غلاف کعبہ کا نِچلا حصّہ زمین سے 3 میٹر بلند کیوں کردیا؟
حرمین شریفین کے امور کی انتظامیہ کی جانب سے اتوار کے روز غلافِ کعبہ کے نچلے حصّے کو زمین سے تین میٹر بلند کردیا گیا۔ ساتھ ہی بلند کئے جانے والے حصّے کو چاروں طرف سے سفید سوتی کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا جس کا عرض دو میٹر کے قریب ہے۔
غلاف کعبہ یعنی "کِسوہ" سے متعلق کنگ عبدالعزیز کمپلیکس کے ڈائریکٹر جنرل احمد بن محمد المنصوری کے مطابق رواں برس 1439 ہجری میں بھی حج سیزن کے لئے انتظامیہ حسب معمول اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
کِسوہ کو زمین سے بلند کرنے کے اقدام کا مقصد غلاف کعبہ کی نظافت برقرار رکھنا اور اس کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ اس لئے کہ حج سیزن میں حجاج کرام کی ایک بڑی تعداد غلاف کعبہ کو چُھونے اور اس سے لپٹنے کی خواہش مند ہوتی ہے جس کے نتیجے میں غلاف کو کچھ نقصان بھی پہنچتا ہے۔
المنصوری نے باور کروایا کہ بعض حجاج کرام غلاف کعبہ کا کچھ حصّہ کاٹنے اور غلاف کعبہ سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کا یہ قدم غلط نظریات کا حامل ہے۔ اسی واسطے غلاف کو تین میٹر بلند کردیا جاتا ہے اور حج سیزن کے بعد اسے اپنی پرانی حالت پر کردیا جاتا ہے۔
المنصوری کا مزید کہنا تھا کہ کنگ عبدالعزیز کمپلیکس پورے سال غلاف کعبہ کی خصوصی دیکھ بھال کی ذمّے داری انجام دیتا ہے جس کی ہدایت خادم حرمین شریفین کی جانب سے دی گئی ہے۔
غلاف کعبہ یعنی "کِسوہ" سے متعلق کنگ عبدالعزیز کمپلیکس کے ڈائریکٹر جنرل احمد بن محمد المنصوری کے مطابق رواں برس 1439 ہجری میں بھی حج سیزن کے لئے انتظامیہ حسب معمول اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
کِسوہ کو زمین سے بلند کرنے کے اقدام کا مقصد غلاف کعبہ کی نظافت برقرار رکھنا اور اس کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ اس لئے کہ حج سیزن میں حجاج کرام کی ایک بڑی تعداد غلاف کعبہ کو چُھونے اور اس سے لپٹنے کی خواہش مند ہوتی ہے جس کے نتیجے میں غلاف کو کچھ نقصان بھی پہنچتا ہے۔
المنصوری نے باور کروایا کہ بعض حجاج کرام غلاف کعبہ کا کچھ حصّہ کاٹنے اور غلاف کعبہ سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کا یہ قدم غلط نظریات کا حامل ہے۔ اسی واسطے غلاف کو تین میٹر بلند کردیا جاتا ہے اور حج سیزن کے بعد اسے اپنی پرانی حالت پر کردیا جاتا ہے۔
المنصوری کا مزید کہنا تھا کہ کنگ عبدالعزیز کمپلیکس پورے سال غلاف کعبہ کی خصوصی دیکھ بھال کی ذمّے داری انجام دیتا ہے جس کی ہدایت خادم حرمین شریفین کی جانب سے دی گئی ہے۔
No comments:
Post a Comment