Thursday, 2 August 2018

بھلاسکیں گے نہ اہل زمانہ صدیوں تک

بھلاسکیں گے نہ اہل زمانہ صدیوں تک
(حضرت مولانا محمد عبد اللہ کاپودروی کی رحلت پہ تعزیتی تحریر)

میری بدقسمتی کہئے یا زمانے کی مجبوری یا ستم ظریفی! 
کہ میں حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی رحمہ اللہ کی شخصی زیارت سے محروم رہا
قریبا ایک دہائی سے بیرونی دنیا میں قیام کی وجہ سے ہندوستان کی بیشتر شخصیات کی زیارت اور ان سے استفادے سے محروم رہا ہوں جو قابل افسوس ہونے کے ساتھ  میری زندگی کا افسوسناک باب ہے
تاہم جن لوگوں نے حضرت مولانا کاپودروی کو قریب سے پڑھا دیکھا اور بھالا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ
حضرت مولانا گونا گوں خوبیوں اور کمالات کے حامل تھے
علوم شرعیہ عالیہ میں درک وآگاہی کے ساتھ زبان وادب کی موتیوں اور تربیت اصلاح کے جذبوں سے مالا مال تھے
زمانے کے نابغہ روزگار محدثین، مفسرین، ادباء، انشاء پرداز،  مصلحین  صلحاء واتقیاء سے آپ نے کسب فیض کیا
آپ ممتاز عالم دین، محرم اسرار دین اور بے مثال خطیب تھے
افراد سازی، تعلیم وتربیت، خرد نوازی، اعلی ظرفی، ہمدردی وغمگساری، خندہ پیشانی میں طاق، بلکہ لاثانی تھے
آپ کی شخصیت "نفع محض" کا نمونہ تھی، آپ خیر خواہی ونفع رسانی کی عملی تصویر تھے۔
یوں محسوس ہوتا تھا آپ کی زندگی  کا خلاصہ ومقصد ہی دوسروں کو نفع پہنچانا ہے. اور دوسروں کے درد میں کڑھنا اور بے چین ہوجانا ہے
آپ صرف انسانیت کے مقدس رشتے کو جانتے تھے، علاقائی لسانی، وطنی اور ادارتی نسبتوں سے آپ کو طبعی نفور تھا، اسی نایاب یا کم از کم کمیاب  پاک جذبے نے تمام ہی اہل علم میں آپ کی محبت کو جاگزیں کردیا اور شاید اسی کے طفیل اللہ نے آپ کے لئے عمومی محبوبیت وعقیدت بھی مقدر فرمادیا تھا
آپ محض نسانیت کے رشتہ کی بنیاد پہ انسانوں کی خدمت کو عبادت کی نیت سے سر انجام دیتے تھے، کسی سے داد وصلہ کی خواہش سے یکسر بے پروا تھے ۔
یوں تو زبانی طور پہ دعوت وارشاد کے کام کی  بحمد اللہ کمی تو نہیں ہے
کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں علماء ودعاة، دعوتی اسلامی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔
پر حضرت مولانا کاپودروی رحمہ اللہ زبانی وقولی دعوت سے کہیں زیادہ  عملی دعوت کے قائل تھے اور وہ اس باب میں بہت ہی  فعال وسرگرم رہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو وہ مذہب اسلام کی تعلیمات وہدایات کے ترجمان تھے
مذہب اسلام کی خاصیت بھی یہی ہے کہ اس نے خدمت انسانیت کو عبادت کا درجہ دے کر سب سے بہتر اس شخص کو قرار دیا ہے جو ذاتی منفعت کے لئے نہیں، بلکہ اجتماعی مفاد کے لئے جیتا ہو۔
فقال: خيرُ الناسِ من ينفعُ الناسَ فكن نافعًا لهم. (عن خالد بن الوليد مجموع فتاوى ابن باز- الرقم: 26/330)
محبوبیت خداوندی کے حصول کا سب سے "شارٹ کٹ" اور مختصر راستہ "خدمت خلق" ہے۔۔۔۔۔
اسلام میں اس کی اتنی ترغیب دی گئی ہے کہ جو شخص دنیا میں کسی کے دکھ درد دور کرے ۔اللہ اس کے بدلہ قیامت میں اس کی مشکلات دور فرمائیں گے۔
(مَن نفَّس عن مُؤمِنٍ كُربةً مِن كُرَبِه نفَّس اللهُ عنه كُرَبَه يومَ القيامةِ ومَن ستَر على مُؤمِنٍ عورةً ستَر اللهُ عَوْرتَه ومَن فرَّج عن مُؤمِنٍ كُرَبَه فرَّج اللهُ عنه كُرْبَتَه
عن كعب بن عجرة. الطبراني في المعجم الأوسط - الصفحة: 6/12). 

ہاتھ میں تسبیح، بدن پہ گڈری ودرویشانہ لباس کا نام تصوف نہیں۔۔۔بلکہ اصل تصوف تو خدمت خلق ہے!
زتسبیح وسجادہ ودلق نیست
طریقت بجز خدمت خلق نیست

اسی لئے اسلام نے "بیت المال" کا تصور دیا ہے تاکہ حالات گزیدہ لوگوں کی راحت رسانی کا کام بآسانی انجام پاتا رہے۔ اور کوئی کسی شخص واحد کا دست نگر بن کے نہ رہ جائے۔
خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس "رفاہی سسٹم" میں جو توسیع فرمائی تھی اسے آج چودہ سو سال بعد اسلام کی سخت مخالف حکومتیں بھی  نہ صرف رول ماڈل کے بطور  دیکھ رہی ہیں بلکہ اسے  غربت و افلاس کی موجودہ ناہمواریوں میں نجات دہندہ تصور کررہی ہیں ۔۔۔۔
جہانگیر بادشاہ جیسا بھی تھا!
لیکن شاہی محل کے سامنے مجبوروں ولاچاروں کی داد رسی کے لئے گھنٹی آویزاں کرنے کی وجہ سے تاریخ کے صفحات میں "عدل جہانگیری" ایک استعارہ کے طور پہ محفوظ ہوگیا۔۔۔۔
انہی فضائل وترغیبات کی وجہ سے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی ذوات قدسیہ مشکل ترین لمحات میں بھی اس عالی تصور کا خیال ملحوظ رکھا۔ خود بھوکے رہتے لیکن اوروں کا پیٹ بھرنا ان کی ترجیح ہوتی۔
حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی رحمہ اللہ بیشک گوناگوں کمالات وامتیازات کے مالک تھے
تاہم ہمدردی وغمگساری خیر خواہی وخدمت انسانیت کے اعتبار سے وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے
ذات،  مذہب، برادری، علاقائی، وطنی اور لسانی تنگنائیوں سے اوپر اٹھ کے محض انسانی بنیادوں پہ لاچاروں اور پریشان حال لوگوں کی راحت رسانی کی مہم میں جٹ کر خوش دلی وخندہ پیشانی کے ساتھے بے لوث خدمات انجام دی ہیں ۔ 
تدریس، تصنیف، وعظ ونصیحت، دعوتی اسفار، اکابر علماء کی صحبت وہم نشینی، زبان وادب، ان گنت تعلیمی ودعوتی اداروں کی سرپرستی، افراد سازی، خرد نوازی، حوصلہ افزائی وغیرہ وغیرہ بیشک ایسی جہات تابندہ  ہیں جن پہ مستقل کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ اور حضرت کے تلامذہ، محبین، معتقدین ومستفیدین دیر سویر ان گوشوں کو اجاگر بھی کرتے رہیں گے
تاہم ذاتی طور پہ مجھے ان کی زندگی کا یہ گوشہ سب سے تابناک بلکہ لائق اتباع وقابل تقلید نظر آتا ہے کہ آپ نے خدمت انسانیت کے دائرے میں "ذات، مذہب، برادری، علاقائی، وطنی، لسانی تنگنائیوں" کو کبھی راہ ورسید نہ دی!
ان غیر اسلامی عصبیتوں اور تنگ نائیوں سے اوپر اٹھ کر محض انسانی بنیادوں پہ لاچاروں اور پریشان حال لوگوں کی راحت رسانی وداد رسی کے بیش بہا خدمات انجام دی ہیں،
جو آپ کی زندگی کا عظیم ترین کارنامہ ہے
یعنی وہ اس کے قائل تھے کہ:
غبار آلودہ رنگ ونسل ہیں بال وپر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہوجا
علاوہ ازیں آپ نہایت ہی باخبر، چوکنا، ہوشیار، مزاج شناس، مدبر ،معاملہ فہم، باحوصلہ وباکردار، ہمدرد وغمگسار رہبر  وقائد ومنتظم تھے
نہ گفتار میں ان کی کوئی خطا ہے
نہ کردار ان کا کوئی ناسزا ہے
بڑی خوبیوں کے مالک تھے
ایسے شمع محفل اور چراغ کا درمیاں سے اٹھ جانا یقینا بہت بڑا خسارہ ہے
خداوند قدوس اپنی قدرت کاملہ سے اس خلا کی بھرپائی فرمائے
اور قوم وملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
بس نام رہے خدا .......
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائیوی
2 اگست 2018
بروز جمعرات

No comments:

Post a Comment