الطہور شطر الایمان
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین۔
الطہور شطر الایمان
پاکیزگی ایمان کا لازمی جزو ہے۔ (مشکوة شریف کتاب الطهارة)
الطہور شطر الایمان
پاکیزگی ایمان کا لازمی جزو ہے۔ (مشکوة شریف کتاب الطهارة)
نیت کا اخلاص (الله کی رضا چاہنا) أعمال کا اصل جوہر ہے جو حقیقت میں صفائی پاکیزگی کی ابتدا ہے۔ اور پائیدار تبدیلی ہمیشہ انسان کے اندر (دل کے پختہ ارادے) سے شروع ہوتی ہے۔کسی کام میں نیت کا خلوص(بسم اللہ پڑھنا) اور عمل صالح(اطاعت الھی) لازم و ملزوم ہے۔ بھلا نافرمانی کی ابتدا بسم اللہ سے کیسے ممکن ہے؟ ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنا ہی دراصل نیت کا اخلاص ہوتا ہے۔
انسانی فطرت طبعاً نجاست کو ناپسند کرتی ہے۔ رہن سہن کی جگہ ہو کھانا پینا ہو یا لباس، صفائی انسان کے دل کو بھاتی ہے.صاف ستھرا جسم،معطر لباس اپنے لیے تو باعث طمانیت ہوتا ہی ہے دوسروں کے لئےبھی خوشگواری کا باعث بنتا ہے۔انسان جس مقام پہ بھی اپنا وقت کم یا زیادہ گزارتا ہے .بس سٹاپ ، گھر ہو یا دفتر اپنے ماحول کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتا ہے.انسان کی کارکردگی پہ ماحول کے پراگندہ ہونے یا پرسکون ہونے سے واضح اثر پڑتا ہے۔
ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ اور تجربہ ہےکہ باسی کھانا ہو، میل کچیل پسینے کی بد بو والاجسم ہو، یا میلا لباس ہمیں پژمردگی کا احساس دلاتا ہےنہا دھو کر ستھرا لباس پہننے اور خوشبو لگانے سے طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ جسم اور لباس دونوں ہی ستھرے ہونا لازمی ہیں۔ گندے میلے بدبودار بدن پہ شاہی لباس بھی پہن لیا جایے تو طبیعت میں بشاشت نہیں آسکتی ، قیمتی عطر سے معطر لباس کے باوجود انسان اپنے بدن کے میل کچیل کو محسوس کرتا رہے گا۔ اسی طرح معطر پانی سے غسل بےکار ہے اگر گندا میلا بد بو دار لباس ہی پہننا ہے۔ بدن اور لباس دونوں صاف ستھرے ہونا لازمی ہے۔
مومن کی زندگی محض صاف ستھری نہیں ہوتی بلکہ پاک و صاف ہوتی ہے۔پاک ہونا، صاف ستھرے ہونے سے افضل تر ہے۔اور ایمان لانے کی شرائط میں شامل ہے۔ (والرجز فاھجر) عموماً انسان صفائی پسند ہوتے ہیں لیکن مومن کے لئے پاکیزگی فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی زندگی کے ہر سانس سے منسلک ہے۔ وقت کا کوئی لمحہ، زندگی کا کوئی پہلو اس پاکیزگی سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ مومن اور کافر و مشرک کے درمیان کلمہ توحید لا اله الله ہی پاکیزگی کی واحد کسوٹی ہے۔ الله تعالی کی نظر میں مشرک "نجس” ہے اگر چہ اس نے صفائی ستھرائی کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہوں۔ گویا کہ پاکیزگی باطن سے تعلق رکھتی ہے عقیدہ اور زندگی کا نظریہ شرک کی نجاست سے پاک ہو تو روح ہشاش بشاش ہوسکتی ہے۔ روح الله کا "امر” ہے۔ الله خود پاک ہے پاک چیزوں کو پسند فرماتا ہے اور اس کے سب اوامر و نواہی پاکیزگی کی طرف راہنمائ کرتے ہیں۔باطن کی پاکیزگی اخلاصِ نیت کے ساتھ مشروط ہے۔ افکار پاک ہوں گے تو اقوال بھی پاکیزہ ہوں گے اور انسان جو بولتا ہے وہی اس کے اعمال میں ڈھل جاتا ہے۔اور اعمال ہی کے عوض ہر انسان گروی رکھا ہوا ہے۔
(کل امری بما کسب رهین۔۔ الطور)
بدن اور لباس دونوں کا صاف ہونا برابر اہمیت رکھتا ہے تاکہ انسان کے مزاج پہ خوشگوار اثرات مرتب ہوں۔تن کی زینت اور پردہ پوشی لباس سے ہے۔اسی طرح ہمارا بدن روح کا لباس ہے۔ بدن اور روح کی پاکیزگی بھی لازم و ملزوم ہے۔۔۔ روح کی پاکیزگی مومن کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اسی طرح جیسے کہ بدن اور لباس دونوں کا پاکیزہ ہونا اہم ہے۔۔۔ اگر انسان کا بدن اور جسم میلا ہے پسینے سے بھیگا ہواتو ہے مگر ناپاک نہیں ہے روح پہ گناہوں کی میل نہیں ہے تو ایسا انسان مطمئن ہوگا اس لیے کہ اطمینان اور سکون روح کے اطمینان سے حاصل ہوتا ہے۔ اور روح کو الله رب العزت سے نسبت ہے( فنفخت فیه من روحی) اسی لئے قلب و روح کو الله تعالى کی یاد سے ہی قرار ملتا ہے
(الا بذکر الله تطمئن القلوب)
الله سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی محبت ان لوگوں کے لیے واجب کر دی جو پاک زندگی گزارتے اور رجوع الی الله کو اپنا شعار بناتے ہیں.
(ان الله یحب التوابين و یحب المتطهرین)
ظاہری نجاستیں پانی سے دور ہوتی ہیں،وضو، غسل سے انسانی جسم کا ہرعضو ناپاکی اور نجاست سے نجات حاصل کرلیتا ہے شرط یہ ہے کہ نیت محض صاف ستھرا ہونے کی نہ ہو بلکہ پاک و مطهر ہونے کی ہو۔ پاکی حاصل کرنے کے لیے پانی مطهر ہو جہاں وضو یا غسل کیا جا رہا ہو وہ جگہ پاک ہو صابن میں ناپاکی کا شبہ نہ ہو۔جو برتن استعمال ہوں وہ پاک ہوں۔ پھر بدن کو پاک کر کے اس کو جو لباس پہنایا جایے وہ پاک ہو۔غرض پاکیزگی مومن ہونے کی لازمی شرط ہے۔
انسان کا روحانی وجود تقوی سے منسلک ہے۔کافر، مشرک کا روحانی وجود بیمار، بے چین رہتا ہے۔ مادی وجود اگر چہ صحت کے تمام اصولوں پہ پورا اترتا ہو.اسی طرح مومن ومسلم کا روحانی وجود تقوی کے پیمانے کے لحاظ سے معتبر قرار پاتا ہے. (ان اکرمکم عند الله اتقاکم) جس طرح ظاہری بدن طبعی کمزوریاں رکھتا ہے،اور اس کو وضو اور غسل کی ضرورت پڑتی ہے؛ اسی طرح بشری کمزوریوں کی بناء پر روح کو بھی غسل اور وضو کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور جب تک روح کی نجاست دور نہ کی جایے مومن بے قرار رہتا ہے۔ انسان کا اصل جوہر اس کی روح ہے جیسے کہ لباس زندہ وجود کا خاصہ ہے اسی طرح زندہ بدن کا خاصہ اس کی روح ہے.روح بھی بیمار اور نا پاک ہو جاتی ہے۔اس کی بیماری کا علاج قرآن مجید ہے (فیه شفا ء للناس) اس کی نا پاکی وہ گناہ ہیں جو سرزد ہوتے رہتے ہیں۔کچھ گناہ کبیرہ ہیں کچھ صغیرہ کوئی حقوق العباد سےتعلق رکھتے ہیں کوئی حقوق الله سے۔۔۔ ان گناہوں کی نجاست سے نجات” توبہ النصوح” کے وضو اور رجوع الی اللہ کے غسل سے ملتی ہے۔ جب بدن اور لباس دونوں پاک صاف معطر ومطهر ہوں توطبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے۔۔۔
اپنی روح اپنے باطن کی نجاستوں سے ہم غافل کیوں ہیں؟ دن رات گناہوں کی نجاست روح کو ناپاک کرتی رہتی ہے۔ حسد، غیبت، جھوٹ، بہتان، چغلی سے روح کا وضو نہیں رہتا۔ہم نماز کے لیے ظاہری جسم کا تو وضو کر لیتے ہیں لیکن روح کے وضو کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا۔ نماز روح اور بدن کی عبادت ہے۔ روح کی نا پاکی بدن پہ اپنے برے اثرات کس طرح رکھتی ہے اس سے ہم غافل رہتے ہیں۔جس طرح گندے بدن کی بد بو سے لباس بھی متاثر ہوتا ہے اسی طرح گناہوں کی نجاست سے جسم پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ روح کی طہارت میں تاخیر زندگی کے آخری لمحات شروع کردے جب روح کے وضو اور غسل کا موقع نہ رہے گا ، جب قبر کے صندوق میں روح کا لباس (بدن) اہتمام سے دھونے (آخری غسل) کے بعد رکھ دیا جایے گا اور روح اپنے رب کے حضور حاضر کر دی جائے گی۔
اپنے اصل وجود (روح) کو توبہ و انابت کے وضو اور غسل سے پاکیزہ کرنے اور اعضاء و جوارح کو اعمال صالحہ سے مزین کرنے کی مہلت تیزی سےختم ہو رہی ہے۔ جب تک دونوں وجود پاک و مطهر نہ ہوں گے مال یا اعمال کی کوئی نیکی یا عبادت قبول نہ ہوگی، آخروی کامیابی بارگاہ الہی میں قبولیت کے ساتھ مشروط ہے۔
٭ ہر وضو اور غسل کرتے وقت اپنی روح کے وضو (صغیرہ گناہوں کی توبہ) اور غسل (کبیرہ گناہوں کی توبہ) کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ اس محاسبے کی مشق کرنا الله تعالى کی بارگاہ میں مکرم ہونے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
إن الله یحب التوابين و یحب المتطهرین۔
اللھم إنا نسئلک توبة النصوحًا قبل الموت و راحة بعد الموت و رفاقة الانبیاء فی الجنة الفردوس آمین۔
انسانی فطرت طبعاً نجاست کو ناپسند کرتی ہے۔ رہن سہن کی جگہ ہو کھانا پینا ہو یا لباس، صفائی انسان کے دل کو بھاتی ہے.صاف ستھرا جسم،معطر لباس اپنے لیے تو باعث طمانیت ہوتا ہی ہے دوسروں کے لئےبھی خوشگواری کا باعث بنتا ہے۔انسان جس مقام پہ بھی اپنا وقت کم یا زیادہ گزارتا ہے .بس سٹاپ ، گھر ہو یا دفتر اپنے ماحول کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتا ہے.انسان کی کارکردگی پہ ماحول کے پراگندہ ہونے یا پرسکون ہونے سے واضح اثر پڑتا ہے۔
ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ اور تجربہ ہےکہ باسی کھانا ہو، میل کچیل پسینے کی بد بو والاجسم ہو، یا میلا لباس ہمیں پژمردگی کا احساس دلاتا ہےنہا دھو کر ستھرا لباس پہننے اور خوشبو لگانے سے طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ جسم اور لباس دونوں ہی ستھرے ہونا لازمی ہیں۔ گندے میلے بدبودار بدن پہ شاہی لباس بھی پہن لیا جایے تو طبیعت میں بشاشت نہیں آسکتی ، قیمتی عطر سے معطر لباس کے باوجود انسان اپنے بدن کے میل کچیل کو محسوس کرتا رہے گا۔ اسی طرح معطر پانی سے غسل بےکار ہے اگر گندا میلا بد بو دار لباس ہی پہننا ہے۔ بدن اور لباس دونوں صاف ستھرے ہونا لازمی ہے۔
مومن کی زندگی محض صاف ستھری نہیں ہوتی بلکہ پاک و صاف ہوتی ہے۔پاک ہونا، صاف ستھرے ہونے سے افضل تر ہے۔اور ایمان لانے کی شرائط میں شامل ہے۔ (والرجز فاھجر) عموماً انسان صفائی پسند ہوتے ہیں لیکن مومن کے لئے پاکیزگی فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی زندگی کے ہر سانس سے منسلک ہے۔ وقت کا کوئی لمحہ، زندگی کا کوئی پہلو اس پاکیزگی سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ مومن اور کافر و مشرک کے درمیان کلمہ توحید لا اله الله ہی پاکیزگی کی واحد کسوٹی ہے۔ الله تعالی کی نظر میں مشرک "نجس” ہے اگر چہ اس نے صفائی ستھرائی کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہوں۔ گویا کہ پاکیزگی باطن سے تعلق رکھتی ہے عقیدہ اور زندگی کا نظریہ شرک کی نجاست سے پاک ہو تو روح ہشاش بشاش ہوسکتی ہے۔ روح الله کا "امر” ہے۔ الله خود پاک ہے پاک چیزوں کو پسند فرماتا ہے اور اس کے سب اوامر و نواہی پاکیزگی کی طرف راہنمائ کرتے ہیں۔باطن کی پاکیزگی اخلاصِ نیت کے ساتھ مشروط ہے۔ افکار پاک ہوں گے تو اقوال بھی پاکیزہ ہوں گے اور انسان جو بولتا ہے وہی اس کے اعمال میں ڈھل جاتا ہے۔اور اعمال ہی کے عوض ہر انسان گروی رکھا ہوا ہے۔
(کل امری بما کسب رهین۔۔ الطور)
بدن اور لباس دونوں کا صاف ہونا برابر اہمیت رکھتا ہے تاکہ انسان کے مزاج پہ خوشگوار اثرات مرتب ہوں۔تن کی زینت اور پردہ پوشی لباس سے ہے۔اسی طرح ہمارا بدن روح کا لباس ہے۔ بدن اور روح کی پاکیزگی بھی لازم و ملزوم ہے۔۔۔ روح کی پاکیزگی مومن کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اسی طرح جیسے کہ بدن اور لباس دونوں کا پاکیزہ ہونا اہم ہے۔۔۔ اگر انسان کا بدن اور جسم میلا ہے پسینے سے بھیگا ہواتو ہے مگر ناپاک نہیں ہے روح پہ گناہوں کی میل نہیں ہے تو ایسا انسان مطمئن ہوگا اس لیے کہ اطمینان اور سکون روح کے اطمینان سے حاصل ہوتا ہے۔ اور روح کو الله رب العزت سے نسبت ہے( فنفخت فیه من روحی) اسی لئے قلب و روح کو الله تعالى کی یاد سے ہی قرار ملتا ہے
(الا بذکر الله تطمئن القلوب)
الله سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی محبت ان لوگوں کے لیے واجب کر دی جو پاک زندگی گزارتے اور رجوع الی الله کو اپنا شعار بناتے ہیں.
(ان الله یحب التوابين و یحب المتطهرین)
ظاہری نجاستیں پانی سے دور ہوتی ہیں،وضو، غسل سے انسانی جسم کا ہرعضو ناپاکی اور نجاست سے نجات حاصل کرلیتا ہے شرط یہ ہے کہ نیت محض صاف ستھرا ہونے کی نہ ہو بلکہ پاک و مطهر ہونے کی ہو۔ پاکی حاصل کرنے کے لیے پانی مطهر ہو جہاں وضو یا غسل کیا جا رہا ہو وہ جگہ پاک ہو صابن میں ناپاکی کا شبہ نہ ہو۔جو برتن استعمال ہوں وہ پاک ہوں۔ پھر بدن کو پاک کر کے اس کو جو لباس پہنایا جایے وہ پاک ہو۔غرض پاکیزگی مومن ہونے کی لازمی شرط ہے۔
انسان کا روحانی وجود تقوی سے منسلک ہے۔کافر، مشرک کا روحانی وجود بیمار، بے چین رہتا ہے۔ مادی وجود اگر چہ صحت کے تمام اصولوں پہ پورا اترتا ہو.اسی طرح مومن ومسلم کا روحانی وجود تقوی کے پیمانے کے لحاظ سے معتبر قرار پاتا ہے. (ان اکرمکم عند الله اتقاکم) جس طرح ظاہری بدن طبعی کمزوریاں رکھتا ہے،اور اس کو وضو اور غسل کی ضرورت پڑتی ہے؛ اسی طرح بشری کمزوریوں کی بناء پر روح کو بھی غسل اور وضو کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور جب تک روح کی نجاست دور نہ کی جایے مومن بے قرار رہتا ہے۔ انسان کا اصل جوہر اس کی روح ہے جیسے کہ لباس زندہ وجود کا خاصہ ہے اسی طرح زندہ بدن کا خاصہ اس کی روح ہے.روح بھی بیمار اور نا پاک ہو جاتی ہے۔اس کی بیماری کا علاج قرآن مجید ہے (فیه شفا ء للناس) اس کی نا پاکی وہ گناہ ہیں جو سرزد ہوتے رہتے ہیں۔کچھ گناہ کبیرہ ہیں کچھ صغیرہ کوئی حقوق العباد سےتعلق رکھتے ہیں کوئی حقوق الله سے۔۔۔ ان گناہوں کی نجاست سے نجات” توبہ النصوح” کے وضو اور رجوع الی اللہ کے غسل سے ملتی ہے۔ جب بدن اور لباس دونوں پاک صاف معطر ومطهر ہوں توطبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے۔۔۔
اپنی روح اپنے باطن کی نجاستوں سے ہم غافل کیوں ہیں؟ دن رات گناہوں کی نجاست روح کو ناپاک کرتی رہتی ہے۔ حسد، غیبت، جھوٹ، بہتان، چغلی سے روح کا وضو نہیں رہتا۔ہم نماز کے لیے ظاہری جسم کا تو وضو کر لیتے ہیں لیکن روح کے وضو کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا۔ نماز روح اور بدن کی عبادت ہے۔ روح کی نا پاکی بدن پہ اپنے برے اثرات کس طرح رکھتی ہے اس سے ہم غافل رہتے ہیں۔جس طرح گندے بدن کی بد بو سے لباس بھی متاثر ہوتا ہے اسی طرح گناہوں کی نجاست سے جسم پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ روح کی طہارت میں تاخیر زندگی کے آخری لمحات شروع کردے جب روح کے وضو اور غسل کا موقع نہ رہے گا ، جب قبر کے صندوق میں روح کا لباس (بدن) اہتمام سے دھونے (آخری غسل) کے بعد رکھ دیا جایے گا اور روح اپنے رب کے حضور حاضر کر دی جائے گی۔
اپنے اصل وجود (روح) کو توبہ و انابت کے وضو اور غسل سے پاکیزہ کرنے اور اعضاء و جوارح کو اعمال صالحہ سے مزین کرنے کی مہلت تیزی سےختم ہو رہی ہے۔ جب تک دونوں وجود پاک و مطهر نہ ہوں گے مال یا اعمال کی کوئی نیکی یا عبادت قبول نہ ہوگی، آخروی کامیابی بارگاہ الہی میں قبولیت کے ساتھ مشروط ہے۔
٭ ہر وضو اور غسل کرتے وقت اپنی روح کے وضو (صغیرہ گناہوں کی توبہ) اور غسل (کبیرہ گناہوں کی توبہ) کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ اس محاسبے کی مشق کرنا الله تعالى کی بارگاہ میں مکرم ہونے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
إن الله یحب التوابين و یحب المتطهرین۔
اللھم إنا نسئلک توبة النصوحًا قبل الموت و راحة بعد الموت و رفاقة الانبیاء فی الجنة الفردوس آمین۔
No comments:
Post a Comment