Sunday 19 August 2018

قربانی کے ایام واوقات

قربانی کے ایام واوقات
قربانی کے صرف تین دن ہیں: 10 سے 12 ذی الحجہ غروب آفتاب تک۔
حضرت نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضى الله عنه نے فرمایا قربانی تو یوم الاضحی (یعنی دسویں ذوالحجہ کے دن ہے اور اس) کے بعد دو دن (اور) ہے۔
وَحَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ مَالِك عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ مِثْلُ ذَلِكَ ۔ موطأ مالك :1052
بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں مجھے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی ہی بات پہنچی ہے۔
ان تین دنوں میں رات ودن جب چاہے قربانی کرسکتاہے، لیکن اگر روشنی وغیرہ کا معقول نظم نہ ہو تو مطلوبہ رگوں کے کاٹنے میں احتمال خطا کی وجہ سے  رات کو ذبح کرنا بہتر نہیں ہے ۔
ان تین دنوں میں سب سے افضل بقرعید (10) کا دن ہے، پھر گیارہویں اور پھر بارہویں تاریخ ہے۔
جن لوگوں پہ بقرعید کی نماز واجب ہو ان کے لئے قربانی کے وقت کے بارے میں نبوی تعلیم وہدایت حضرت براء بن عازب سے ملاحظہ کریں:
وَعَنِ الْبَرَآءِ قَالَ خَطَبَنَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ اِنَّ اَوَّلَ مَا نَبْدَاُ بِہٖ فِیْ یومنا ھٰذَا اَنْ نُّصَلِّیَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ ذَالِکَ فَقَدْ اَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ اَنْ نُّصَلِّیَ فَاِنَّمَا ھُوَ شَاۃُ لَحْمٍ عَجَّلَہُ لِاَھْلِہٖ لَیسَ مِنَ النُّسُکِ فِیْ شَئٍ۔ (صحیح البخاری  940 ص: 334] باب كلام الإمام والناس في خطبة العيد وإذا سئل الإمام عن شيء وهو يخطب)
ترجمہ: "اور حضرت براء رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی ہیں سرتاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے یوم النحر (یعنی بقر عید کے دن) ہمارے سامنے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ "اس دن سب سے پہلا کام جو ہمیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم (عیدالاضحی کی) نماز پڑھیں پھر گھر واپس جائیں اور قربانی کریں، لہٰذا جس آدمی نے اس طرح عمل کیا (کہ قربانی سے پہلے نماز و خطبے سے فراغت حاصل کرلی) اس نے ہماری سنت کو اختیار کیا اور جس آدمی نے نماز سے پہلے قربانی کرلی وہ قربانی نہیں ہے بلکہ وہ گوشت والی بکری ہے جسے اس نے اپنے گھروالوں کے لئے جلدی ذبح کرلیا ہے۔)
اس حدیث سے واضح ہے کہ
جس بڑی آبادی میں عید کی نماز ہوتی ہے وہاں نماز عید الاضحی کے بعد ہی قربانی درست ہوگی اس سے پہلی کی جانے والی قربانی ثواب سے خالی ہوگی  (خطبہ کے بعد کرنا بہتر ہے) اور جہاں نماز عید جائز نہ ہو جیسے چھوٹے گاؤں ودیہات تو وہاں صبح صادق کے فوراً بعد سے قربانی درست ہے۔(طلوع آفتاب کے بعد کرنا بہتر ہے)
شہری ودیہاتی کے اوقات قربانی کے مابین فرق کو اس حدیث میں بھی واضح طریقے سے بیان کردیا گیا:
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاَۃِ فَلْیُعِدْ وَ مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاَۃِ فَقَدْ تَمَّ نُسُکُہٗ وَ أَصَابَ سُنَّۃَ الْمُسْلِمِیْنَ (صحیح البخاری، الأضاحی، باب سنۃ الأضحیۃ، ۲/۸۳۲، رقم: ۵۳۳۱، ف: ۵۵۴۶)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے (عید کی) نماز سے پہلے قربانی کی تو (اس کی قربانی نہیں ہوئی لہٰذا) وہ قربانی دوبارہ کرے اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی تو اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کے (قربانی کے) طریقہ پر عمل کیا۔
انہی احادیث کی بنیاد پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا خیال یہ ہے کہ شہری لوگ اگر شہر کی کسی بھی مسجد میں نماز بقرعید سے قبل قربانی کردیئے تو ان کی قربانی درست نہیں ، ہاں دیہات میں رہنے والوں کے لئے رخصت ہے کہ وہ دس تاریخ کی صبح صادق کے بعد ہی قربانی کرسکتے ہیں ۔
شہر میں متعدد جگہوں پر نماز عید ہونے کی صورت میں اگر کسی بھی ایک جگہ  نماز عید ادا ہوجائے تو اس شہر کے ان سارے لوگوں کے لئے قربانی جائز ہوجائے گی خواہ ابھی دوسری جگہ نمازنہیں ہوئی ہو،اور قربانی کرنے والے نے خود نماز ادانہ کی ہو:
واول وقتہا بعد فجر النحر… وآخرہ قبیل غروب الیوم الثالث۔ (ملتقی الابحر ۴؍۱۶۹) وقت الاضحیۃ یدخل بطلوع الفجر من یوم النحر الا انہ لا یجوز لاہل الامصار الذبح حتی یصلی الامام العید۔ (ہدایۃ ۴؍۴۲۹، درمختار زکریا ۹؍۴۶۰، کراچی ۶؍۳۱۸، بدائع الصنائع زکریا ۴؍۱۹۸، ہندیۃ ۵؍۲۹۵، )
والوقت المستحب للتضحیۃ في حق أہل السواد بعد طلوع الشمس۔ (ہندیۃ ۵؍۲۹۵)
ولو ضحی بعد ما صلی أہل المسجد ولم یصل أہل الجبانۃ أجزأہ استحسانا، لأنہا صلاۃ معتبرۃ حتی لو اکتفوا بہا أجزأتہم۔ (شامی، کراچی ۶/۳۱۸، زکریا ۹/۴۶۰، تبیین الحقائق زکریا دیوبند ۶/۴۷۷، امدادیہ ملتان ۶/۴، مجمع الأنہر، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۴/۱۷۰، البحر الرائق زکریا ۸/۳۲۲، کوئٹہ ۸/۱۷۵)
اگر کوئی شخص دوسرے ممالک سے قربانی کرائے اور وہاں اپنی قربانی کا کسی کو وکیل بنائے تو اب وقت کے سلسلے میں تو مقام ذبح وقربانی  کا اعتبار ہوگا ،قربانی کرنے والے کی جگہ کا نہیں '
علامہ حصکفی ؒ فرماتے ہیں : ’’والمعتبر مکان الأضحیۃ لامکان من علیہ‘‘ ( الدرالمختارمع الرد : ۹؍۴۶۱ ۔)
لیکن تاریخ میں قربانی کرانے والے شخص کے ملک کی تاریخ کا اعتبار ہوگا یعنی وہاں تاریخ قربانی باقی رہنا ضروری ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي
muftishakeelahmad@gmail.com
رابطہ نمبر: 
+5978836887

No comments:

Post a Comment