میرا پہلا سفرِ حج
آج عازمین حج بیت اللہ کو جو سہولتیں حاصل ہیں انہیں آج سے چالیس سال قبل سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ ابھی ہندستان سے بحری جہازوں پر سفر کا سلسلہ جاری تھا، اس زمانے میں انٹرنیشل پاسپورٹ پر ٹورسٹ ایجنسیوں سے سفر کی سہولت شروع نہیں ہوئی تھی۔ صرف قرعہ اندازی کے ذریعہ ہی سفرحج ممکن ہوا کرتا تھا، اس زمانے میں ممبئی کا حاجی صابو صدیق مسافر خانہ، عازمین حج بیت اللہ کی آماجگاہ تھی، وہاں آکر ہندستان بھر کے عازمین حج ٹکٹ بنوانے کے لئے آکر کبھی ہفتوں ڈیرہ ڈالتے، اسی دور میں بھٹکل کے الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمہ کو ان عازمین حج بیت اللہ کی خدمت کا موقع ملا۔ آپ کو ۱۹۴۹ء سے ۱۹۸۰ ء کے اوائل تک تقریبا پینتیس سال خدمت کا موقع ملا، یہاں سے آپ نے مولانا قاضی اطہر مبارکپوری علیہ الرحمۃ کی رفاقت میں ماہنامہ البلاغ جاری کیا۔ اس طویل عرصہ میں پانی جہازوں پر آپ کو امیر الججاج کا منصب مرحمت ہوتا، آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی علیہ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمہ، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمۃ جیسے اکابرین وقت کے اسفار حج میں امیرالحج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1986 ء میں اس ناچیز نے ڈھائی گھنٹے پر مشتمل آپ کے دو ویڈیو انٹرویو مقامی زبان نوائط میں محفوظ کئے تھے، جنہیں آب بیتی کی شکل میں مرتب کیا گیا تھا۔
الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمہ |
یہ آب بیتی بڑی ہی دلچسپ ہے۔ اس میں سے حج بیت اللہ کی مناسب سے ایک حصہ پیش خدمت ہے، امید کہ پسند آئے گا:
میرا پہلا سفرِ حج
۱۹۵۱ء میں بمبئی شدید فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں تھا، شہر میں سخت کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔ اس دوران حج کا موسم آگیا۔ انجمن خدام النبی ؐ کے حاجیوں میں کپڑوں وغیرہ کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا۔ ہم لوگ دن رات ان کی خدمت میں لگ گئے۔ ان دنوں حاجی احمد غریب سیٹھ، انجمن خدام النبی ؐ کے جنرل سکریٹری تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ثروت ودولت سے مالامال کیا تھا۔ انہوں نے اپنی عمر عزیز حاجیوں کی خدمت کرتے گذار دی۔ میرے کام سے وہ بہت خوش تھے۔ اسی دوران انجمن خدام النبی ؐ نے فیصلہ کیا کہ ہندوستانی حاجیوں میں راشن کی تقسیم کے لئے تین افراد کو مکہ مکرمہ بھیجا جائے۔ آپ نے مجھ سے دریافت کیا کہ مکہ کی سخت دھوپ اور گرمی میں راشن کے بورے اٹھانے پڑیں گے۔ بڑی تکلیفیں برداشت کرنی ہونگی۔ کیا تم اس کام پر جانے کے لئے تیار ہو؟ میں نے کہا "نورعلیٰ نور". انہوں نے پھر کہا کہ راشن کی تھیلیاں تم سے اٹھائی نہیں جائیں گی۔ میں نے جواب دیا: ایک مرتبہ مجھے حج بیت اللہ پر بھیج کر تو دیکھیں باقی مجھ پر چھوڑدیں۔ بالآخر میرے نام کا قرعۂ فال نکلا اور احمد غریب مرحوم نے مزید دو ساتھیوں کی رفاقت میں مجھے حج بیت اللہ پر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔
خداکی شان دیکھئے، یہ سب اتنی عجلت میں ہوا کہ سفرِ حج سے قبل وطن جاکر اہلِ وعیال سے ملنے کی بھی فرصت نہ ملی۔ مجبوراً والدہ سے ٹیلگرام کے ذریعہ اجازت طلب کرنی پڑی کہ زندگی میں ایک سنہرا موقع نصیب ہوا ہے۔ اس وقت مجھے احمد جانی کی بات باربار یاد آئی کہ منیری! محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرنا جلدی بلاوا آئے گا۔ اور سچ مچ بلاوا آگیا۔ یہ خبر سن کر احمد جانی میرے پاس آئے، پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے: میں نے نہیں کہا تھا تمھارا جلد بلاوا آئے گا۔ دیکھو، بلاوا آہی گیا، خدمت بھی کرو، عبادت بھی کرو۔
سفرِ حج پر جب روانہ ہوا تو عالم یہ تھا کہ مکہ مکرمہ میں اس شدت کی گرمی پڑی ہوئی تھی کہ برداشت سے باہر تھی۔ جدہ سے سیکڑوں راشن کی بوریاں آتیں، جن پر حاجیوں کے نمبر درج ہوتے، اس ڈھیر میں سے حاجیوں کی بوریاں نمبروں کے مطابق تلاش کرکے نکالی جاتیں۔ اس دوران حاجیوں کی صلواتیں سننے کو ملتیں کہ گھنٹہ گذر گیا، اتنی دیر ہوگئی، تم کام کرتے ہوکہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض نادان و بے سمجھ تو گالیوں کی بوچھار شروع کردیتے۔ مجھے وہ واقعہ اب بھی یاد ہے کہ ایک حیدرآبادی حاجی اپنی اناج کی بوری لینے کے لئے احرام کی حالت میں میرے پاس آئے تھے۔ ان کے نمبر کی بوری ادھر ادھر ہونے کی وجہ سے تلاش میں جو دیری ہوئی تو انہوں نے مجھے ایسی ایسی گالیاں دینی شروع کیں کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں ان کے قدموں پر گرگیا اور ان کا احرام پکڑکر التجا کی کہ حاجی صاحب آپ اتنا سارا خرچ کرکے تکلیفیں اٹھاکر بیت اللہ کے پاس آئے ہیں۔ آپ کی بوری تو دیر سویر مل ہی جائے گی لیکن گالیاں دے کر اپنا یہ حج ضائع نہ کیجئے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ: ’’فَلارَفَثَ وَلا فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فیِ الحَج‘‘ اگر دورانِ حج اس قسم کا بڑا عمل سرزد ہوا تو ساراحج برباد ہوجائے گا۔ مگر وہ کہاں سننے والے تھے۔ حالتِ احرام میں گالیوں کی بھرمار سے اپنے سارے حج کا ستیاناس کردیا اور اگلے روز آکر معافی تلافی کرنے لگے۔
پہلے حج کے دوران دل پر عجیب کیفیت طاری تھی۔ ایک طرف جسم جھلسادینے والی گرمی۔ اس پر اناج کے بورے پیٹھ پر لادکر ادھر ادھر لے جانے کی محنت۔ کوئی اور ہوتو اپنے ہوش وحواس کھودے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے سب راہیں آسان کردیں، تمام مصائب ومشکلات سے پار کردیا۔
اسی دوران ہم لوگوں نے فیصلہ کیاکہ حاجیوں میں مفت برف تقسیم کی جائے۔ احمد غریب اور ان کے خاندان والوں نے منیٰ و عرفات میں وسیع و عریض مکانات رہائش کے لئے کرایہ پر لے لئے تھے۔ مرحوم کو حج کے میدان میں بڑا تجربہ حاصل تھا۔ وہ بڑے ہی نیک جذبات کے مالک انسان تھے۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد انہوں نے برف حاصل کی اور ڈھیر سارا برف اپنی رہائش گاہ پرجمع کردیا۔ اور ہم لوگ اس کی تقسیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اکیلے احمد غریب نے سارا خرچ برداشت کیا۔
برف کی اس مفت تقسیم کرتے دوچار روز ہی گذرے تھے کہ ایک دن شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز جو ابھی سعودی عرب کے فرمانروا نہیں بنے تھے، اچانک ایک کارمیں آکر ہمارے ڈیرے پر رک گئے۔ انہوں نے ہمیں طلب کیا ۔ احمدغریب اور میں ان کے نزدیک گئے ۔ انہوں نے دریافت کیا کہ برف کی یہ تقسیم کس کی طرف سے ہورہی ہے؟ ہم نے بتایا کہ گرمی کی شدت سے حاجی مررہے ہیں، انہیں تھوڑا ساہی سہی آسرا ملے، اس غرض سے ہندوستانی حاجیوں کی خدمت کے لئے قائم تنظیم ’’انجمن خدام النبیؐ‘‘ نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ ہماری یہ بات سن کر شہزادہ فیصل بہت خوش ہوئے۔ ہمیں ڈھیر ساری مبارکباددی اور فوراً ہی مکہ جاکر اعلان کردیا کہ تمام برف کے کارخانہ دار اپنا اپنا تیار کردہ پورے کا پورا برف منٰی بھیج دیں اور مختلف مراکز قائم کرکے اسے حاجیوں میں تقسیم کریں۔
آج حاجیوں کو جو سہولیات مہیا ہیں اس زمانے میں نہ تھی۔ گرمی کی شدت ناقابل برداشت تھی۔ اس وقت کی پریشانیاں بیان سے باہر ہیں۔ باوجود اس کے ہم شب وروز منٰی و عرفات میں حاجیوں کی خدمت کرتے رہے۔ احمد غریب ان کے بھائی مولوی احمد عبداللہ اور ان کے بعض دوست واحباب خدمت کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ ہم سب نے آپس میں ایک دوسرے سے کہہ دیا تھا کہ خدا ہی ہمیں یہاں سے زندہ سلامت وطن واپس پہنچا سکتا ہے، ورنہ حالات ایسے نہیں کہ یہاں سے زندہ بچ سکیں۔ ہماری زبانوں پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری رکھ کر حاجیوں کی ضروریات معلوم کرنے کے لئے کیمپوں کی طرف ہم نکل پڑتے۔
وہ واقعہ تو اب بھی میرے ذہن میں تازہ ہے جب ہم قربانی دے کر اپنی رہائش گاہ کی جانب لوٹ رہے تھے، ابھی پاؤ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا باقی تھا۔ مجھ پر چلتے چلتے غشی طاری ہونے لگی۔ ٹیکسی وغیرہ کوئی سواری نہیں مل رہی تھی، آج کے دور میں نہیں، اس سستے دور میں بڑی مشکل سے ایک ٹیکسی ملی۔ ڈرائیور نے پاؤ کلومیٹر کے چالیس ریال طلب کئے۔ ایک قدم بڑھانے کی طاقت ہم میں نہ تھی۔ احمد غریب نے ہدایت کی کہ جتنے کی بھی گنجائش ہو لوگ سوار ہوجائیں۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ابھی رہائش گاہ میں قدم رکھتے ہی سب بے ہوش ہوکر پڑگئے۔ یہ خداکا فضل ہی تھا کہ سبھی زندہ بچ گئے۔
جب ہم منٰی میں تھے، نمازِ فجر کے بعد حیدرآباد کے معلم بدرالدین نے میرا ہاتھ پکڑکر کہا۔ منیری صاحب! اس وقت اللہ تعالیٰ کا کچھ جلال معلوم ہوتا ہے، شام تک ہمارا کیا حال ہوگا کچھ معلوم نہیں۔ وقت جوں جوں گذرتا گیا گرمی کی شدت اور پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ جان کر تمہیں حیرت ہوکہ جوان جوڑے چلتے چلتے بیٹھ گئے، پھر انہیں اٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ لیٹتے ہی سانس نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اسپتال میں ہزاروں لوگ پانی کے ٹبوں میں پڑے ہوئے تھے، کسی کے کان میں پانی ڈالا جارہا تھا کسی کے منھ سے جھاگ اٹھ رہی ہے اور بہت سے اپنے رب کو جواب دے چکے ہیں۔
اس سال بھٹکل سے چار افراد شیکرے صائبو، کے یم باشا، ان کی والدہ اور حافظ کا کے والد فریضہ حج انجام دے رہے تھے۔ ان کا کیمپ ہمارے میمن حضرات کے کیمپ سے قریب تھا۔ ہمارے معلم سید سراج ولی تھے۔ اتفاقاً ایک روز دوپہر کے وقت ان کی رہائش گاہ پر جانا ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حافظکا کے والد پر لُو لگنے کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں، کے یم باشا حسرت سے کہنے لگے، منیری! برف کا کہیں سے انتظام ہوجاتا تو کتنا اچھا تھا۔ کہیں سے بھی برف کا کوئی ٹکڑا نہیں مل رہا ہے۔
ہمارے میمن ساتھی بڑے ہوشیار تھے۔ یہاں پر ان کی دکانیں بھی تھیں، انہیں حج کا بڑا تجربہ تھا۔ انہوں نے برف کی دوسلیں عرفات میں حفاطت سے لاکر رکھیں تھیں۔ جعفر سیٹھ کے بھائی محمد سیٹھ سے میں نے گذارش کی کہ ہمارا ایک شخص بے ہوش پڑا ہوا ہے۔ مہربانی فرماکر برف کا کوئی ٹکڑا دے دیں۔ ۔ ۔ ارے منیری! ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کے لئے یہ ہم لائے ہیں۔ تم بولتے ہوتو ایک چھوٹاسا ٹکڑا لے جاؤ۔ ۔ ۔ ان کے اس جواب سے میری جان میں جان آئی۔ برف کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لے کر کیمپ گیا اور حافظکا کے والد کے سرہانے بیٹھ کر اسے سینکتا رہا۔ برف کا چھوٹا سا ٹکڑا پانی میں گھول کر انہیں پلاتا رہا۔ اس وقت برف کے اس ننھے سے ٹکڑے کی جو قدرو قیمت تھی موجودہ دورمیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اب تو برف کی بہتات ہے قدم قدم پر ملتی ہے۔ اس زمانے میں عرفات میں کہیں برف کانام و نشان نہیں تھا۔ لوگ گرمی سے تڑپتے تھے، ٹھنڈے پانی کے ایک گلاس کے دام دینا ان کے بس سے باہر ہوتا تھا۔ ایسے عالم میں ان حضرات نے ہماری مدد کی۔ ایک دو گھنٹے برف سینکنے کے بعد حافظکا کے والد کو ذرا ہوش آیا۔ انہوں نے اپنا حج پوراکیا اور مزید پندرہ بیس سال زندگی گزارکر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔
اس سفرِ حج سے قبل ہمیں لُو لگنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، نہ ہی احتیاطی تدابیر کا ہمیں علم تھا۔ البتہ منٰی و عرفات کے بدؤوں کی زبانی سنتے تھے کہ لُو لگنے پر پیاز ہاتھ میں رکھنی چاہئے، اس کا رس لُو زدہ شخص کے کانوں میں گھولنا اور سر پرمَلنا چاہئے۔ احمد غریب نے احتیاط کے تحت دو تین پیاز کے بورے بحفاظت رکھ لئے تھے۔ اب تو بازاروں میں بہت ساری دوائیاں دستیاب ہورہی ہیں، اس زمانے میں یہ سب کچھ نہیں تھا۔
میرا پہلا حج شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے دور حکومت میں ہوا تھا۔ مکہ معظمہ میں حرم شریف کی عمارتیں ابھی ترکی دور ہی کی پرانی چلی آرہی تھیں، خوشحالی کا دور ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ سعودی حکومت کو پیسوں کی بہت ضرورت تھی، تمام ملکوں میں اس کے نمائندے اور دلال پائے جاتے تھے، جو حاجیوں کو لاتے۔ ہر حاجی پر ۳۷۴ روپے کا ٹیکس لگتا، جوا نہی ملکوں میں ادا کیا جاتا۔ ٹکٹ کے ہزار ڈیڑھ ہزار روپے الگ سے لگتے۔ معمولی ٹکٹ آٹھ سو روپے میں آتا تھا۔ غریب لوگ حج کے شوق میں بھیک مانگ مانگ کر سفر پر نکلتے۔ کچھ عرصہ بعد حکومت ہند نے ہر حاجی کو اپنے ساتھ دوہزار روپے نقد اور ڈرافٹ کی شکل میں دو ہزار روپے لے جانے کی چھوٹ دے دی۔ اور سفرِ حج پر سہولتوں کے مختلف دور آئے۔
اس سفر میں ہمیں بڑی مصیبتوں اور مشقتوں سے گذرنا پڑا۔ زندہ واپسی کی امید نہ تھی۔ لیکن خدانے اپنی امان میں رکھا اور آج انتالیس سال بعد بھی آپ کے سامنے صحیح سالم موجود ہوں۔ اس سفر کی کچھ تصویریں انجمن خدام النبی ؐ کے بمبئی آفس میں موجود ہونگی، جن سے حاجیوں کی اس وقت کی حالتِ زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح خدا خدا کرکے میرا پہلا سفرِ حج تمام ہوا۔ اور انجمن خدام البنی ؐ میں حاجیوں کی خدمت کرنے میں میری دلچسپی روز بروز بڑھتی چلی گئی۔
۱۹۵۱ء میں بمبئی شدید فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں تھا، شہر میں سخت کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔ اس دوران حج کا موسم آگیا۔ انجمن خدام النبی ؐ کے حاجیوں میں کپڑوں وغیرہ کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا۔ ہم لوگ دن رات ان کی خدمت میں لگ گئے۔ ان دنوں حاجی احمد غریب سیٹھ، انجمن خدام النبی ؐ کے جنرل سکریٹری تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ثروت ودولت سے مالامال کیا تھا۔ انہوں نے اپنی عمر عزیز حاجیوں کی خدمت کرتے گذار دی۔ میرے کام سے وہ بہت خوش تھے۔ اسی دوران انجمن خدام النبی ؐ نے فیصلہ کیا کہ ہندوستانی حاجیوں میں راشن کی تقسیم کے لئے تین افراد کو مکہ مکرمہ بھیجا جائے۔ آپ نے مجھ سے دریافت کیا کہ مکہ کی سخت دھوپ اور گرمی میں راشن کے بورے اٹھانے پڑیں گے۔ بڑی تکلیفیں برداشت کرنی ہونگی۔ کیا تم اس کام پر جانے کے لئے تیار ہو؟ میں نے کہا "نورعلیٰ نور". انہوں نے پھر کہا کہ راشن کی تھیلیاں تم سے اٹھائی نہیں جائیں گی۔ میں نے جواب دیا: ایک مرتبہ مجھے حج بیت اللہ پر بھیج کر تو دیکھیں باقی مجھ پر چھوڑدیں۔ بالآخر میرے نام کا قرعۂ فال نکلا اور احمد غریب مرحوم نے مزید دو ساتھیوں کی رفاقت میں مجھے حج بیت اللہ پر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔
خداکی شان دیکھئے، یہ سب اتنی عجلت میں ہوا کہ سفرِ حج سے قبل وطن جاکر اہلِ وعیال سے ملنے کی بھی فرصت نہ ملی۔ مجبوراً والدہ سے ٹیلگرام کے ذریعہ اجازت طلب کرنی پڑی کہ زندگی میں ایک سنہرا موقع نصیب ہوا ہے۔ اس وقت مجھے احمد جانی کی بات باربار یاد آئی کہ منیری! محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرنا جلدی بلاوا آئے گا۔ اور سچ مچ بلاوا آگیا۔ یہ خبر سن کر احمد جانی میرے پاس آئے، پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے: میں نے نہیں کہا تھا تمھارا جلد بلاوا آئے گا۔ دیکھو، بلاوا آہی گیا، خدمت بھی کرو، عبادت بھی کرو۔
سفرِ حج پر جب روانہ ہوا تو عالم یہ تھا کہ مکہ مکرمہ میں اس شدت کی گرمی پڑی ہوئی تھی کہ برداشت سے باہر تھی۔ جدہ سے سیکڑوں راشن کی بوریاں آتیں، جن پر حاجیوں کے نمبر درج ہوتے، اس ڈھیر میں سے حاجیوں کی بوریاں نمبروں کے مطابق تلاش کرکے نکالی جاتیں۔ اس دوران حاجیوں کی صلواتیں سننے کو ملتیں کہ گھنٹہ گذر گیا، اتنی دیر ہوگئی، تم کام کرتے ہوکہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض نادان و بے سمجھ تو گالیوں کی بوچھار شروع کردیتے۔ مجھے وہ واقعہ اب بھی یاد ہے کہ ایک حیدرآبادی حاجی اپنی اناج کی بوری لینے کے لئے احرام کی حالت میں میرے پاس آئے تھے۔ ان کے نمبر کی بوری ادھر ادھر ہونے کی وجہ سے تلاش میں جو دیری ہوئی تو انہوں نے مجھے ایسی ایسی گالیاں دینی شروع کیں کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں ان کے قدموں پر گرگیا اور ان کا احرام پکڑکر التجا کی کہ حاجی صاحب آپ اتنا سارا خرچ کرکے تکلیفیں اٹھاکر بیت اللہ کے پاس آئے ہیں۔ آپ کی بوری تو دیر سویر مل ہی جائے گی لیکن گالیاں دے کر اپنا یہ حج ضائع نہ کیجئے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ: ’’فَلارَفَثَ وَلا فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فیِ الحَج‘‘ اگر دورانِ حج اس قسم کا بڑا عمل سرزد ہوا تو ساراحج برباد ہوجائے گا۔ مگر وہ کہاں سننے والے تھے۔ حالتِ احرام میں گالیوں کی بھرمار سے اپنے سارے حج کا ستیاناس کردیا اور اگلے روز آکر معافی تلافی کرنے لگے۔
پہلے حج کے دوران دل پر عجیب کیفیت طاری تھی۔ ایک طرف جسم جھلسادینے والی گرمی۔ اس پر اناج کے بورے پیٹھ پر لادکر ادھر ادھر لے جانے کی محنت۔ کوئی اور ہوتو اپنے ہوش وحواس کھودے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے سب راہیں آسان کردیں، تمام مصائب ومشکلات سے پار کردیا۔
اسی دوران ہم لوگوں نے فیصلہ کیاکہ حاجیوں میں مفت برف تقسیم کی جائے۔ احمد غریب اور ان کے خاندان والوں نے منیٰ و عرفات میں وسیع و عریض مکانات رہائش کے لئے کرایہ پر لے لئے تھے۔ مرحوم کو حج کے میدان میں بڑا تجربہ حاصل تھا۔ وہ بڑے ہی نیک جذبات کے مالک انسان تھے۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد انہوں نے برف حاصل کی اور ڈھیر سارا برف اپنی رہائش گاہ پرجمع کردیا۔ اور ہم لوگ اس کی تقسیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اکیلے احمد غریب نے سارا خرچ برداشت کیا۔
برف کی اس مفت تقسیم کرتے دوچار روز ہی گذرے تھے کہ ایک دن شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز جو ابھی سعودی عرب کے فرمانروا نہیں بنے تھے، اچانک ایک کارمیں آکر ہمارے ڈیرے پر رک گئے۔ انہوں نے ہمیں طلب کیا ۔ احمدغریب اور میں ان کے نزدیک گئے ۔ انہوں نے دریافت کیا کہ برف کی یہ تقسیم کس کی طرف سے ہورہی ہے؟ ہم نے بتایا کہ گرمی کی شدت سے حاجی مررہے ہیں، انہیں تھوڑا ساہی سہی آسرا ملے، اس غرض سے ہندوستانی حاجیوں کی خدمت کے لئے قائم تنظیم ’’انجمن خدام النبیؐ‘‘ نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ ہماری یہ بات سن کر شہزادہ فیصل بہت خوش ہوئے۔ ہمیں ڈھیر ساری مبارکباددی اور فوراً ہی مکہ جاکر اعلان کردیا کہ تمام برف کے کارخانہ دار اپنا اپنا تیار کردہ پورے کا پورا برف منٰی بھیج دیں اور مختلف مراکز قائم کرکے اسے حاجیوں میں تقسیم کریں۔
آج حاجیوں کو جو سہولیات مہیا ہیں اس زمانے میں نہ تھی۔ گرمی کی شدت ناقابل برداشت تھی۔ اس وقت کی پریشانیاں بیان سے باہر ہیں۔ باوجود اس کے ہم شب وروز منٰی و عرفات میں حاجیوں کی خدمت کرتے رہے۔ احمد غریب ان کے بھائی مولوی احمد عبداللہ اور ان کے بعض دوست واحباب خدمت کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ ہم سب نے آپس میں ایک دوسرے سے کہہ دیا تھا کہ خدا ہی ہمیں یہاں سے زندہ سلامت وطن واپس پہنچا سکتا ہے، ورنہ حالات ایسے نہیں کہ یہاں سے زندہ بچ سکیں۔ ہماری زبانوں پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری رکھ کر حاجیوں کی ضروریات معلوم کرنے کے لئے کیمپوں کی طرف ہم نکل پڑتے۔
وہ واقعہ تو اب بھی میرے ذہن میں تازہ ہے جب ہم قربانی دے کر اپنی رہائش گاہ کی جانب لوٹ رہے تھے، ابھی پاؤ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا باقی تھا۔ مجھ پر چلتے چلتے غشی طاری ہونے لگی۔ ٹیکسی وغیرہ کوئی سواری نہیں مل رہی تھی، آج کے دور میں نہیں، اس سستے دور میں بڑی مشکل سے ایک ٹیکسی ملی۔ ڈرائیور نے پاؤ کلومیٹر کے چالیس ریال طلب کئے۔ ایک قدم بڑھانے کی طاقت ہم میں نہ تھی۔ احمد غریب نے ہدایت کی کہ جتنے کی بھی گنجائش ہو لوگ سوار ہوجائیں۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ابھی رہائش گاہ میں قدم رکھتے ہی سب بے ہوش ہوکر پڑگئے۔ یہ خداکا فضل ہی تھا کہ سبھی زندہ بچ گئے۔
جب ہم منٰی میں تھے، نمازِ فجر کے بعد حیدرآباد کے معلم بدرالدین نے میرا ہاتھ پکڑکر کہا۔ منیری صاحب! اس وقت اللہ تعالیٰ کا کچھ جلال معلوم ہوتا ہے، شام تک ہمارا کیا حال ہوگا کچھ معلوم نہیں۔ وقت جوں جوں گذرتا گیا گرمی کی شدت اور پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ جان کر تمہیں حیرت ہوکہ جوان جوڑے چلتے چلتے بیٹھ گئے، پھر انہیں اٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ لیٹتے ہی سانس نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اسپتال میں ہزاروں لوگ پانی کے ٹبوں میں پڑے ہوئے تھے، کسی کے کان میں پانی ڈالا جارہا تھا کسی کے منھ سے جھاگ اٹھ رہی ہے اور بہت سے اپنے رب کو جواب دے چکے ہیں۔
اس سال بھٹکل سے چار افراد شیکرے صائبو، کے یم باشا، ان کی والدہ اور حافظ کا کے والد فریضہ حج انجام دے رہے تھے۔ ان کا کیمپ ہمارے میمن حضرات کے کیمپ سے قریب تھا۔ ہمارے معلم سید سراج ولی تھے۔ اتفاقاً ایک روز دوپہر کے وقت ان کی رہائش گاہ پر جانا ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حافظکا کے والد پر لُو لگنے کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں، کے یم باشا حسرت سے کہنے لگے، منیری! برف کا کہیں سے انتظام ہوجاتا تو کتنا اچھا تھا۔ کہیں سے بھی برف کا کوئی ٹکڑا نہیں مل رہا ہے۔
ہمارے میمن ساتھی بڑے ہوشیار تھے۔ یہاں پر ان کی دکانیں بھی تھیں، انہیں حج کا بڑا تجربہ تھا۔ انہوں نے برف کی دوسلیں عرفات میں حفاطت سے لاکر رکھیں تھیں۔ جعفر سیٹھ کے بھائی محمد سیٹھ سے میں نے گذارش کی کہ ہمارا ایک شخص بے ہوش پڑا ہوا ہے۔ مہربانی فرماکر برف کا کوئی ٹکڑا دے دیں۔ ۔ ۔ ارے منیری! ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کے لئے یہ ہم لائے ہیں۔ تم بولتے ہوتو ایک چھوٹاسا ٹکڑا لے جاؤ۔ ۔ ۔ ان کے اس جواب سے میری جان میں جان آئی۔ برف کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لے کر کیمپ گیا اور حافظکا کے والد کے سرہانے بیٹھ کر اسے سینکتا رہا۔ برف کا چھوٹا سا ٹکڑا پانی میں گھول کر انہیں پلاتا رہا۔ اس وقت برف کے اس ننھے سے ٹکڑے کی جو قدرو قیمت تھی موجودہ دورمیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اب تو برف کی بہتات ہے قدم قدم پر ملتی ہے۔ اس زمانے میں عرفات میں کہیں برف کانام و نشان نہیں تھا۔ لوگ گرمی سے تڑپتے تھے، ٹھنڈے پانی کے ایک گلاس کے دام دینا ان کے بس سے باہر ہوتا تھا۔ ایسے عالم میں ان حضرات نے ہماری مدد کی۔ ایک دو گھنٹے برف سینکنے کے بعد حافظکا کے والد کو ذرا ہوش آیا۔ انہوں نے اپنا حج پوراکیا اور مزید پندرہ بیس سال زندگی گزارکر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔
اس سفرِ حج سے قبل ہمیں لُو لگنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، نہ ہی احتیاطی تدابیر کا ہمیں علم تھا۔ البتہ منٰی و عرفات کے بدؤوں کی زبانی سنتے تھے کہ لُو لگنے پر پیاز ہاتھ میں رکھنی چاہئے، اس کا رس لُو زدہ شخص کے کانوں میں گھولنا اور سر پرمَلنا چاہئے۔ احمد غریب نے احتیاط کے تحت دو تین پیاز کے بورے بحفاظت رکھ لئے تھے۔ اب تو بازاروں میں بہت ساری دوائیاں دستیاب ہورہی ہیں، اس زمانے میں یہ سب کچھ نہیں تھا۔
میرا پہلا حج شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے دور حکومت میں ہوا تھا۔ مکہ معظمہ میں حرم شریف کی عمارتیں ابھی ترکی دور ہی کی پرانی چلی آرہی تھیں، خوشحالی کا دور ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ سعودی حکومت کو پیسوں کی بہت ضرورت تھی، تمام ملکوں میں اس کے نمائندے اور دلال پائے جاتے تھے، جو حاجیوں کو لاتے۔ ہر حاجی پر ۳۷۴ روپے کا ٹیکس لگتا، جوا نہی ملکوں میں ادا کیا جاتا۔ ٹکٹ کے ہزار ڈیڑھ ہزار روپے الگ سے لگتے۔ معمولی ٹکٹ آٹھ سو روپے میں آتا تھا۔ غریب لوگ حج کے شوق میں بھیک مانگ مانگ کر سفر پر نکلتے۔ کچھ عرصہ بعد حکومت ہند نے ہر حاجی کو اپنے ساتھ دوہزار روپے نقد اور ڈرافٹ کی شکل میں دو ہزار روپے لے جانے کی چھوٹ دے دی۔ اور سفرِ حج پر سہولتوں کے مختلف دور آئے۔
اس سفر میں ہمیں بڑی مصیبتوں اور مشقتوں سے گذرنا پڑا۔ زندہ واپسی کی امید نہ تھی۔ لیکن خدانے اپنی امان میں رکھا اور آج انتالیس سال بعد بھی آپ کے سامنے صحیح سالم موجود ہوں۔ اس سفر کی کچھ تصویریں انجمن خدام النبی ؐ کے بمبئی آفس میں موجود ہونگی، جن سے حاجیوں کی اس وقت کی حالتِ زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح خدا خدا کرکے میرا پہلا سفرِ حج تمام ہوا۔ اور انجمن خدام البنی ؐ میں حاجیوں کی خدمت کرنے میں میری دلچسپی روز بروز بڑھتی چلی گئی۔
No comments:
Post a Comment