Sunday 12 August 2018

بیماری کے فضائل Blessings of Illness

بیماری کے فضائل
صحت وتندرستی کی بات جسے ہر معاشرہ اور ہر مذہب میں قابل رشک سمجھا جاتا ہے مگر بیماری کا معاملہ اس کے برعکس ہے ۔دنیا کے دیگر مذاہب بیماری کو صرف آفت ومصیبت گردانتے ہیں جبکہ مذہب اسلام جہاں صحت کو نعمت قرار دیتا ہے وہاں بیماری کو بھی ایک طرح کی نعمت بتاتا ہے اور نہ صرف بیمار کے فضائل بیان کرتا ہے بلکہ بیمار کی عیادت کرنے کی اہمیت وفضیلت پربھی روشنی ڈالتا ہے نیزاس کی ترغیب وتحریص پر بھی ابھارتا ہے۔ ’فضلِ رب‘ کے پانچ حُرُوف کی نسبت سے بیماری کے فضائل پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے ارشادات:
{۱} بیشک اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے بندے کو بیماری میں مبتلا فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا ہر گناہ مٹادیتا ہے۔ (اَلْمُستَدرَک ج ۱ ص ۶۶۹ حدیث ۱۳۲۶)
{۲} جب مومن بیمار ہوتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے گناہوں سے ایسا پاک کردیتا ہے جیسے بھٹّی لوہے کے زنگ کو صاف کردیتی ہے۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب  ج۴ ص ۱۴۶ حدیث ۴۲)
{۳} جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کسی مسلمان کو جسمانی تکلیف میں مبتلا کرتا ہے تو فرشتے سے فرماتا ہے: ’’جو نیک عمل یہ تندرستی کی حا لت میں کیا کرتا تھا اس کے لئے وُہی لکھو۔‘‘ پھر اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے شفا عطا فرماتا ہے تو اس کے (گناہ) دھل جاتے ہیں اور وہ پاک ہوجاتا ہے اور اگر اس کی موت آجائے تو اس کی مغفرت فرمادی جاتی ہے اور اس پر رحم کیا جاتا ہے۔ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۴ ص ۲۹۷ حدیث ۱۲۵۰۵)
{۴} مریض کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت کے پتّے جھڑتے ہیں۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب  ج ۴ ص ۱۴۸ حدیث ۵۶)
{۵} اللہ تَعَالٰی فرماتا ہے: جب اپنے بندے کی آنکھیں لے لوں پھر وہ صبر کرے، تو آنکھوں کے بدلے اسے جنّت دوں گا۔ (بُخاری ج۴ص۶ حدیث ۵۶۵۳)
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مسلمان کو کوئی رنج ، دکھ ، فکر،تکلیف، اذیت اور غم پہنچتا ہے حتی کہ اسے کانٹا بھی چبھتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کے سبب اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح بخاری، ج۴،ص۳، الحدیث:۵۶۴۱) 
(2) بارگاہِ رسالت میں بخار کا ذکر کیا گیا تو ایک شخص نے بخار کو برا کہا ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخار کو برا نہ کہو کیونکہ وہ مومن کو گناہوں سے ایسے پاک کر دیتا ہے جیسے آگ لوہے کا میل صاف کردیتی ہے۔(سنن ابن ماجہ ، ج۴، ص۱۰۴، الحدیث: ۳۴۶۹) 
(3) بندے کے لئے علم الہٰی میں جب کوئی مرتبۂ کمال مقدر ہوتا ہے اور وہ اپنے عمل سے اس مرتبے کو نہیں پہنچتا تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم، مال یا اولاد پر کوئی مصیبت ڈالتا ہے پھر اس پر صبر عطا فرماتا ہی حتی کہ اسے اس مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے جو اس کے لئے علم الہٰی میں مقدر ہوچکا ہے۔ (مسند احمد ، ج۸، ص۳۱۴، الحدیث: ۲۲۴۰۱) 
(4) راہِ خدا میں قتل کے علاوہ سات شہادتیں اور ہیں: 
(۱) طاعون سے مرنے والا شہید ہے
(۲) ڈوب کر مرنے والا شہید ہے
(۳) نمونیہ سے مرنے والا شہید ہے 
(۴) پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے 
(۵) آگ میں جل جانے والا شہید ہے
(۶) عمارت کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے اور 
(۷) بچہ کی پیدائش کے وقت مرنے والی عورت شہید ہے۔ (موطأامام مالک، ج۱، ص۲۱۸، الحدیث :۵۶۳)
(5) جب بندہ تین دن بیمار ہوتا ہے تو گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (مجمع الزوائد، ج۳، ص۲۰، الحدیث:۳۷۶۴)
(6) مریض جب تک تندرست نہ ہوجائے اس کی دعا رد نہیں ہوتی ۔‘‘ (الترغیب والتر ھیب، ج ۴، ص ۱۶، الحدیث:۱۹)
(7) جب بندہ بیمار ہوتاہے یا سفر کرتا ہے تو جو عمل وہ تندرستی اور اقامت کی حالت میں کرتا ہے وہ عمل بھی اس کے لئے لکھا جاتا ہے۔  (صحیح بخاری، ج۲،ص۳۰۸، الحدیث: ۲۹۹۶)
بیمار ی میں صبر وشکرکی اہمیت:
حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’مریض کوچاہئے کہ موت کو کثرت سے یاد کرے، توبہ کرتے ہوئے موت کی تیاری کرے، ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرے، خوب گڑگڑا کر دعا کرے، عاجزی کا اظہار کرے، خالق ومالک جَلَّ جَلَالُہٗ سے مدد مانگنے کے ساتھ ساتھ علاج بھی کروائے، قوت وطاقت ملنے پراللہ تعالیٰ کا شکرادا کرے، شکوہ وشکایت نہ کرے، تیمارداری کرنے والوں کی عزت واحترام کرے، مگر ان سے مصافحہ نہ کرے۔ (رسائل امام غزالی، الادب فی الدین، ص۴۰۹) مصافحہ نہ کرنے کا اس لئے فرمایا تاکہ کمزور عقیدے والا یہ گمان نہ کرے کہ ایک مریض کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی ہے…  بیماری حقیقت میں روحانی بیماریوں کا بڑا زبردست علاج ہے بشرطیکہ آدمی مومن ہو اور سخت سے سخت بیماری میں صبر وشکر سے کام لے۔
(1) حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی بندہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دو فرشتے بھیجتا ہے اور ان سے فرماتا ہے: دیکھو یہ اپنی عیادت کرنے والوں سے کیا کہتا ہے؟‘‘
پھر اگر وہ مریض اپنی عیادت کے لئے آنے والوں کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرے (یعنی شکر ادا کرے) تو وہ فرشتے اس کی یہ بات بارگاہِ الہٰی میں عرض کردیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کا مجھ پر حق ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں اور اگر اسے شفا دوں تو اس کے گوشت کو بہتر گوشت سے بدل دوں اور اس کے گناہ مٹادوں۔ (موطا امام مالک، ج۲، ص ۴۲۹، الحدیث:۱۷۹۸)
(2) نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری عورت کی عیادت فرمائی اور اس سے پوچھا: کیسا محسوس کررہی ہو؟‘‘ اس نے عرض کی: ’’بہتر، مگر اس بخار نے مجھے تھکادیا ہے۔‘‘ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صبر کرو کیونکہ بخار آدمی کے گناہوں کو اس طرح دورکردیتا ہے جس طر ح بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کردیتی ہے۔‘‘ (الترغیب والترہیب، ج۴، ص۱۵۲، الحدیث: ۷۷)
مریض کے ساتھ حسن سلوک:
چونکہ مریض بیماری میں اپنی حالت وکیفیت پر نہیں رہتا۔ اس کی قوتیں کمزور پڑ جاتی ہیں ، مزاج وطبیعت میں تبدیلی آجاتی ہے، منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے اور کبھی کبھار چڑچڑا پن اسے گھیرلیتا ہے۔ لہٰذا ایسے وقت میں وہ انتہائی نرم سلوک کا مستحق ہوتا ہے۔ اس پر سختی نہ کی جائے اور کھانے وغیرہ کے معاملے میں اس کے ساتھ ضد نہ کی جائے بلکہ انتہائی محبت وپیارکے ساتھ اُسے اس کے اچھے یا برے کے بارے میں بتایا جائے۔ یہاں وہ روایات ذکر کی جاتی ہیں جن میں حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مریضوں کے ساتھ نرمی برتنے اور سختی نہ کرنے کا فرمایا ہے اور یہ کہ مریض کی حالت کا خیال رکھنا چاہئے: 
(1) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مریضوں کو کھانے پر مجبور نہ کرو کہ ان کو اﷲ تعالیٰ کھلاتا پلاتا ہے۔ (سنن ترمذی، ج۴، ص۵، الحدیث: ۲۰۴۷)
(2) ایک موقع پر یہ ارشاد فرمایا: جب مریض کھانے کی خواہش کرے تو اسے کھلادو۔ (سنن ابن ماجہ، ج۴، ص۸۹، الحدیث: ۳۴۴)
(3) حضرت اُم منذر بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے ہمراہ میرے یہاں تشریف لائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیماری سے ابھی ابھی  صحت یاب ہوئے تھے۔ مکان میں کھجور کے خوشے لٹک رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن میں سے کھجوریں تناول فرمائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھانا چاہا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا کہ تم ابھی کمزوروناتواں ہو۔ حضرت اُم منذر فرماتی ہیں: میں نے جو اور چقندر پکاکر پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اس میں سے کھائو، یہ تمہارے لیے نفع بخش ہے۔‘‘ 
(سنن ابوداؤد، ج۴، ص۵، الحدیث: ۳۸۵۶)  
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مریض کو پرہیز کرنا چاہیے جو چیزیں اس کے لیے مضر ہیں، ان سے بچنا چاہیے۔ 
دواء اوردم سے علاج:
بیماری خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو اس کا علاج جلد کرنا چاہیے کہ خدانخواستہ کہیں وہ بڑھ کر بڑے مرض میں تبدیل نہ ہوجائے اور بندہ حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی سے عاجز آجائے نیز اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی بیماری اتاری ہے تو ساتھ ہی اس کے لئے شفا بھی نازل فرمائی ہے (کما فی صحیح البخاری، ج۴، ص۱۶، الحدیث: ۵۶۷۸) …
علاج کی بھی دوصورتیں ہیں 
(۱) دوائوں سے علاج
(۲) دعائوں سے علاج یعنی تعویذات اور دم وغیرہ سے علاج جسے روحانی علاج بھی کہتے ہیں۔ دوا  سے علاج کرنا جائز ہے جبکہ یہ اعتقاد ہوکہ شافی (شفا دینے والا) اﷲ تعالیٰ ہے، اس نے دوا کو ازالہ مرض (مرض دور کرنے) کے لیے سبب بنادیا ہے اور اگر دوا ہی کو شفا دینے والا سمجھتا ہو تو ناجائز ہے۔ (فتاوی عالمگیری، ج۵،ص۳۵۴) … 
علاج جائز اور حلال اشیاء ہی سے کیا جائے کیونکہ حرام چیزوں کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرنا ناجائز ہے کہ حدیث میں ارشاد فرمایا:
’’جو چیزیں حرام ہیں ان میں ﷲ تعالیٰ نے شفا نہیں رکھی ہے۔‘‘(معجم کبیر، ج۲۳، ص۳۲۶، الحدیث:۷۴۹) …
بہت سے مریض جن کو تمام حکیموں اور ڈاکٹروں نے لاعلاج کہہ کر مایوس کردیا تھا لیکن جب ﷲ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ اور قرآن مجید کی مقدس آیتوں سے صحیح طریقے پر چارہ جوئی کی گئی تو دم زدن میں بڑے بڑے خوفناک اور بھیانک امراض اس طرح ختم ہوگئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے جبکہ وہ تعویذ جائز ہو یعنی آیاتِ قرآنیہ یا اسمائے الٰہیہ یا ادعیہ سے تعویذ کیا گیا ہو۔ جائز دم اور تعویذ کا ذکر احادیث میں بھی ہے۔ چنانچہ، حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: ہم جاہلیت میں جھاڑا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’میرے سامنے پیش کرو، جھاڑ پھونک میں حرج نہیں جب تک اس میں شرک نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، ص۱۲۰۷، الحدیث:۲۲۰۰)…
امام ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ روایت نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اپنے بالغ بچوں کو سوتے وقت یہ کلمات پڑھنے کی تلقین فرماتے:
بِسْمِ اللّٰہِ اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ وَشَرِّعِبَادِہِ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَحْضُرُوْنِ 
اور ان میں سے جو نابالغ ہوتے اور یاد نہ کرسکتے تو آپ رضی اللہ عنہ یہ کلمات لکھ کر ان کا تعویذ بچوں کے گلے میں ڈال دیتے۔ (مسند احمد ، ج۲، ص۶۰۰، الحدیث: ۶۷۰۸)…
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کو جائے اور سات بار یہ دعا پڑھے: 
أَسْأَ لُ اللہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ أَ نْ یَّشْفِیَکَ 
اگر موت کا وقت نہیں آگیا ہے تو اسے ضرورشفا ہوگی۔ (مشکوۃ المصابیح، ج۱، ص۲۹۸، الحدیث:۱۵۵۳) …
ارشاد نبوی ہے: صدقے کے ذریعے اپنے مریضوں کی دوا کرو۔ (معجم کبیر، ج۱۰، ص ۱۲۸، الحدیث:۱۰۱۹۶) …
عیادت کی اہمیت وفضیلت:
بیمار کی عیادت کرنا سنت ہے۔ سعادت ہے بلکہ اطاعت وعبادت ہے۔ چنانچہ 
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ارشاد فرماتے ہیں: 
مریضوں کی عیادت کیا کرواور جنازوں میں شرکت کیا کرو یہ تمہیں آخر ت کی یا د دلاتے رہیں گے۔ (مسند احمد، ج۴، ص ۴۷، الحدیث: ۱۱۱۸۰) 
(2) اللہ تعالیٰ بروزقیامت فرمائے گا:
اے ابن آدم! میں بیمار ہوا مگرتو نے میری عیادت نہیں کی۔
بندہ عرض کرے گا: میں تیری عیادت کیسے کرتا تو تو تمام جہانوں کا پروردگار ہے؟
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے، پھر بھی تو نے اس کی عیادت نہ کی؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (صحیح مسلم، ص۱۱۶۸، الحدیث: ۶۵۵۶)
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے اچھے طریقے سے وضو کیا اور ثواب کی امید پر اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کی اسے جہنم سے70 سال کے فاصلے تک دور کردیا جائے گا۔ 
(سنن ابی داؤد، ج۳ ، ص ۲۴۸، الحدیث: ۳۰۹۷) 
(4) جس نے مریض کی عیادت کی، جب تک وہ بیٹھ نہ جائے دریائے رحمت میں غو طے لگاتا رہتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میں ڈو ب جاتا ہے۔ (مسند احمد، ج۵، ص۳۰، الحدیث:۱۴۲۶۴)
(5) جو مسلمان صبح کو کسی مسلمان کی عیادت کو نکلتا ہے شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں اور جو شام کو مریض کی عیاد ت کرنے نکلتا ہے صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے جنت میں ایک باغ لگادیا جا تا ہے۔ (الترغیب والترہیب، ج۴، ص۱۶۴، الحدیث:۱۱)
عیادت کے آداب:
اگرکوئی عمل قرینے، تمیز اور طریقے سے نہ کیا جائے تو وہ ادھورا ونامکمل رہتا ہے۔ عیادت کے بھی کچھ آداب ہیں جن میں سے بعض یہاں بیان کئے جاتے ہیں:
(1)… عیادت کرنے والا اگر مرض کی سختی دیکھے تو مریض کے سامنے یہ ظاہر نہ کرے کہ تمہاری حالت خراب ہے بلکہ اس کے سامنے ایسی باتیں کرنی چاہیں جو اس کے دل کو اچھی لگیں۔ (کماورد فی سنن الترمذی، ج۴، ص۲۵، الحدیث: ۲۰۹۴)
(2)…مریض کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرنا چاہیے سوائے اس شخص کے کہ جس کے زیادہ دیر ٹھہرنے سے مریض کو خوشی حاصل ہو جبکہ کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔ حضورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عیادت اونٹنی کا دودھ دوہنے کے وقت کی مقدار برابر ہے۔‘‘ 
اور ایک روایت میں یوں ہے:
بیمار پرسی کا افضل طریقہ یہی ہے کہ بہت جلد مریض کے پاس سے اٹھ جائیں۔ (شعب الایمان، ج۶، ص۵۴۲، الحدیث:۹۲۲۱۔۹۲۲۲) 
اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
عیادت میں مریض کے پاس تھوڑی دیر بیٹھنا اور شور نہ کرنا سنت ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، ج۱، ص۳۰۳، الحدیث: ۱۵۸۹)
(3)…اگر کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو نیز مریض کی خود خواہش ہو تو اس کے سریا پیشانی پر ہاتھ رکھ کر عیادت کرے چنانچہ، حضورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مریض کی پوری عیادت یہ ہے کہ اس کی پیشانی یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پوچھے کہ مزاج کیسا ہے۔ (سنن ترمذی، ج۴، ص۳۳۴، الحدیث:۲۷۴)  
(4)…عیادت کرنے والے کو چاہیے کہ جہاں وہ مریض کے لئے دعا کرے وہیں مریض سے اپنے لئے بھی دعا کروائے۔ جیساکہ حدیث شریف میں ہے: جب تم بیمار کے پاس جائو تو اس سے اپنے لئے دعا کی درخواست کرو کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی مانند ہوتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ج۲، ص ۱۹۱، الحدیث ۱۴۴۱)
(5)…نیک لوگوں بالخصوص ان خوش نصیبوں کی عیادت ضرور کی جائے جو اللہ تعالیٰ کے گھروں کو شاد وآباد رکھتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مساجد کو آباد رکھنے والے نیک لوگوں بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادت کرنا فرشتوں کا طریقہ ہے۔ (مستدرک، ج۳، ص۱۶۲، الحدیث:۳۵۵۹)…
چند مسائل: (۱) فاسق کی عیادت بھی جائز ہے، کیونکہ عیادت حقوق اسلام سے ہے اور فاسق بھی مسلم ہے۔ (درمختارمع ردالمحتار، ج۹، ص۶۳۹)
(۲)  اگر کسی مریض کو ایذا پہنچے تو قرآن مجید بھی بلند آواز سے نہ پڑھاجائے ۔(غنیۃ المتملی، ص۴۹۸)
(۳) اگر جماعت کے لیے جانے سے مریض کو تکلیف ہوگی اور وہ گھبرائے گا تو اس کی تیمارداری کرنے والا جماعت ترک کرسکتا ہے۔ (درمختار، ج۲، ص۳۴۹)(۴) اگر معلوم ہے کہ عیادت کوجائے گا تو اس بیمار پر گراں گزرے گا ایسی حالت میں عیادت نہ کرے۔
بیماریوں سے حفاظت کی دعا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر یہ دعا پڑھ لے گا وہ اس مصیبت (بیماری) سے محفوظ رہے گا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا
(سنن ترمذی، ج۵، ص۲۷۲، الحدیث:۳۴۴۲)
بعض نادان بیماری میں نہایت بے جا کلمات بول اٹھتے ہیں اور بعض خدائے تعالیٰ کی جانب ظلم کی نسبت کرکے کفر تک پہنچ جاتے ہیں یہ ان کی انتہائی شقاوت اور دنیاو آخرت کی ہلاکت کا سبب ہے۔ بیماری پر کفریہ لفظ گناہ ہے، کلمات کفر کی چند مثالیں:
(۱) اللہ نے مجھ کو بیمار کرکے مجھ پر ظلم کیا ہے، 
اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے یہ کلمۂ کفر ہے، 
(۲) جو شخص مصیبت میں ہو اور بیمار ہو، یہ کہے اے اللہ تو نے مال لے لیا، فلاں چیز لے لی، اب کیا کرے گا یا اب کیا باقی رہ گیا ہے یا اب جان لے گا یہ قول کفر ہے۔
(۳) کسی مسکین اور بیمار نے اپنی محتاجی اور بیماری کو دیکھ کر یہ کہا یا اللہ میں بھی تیرا بندہ ہوں اور میں بیمار ہوں اور تیرا فلاں بندہ عیش و عشرت میں ہے، آخیر یہ کیا معاملہ ہے کیا یہی تیرا انصاف ہے ایسا کہنا کلمۂ کفر ہے۔
(۴) جو کہے اللہ نے مجھ مجبور کو بیمار کرکے اور پریشان کیا ہے (معاذ اللہ) یہ کلمۂ کفر ہے (فتاویٰ عالمگیری جلد 2؍ صفحہ 260)۔
وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ تَعَالٰی

Blessings of Illness
I’m glad and grateful that I am ill right now, and that times are hard. Does that sound crazy?
Aisha (may Allah be pleased with her) reported that the Messenger of Allah (pbuh) said, “For any adversity a Muslim suffers, Allah erases some of his sins, even though it may be no more than a thorn pricking him.” (Related by Al-Bukhari).

Another version of this Hadith is also related by Al-Bukhari on the authority of two of the Prophet’s (pbuh) companions, namely, Abu Saeed Al-Khudri and Abu Hurairah who quote him as saying: “Whatever befalls a Muslim of exhaustion, illness, worry, grief, nuisance or trouble, even though it may be no more than a prick of a thorn, earns him forgiveness by Allah of some of his sins.”

My father recently suffered a fall and broke his leg badly, and is now in a rehab center. In my personal life, two moves and one divorce in the last five years have made it hard to retain friendships, and I find myself feeling isolated. I’ve been through some painful personal experiences. And these are hard times economically as well. So there’s a lot of stress in the household.

I do my best to love my daughter more than ever, to play with her, hug and kiss her, and always remind her of Allah’s barakah. I try to make her world full of happiness, learning, and talks about Allah. I try to never let her see me sweat, as they say. But once she’s sound asleep in bed, I feel the weight of responsibility on my shoulders like a sack of stones.

So if by patiently enduring this illness and these hard times in general, I will earn Allah’s forgiveness for my sins, and maybe will be blessed in ways that I do not see, then I am grateful.

One more hadith: Jabir ibn Abdullah narrated that Allah’s Messenger salallahu alayhi wasallam said, “On the Day of Resurrection, when people who have suffered affliction are given their reward, those who are healthy will wish their skins had been cut to pieces with scissors when they were in the world.” (Al-Tirmidhi, 1570)

In other words, when people see how much reward is given to those who suffered in life, they will wish that they had suffered terribly, in the worst possible ways, so that it might become a cause of forgiveness for them in the Hereafter.

SubhanAllah, whatever pain we suffer in this life is not in vain. It is not wasted. We may cry and wince and groan over small pains, but Allah sees our suffering and will compensate us more than we can imagine, as long as we are patient and keep faith in Him. Allah the Most High has a plan for us, and He is the best of planners. We must have faith in Him and His plan for us.

Seeing the Good
Also, let us not be blind to the good things that have happened. I think this is very important. All too often we get caught up in our losses and dismiss some of Allah’s quiet gifts and blessings that have budded and opened up when we were hardly looking.

For example, I have always thought of myself as a writer at heart and have been happiest when I was pursuing that calling. When I was single I was obsessive about it. Even after a long day at work I would sit down in front of the computer in my little San Francisco loft, and write. After I got married and the responsibilities of family life fell on my shoulders I neglected my writing. Lately, however, I find myself writing daily and expressing ideas that have been growing in my heart for decades. The words flow as if they have been bottled under pressure, waiting for release. What a blessing!

In my teens I studied martial arts for some years. Life carried me in different directions and I stopped practicing but I still thought of myself as a martial artist, and kept meaning to get back into it. Finally in my late thirties I realized that my dream was passing me by. I got back into it and made a do-or-die commitment. Since then, with the moves from the Bay Area to Panama City to El Valle to Fresno, it’s been a struggle to find teachers and training partners, but I have persisted, in some cases creating my own training group out of scratch. For the last year and a half, partly as a way of dealing with loneliness and stress, I plunged myself into an intensive study of the arts.

Now I suddenly find myself entering this phase when my understanding of the arts is expanding like a tidal wave. I seem to have moved beyond rote memorization of techniques and I am able to spontaneously create combinations and visualize new possibilities. My balance is solid, my form is good. Basically, I have grasped the underlying principles of the arts and have moved beyond the 1-2-3 stage. I can finally call myself a martial artist.

That’s something I dreamed of all my life. And it came about because I was stressed!

What other secret blessings await me? What other lifelong dreams are quietly budding, getting ready to bloom?

Only Gratitude
That’s why the Messenger of Allah (pbuh) said, “How amazing is the case of the believer; there is good for him in everything, and this is only so for the believer. If he experiences something pleasant, he is thankful, and that is good for him; and if he comes across adversity, he is patient, and that is good for him.” [Muslim]

How amazing indeed! What a treasure trove of strength and mercy there is in this deen! Who can say that this is not a religion of hope?

Allah rewards the believer even for the pricking of a thorn. Who can deny that this is the attitude of a Compassionate God, One who understand us, sees our pain, cares about our suffering, and wants only good for us?

And what does Allah want in return? Only gratitude, and that our actions manifest that gratitude. Nothing more.

Allah says, “And [remember] when your Lord proclaimed, ‘If you are grateful, I will surely increase you [in favor]; but if you deny, indeed, My punishment is severe.’ “ [Surat Ibrahim 14:7]

Which brings us back to my opening statement. I am grateful and glad even for the hardships. I am aware of all of Allah’s favors, and when He says, “Then which of the favors of your Lord will you deny?” my response is, “I deny none of them, O Lord!”


No comments:

Post a Comment