گائے کیوں کھائی؛ کیرالہ میں سیلاب کی وجہ
Floods due to slaughtering of cows
ہندستان کی ریاست کیرالہ جب پچھلے دنوں زبردست سیلاب کی زد میں آئی اور لاکھوں لوگ جب انتہائی مشکل حالات میں گھرگئے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بعض ہندو رہنماوں نے کہا کہ پچھلے سال کیرالہ کے لوگ ریاست میں گائے کے گوشت کا فیسٹیول منا رہے تھے۔ بھگوان کی طرف سے یہ اسی کا عتاب ہے۔ ریاست کے سب سے اہم مندر سبری مالا کے ایک پجاری نے کہا کہ مندر کی اصل عبادت گاہ میں خواتین کے داخلے کی اجازت دینے کے سبب یہ تباہی ہوئی ہے۔زمین سے 400 کلومیٹر کی بلندی پر خلا میں معلق بین الاقوامی خلائی اسٹیشن قریب آٹھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دنیا کے گرد پرواز کررہا ہے۔
گذشتہ بدھ کو اس سٹیشن پر موجود امریکی خلا نورد رکی آرنلڈ نے امریکی ریاست ہوائی کے نزدیک سمندر میں بننے والے ایک زبردست طوفان کی تصویر کھینچی اور وہیں سے اسے سوشل میڈیا پر پو سٹ کر دیا۔ سمندر میں بننے والے اس طوفان کی تصویر پوری دنیا میں دیکھی گئی۔ امریکہ نے ہوائی میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا ہے۔ متاثرہ علاقوں سے ہزاروں افراد کو پہلے ہی نکال لیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے طوفان سے نمٹنے کی پہلے ہی تیاری کر رکھی تھی۔امریکہ اور یوروپ میں مصنوعی سیاروں کے سبب موسمیات کی پیش گوئی کا نظام اتنا سائنسی اور مستند ہے کہ بدلتے ہوئے موسم کی پل پل کی پیشگی کی خبر کئی ہفتوں تک کی دی جا سکتی ہے۔وہاں آنے والے سمندری طوفانوں، ٹورنیڈوز، برفانی طوفانوں، خوفناک آندھیوں اور سیلابوں کی بالکل صحیح وارننگ وقت سے پہلے دے دی جاتی ہے۔ مقامی لو گ اور انتظامیہ وقت سے پہلے ہی ان قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے ساری احتیاطی تدابیر کر لیتے ہیں۔
ہندستان اور پاکستان جیسے ممالک میں بھی سائنسی آلات اور سپر کمپیوٹر کے تجزیوں کی مدد سے موسم کی پیش گوئی کی جانے لگی ہے لیکن ابھی وہ اس میعار تک نہیں پہنچ سکے جس سے موسم کی بالکل صحیح اور مستند پیش گوئی کی جا سکے۔ موسم کی پیش گوئیاں عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں اور اکثر آنے والی قدرتی آفات کی نوعیت اور شدت کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔
قدرتی آفات بالخصوص سمندی طوفان اور سیلاب اتنے تباہ کن اور خطرناک ہوتے ہیں اور انسان ان کے سامنے بالکل بے بس ہوتا ہے۔ماضی میں جب علم اور سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو ان قدرتی آفات کو ’خدائی قہر‘ اور ’گناہوں کا عتاب‘ قرار دیا جاتا تھا۔ دنیا کی مذہبی کتابوں اور روایات میں اس طرح کی داستانیں بھری ہوئی ہیں۔قدرتی آفت ایک جغرافیائی اور ارضیاتی عمل ہے اور بیشتر معاملات میں ماہرین ان کے بارے میں پیشگی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک ان آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت اچھی طرح تیار ہیں۔ ان کے پاس نہ صرف وسائل ہیں بلکہ انھوں نے ان کا مقابلہ کرنے کے طریقے بھی وضع کر رکھے ہیں۔
اس کے برعکس ہندستان جیسے ممالک میں نسبتاً چھوٹی آفت بھی بڑی جانی اور مالی تباہی مچاتی ہے۔ قدرتی آفات میں ہر برس سینکڑوں جانیں جاتی ہیں اور لاکھوں زندگیاں تباہ ہوتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب ملک کا سیاسی نظام ہے۔اس نظام میں سیاسی قیادت صرف انھی پہلووں پر توجہ مرکوز کرتی ہے جن سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو اور جن سے اسے آئندہ انتخابات میں ووٹ مل سکے۔سائنسی ترقی، موسم کی بہتر پیش گوئی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری جیسے اہم معاملات میں اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ ان پر نہ صرف خاصے اخراجات ہوں گے بلکہ اس سے انھیں کوئی انتخابی فائدہ بھی نہیں ہونے والا ہے۔جب تک ان قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک سانٹیفک اور جامع پروگرام اور منصوبہ نہیں تیار کیا جاتا عوام ان قدرتی آفات کے سامنے اسی طرح بے بس اور مجبور رہیں گے اور ماضی کی جہالت کی طرح مستقبل میں بھی ان آفات کو انسان پر ’آسمانی عتاب‘ اور ’انسانی گناہوں کی سزا‘ سے تعبیر کیا جاتا رہے گا۔
سیلاب سے صرف ایک ہفتہ قبل ایک حکومتی رپورٹ میں تنبیہ کی گئی تھی کہ کیرالہ کی ریاست اپنے آبی وسائل کی مینجمنٹ کے لحاظ سے جنوبی انڈیا کی بدترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔اس حکومتی تحقیق کے مطابق غیر ہیمالیائی ریاستوں میں کیرالہ کا درجہ 12واں تھا اور اس کا مجموعی سکور 42 تھا۔ اس معیار سے بہترین ریاستیں گجرات، مدھیا پردیش اور آندھرا پردیش تھیں جن کا سکور بالترتیب 79، 69، اور 68 تھا۔ کیرالہ سے بری کارکردگی والی صرف چار غیر ہمالیائی ریاستیں، چار شمال مشرقی ریاستیں اور ہمالیائی ریاستیں تھیں۔
حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کیرالہ میں سیلاب اس قدر شدید نہ ہوتا اگر حکام نے وقت کے ساتھ ساتھ تھوڑا تھوڑا کر کے کم از کم 30 ڈیموں سے پانی کے اخراج کا انتظام کیا ہوتا۔ جب گذشتہ ہفتے سیلاب اپنے عروج پر تھا تو تقریباً 80 ڈیموں سے پانی اکھٹے خارج کیا جا رہا تھا۔ ریاست میں 41 دریا بہتے ہیں۔
جنوبی ایشیا نیٹ ورک آن ڈیمز ریورز اینڈ پیپل سے تعلق رکھنے والے آبی مسائل کے ماہر ہمانشو ٹھاکر کا کہنا ہے کہ: ’’یہ واضح ہے کہ کیرالہ کے بڑے ا سٹوریج ڈیموں سے پانی کا ایک ایسے وقت اخراج جب ریاست میں سیلاب ہے، مسائل میں اضافہ کر رہا تھا۔اس سب سے بچا جا سکتا تھا اگر ڈیم آپریٹر پانی پہلے ہی خارج کر دیتے بجائے اس وقت کے انتظار کرنے کے جب ڈیم بھر گئے اور ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔یہ بھی واضح ہے کہ اس کے لئے کافی وقت اور قدرے خشک عرصے بھی تھا جب یہ پانی خارج کیا جا سکتا تھا۔“
وفاقی وزارتِ داخلہ نے بھی امسال ایک جائزہ لیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کیریلا سیلاب سے متاثر ہونے کے سب سے زیادہ خطرے میں دس ریاستوں میں سے ایک ہے۔اس سب کے باوجود بظاہرکیرالہ کی ریاست نے اس آفت سے بچنے کے لئے کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا۔ ادھر جہاں ریاستی حکام پر تنقید کی جا رہی ہے وفاقی حکومت نے بھی کوئی زیادہ بہتر کام نہیں کیا۔خودماہرین کا کہنا ہے کہ مرکزی آبی کمیشن سے کیرالہ کو کوئی تنبیہ جاری نہیں کی جاتی۔ یہ واحد حکومت کمیشن ہے جس کی یہ ذمہ داری ہے۔ ہمانشو ٹھاکر کا کہنا ہے کہ اس حد تک کا سیلاب اور ڈیموں سے پانی کا اخراج سیلاب کی پیشگی اطلاع کے نظام اور مرکزی آبی کمیشن کے ایڈوانس ایکشن کے میں بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ: ’’ہمیں یہ جان کر انتہائی شدید حیرانگی ہوئی کہ مرکزی آبی کمیشن (سی ڈبلیو سی) کے پاس کوئی سیلاب کی تنبیہ کی سائٹ نہیں ہیں، نہ ہی پانی کے مطح اور نہ ہی پانی کی آمد کے حوالے سے۔ کیرالہ میں اس کے پاس صرف سیلاب کی مانیٹرنگ سائٹس ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ چند اہم ڈیموں اور اہم مقامات پر سیلاب کی پیشگی اطلاع کے حوالے سے سائٹس بنائی جائیں۔“ ایک طرف تو ریاست ایسے اقدام کرنے میں پیچھے ہے اور دوسری طرف اس موسون میں بارش بھی انتہائی زیادہ ہوئی ہے۔ریاست میں گذشتہ ڈھائی ماہ میں 37 فیصد اضافی بارش ہوئی جبکہ ماضی میں یہ مقدار پورے سیزن کی ہوا کرتی تھی۔ اتنے کم عرصے میں اس قدر بارش کی وجہ سے لینڈ سلائڈنگ بھی ہوئی جس کی وجہ سے بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ جنگلوں کی کٹائی ہے۔ انڈیا کے دیگر علاقوں میں بھی یہ مسئلہ دیکھا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ علاقوں تک رسائی بالکل منقطع ہوگئی ہے کیونکہ جھیلوں جیسی سیلاب سے بچاو کے قدرتی وسائل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی ہے۔ 2015 میں بھی چنائی میں ایسی ہی وجوہات سے مسائل بڑھ گئے تھے۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کیرالہ کے سیلاب سے اس آفت کا ایک اور عنصر سامنے آیا ہے، اور وہ ڈیموں سے خطرہ۔ اگر انھیں درست انداز میں مینیج نہیں کیا جاتا تو جیسا کہ موسماتی تبدیلی کے ماہرین کہہ رہے ہیں، ان آفتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
Floods due to slaughtering of cows?
Known for making controversial remarks, Vijayapura’s BJP MLA Basanagouda Patil Yatnal has kicked up a fresh row by saying the devastating floods in Kerala occurred because of slaughtering of cows in the open.
“In Kerala, people openly slaughter cows. What happened? Within a year, a situation like this (flood) arose. Whoever hurts the Hindu religious beliefs will face such consequences,” he told reporters on the sidelines of a function at Vijayapura on Saturday.
The BJP MLA was apparently referring to an incident in Kerala last year, where a group of men slaughtered a cow in the open, triggering a controversy. Yatnal said Hindus had sentiments attached to cows and that nobody should hurt others’ religious beliefs.
He added that if the BJP came to power in Karnataka, cow slaughter will be stopped. Known for making controversial statements, the BJP MLA had last month said if he was the home minister, he would have the intellectuals shot dead as they worked for the human rights of terrorists and not the soldiers who laid down their lives to protect the country.
No comments:
Post a Comment