ہے کہ جهوٹ کو مسلسل  یے خوف ڈهڑلے سے اتنی مرتبہ دہرایا جائے کہ  عام انسان بهی اس جهوٹ ہی کو سچ ماننے پر مجبور ہوجائے.
میں نے ایک مہنگے اور شہر میں مشہور ہوٹل کے ویٹر کی توجہ ڈش نمبر 65 کی طرف مبذول کرائی اور مسکراکر پوچھا: ”یہ کیسی رہے گی؟“
ویٹر نے جھک کر مینیو کارڈ دیکھا اور مسکرا کر بولا:
”یہ رائسینیا ہے، یہ ہمارے ریستوران کی مشہور ترین ڈش ہے، یہ آپ کے لئے پرفیکٹ رہے گی.“
وہ اس کے بعد سیدھا ہوا اور نہایت شستہ انگریز میں ڈش کے اجزاء اور اس کی تیاری کے مراحل پر روشنی ڈالنے لگا‘
اس نے بتایا ڈش کے چاول برازیل کے قدرتی کھیتوں میں قدرتی کھاد میں پروان چڑھتے ہیں، زیرہ چین کے دور دراز علاقوں سے منگوایا جاتا ہے، دھنیا‘ دالیں اور نمک انڈیا سے لایا جاتا ہے، یہ سارے اجزاء فرانس کے نیم گرم چشموں کے پانی میں دھوئے جاتے ہیں، یہ جاپانی مٹی کی ہانڈی میں ڈالے جاتے ہیں، ان میں ملائیشیا کا کوکونٹ آئل ملایا جاتا ہے، ڈش کو ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے اور یہ کھانا آخر میں برطانوی پلیٹ میں ڈال کر میرے سامنے رکھا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
میں اس نجیب الطرفین ڈش کے پس منظر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ مجھے محسوس ہوا میں نے ڈش نمبر 65 پر انگلی رکھ کر اپنی زندگی کا بہترین فیصلہ کیا‘ میں نے مینو کارڈ فولڈ کرکے ویٹر کے حوالے کیا‘ لمبی سانس لی اور کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا‘ ریستوران گاہکوں سے بھرا ہوا تھا‘ میں لوگوں کو کھانا کھاتے، گپ شپ کرتے اور قہقہے لگاتے دیکھ کر خوش ہورہا تھا‘ میرا آرڈر بیس منٹ میں تیار ہونا تھا‘ میں یہ وقت دائیں بائیں دیکھ کر گزارتا رہا‘ میں نے بڑی مشکل سے وقت پورا کیا‘ مجھے آخر میں دو ویٹر اپنی طرف آتے دکھائی دیئے، ایک نے چاندی کی بڑی سی ٹرے اٹھائی ہوئی تھی اور دوسرا میرے آرڈر کو پروٹوکول دے رہا تھا‘ پروٹوکول آفیسر نے مسکراکر میری طرف دیکھا‘
میرے سامنے پڑی پلیٹ اٹھائی، جگہ بنائی‘ نہایت عزت کے ساتھ ٹرے میں رکھی پلیٹ اٹھائی اور میرے سامنے رکھ دی‘ میں اشتیاق کے عالم میں پلیٹ پر جھک گیا‘ دونوں ویٹرز نے مسکرا کر میری طرف دیکھا:
”انجوائے یور میل سر“
کہا اور لیفٹ رائیٹ کرتے ہوئے واپس چلے گئے‘ میری پلیٹ کے ایک کونے میں کھیرے کی دو قاشیں پڑی تھیں‘ اس سے ایک انچ کے فاصلے پر سبز دھنیے کی چٹنی تھی اور اس چٹنی سے دو انچ کے فاصلے پر چار چمچ کے برابر چاولوں کی ڈھیری تھی‘ میں نے چھری کے ساتھ وہ ڈھیری کھولی‘ چاولوں سے کانٹا بھرا‘ وہ کانٹا منہ میں ڈالا اور ساتھ ہی میری ہنسی نکل گئی، اللہ جھوٹ نہ بلوائے وہ رائسینیا پھیکی کھچڑی تھا اور میں کھچڑی کی ان چار چمچوں کے لئے بیس منٹ انتظار کرتا رہا تھا‘ میں نے لمبا سانس لیا‘ کھیرے کی قاش منہ میں رکھی، کوکا کولا کا لمبا گھونٹ بھرا‘ کھچڑی (معذرت چاہتا ہوں) رائسینیا کو زہر مار کیا اور ویٹر کو بل لانے کا اشارہ کر دیا‘ و ہ بل کی بجائے ڈیزرٹس کا مینو کارڈ لے آیا اور مجھے انوکھی انوکھی سویٹ ڈشز چیک کرنے کا مشورہ دینے لگا‘ میں نے نہایت شائستگی کے ساتھ معذرت کر لی‘ وہ مایوس ہو کر واپس گیا اور بل لے آیا‘ میں نے بل کو غور سے دیکھا‘
مجھے کوکا کولا کا ایک گلاس پانچ سو روپے میں پڑا اور چار چمچ پھیکی کھچڑی اڑھائی ہزار روپے میں‘ بل میں سروس چارجز اور جی ایس ٹی بھی شامل تھا‘ یہ سب ملا کر پونے چار ہزار روپے بن گئے، میں نے پے منٹ کی اور اپنی سیٹ سے اٹھ گیا‘ ریستوران کے آدھے عملے نے مجھے جھک کر رخصت کیا‘ باوردی دربان نے دروازہ کھولا‘ میری گاڑی پورچ میں آ گئی، میں گاڑی میں بیٹھ گیا‘ ریستوران کا بیرونی عملہ بھی میرے سامنے جھک گیا‘ مجھے بڑی عزت کے ساتھ روانہ کیا گیا۔
میں راستے میں سوچنے لگا‘
پونے چار ہزار روپے میں چار چمچ کھچڑی‘ کیا یہ ظلم نہیں؟
ہاں یہ ظلم تھا لیکن میں اپنی فطرت کے برعکس اس ظلم پر خاموش رہا،
کیوں؟
یہ میرا دوسرا سوال تھا‘ میں منہ پھٹ آدمی ہوں‘ میں کسی بھی فورم پر کوئی بھی بات کہہ سکتا ہوں لیکن میں اس ریستوران میں یہ ظلم چپ چاپ کیوں سہہ گیا؟ میں کھوجتا رہا یہاں تک کہ وجہ کا سرا میرے ہاتھ میں آگیا‘ یہ سب ریستوران کی مارکیٹنگ کا کمال تھا‘
مارکیٹنگ  کھچڑی کو دنیا کی بہترین اور مہنگی ڈش بھی بنا سکتی ہے اور اس ڈش کی زد میں آنے والے مظلوموں کے منہ پر ٹیپ بھی لگا سکتی ہے اور مظلوم کے پاس ظلم سہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا‘ میری ہنسی نکل گئی‘ مجھے ہنسنا چاہیے بھی تھا‘ میں بھول گیا تھا، ہم مارکیٹنگ کی اس ایج میں زندہ ہیں جس میں ٹیلی ویژن کا اشتہار یہ فیصلہ کرتا ہے ہمیں کون سا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا چاہیے‘ہمیں کس کمپنی کی چائے‘ دودھ‘ چینی‘ انڈے‘ شیمپو‘ صابن‘ ڈٹرجنٹ پاﺅڈر‘ پانی‘ فریج اور اے سی خریدنا چاہیے اور مجھے کس موٹر سائیکل پر بیٹھ کر زیادہ فرحت محسوس ہو گی وغیرہ وغیرہ‘
یہ مارکیٹنگ ہے جو کھچڑی کو رائسینیا‘ آلو کے چپس کو فرنچ فرائز‘ چھلی کو کارن سٹک‘ لسی کو یوگرٹ شیک اور برف کے گولے کو آئس بال بنا دیتی ہے‘ کمپنی اپنی مارکیٹنگ کے زور پر دس روپے کی چیز ہزار روپے میں فروخت کرتی ہے اور گاہک کو اعتراض کی جرات تک نہیں ہوتی
میں یہ بھی بھول گیا تھا‘ یہ مارکیٹنگ صرف کمپنیوں تک محدود نہیں ہوتی‘ مارکیٹنگ کی ضرورت انسانوں اور ملکوں کو بھی ہوتی ہے مثلاً آپ اسامہ بن لادن‘ صدام حسین، کرنل قذافی کی مثال لے لیں، یہ چاروں مارکیٹنگ کا تازہ ترین ثبوت ہیں‘ امریکہ نے دس سال اسامہ بن لادن‘ صدام حسین اور کرنل قذافی کی نیگیٹو مارکیٹنگ کی، یہ ان تینوں کو ماڈرن تعلیم یافتہ سیویلائز دنیا کےلئے عظیم خطرہ ثابت کرتا رہا یہاں تک کہ پوری دنیا نے انہیں ولن تسلیم کرلیا‘
ہمارا خیال ہے ہم ادارے والے مارکیٹنگ میں مار کھارہے ہیں ہمارا پرسیپشن خراب ہے، ہم اپنے ادارے کے لئے اپنی زندگی کا قیمتی وقت دینے کے باوجود اور اپنے دور اقتدار میں، زعفرانی بی جے پی زور آوری کے دور  کے رہتے بھی، گاؤں میں امن و شانتی برقرار رکهنے  میں کامیاب رہنے کے باوجود، ہمیں ہی اپنوں سے  مدافعتی جنگ لڑنا پڑ رہا یے.ایسے مارکیٹنگ کے دور میں ہمیں ہرحال میں مارکیٹنگ کی اچھی ٹیم چاہیے،ایک ایسی مارکیٹنگ ٹیم جو ہماری کھچڑی کو بهلے ہی رائسینیا نہ ثابت کرے، لیکن ہماری ان تھک محنت سے بنائی مشہور لذیذ بریانی کو بھی، ہر کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا، 'کوڑی گنچی' کینے کی ہمت نہ کرپائے.


No comments:

Post a Comment