Wednesday 8 August 2018

مدارس نسواں کا نصاب تعلیم ناقابل انتفاع؛ نقد وتبصرہ اور حل

مدارس نسواں کا نصاب تعلیم ناقابل انتفاع؛ نقد وتبصرہ اور حل
برصغیر کے مسلمانوں میں مدارس نسواں قائم کرنے کارواج عام ہوتا جارہا ہے اور الحمدللہ امت مسلمہ اس بدعت حسنہ کے لئے خیرات بھی خوب دیتی ہے لیکن ہمارے ان مدارس نسواں کا نصاب تعلیم (syllabus) ناقابل انتفاع ہے۔ نصاب خواتین کی روح نسوانیت سے میل نہیں کھاتا۔ مدارس پر عائدکردہ الزامات میں سے ایک ان کاغیرنفع بخش ہوتا ہے۔یہ الزام مردانہ مدارس اسلامیہ کے حق میں تو بے بنیاد (Baseles) ہے مگر مدارس نسواں پر بالکل صحیح منطبق ہوتا ہے ہمارے مدارس نسواں اپنے غلط نصاب تعلیم کی وجہ سے یقینا غیرنفع بخش ہیں۔

موجودہ صورت حال یہ ہےکہ درس نظامی جو کہ روزاول ہی سے متنازع رہا ہے اور جس پر اعتراضات اور مشکل ترین ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں بعض جزوی ترمیمات کے ساتھ مدارس نسواں میں داخل کردیا گیا۔ یہ درس نظامی 8 سالہ نصاب تھا جس کو مدارس نسواں میں 5 سالہ کردیا گیا، دوسرے مشکل ترین سے ٓآسان ترین کرتے کرتے یہ نصاب اپنے بنیادی ڈھانچے میں سے بہت کچھ کھوچکا اور بہت کم پایا، تیسرے مسلسل حالت سفر میں رہنے والے اسی نصاب کو اس کی عمر اور جسم کم کرکے مدارس نسواں میں جاری کردیا گیا۔ سب سے زیادہ غلط بات یہ ہوئی کہ مدارس نسواں  کے نصاب کو متعین کرنے کے لئے ماہرین اسلامیات سے کوئی مشورہ نہی کیا گیا بس خانقاہوں میں مسند نشیں حضرات نے جو کہہ دیا اسی کو حرف آخر سمجھ لیا گیا؟؟؟کاش کہ تعلیمی امور کے ماہرین کی آراء سے استفادہ کیاگیاہوتا۔ سچائی تو یہ ہے کہ ملت اسلامیہ ایسا کوئی نصاب تعلیم تیار ہی نہیں کرپائی جو بیک وقت مسلمانوں کی مذہبی اور سماجی تقاضوں کو پورا کرسکے۔ مجھے حیرت ہے کہ خانہ پُری کی عادت کی وجہ سے قابل مطالعہ کتابوں کو داخل نصاب کردیاگیا۔

غلط منصوبہ بندی کا اثر یہ ہے کہ 14,15 سال کی بچی کے ہاتھ میں صحیح بخاری اور صحیح ترمذی آجاتی ہے۔ عربی ادب کی انتہائی اعلیٰ کتابیں مختارات اور التاریخ الادب العربی جیسی کتابیں فقط نام جپنے کے لئے دے دی جاتی ہیں۔ ہمارے ایک محترم دوست ہیں مولانا محمد عثمان (پ 19.12.1975) جنھوں نے کئی مدارس نسواں میں امتحانات لئے ہیں اور طالبات کی کاپیاں بھی چیک کی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ فارغ طالبات بھی ھٰذا کتاب اور ھٰذالکتاب کا ترجمہ، ترکیب نہیں کرسکتیں۔

دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ معلمات کی تحریر کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بچے نے تختی لکھنے کے بعد کاپیاں لکھنی شروع کی ہیں۔ پرچۂ سوالات میں اعراب کی اور اردو املا کی سخت غلطیاں تھیں۔ مولانا کے مطابق مدارس نسواں کی طالبات بہشتی زیور ٹھیک سے نہ پڑھ پاتی ہیں اور نہ ہی سمجھ پاتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب ہماری یہ بچیاں نہ تو اردو ڈھنگ سے پڑھ پاتی ہیں اور نہ لکھ پاتی ہیں تو ان کو براہ راست کچن سے عالمیت کے پہلے سال میں کیوں داخل کیا جاتا ہے؟؟؟

مولانا سے میں نے سوال کیاکہ آخر مدارس نسواں ہزار خامیوں کے باوجود کیوں اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہیں؟ انھوں نے بتلایا کہ دراصل ایک تو امت مسلمہ مدارس نسواں کے نام پر چندہ خوب دیتی ہے، دوسرے مدارس نسواں کے ذمہ داران طالبات کو 2,3 تقریریں رٹاکر عوام الناس سے ’’واہ واہی ‘‘ لوٹنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تیسرے عورتیں اپنے مخصوص ذہنی سانچے کی وجہ سے نتائج و عواقب پر زیادہ توجہ نہیں دیتی، عورتوں کی عادت خودنمائی Swank مزید بچیوں میں رخت سفر کا شوق پیدا کردیتی ہے۔

ایک اور ماہراور تجربہ کار استاد جناب عبدالمالک صاحب جامعی (پ 1.1.1987) نے مدارس نسواں سے فارغ دو طالبات پر اپنے تاثرات مندرجہ ذیل الفاظ میں بھیجے۔

توصیف القاسمی صاحب! ہماری بچیاں شوق و امید سے مدارس نسواں میں داخل ہوتی ہیں، تعلیم و تربیت سے نابلد والدین اپنےنرم ونازک جگرپاروں کو خدشات و فتن کے باوجود مصائب جھیلتے ہوئے زیورِ تعلیم سےآراستہ کرنے کے لیے مدارس نسواں میں بھیج دیتے ہیں لیکن وہاں پر ہماری ان بچیوں کو کیا پڑھایا لکھایا جارہا ہے، اس کی کسی کو کوئی پروا نہیں۔ ایک تو ہماری یہ بچیاں گھریلو ذمہ داریوں کی انجام دہی سے پہلوتہی کرنے لگتی ہیں، دوسرے مادری زبان اردو بھی اچھے سے نہ لکھ پاتی ہیں اور نہ سمجھ پاتی ہیں اور نہ ہی پڑھ پاتی ہیں جو چیزیں ان کو رٹوا دی جاتی ہیں وہی ان کو یاد ہے باقی تعلیمی اثرات ان کی زندگی میں بالکل نظر نہیں آتے۔ حتیٰ کہ توہم پرستی، ٹوٹکا، جادو ٹونا جیسے غیرایمانی خیالات Conception بھی ان فارغ طالبات کے ذہن و دماغ کا حصہ بدستور باقی رہتے ہیں۔ عالمہ کورس کی اسناد کے حصول کے بعد بھی القرأۃ الواضحہ کی عبارت نہیں پڑھ سکتیں۔ ایک طالبہ کے بقول مدارس نسواں میں تمام تر طاقت و توجہ دوران گفتگو، مہذب الفاظ استعمال کرنے پر دی جاتی ہے یا چند تقاریر رٹانے پر، باقی کچھ بھی نہیں۔

ایک اور طالبہ مدارس نسواں میں اپنے قیمتی لمحات کی بربادی پر آنسو بہاتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ اگر ہم بھی اسکول و کالج پڑھ لیتیں تو B.A., M.A. وغیرہ کرلیتیں۔

حرمِ اسلامی کی یہ عفیفات جس دن ان مدارس نسواں کو لایعنی اور زمانے سے متصادم سمجھ کر سیکولر درس گاہوں کا رُخ کرلیں گی تو اُس دن اُمت مسلمہ کے پاس ذہنی و عملی ارتداد کا مقابلہ کرنے والا یہ آخری ترکش بھی خالی ہوچکا ہوگا اور اِس آخری چٹان کو منہدم کرنے کی تمام تر ذمہ داری اُن علماء پر ہوگی جو طرزِ کُہن پر ہی اڑے رہنے کو اسلام سمجھتے ہیں، جو روایت پرستی میں ہی راہ نجات سمجھتے ہیں، جو ہر نئی چیز کے خلاف فتوے بازی کرتے ہیں۔

مدارس نسواں کی تعلیمی پسماندگی Backwardness اور ابتر صورت حال کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ مدارس نسواں کے اکثر و بیشتر ذمہ داران کوئی صاحب کمال اور ماہرین فن حضرات نہیں ہیں اکثر یا تو قرأء حضرات ہیں یا چندے کے ماہرین ہیں یا دینی ذہن رکھنے والے عوام کی کمیٹیاں ہیں، یہ تینوں ہی طبقے دنیائے علم و آگہی کے نشیب و فراز Pros and Coins سے ناواقف ہیں۔ راقم نے بذات خود 6 مدارس نسواں کے ذمہ داران پر غورو خوض کیا تو ان میں سے صرف ایک باکمال عالم دین تھے۔ انتہائی احساس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ان کے خیالات و احساسات Sensations پر امت کے مستقبل سے زیادہ کنبہ پروری (Nepotism) کی چھاپ تھی جب حالت یہ ہوتو نصاب کو مرتب کرنے کے پیچیدہ مراحل کا جوکھم Veture کون اٹھائے؟

نصاب کی تیاری میں سب سے زیادہ قابل لحاظ بات یہ ہوتی ہے کہ اس نصاب سے کس فکرو ذہن کے افراد تیار کرنے ہیں۔ خواتین اسلام کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امت کو ضرورت ہے ایسی خواتین کی جواسلامی فکرو عمل سے شرسار ہوں، اسلامی نظام عبادت و اخلاق سے مطمئن ہوں اور بحیثیت عورت کے جو ان کی جو فطری اور مذہبی ذمہ داری ہے یعنی امور خانہ داری ، تربیت اطفال، فرائض زوجیت کی ادائیگی ان چیزوں کی جانکار بھی ہو اور بحسن وخوبی انجام دہندہ بھی ہو۔

مذکورہ مقاصد بچیوں کی مادری زبان ہی میں حل ہوسکتے ہیں، اس لئے میرا مشورہ ہےکہ مدارس نسواں مکمل طورپر اردو میڈیم ہونے چاہئیں، قرآن کریم مع تجوید پارہ عم اور مخصوص سورتیں حفظ ہونی چاہئے۔

خواتین پر لکھی ہوئی علماء اسلام کی شاندار کتابیں داخل نصاب ہونی چاہئے اور مفتی تقی عثمانی صاحب کا ترجمۂ قرآن کریم، سیرت پر کم از کم تین کتابیں داخل درس ہونی چاہئے، وہ احادیث جن کا تعلق کسی نہ کسی پہلو سے خواتین سے ہے، ان کو بھی داخل نصاب ہونا چاپئے۔ روزمرّہ کے بنیادی اور ضروری مسائل فقہیہ، حساب و کتاب، ہندی، انگلش وغیرہ جزو نصاب ہونی چاہیے، امورخانہ داری سے متعلق کتابیں داخل درس ہونی چاہیے مثلاً تربیت اطفال کے احکام و فضائل، اسلامی عائلی نظام زندگی کے فضائل و مسائل اسی طرح کپڑا سلائی، ڈیزائننگ، پھول کڑھائی، مختلف پکوان کی ڈشیں تیار کرنا، مختلف پھلوں اور سبزیوں سے اچار تیار کرنا یہ سب کچھ اردو زبان ہی میں داخل نصاب ہونا چاہئے۔ اگر ہمارے مدارس نسواں کے ذمہ داران اس نہج پر غورو فکر کرنے کے بعد نصاب مرتب کریں تو نہ صرف مسلمانوں کی خاندانی نظام زندگی مضبوط سے مضبوط تر ہوگی بلکہ فروغ اردو زبان کی بھی ناقابل تسخیر خدمت ہوگی اور نسل نو میں ذہنی اور فکری ارتداد کی جڑیں ختم ہوجائیں گی۔

مدارس نسواں کی ایک اہم ذمہ داری اور بھی ہے، یقینی طورپر یہ ذمہ داری انتہائی اہم ہے اور وہ یہ کہ دیگر مذاہب کی مبلغات یا تہذیب جدید کی ترجمان خواتین سے مقابلہ کرنا ۔

مدارس نسواں کو ایسی اسلامی خواتین تیار کرنی ہیں جو اسلام کا حقیقی اور غیرمسلکی تعارف کروائیں اور بوقت ضرورت دیگر مذاہب کی مبلغات کا منہ توڑ جواب دے سکیں، اسی طرح ’’تہذیب جدید‘‘ کے خدوخال Uneven اور اس کے افکار و نظریات اور تباہ کن نتائج پر زوردار چوٹ کریں اور اس کے مقابلے میں اسلامی نقطۂ نگاہ کو واضح کرسکیں۔ مذکورہ ’’مقصد‘‘ انتہائی اعلیٰ قسم کی تعلیم کے بغیر نہیں ہوسکتا، ہماری وہ بچیاں جو یونیورسٹیز اور کالجز میں اعلیٰ قسم کی تعلیم حاصل کررہی ہیں اور اسلام کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہیں، ایسی مسلم طالبات کے لیے مسلم مفکرین و دانشوران اور علمائے اسلام کو مدارس نسواں کے لیے الگ سے نصاب مرتب کرنا چاہیے جس میں اسلامی نظریات و عقائد، احکام اسلامی مع علل و حکم کا تفصیلی مواد جمع ہو اور چونکہ اس نصاب سے تیار شدہ خواتین کا مقابلہ دیگر مذاہب کی مبلغات سے ہے جن کی زبان انگریزی ہے، اس لئے اس نصاب میں اعلیٰ قسم کی انگریزی زبان و ادب کی تعلیم کا سسٹم ہونا بہت ضروری ہے۔ انگریزی زبان وادب کے بغیر ہماری یہ خواتین گونگی داعیات اسلامی شمار ہوں گی۔

تحریر: توصیف القاسمیؔ، پیراگپوری، سہارن پور
موبائل نمبر 8860931450:
........
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2152850978261235&id=1569219773291028

No comments:

Post a Comment